تقریبا ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرا، جب بر صغیر میں اسلام کی ایک جدید تصویر نمودار ہوئی ۔
اس تصویر کا خاکہ بنانے والے وہ لوگ ہیں جن کو منکر حدیث کہا جاتا ہے۔جو مغرب کی زبان و ثقافت پر مطلع ہیں۔ اور جو ان سے افکار و ثقافت کے تبادلے کے حامی ہیں۔مثلا حمید الدین فراہی ، امین احمد اصلاحی ۔ سر سید احمد خان ، غلام پرویز ، علامہ تمنا عمادی وغیرہ یہ سبھی لوگ دین کی نئی تشریح کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ لیکن اس تصویر کو مکمل کرکے اسے آرٹ گیلری کی نمائش میں لگانے کا سہرا جاوید احمد غامدی کے سر جاتا ہے ۔
فراہی صاحب نے قرآن کو روایت سے ہٹ کر لغت سے سمجھنے کی بنا ڈالی۔اور کسی آیت کی تشریح میں روایت سے زیادہ قوی جاہلیت کے عربی کلام کو سمجھا۔ اس سے دین کی نئی تشريح کا راستہ کھلا۔
غامدی صاحب نے ابراہیم و موسی علیہما السلام سے چلے آرہے اعمال کو سنت متواترہ کا نام دے کر حدیث متواتر سے زیادہ طاقتور خیال کیا۔
فکر غامدی کیا ہے اور کیوں ہے۔
اس کا جواب کچھ یوں ہے۔
(۱) ملاحدہ اور مستشرقین
کارل مارکس،نیتشے،ڈارون اور یورپ کا صنعتی نیز فرانس کے سیکولر انقلاب کے بعد یہ کہاجانے لگا کہ اب سماج کو خدا کی ضرورت نہیں۔فریڈرک نیتشے نے تو God is dead کے عنوان سے مقالہ بھی لکھا ہے۔ڈارون نے Origin of species لکھ کر تخلیق کی ایسی توضیح کی جس میں خدا کی ضرورت نہیں۔کارل مارکس نے مذہب کو بورژوا طبقے کا ہتھکنڈہ قرار دیا۔ صنعتی فرانس کے سیکولر انقلاب نے لوگوں کی دلچسپی کلیسا سے ختم کردی۔اور پادریوں کے جبر کا توڑ مذہب سے علیحدگی کی شکل میں سامنے آیا ۔
ان لوگوں نے عمومی طور پر ہر مذہب پر دھواں دھار تنقید کی۔
جب کہ مستشرقین نے مذہب اسلام پر خاص طور سے نقد کیا۔
(۲) مذکورہ بالا صورتحال کے بعد عیسائیت اور یہودیت سمٹ گئی۔ایک بڑی تعداد نے دین ترک کردیا ۔اور ان کے سوا جو لوگ دین پر قائم بھی رہے،انھوں نے دین کو مختصر کردیا۔زندگی کے اکثر گوشوں سے دین کو نکال باہر کیا۔اور چند رسوم پر ہی اکتفا کو مکمل دین سمجھنے لگے۔
(۳) اسلام کی تشریح کرنے والوں نے ان مستشرقین اور ملاحدہ کو دو طرح سے ٹریٹ کیا۔ایک طبقے نے تو اسے یکسر مسترد کردیا۔اور دین کے ہر ہر عمل و شعار کے ساتھ ڈٹے رہنے کو ضروری قرار دیا ۔ یہ روایت پسندوں کا گروہ تھا۔
دوسرا طبقہ عقل پسندوں کا تھا۔
انھوں نے مستشرقین اور ملاحدہ کو یکسر مسترد نہیں کیا۔بلکہ ان کی کچھ باتوں کو معقول مان کر دین کی نئی تشريح شروع کردی۔
مثلا دین اسلام دین ابراہیمی ہے۔اور یہودیت و اسلام میں نوے فیصد مماثلت ہے۔پھر جو عمل توارثا چلا آرہا ہےوہ متواتر ہےاور سنت ہے۔اور ان کی تعداد مختصر ہے بلکہ ستائیس سنتوں میں محصور ہیں۔
سنتوں یا پھر دین کو مختصر کرنے کے پیچھے جو مقصد کار فرما ہے،وہ یہ ہے کہ نصرانیت یا یہودیت کی طرح اسے بھی چند اعمال میں محدود کردیا جائے۔تاکہ ملاحدہ و مستشرقین کے اعتراضات رفع ہوجائیں اور بے دینی کے اس زمانے میں بھی لوگ اسلام پر باقی رہیں۔ان کو دینی احکامات کا بوجھ ، دین چھوڑنے پر مجبور نہ کردے۔
جب کہ روایت پسندوں نے اس طرح سے معارضہ کیا کہ جب دین کے اتنے گوشے متروک ہوجائیں گے تو آخر دین ہی کہاں بچے گا ۔ جس کے لیے اتنی فکر کی جائے۔ لہذا دین کو باقی رکھنا ہے تو پورا دین باقی رکھو۔ورنہ آدھے ادھورے دین کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
(۴) بہرحال پوری دنیا کے مسلم نوجوانوں کا ایک گروہ غامدی صاحب کے گرد جمع ہوگیا اور اسے یہ مختصر دین اچھا لگا۔جس سے ایمان بھی باقی رہتا ہے اور خدا زندگی کے ہر معاملے میں بندے کو تنگ نہیں کرتا۔
اگر آپ غامدی صاحب کے بیانات اور اسلام کی جدید تشریحات کا تجزیہ کریں گے تو ہر نئی تشریح کے پیچھے ایک کہانی پائیں گے۔
یا تو ملاحدہ و مستشرقین وغیرہ کے ان اعتراضات کی وجہ سے یہ تشریح آئی ہے۔جن کو عقل پسندوں نے معقول خیال کیا۔
یا ان کے اس نریشن کو سند قبولیت دینے کی وجہ سے ہے۔جو جدید دور کا پسندیدہ نریشن ہے۔
یا پھر متبعین اسلام کی اس خواہش کے احترام میں وہ بیانیہ آیا ہےکہ ہم دین کے اتنے احکامات اور حدود وقیود سے تھک گئے ہیں۔ہم کو وہ دین چاہیے جو مختصر ہو۔جدید دور سے ہم آہنگ ہو۔اور ایمان کے لیبل کو بھی باقی رکھے ۔
اہل روایت کو ہمیشہ سے ایک گروہ تنگ کرتاہے اور جدید مسائل میں نئے حالات کے پیش نظر بہت سی چیزوں میں اجازت کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ گروہ مکمل دین پر عمل کے لیے زمین یا پھر وقت ہی نہیں پاتا۔کیونکہ نئے دور میں کاروبار زندگی کو ایسے فریم میں سیٹ کردیا گیا ہےجہاں وقت پر دین کے تمام ارکان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن اہل روایت کا اپنا مزاج ہے۔وہ ایسی کوئی بھی اجازت نہیں دیتے۔ جب کہ معتزلی فکر کے حاملین اور عقل پسند دھڑا دھڑاجتہاد کرتے اور چھوٹ دیتے چلے جاتے ہیں ۔ جس کی ایک واضح مثال غامدی صاحب ہیں۔
یہ اپنے زعم میں دین سے پھر جانے والوں کے موافق دین بنا کر ان کو اسلام پر باقی رکھے ہوئے ہیں۔اور ثواب کا کام کررہے ہیں۔
اب یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ کس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔لیکن آثار کہہ رہے ہیں کہ اہل روایت کے لیے حالات سخت ہیں۔
کیونکہ ایسا سماں چھا گیا ہے کہ ہر جگہ اب ملاحدہ و مستشرقین کے اعتراضات پر توجہ ہے ۔ کہیں اس کے لیےجوابات تیار کیے جارہے ہیں تو کہیں پر جواب دینے والے افراد تیار ہورہے ہیں۔اور کچھ ایسے بھی ہیں جو باقاعدہ جواب دے بھی رہے ہیں۔
بہر حال دین اگر اپنی اصلی شکل و صورت میں ہو۔اور مکمل ہو تو اس کا جو ٹیسٹ ہے وہ آدھے ادھورے دین کا نہیں۔ اب اسے تن آسانی سمجھیے یا حالات کا جبر کہیے کہ لوگ معمولی دین اور مکمل دنیا کے خواہشمند ہیں۔ اسی ادھورے دین اور پوری دنیا کی تجسیم غامدی صاحب کی شکل میں ہوئی ہے۔
گویا فکر غامدی کے نقاط کو ان امور میں محصور کیا جاسکتا ہے:
۱۔مستشرقین وغیرہ کے اعتراضات کا ازالہ
۲۔ عوام کی خواہشات کے مطابق دین میں تخفیف
۳۔ مادی طور پر عقل میں نہ آنے والے دینی امور کی تاویل یا اس کا ازالہ
۴۔ دینی و تہذیبی سطح پر مشرق ومغرب (یہود و نصارٰی اور مسلمانوں) میں ہم آہنگی
۵۔ دین کے دائرے کو سمیٹ دینے والی فکر سے اتفاق
۶۔ دین کے بہت زیادہ احکامات کی وجہ سے ترک دین کرنے کا ارادہ کرنے والوں کو دین پر قائم رکھنے کی کوشش
جو بھی ہو ۔ قبولیت دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ فکر غامدی کی مقبولیت اتنی جلدی گھٹنے والی ہے۔اگر یہ مقبولیت جاری رہی تو اہل روایت کے لیے تشویش کا مقام ہے۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه
وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه
تحریر بہت پیاری ہے
لیکن غامدی فکر کا بس جھلک ہے
امید کہ مزید اقساط یا دیگر عنوانات میں میں بحث کریں’گے
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
الحمدللہ۔کوشش،اچھی ہے امید،ہیکہ دوسری قسط بھی،تکمیل کے مراحل میں ہوگی