الحیاۃ بین الانتصارات والانکسارات
مقالہ نگار: ڈاکٹر خالد سعد النجار
ترجمانی: ابو عفاف عبدالوحید سلفی ریاضی
جب بھی ہم زندگی کی شاہ راہ پر فرحت و شادمانی، خوف و ہراس، کامیابی و کامرانی اور ناکامی و نامرادی کا سامنا کرتے ہیں تو ہمارے احساسات یکساں نہیں ہوتے اور ہماے رد عمل میں بھی یک رنگی باقی نہیں رہتی۔ کبھی تو اس غم و الم کے محرک ہم خود ہوتے ہیں جس میں ہم مبتلا ہیں، اور کبھی کسی کے مکر و فریب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہمیں کسی سے رہنمائی مل جاتی ہے اور راہ نجات تک پہنچ جاتے ہیں اور کبھی مدتوں اسی بھنور میں پھنسے رہتے ہیں۔ ہمیں اچانک جب یاد آتا ہے کہ مومن کا پورا معاملہ خیر کا ہے اور اللہ کی رحمت کا سایہ اس تک دراز ہے تو سکون و اطمینان کی سانسیں لیتے ہیں۔ لیکن کبھی انسان امیدوں کے تمام دروازے بند پاکر ایک مدت تک اپنے افکار واحساسات کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے۔ کبھی آپ ایسے حالات و ظروف سے گزرتے ہیں کہ آپ مایوسی کے آخری درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن تب بھی آپ کے اندر ایک عجیب و غریب کیفیت ایسی ہوتی ہے جو آپ کا حوصلہ بڑھاتی ہے اور زندگی کے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے پر ابھارتی ہے۔ جب آپ کے سامنے امیدوں کے تمام دروازے بند ہوں تو آپ کے سامنے ایک نا معلوم دریچہ کھلا ہوتا ہے جو آپ کی امیدوں کو جلا بخشتا، زندگی کی نئی راہیں دَرشاتا، اور نا امیدی کے کرب سے نجات دلاتا ہے، اور یہی وہ نعمتِ غیر مترقیہ ہے جسے ہم ”امید“ کے نام سے جانتے ہیں۔ پس زندگی ہمیشہ یأس و رجا کے درمیان چکر لگاتی ہے۔ کبھی ناامیدی غالب ہوتی ہے تو کبھی امید کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔ تو کیا نا امیدی ہی ہمارے مسائل و مشکلات کا حل ہے؟ نہیں بالکل نہیں!بلکہ ہم میں سے ہر فرد کے پاس امید و رجا کا ایسا تریاق ہے جس سے ہم اپنے حالات و ظروف کو معنی خیز اور بار آور بنا سکتے ہیں۔
امید نام ہے اس قوت محرکہ کا جو دلوں کو عمل پر آمادہ کرتی، واجبات کو پورا کرنے کے اسباب مہیا کرتی، روح وبدن میں حرکت و نشاط پیدا کرتی، کاہل کو محنت کرنے اور محنتی کو مداومت کی دعوت دیتی ہے۔ اسی طرح نا کام و نامراد شخص کو ہمت نہ ہارنے کی تلقین کرتی اور کامیاب انسان کو مزید محنت کرنے پر ابھارتی ہے تاکہ اس کی سر بلندی کا گراف اور اونچا ہوجائے۔
أمل:یأس و قنوط کی ضد ہے۔ امید:خوشی اور حسن الظن باللہ کی ضامن ہے، جبکہ نا امیدی بربادی کا ایسا ہتھیار ہے جو انسان کے اندر جذبۂ حرکت و عمل کو توڑ دیتا ہے اور اسباب قوت کو کمزور کر دیتا ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:”دو چیزوں میں انسان کی ہلاکت پوشیدہ ہے:”القنوط والعجب“۔ قنوط یعنی ناامیدی اور عُجب:خود پسندی اور اپنے اعمال پر غرور و تکبر کرنا“۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ ان دونوں صفات کا ذکر ایک ساتھ اس لیے کیا گیا کیوں کہ سعادت و خوش بختی بغیر محنت و طلب کے حاصل نہیں ہوتی اور قانط نہ تو محنت کرتا ہے اور نہ اس کا طالب ہوتا ہے کیوں کہ مطلوبہ چیز کو حاصل کرنا اس کی نظر میں محال ہوتا ہے۔
امید اور تفاؤل کا اعلی درجہ یہ ہے کہ انسان کا دل اس کے رب سے جڑا ہو۔ نماز اور ذکر کے ذریعہ انسان کو بھلائی اور ثواب کی امید ہوتی ہے کیوں کہ یہ عمل فنا ہونے والی ذات کو لا فانی ذات سے مربوط کر دیتی ہے جو اس پر امید انسان کو زبردست نفسیاتی طاقت فراہم کر دیتی ہے جس سے ما دیت کے پجاری محروم ہوتے ہیں۔ مومن ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے پر امید ہوتا ہے وہ محض ظاہری اسباب پر نظر نہیں رکھتا بلکہ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا برپا کرنے والا ایک خالق ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ جب کسی چیز کو معرض وجود میں لانا چاہتا ہے تو فقط ”کُن“ کہتا ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔ مومن کا دل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے پر امید ہوتا ہے جبکہ کافر اس لذت سے محروم ہو تا ہے۔ اسی لیے ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ خود کشی کا اقدام کرتے ہیں اور طرح طرح کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جس معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں وہاں سلبیات کی کثرت ہوتی ہے۔ صبح و شام بری خبریں اور غلط بیانیوں کے جال میں گھرے ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہماری تہذیب وثقافت میں ایجابی عنصر کا فقدان ہوتا ہے۔ روز انہ ہم اپنے افکار و خیالات کو مثبت و منفی اخبار کی غذا فراہم کرتے ہیں۔ اسی لیے منفی افکار سے نجات پانے کے لیے ہمیں مثبت خیالات کے لیے ماحول بنانا پڑتا ہے۔ آپ کی کامیابی و ناکامی بھی آپ کے عمومی خیالات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ زندگی میں کامیابی یا ناکامی کے لیے کس طرح کے خیالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اکثر اوقات آپ منفی خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں تو کامیابی حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی مثبت خیالات کا پایا جانا نا کافی ہے۔ لیکن اکثر آپ کے اندر مثبت خیالات پر مداومت اور استمرار ہے تو آپ ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں اور آپ کا کھویا ہوا مقام آپ کو بآسانی مل سکتا ہے۔ اگرچہ آپ ظلمت و تاریکی کے مضبوط حصار میں پھنسے ہوئے ہوں۔ آپ اپنے نفس کی کامیابی کے اکیلے ذمہ دار ہیں۔
اگر آپ اپنے مستقبل کو اپنے حال سے بہتر بنانا چاہتے ہیں تو دو چیزیں آپ کو اس کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہیں ان شاء اللہ:
۱۔ اپنے مستقبل کے بارے میں آپ کے خیالات اور عزائم آپ کے حال سے کہیں بہتر ہوں۔
۲۔ مستقبل کے خیالات کو حقائق میں بدلنے کے لیے آپ کو لازمًا عملی محنت کی ضرورت ہوگی تاکہ اسے آپ تجربات کی زمین پر اتار سکیں۔ ہم ایک بڑی غلطی کا ارتکاب اس وقت کر رہے ہوتے ہیں جب ہم اپنے ذہنی افکار کی عملی تطبیق کے لیے کوششیں بند کر دیتے ہیں اور اس سے ہمارا دھیان بھٹک جاتا ہے حالانکہ ہمیں اس کے لیے جہد مسلسل اور عرق ریزی کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے میسر وسائل کو مزید اثر دار اور کارگر بنا کر اپنے مثبت خیالات کو حقیقت کا جامہ پہنا سکیں۔
ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ اپنی زندگی میں مصائب وآلام کا شکار ہو تو حقیقت پسندی کے ساتھ اس پر غور و فکر کرے۔ اور نا امیدی کی مہیب تاریکیوں میں روشنی کی کرن تلاش کرے اور اپنے مقاصد اور اہداف تک پہنچنے میں امید کے دامن کو نہ چھوڑے اور نہ ہی دل شکستہ ہو کر نا امیدی کے حصار میں پھنس کر رہ جائے۔ بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ امید کا دامن ہر حال میں تھامے رہے تاکہ اپنے خواب کی تعبیر حاصل کر سکے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو انسان تقوی کو اپنا شعاربنالے اور اپنے قلب و عقل کی زمین پر اسے زرخیز رکھے تو فضل الٰہی سے اس کے سامنے وہاں سے دروازے کھلتے ہیں جس کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے ہیں۔ مشکلات کا حل اس طرح دریافت ہوتا ہے جو ہماری عقل سے پرے ہے اور رزق کے اسباب ایسی جگہوں سے میسر ہو جاتے ہیں جس کا ہمیں گمان بھی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا ٭ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ(الطلاق:۲۔۳)
جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کا حل مہیا کر دیتا ہے۔جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی کی توفیق دیتا ہے۔ اور جو اللہ سے لو لگاتا ہے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کی بہترین پلاننگ کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ(الطلاق:۳)اور جب اللہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے پورا بھی کرتا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۳)یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مشکلات و مصائب کو مقدر کر رکھا ہے اور وہی ان سے نبرد آزما ہونے کی بھی واقفیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے امیدوں کے آفاق روشن کرتا ہے اور مصائب سے نجات پانے کے لیے ان کے دلوں اور ذہنوں پر اپنی توفیق کا الہام کرتا ہے۔ اس لیے اگر ہم صاحب ایمان ہیں تو ہماری زندگی میں نا امیدی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سورج کی شعائیں جب غروب کا اشارہ دیں اور تاریکی اپنے سایے کو پھیلانے لگے تو ہمیں اگلی صبح کی امید رہنی چاہیے۔ ستاروں کی گردش و جگمگاہٹ جب ماند پڑ جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پر ابدی تاریکی کا حملہ ہونے والا ہے، بلکہ صبح کی روشن کرنیں ہر چہار جانب سے ہمار استقبال کرنے کی منتظر ہوتی ہیں۔ جب بھی آپ تاریکیوں کی دبیز چادر میں لپٹے ہوئے ہوں تو صبح نَو کی بشارت سے مایوس نہ ہوں۔ آپ کا دل امید و حوصلے کی آماجگاہ ہو اور طلوع صبح کی نوید کا خوگر ہو۔
میں نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا کہ جب بھی وہ اپنے احساسات و جذبات اور تحقیقات کے سفر میں آگے بڑھ رہے ہوں، اسی طرح مجاہدین اور وفور جذبات سے معمور ان جیالوں سے کہنا چاہوں گا جو ہر سطح پر زندگی کے چیلنج اور للکار کا سامنا کر رہے ہیں کہ ”ظلمت و تاریکی ابدی اور دائمی نہیں ہے“۔ اس شب دیجور کے لیے ایک روشن صبح کی آمد آمد ہے۔ ہمیں روشنی کا چراغ اپنی عقلوں میں منور کرنا ہوگا اور اپنے دلوں کی ضیاباری سے اپنے حوصلوں کو جواں رکھنا ہوگا۔ اپنی جہد مسلسل سے روشن شاہراہ کو تلاش کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی امید کی وہ کرنیں حاصل کر لیں جسے اللہ تعالیٰ ہر صبح سورج کی پہلی روشنی کے ساتھ ہم پر نچھاور کرتا ہے۔
ماشاءاللہ
بارک اللہ فیک آمین