علماء کرام: وفیات، احساسات اور واجبات

عبدالوحید عبدالقادر سلفی تذکرہ

علماء کرام دین اسلام کے پاسبان اور اس کی سرحدوں کے نگہبان ہیں۔ دین کے اصول و فروع ان کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ صدیوں سے کتاب و سنت کے علوم ان کے ذریعے لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ کے لیے کنز گراں مایہ اور اسلامی معاشرے کے روح رواں ہیں۔ یہ انبیاء کرام کے بعد سب سے بابرکت اور ان کی دعوت کے وارث و علمبردار ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ”إعلام الموقعین عن رب العالمین“ میں رقمطراز ہیں:”علماء کا مقام و مرتبہ روئے زمیں پر ایسا ہی ہے جیسے ستاروں کا آسمان میں، گمراہ لوگ ضلالت کی تاریکیوں میں انھی سے راہ ہدایت کی روشنی کشید کرتے ہیں، اور طعام و شراب سے کہیں زیادہ ان علماء کرام کے دستِ نگر ہیں“۔ وہ شریعت ربانی کے خوشہ چین ہیں۔ ان کی شخصیت و آبرو کو نشانِ ہدف بنانا اسلام کو مطعون کرنا ہے، ان کی ذات سے اعتبار کا اٹھ جانا اور لوگوں کے درمیان ان کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کو گرانا دین اسلام کو گرانے اور کمزور کرنے جیسا ہے۔ اسی طرح علماء کرام کا ہمارے درمیان سے اٹھا لیا جانا امت کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”ایک عالم کی موت سے اسلام کی فصیل میں ایک ایسا شگاف پڑتا ہے جو تا قیامت ختم نہیں ہوتا“۔

آج معاشرے میں الحاد و مغربیت کے علمبرداروں اور شہوت و بدعت کے پجاریوں کو اس بات کا یقین ہے کہ اسلامی معاشرے میں اخلاقیات و اقدار کی پامالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ علوم نبوت لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ اور اسے اس وقت تک کمزور نہیں کیا جا سکتا جب تک عامۃ الناس کے روابط علماء کے ساتھ کمزور نہ ہوں۔ یعنی علماء کے رول کو پامال کرنے اور ان کی حیثیت کو گرا دینے اور ان کے فضل و شرف کی فصیل کو منہدم کر دینے کے بعد ہی لوگوں کو دین سے دور کیا جا سکتا ہے، وگرنہ ان کے اہداف کی تکمیل ممکن نہیں۔ حالانکہ یہ عمل زمانہ نبوت سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ اللہ کا فرمان ہے: یُرِیدُونَ لِیُطْفِءُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ(الصف:۸)

ایک جانب کفر و الحاد کی یلغار اسلام اور اہل اسلام پر چو طرفہ ہے دوسری جانب پاسبان علوم نبوت بڑی تیزی سے اس دنیا کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے اور بطور خاص کورونا وبا کے خوفناک مرحلے میں جس طرح علماء کرام کی وفیات کی خبریں آئیں اس سے دل کی دنیا میں سکوت طاری ہو گیا۔ کووڈ۱۹ کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ گزشتہ چند مہینوں میں علم و تحقیق کے وہ سرخیل ہم کو غمزدہ کر گئے جن کا بدیل میسر ہونا نا ممکن سا لگتا ہے۔ ڈاکٹر آر کے نور کا سانحہ ارتحال ہم سب کو مصدوم کر گیا۔ علم، تجربہ، تعلیم و تربیت اور حالات حاضرہ کا نبض شناس اچانک دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈاکٹر عبد العلی ازہری: متانت، سنجیدگی، علم و ہنر، ذہانت و فطانت، حفظ و اتقان، تحقیق و تصنیف اور زبان و قلم کے دھنی ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن الأعظمی:حدیث وعلوم حدیث کے ماہر، محقق دوراں، جامع الأحادیث النبویۃ، میدان تصنیف و تالیف کے شہسوار بھی دنیائے فانی کو پس پشت ڈال کر امت مسلمہ کو سوگوار چھوڑ گئے۔ مولانا حفیظ الرحمٰن عمری مدنی:استاذ الأساتذہ، بے لو ث عالم دین، تجربات کا سرچشمہ، بہترین مربی و معلم، جامعہ دار السلام عمرآباد کی آن بان اورشان اپنے ہزاروں شاگردوں، خوشہ چینوں اور چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے۔

شیخ نیاز احمد طیب پوری مدنی رحمہ اللہ:ایک سنجیدہ اور مشفق استاد، بہترین مربی، قابل مصنف و مؤلف، قادر الکلام داعی اور خوش اسلوب قلمکار اچانک موت کی آہٹ پر خاموش ہو گیا اور ہمیشہ کے لیے علماء، طلبہ اور عامۃ الناس کو غمزدہ چھوڑ گیا۔ شیخ عزیر شمس:ابھی غم والم کے آثار تازہ ہی تھے کہ علم کا پہاڑ، متحرک لائبریری، تصنیف و تحقیق کا بحرِ بیکراں ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا۔ وہ محض محقق ہی نہیں بلکہ مورخ، ادیب، فقیہ، لغوی اور تاریخ اہل حدیث کے انسائیکلوپیڈیا تھے، امت کے ماضی اور حال پر گہری نظر تھی اور مستقبل شناس تھے۔سیاست اور حالات حاضرہ سے بھرپور واقفیت تھی۔ ان کے علمی سفر و سیاحت کی طویل داستان ہے۔عربی شعر ونقد پر سند کی حیثیت رکھتے تھے، ان کے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے رسالے اس پر گواہ ہیں۔ اردو زبان و ادب اور ادباء پر جب بات کرتے تو علم کے موتی بکھیرتے۔ اسلامی تاریخ، فکر و فلسفہ اور مخطوطات پر جب بات کرتے تو سامع ان کی علمی گہرائی اور نکتہ آفرینی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ عمومًا لوگ انھیں ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہا اللہ کے تراث کے ماہر اور محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ بیک وقت، محقق، مؤرخ، فقیہ، ادیب و مفکر سب کچھ تھے۔ انگلش زبان کی بھی اچھی جانکاری تھی اور شاید جرمن زبان بھی جانتے تھے اور اردو، عربی اور فارسی پر بھرپور عبور حاصل تھا۔طالب علمی کے زمانے میں جامعہ سلفیہ بنارس میں دو توسیعی لکچرز اور اوپن ڈسکشن سیشن میں براہ راست استفادے کا موقع ملا، اس دن ہم آپ کے حفظ و اتقان، وسعتِ علم و فکر، استحضار و برجستگی کو دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ اس موقع پر آپ نے کتابوں کے مطالعہ کے تعلق سے اپنے تجربات سے آگاہ فرمایا اور بہت سے قیمتی مشوروں سے ہمیں نوازا۔ شیخ محترم سے براہ راست ملاقات کے علاوہ مختلف موضوعات پر عربی اور اردو لکچررسے استفادے کا موقع ملا۔ آپ بلا شبہ علم و تحقیق کے میدان کے شہسوار تھے۔ آپ کا اچانک چلا جانا علمی دنیا کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے۔ آپ جیسی شخصیت صدیوں میں متلاشیان علم و تحقیق کو میسر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے اور جو علماء کرام ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں ان کی لغزشوں کو معاف کرکے انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

عصر حاضر میں علماء کے تئیں قوم مسلم کی بے حسی جگ ظاہر ہے۔ ان کی زندگی میں ان کی خاطر خواہ عزت و تکریم اور کفالت نہیں ہوتی اور ان کے گزر جانے کے بعد انھیں بُھلانے میں ہمیں وقت نہیں لگتا۔ حالانکہ ہمیں یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ آج کے اس پر فتن دور میں بھی جب شریعت اسلامیہ پر ہر طرف سے اغیار کی یلغار ہے، اسلام اور اہل اسلام نفرت و تعصب کے نشانے پر ہیں اور اسلامی شعائر و تعلیمات کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے ایسے میں یہ علماء کرام ہی اپنے دنیاوی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر امت مسلمہ اور مدارس اسلامیہ کے لیے مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مساجد و مراکز اسلامیہ کے لیے ائمہ و دعاۃ فراہم کر رہے ہیں، اور معمولی تنخواہوں پر اپنی عمر عزیز کے قیمتی لمحات معاشرے کی اصلاح و تربیت، اخلاقی بیداری اور دینی حمیت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ ان کی اس للہ فی اللہ قربانی کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی باعزت زندگی کے لیے انھیں بہترین سہولیات فراہم کریں۔ انھیں کسی کا دستِ نگر نہ بنائیں، ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچائیں، انھیں بھی خوشحال زندگی جینے کا حق ہے۔ انھیں بھی اپنے اہل و عیال کی دیکھ ریکھ اور تعلیم و تربیت کے اخراجات سنبھالنے ہوتے ہیں، ان کی ضروریات زندگی معاشرے کے دیگر افراد سے کم نہیں ہیں۔ انھیں بھی گرانی اور مہنگائی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھی دکھ درد اور امراض کا شکار ہوتے ہیں اور انھیں بھی اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی فکر ہوتی ہے۔ اس لیے قوم، اداروں اور مساجد کے ذمہ داران کو یہ غور و فکر ضرور کرنی چاہیے کہ علماء کے مقام و مرتبے کا لحاظ رکھیں، مساجد و مدارس میں ان کی خدمات کا بہترین بدل مہیا فرمائیں۔ جو علماء تحقیق و تالیف کے میدان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی تحریرات و تصنیفات کی طباعت و نشر و اشاعت کا انتظام کریں، جو علماء دعوتی فیلڈ سے منسلک ہیں ان کی کفالت میں کوئی کمی نہ کریں، جو علماء ہمارے درمیان سے فوت ہوگئے ہیں ان کے علمی تراث کو زندہ رکھیں اور ان کے اولاد کی خبر گیری اور ان کی کفالت کی ذمہ داری کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ یقین مانیں اگر علماء خوشحال ہوں گے اور معاشی پہلو سے مطمئن ہوں گے تو کلمہء حق کو پوری جرأت کے ساتھ لوگوں کے درمیان پیش کر سکیں گے۔ معاشرے میں سر بلندی کے ساتھ رہیں گے اور دین اسلام کی خدمت مزید لگن اور اخلاص کے ساتھ کریں گے اور اس کے نتیجے میں مدارس کے فارغین بھی پورے اعتماد کے ساتھ دعوت و تدریس اور امامت و خطابت سے جڑیں گے، اور اس کے بہترین نتائج امت کو حاصل ہوں گے۔ علماء وعوام کے تعلقات مضبوط ہوں گے اور ایک بہترین اسلامی معاشرہ پروان چڑھے گا جہاں علماء کی عزت و تکریم اور عوام کی اسلام دوستی کا ماحول عام ہوگا اور دونوں ایک ساتھ مل کر صالح معاشرے کی تشکیل میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔

آپ کے تبصرے

3000