زندگی کی بھاگ دوڑ میں انسان مقصد زندگی کو پسِ پشت ڈال چکا ہے۔ مادیت پرستی کے حصار میں مقید ہے۔ چکا چوند زندگی کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا ہے۔مغربیت کی پُر فریب ترقی سے مرعوبیت کا شکار ہے۔عالم سراب کو حقیقی زندگی سمجھ بیٹھا ہے۔شب و روز کسب معاش میں سرگرداں ہے، اتنا کہ حلال و حرام کی تمییز بھی بھول چکا ہے۔دنیا داری سے اسے فرصت نہیں، مستقبل کا موہوم محل تعمیر کرنے میں لگا ہے۔ اپنے حال زار کی خبر نہیں، سیاست نے اسے اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔خود احتسابی نہیں، دوسروں کو ہدفِ تنقید بنانا اس کا مشغلہ بن چکا ہے۔دین بیزار ہے، دینی باتیں اسے راس نہیں آتیں۔علماء سے اسے حسد و نفرت ہے، اسے لگتا ہے کہ دین اسلام میں اس کے مسائل کا حل نہیں، وہ سمجھتا ہے کہ سائنسی ترقی ہی میں راہ نجات ہے، اس کی عقل و خرد پر الحاد کا عفریت سوار ہے، اسی لیے وہ اخلاقیات اور فضائل کو درخور اعتناء نہیں سمجھتا ہے۔ وہ عصری علوم سے اتنا متاثر کہ ہر چیز کو عقل کے ترازو پر تولتا ہے۔وہ ڈارون کے نظریات کا حامل ہے اس لیے اسے قرآن کا تصور ارتقا بھاتا نہیں۔وہ یورپ کی دلفریب وادیوں کا سیر کر چکا ہے اس لیےاسلام کے نظام فطرت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ الحادی افکار و نظریات کا خوگر ہے اس لیے فکرِ آخرت اور ایمان بالغیب کا وہ مذاق اڑاتا ہے۔وہ بدعات کی گود میں پلا بڑھا ہے اس لیے اسے کتاب و سنت کی خالص تعلیم سے کوئی سرو کار نہیں۔وہ تقلید کی بندشوں میں جگڑا ہوا ہے اس لیے اسے منہج سلف سےکوئی واسطہ نہیں۔وہ مذاہب و مسالک کےحصار میں پھنسا ہے اس لیے اسے سلف کی کتابوں سے کوئی سروکار نہیں۔وہ آستانۂ درویشاں اور مزارات فقیراں پر نذرانے پیش کرتا اور مرادیں مانگتا ہے اس لیے اسے عقیدۂ توحید کے سرچشمہ حیات سے آبیاری و سیرابی کی توفیق نہیں ملتی۔
جب انسان کی یہ حالت ہو تو وہ اپنے مقصد زندگی سے کوسوں دور چلا جاتا ہے، اسے سراغ زندگی کی چاہت نہیں ہوتی، اس کا دل زنگ آلود ہو چکا ہوتا ہے، اس کی فکر پر محرومی کی دیبز چادر بچھا دی گئی ہے، اس کے اعضاء و جوارح سے خیر کا صدور نہیں ہوتا، اس کی زبان پر ذکر خیر کا گزر نہیں ہوتا۔ تمام شعبائے زندگی کے متعلق لکچر دے گا مگر دین اسلام کی حقانیت پر اس کی زبان پر لقوہ پڑ جاتا ہے، حرمان اور بے توفیقی کا یہ عالم کہ رب العالمین کو پوری زندگی پہچاننے سے قاصر رہتا ہے، اس کی دی ہوئی نعمتوں میں پلتا بڑھتا ہے مگر اسی کی احسان فراموشی میں اسے لذت محسوس ہوتی ہے، اسی کی بنائی ہوئی دنیا میں سانس لیتا ہے مگر اسی کو چلنج کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
آج اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کس قدر نفسیاتی اضطراب میں مبتلا ہے۔ اسے ذہنی سکون نہیں، اسے قلبی اطمینان نہیں، اسے دینی ثبات نہیں، اسے دنیاوی استقرار نہیں۔کبھی امراض کا شکار، تو کبھی وباؤں کے رحم و کرم پر، کبھی آپسی چپقلش میں مبتلا، تو کبھی مسلکی مذہبی اور فکری یلغار کا شکار۔ غرضیکہ اس کی زندگی میں ہر لمحہ اضطرابی کشمکش کا ماحول ہے، پھر بھی دین حنیف کی طرف رجوع نہیں کرتا، اللہ کی ذات پر بھروسہ نہیں کرتا، اس کی توفیق کا طلبگار نہیں ہوتا، صحیح عقیدے کے قریب نہیں آتا۔ بس دنیا داری ہی اس کی زندگی کا سب سے عظیم سرمایہ ہے۔
اے انسان! تجھے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج دنیا میں بڑے پیمانے پر لوگ دین اسلام کو اپنا رہے ہیں، اس کی تعلیمات سے متاثر ہو رہے، اس میں اطمینان و سکون محسوس کر رہے ہیں۔ یہ محض دعوی نہیں بلکہ ان لوگوں کا اعتراف ہے جو حق کی تلاش میں نکلے اور تحقیق و جستجو کے بعد دین اسلام کو دین فطرت پایا، اور پھر دل و جان سے اسے قبول کرلیا۔ کتنے ہی ملحدین اور دن بیزاروں کو دین اسلام کی تعلیمات نے متاثر کیا اور انھیں اپنی اضطرابی زندگی کا علاج دامنِ اسلام میں ملا۔
اے لوگو!دین اسلام دین فطرت ہے۔ مقصد تخلیق کو بڑے واضح انداز میں بیان کرتا ہے اور انسان کو زندگی کی حقیقت سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اور سراغ زندگی کے لیے اسے تیار بھی کرتا ہے۔
اے محروم انسان! آ تجھ کو بتاؤں کہ سراغ زندگی اور مقصد زندگی کے اسرار و رموز کہاں ملیں گے۔ اگر تجھے راز حیات کو سمجھنا ہے اور مقصد تخلیق کو جاننا ہے تو اس کائنات کے مالک حقیقی کو پہچان۔ اس کی پہچان تجھے صرف اور صرف دین اسلام میں ملے گی۔ عقیدۂ توحید کو اپنا، اور شرک و بدعت کی تاریکیوں سے باہر آ، تجھے زندگی کا اصل مقصد سمجھ میں آجائےگا۔ اللہ پر یقین رکھ، اسی سے لو لگا، اس کا ذکر کر، اسی سے دعائیں مانگ، اسی کے سامنے سجدہ ریز ہو، یقینًا تجھے زندگی کا اصل مفہوم سمجھ میں آجائےگا، تمھیں دلی سکون و اطمینان نصیب ہوگی اور قلق و اضطراب سے دوری حاصل ہوگی۔الحادی نظریات سے توبہ کر اور دین اسلام کے افکار ونظریات کا حامل بن، تجھے تمام مشکل سوالوں کاجواب مل جائےگا۔ تو ایمان بالغیب کا حامل بن جا، تیری بہت ساری فکری اضطراب کا علاج ہو جائےگا۔ تو تقدیر پر ایمان لے آ، تجھے عقلی قلبی اور روحانی سکون حاصل ہوگا، تو اللہ پر ایمان لا، تیرے سارے اشکالات کافور ہو جائیں گے۔ اسلام کے سایے میں ایمان کی شاہراہ پر اور توحید و تقدیر کے سایےمیں تیری زندگی کا راز مضمر ہے۔
آپ کے تبصرے