شعبۂ دعوت وتدریس کا ایک تجربہ کار اور سنجیدہ ساتھی (شیخ نیاز احمد طیب پوری کی چند یادیں)

رفیق احمد رئیس سلفی تذکرہ

جامعہ سلفیہ بنارس میں گزرے ہوئے طالب علمی کے ایام ہمیشہ یاد رہیں گے۔ عمر ہی کچھ ایسی تھی کہ نہ معاش کا کوئی مسئلہ تھا اور نہ خانگی الجھنیں، کلاس میں حاضری دینا، درسی اور غیر درسی مطالعات میں خود کو مصروف رکھنے کے علاوہ بعض ساتھیوں کا تیسرا کام عصر کے بعد شہر میں گھومنا پھرنا اور تفریح کرنا تھا لیکن میں سیر وتفریح کے لیے کبھی خود کو آمادہ نہ کرسکا، عصر کی نماز کے بعد مغرب تک میری مصروفیت والی بال کھیلنے کی تھی۔ اس کھیل سے میرا تعلق مدرسہ دارالتوحید، میناں عیدگاہ(سدھارتھ نگر) میں قائم ہوا تھا جہاں بعض اساتذہ بھی اس کھیل میں شریک ہوتے تھے۔ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں دو سالوں تک میں اس کھیل سے وابستہ رہا، یہاں بھی استاذ محترم مولانا عبدالحنان فیضی رحمہ اللہ، مولانا عبدالعلیم ماہر سمراوی رحمہ اللہ اور مولانا عبدلحفیظ ندوی حفظہ اللہ ہم طلبہ کے ساتھ والی بال کھیلا کرتے تھے، یہاں سے بلاک کی سطح پر ہونے والے بعض مقابلوں میں بھی ہم نے شرکت کی۔ جب جامعہ سلفیہ بنارس میں پہنچے تو اس کے وسیع لان میں والی بال کا میدان پہلے سے موجود تھا اور اس کھیل سے بہت سے طلبہ دل چسپی لیتے تھے۔ کئی ٹیموں کے درمیان مقابلے بھی ہوا کرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ برادر محترم مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ والی بال مقابلوں کی کمنٹری عربی میں کرتے تھے۔ جامعہ سلفیہ میں گزارے ہوئے یہ ماہ وسال زندگی کا بیش قیمت سرمایہ ہیں، اپنے اس سرمایے کو نہ فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی قدروقیمت کبھی کم کی جاسکتی ہے۔

برادرم نیاز احمد طیب پوری رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات والی بال کے اسی کھیل کے میدان میں ہوئی، وہ اس کھیل کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اور اللہ نے انھیں طویل القامت بھی بنایا تھا، اس لیے والی مارنے میں ان کو خاص امتیاز حاصل تھا، مخالف ٹیم کو عام طور سے شکست دینے میں انھی کی کارکردگی کو زیادہ دخل ہوتا تھا۔ میں بھی میدان میں والی مارنے ہی کا کام کرتا تھا لیکن ایک بار گھٹنوں میں چوٹ لگ گئی جس کی وجہ سے مجھے اپنی جگہ بدلنی پڑی، اب میں والی مارنے والے کے لیے بال کھڑی کرنے کا کام کرنے لگا تھا، یہاں سے برادر نیاز احمد سے میرا تعلق استوار ہوا، وہ میرے ہم جماعت نہیں تھے بلکہ درجات کے اعتبار سے مجھ سے جونیئر تھے لیکن شاید عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔

وہ اپنی کلاس کے نمایاں اور ممتاز طلبہ میں سے تھے، محنت اور ذہانت دونوںہم رکاب رہیں اور وہ فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور میں جامعہ سلفیہ کے بعد علی گڑھ آگیا۔ کئی سالوں کے بعد ہماری ملاقات ڈومریاگنج کے جامعہ خیرالعلوم میں ہوئی جہاں وہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے اور شاید جامعہ کے ترجمان کی ادارت بھی ان کے ذمہ تھی۔ تصنیف وتالیف اور مضمون نویسی سے میرا بھی تعلق رہا اور تدریس کے ساتھ ساتھ وہ اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔ یہی ہم دونوں کے درمیان تعلق تھا اور پرانی یادوں کو تازہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ بھی ۔

علی گڑھ میں میری ذمہ داریاں کچھ اس نوعیت کی ہمیشہ رہیں کہ بہ مشکل ایک دو روز کے لیے کہیں باہر نکل پاتا ہوں، اسی لیے اپنے اس عزیز دوست اور ساتھی سے بالمشافہہ ملاقاتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جماعت اور جمعیۃ کے دینی پروگراموں اور جامعات میں ہونے والے سیمیناروں میں بھی ملاقات ہوتی رہی لیکن مصروفیت اور بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے دعا وسلام سے زیادہ کوئی بات نہ ہوسکی۔

شیخ نیاز احمد طیب پوری سے تفصیلی ملاقات جامعہ محمدیہ منصورہ (مالیگاؤں) میں ہوئی اور دو مرتبہ ہوئی جب اس کی زیارت کے لیے ایک سفر میں نے اپنے ہر دل عزیز دوست اور جماعت اہل حدیث کے ممتاز صحافی ابوالمیزان کے ساتھ کیا اور دوسرا سفر جامعہ کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے ہوا۔ جامعہ نے ان کی فیملی کی رہائش کے لیے جو فلیٹ دے رکھا تھا، وہاں پُر تکلف چائے اور ناشتے کی میز پر ان سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت ان کی کارکردگی، دل چسپی کے موضوعات، تصنیف وتالیف کی صورت حال، دعوت و تبلیغ میں ان کی دلچسپی اور جامعہ کے طلبہ وطالبات کی تربیت میں ان کے انہماک کی تفصیلات سے انھی کی زبانی سنیں۔ اندازہ یہ ہوا کہ وہ تدریس کے میدان میں کافی تجربہ کار ہوچکے ہیں۔ وہ جامعہ کے شعبۂ نسواں میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان سے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جماعت کے دیگر نسواں مدارس کے مقابلے میں جامعہ محمدیہ منصورہ کی طالبات علم اور صلاحیت کے اعتبار سے بہت ممتاز ہیں۔ عربی اور اردو زبان کے علاوہ انھیں ضرورت بھر انگریزی بھی آجاتی ہے اور وہ درس نظامی سے متعلق نصاب کو پڑھانے کی اہلیت اور صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کرلیتی ہیں۔

اسی ملاقات میں انھوں نے صحیح بخاری کے ہندی ترجمہ اور مختصر تشریح کا بھی تذکرہ کیا، ان کو اس کام سے حد درجہ دلچسپی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ جلد ازجلد اس کام کی تکمیل ہوجائے اور مکمل صحیح بخاری ہندی ترجمے کے ساتھ شائع ہوجائے۔ ملک کی سرکاری زبان ہندی ہے اور اکثریت ہندی بولتی اور سمجھتی ہے، ان کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ برادران وطن تک اسلام کی صاف ستھری تعلیمات ان کی اپنی زبان میں ان تک نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ داعیان اسلام اور دینی جماعتوں کو اس کی طرف بطور خاص توجہ دینی چاہیے۔

وہ اساتذہ کی ٹریننگ اور تربیت کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے اور جہاں بھی موقع ملتا تھا، اس کی ضرورت کا احساس ذمہ داروں کو دلاتے تھے۔ آج ہمارے اداروں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے۔ بعض اساتذہ پورے اخلاص کے ساتھ سخت محنت سے تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن نتیجہ خاطرخواہ سامنے نہیں آتا، اس کی وجہ ٹریننگ کی کمی ہے۔

شیخ نیاز احمد مدنی رحمہ اللہ ایک طویل عرصے تک جامعہ محمدیہ منصورہ کے شعبۂ نسواں سے وابستہ رہے، اس سلسلے میں بھی ان کو کافی تجربات تھے اور بچیوں کی تعلیم وتربیت میں وہ عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے تھے۔ خواتین کی تربیت، ان کے مسائل اور ان کی مشکلات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھے، اس سلسلے میں دعوتی انداز میں انھوں نے بہت کچھ لکھا بھی ہے۔

مالیگاؤں کے دوسرے سفر میں انھوں نے تذکرہ کیا کہ میں نے عصر حاضر کے ایک نئے موضوع پر کتاب لکھی ہے جسے انگریزی میں پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں بعض چیزوں کا اضافہ کرنا ہے، مکمل ہوجانے پر تمھیں بھیجوں گا، اسے ناقدانہ نظر سے دیکھنا اور جہاں جہاں کمی محسوس کرنا اسے مکمل کردینا۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کا حسن ظن ہے کہ میں اس موضوع پر آپ کی تحریر دیکھ سکوں گا تو میں اس حسن ظن کو باقی رکھتے ہوئے اپنے طور پر اسے ضرور دیکھوں گا، اسی بہانے اس موضوع سے راست میری معلومات میں اضافہ بھی ہوجائے گا اور آپ کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ بعد میں عزیز گرامی ڈاکٹر عبدالمنان سلفی کے ہاتھ انھوں نے اپنا مسودہ بھیجا، کاموں کے ہجوم میں کئی مہینے بعد میں نے مسودہ دیکھا۔ خیال ہوا کہ کسی آپریٹر سے کمپوز کراؤں گا تو اصلاح، تصحیح اور حذف واضافہ میں کافی وقت لگے گا، کیوں نہ میں خود ہی کمپوز کرکے ساتھ ہی ساتھ جو کچھ حذف واضافہ کرنا ہے، اسے کرتا جاؤں۔ ادھر کئی سالوں سے لکھنے کے لیے میں نے کاغذ قلم کا استعمال بند کردیا ہے، اب جب بھی کچھ لکھنا ہوتا ہے، براہ راست کمپیوٹر پر ہی لکھتا ہوں۔ الحمد للہ دو تین دنوں میں پوری کتاب تیار ہوگئی۔ بعض نصوص کے حوالے چھوٹے ہوئے تھے، ان کو مکمل کرکے اور بعض الفاظ اور جملوں کو چست کرکے میں نے اسے واپس کیا تو بہت خوش ہوئے اور اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کی خواہش پر میں نے کتاب پر مقدمہ بھی لکھا، وہ اب کتاب ’’ہم بڑے کیسے بنیں‘‘ کا حصہ ہے۔

یہ شیخ نیاز احمد مدنی کی سادگی، تواضع اور خاکساری تھی، ورنہ وہ کتاب پر خود نظر ثانی کرکے اسے قابل اشاعت بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ خاکسار کے سلسلے میں ان کا یہ حسن ظن تھا کہ یہ چوں کہ علی گڑھ میں رہتا ہے، اس نئے موضوع کی اہمیت اور نزاکت کو اچھی طرح سمجھتا ہوگا، اس کو اگر ایک نظر یہ دیکھ لے گا تو میرا مقصد پورا ہوجائے گا، کتاب شائع شدہ ہے، بالغ نظر قارئین اس تعلق سے اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ میرا ذاتی مشورہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ اپنی شخصیت کی تعمیر وترقی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں، ان شاء اللہ اس سے انھیں اپنی شخصیت کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

یہاں ایک دل چسپ واقعے کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا جس کا تعلق بھی برادر گرامی شیخ نیاز احمد مدنی رحمہ اللہ کی سادگی، شرافت اور بھولے پن سے ہے۔ ایک دن میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمارے دینی مدارس میں ذہانت کی کوئی کمی الحمد للہ نہیں ہے۔ عربی کی تمام جماعتوں میں ذہین اور باصلاحیت طلبہ موجود ہوتے ہیں، ان کو ذرا مہمیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے میں نے سلفی جامعات کے باذوق اور ذہین طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں دور حاضر کے تقاضوں کے حوالے سے بتایا کہ آپ طالب علمی کے اپنے یہ ماہ وسال کس طرح گزاریں، کس طرح مطالعہ کریں، مضمون کیسے لکھیں اور تصنیف وتالیف کے ذوق کی اپنے اندر آبیاری کیسے کریں۔ میں نے اپنے بڑے مدارس کے بعض متعارف اساتذہ کرام کو فون کرکے چند ذہین طلبہ کے نام معلوم کیے اور سب کو نام بہ نام مخاطب کرکے اپنے تجربات ان کے سامنے رکھے۔ جب میری یہ تحریر فری لانسر پورٹل پر شائع ہوئی تو دوقسم کا رد عمل سامنے آیا۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد کے استاذ شیخ عبدالعظیم مدنی عمری حفظہ اللہ نے اس مضمون کو جامعہ کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کرادیا تاکہ سارے طلبہ اسے پڑھ لیں۔ ایک دوسرا رد عمل یہ سامنے آیا کہ ہمارے بعض متعارفین نے اسے سلفی جامعات کے ذہین طلبہ کو ہائی جیک کرنے کی کوشش قرار دیا۔ بے چارے شیخ نیاز احمد مدنی رحمہ اللہ کو ان کے بعض ساتھیوں نے جو بعض مناصب پر فائز تھے، سخت سست کہنا شروع کردیا کہ مضمون نگار کو جامعہ محمدیہ کے ان طلبہ کے نام آپ نے کیوں دیے۔ وہ بہت پریشان ہوئے اور اسی پریشانی میں مجھے فون کیا کہ رفیق صاحب یہ مجھے آپ نے کس آزمائش میں ڈال دیا ہے۔

ہمارے اپنے اداروں میں اس قسم کے مسائل میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور جس طرح کے موہوم اندیشے سامنے لائے جاتے ہیں، مجھے صورت حال کو سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی اور افسوس ہوا کہ ایک ذرا سی بات کو اس قدر سنگین بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ میں نے فوراً وہ مضمون جامعہ کے مہتمم شیخ ارشد مختار حفظہ اللہ کو واٹساپ کیا اور ان سے درخواست کی کہ آپ یہ مضمون پڑھ لیں اور اگر مناسب سمجھیں تو جامعہ میں طلبہ کے سامنے اسے کسی طالب علم یا استاذ سے پڑھوادیں تاکہ مشتملات کا سب کو علم ہوجائے۔ شیخ ارشد مختار حفظہ اللہ اس وقت اپنے کاروباری سلسلے میں افریقہ گئے ہوئے تھے، ایک گھنٹے کے بعدان کا فون آیا کہ مضمون میں نے پڑھ لیا ہے، بہت مفید ہے، میں نے جامعہ میں ایک ذمہ دار سے کہہ دیا ہے کہ وہ طلبہ کو اسے سنادیں۔ آگے کیا ہوا، مضمون پڑھا گیا یا نہیں، مجھے اس کا علم نہیں ہوسکا لیکن جس کشمکش میں برادر محترم کو مبتلا کردیا گیا تھا، وہ اس سے باہر آگئے اور حالات معلوم کرکے مجھے بھی سکون مل گیا۔

ان کی وفات سے ہم ایک تجربہ کار استاذ اور مخلص داعی سے محروم ہوگئے۔ انھیں تدریس سے عشق تھا اور بڑی لگن سے یہ خدمت وہ انجام دیتے تھے۔ تدریس ایک فریضہ ہے، روزی کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں، جسے اس پیشے سے محبت نہ ہو، اسے زبردستی یہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے۔ کسی مضمون کا ایک کمزور استاذ طلبہ میں جو کمزوری چھوڑ جاتا ہے، وہ عام طور سے دور نہیں ہوتی اور بچے اس مضمون سے ذہنی مناسبت پیدا نہیں کرپاتے۔ کاش ذمہ داران مدارس اس پر توجہ دیتے اور کسی سفارش اور دباؤ کے بغیر شفافیت کے ساتھ اساتذہ اور معلمین کا انتخاب فرماتے۔ ملت کے یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں، ان کے مستقبل کو سنوارنا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، الحمد للہ برادرمحترم شیخ نیاز احمد مدنی رحمہ اللہ کو ان تمام مسائل کا بخوبی ادراک تھا اور وہ اپنے مضامین میں طلبہ کو طاق بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ اللہ ان کی متنوع خدمات کو شرف قبول بخشے اور اپنے مقبول بندوں کی صف میں انھیں جگہ دے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000