چہرے کے پیچھے کی کہانی

رشید سمیع سلفی تعارف و تبصرہ

شمس کمال انجم اس خانوادۂ علم و ادب کے چشم وچراغ ہیں جس میں حماد انجم انصاری ؒ اور سہیل انجم انصاری کے نام آفتاب و ماہتاب کی طرح چمک دمک رہے ہیں، یہ اسمائے گرامی شہرہ آفاق شخصیت ابوالمآثر حامد الانصاری انجم رحمہ اللہ کے اخلاف الرشید اور جلائے ہوئے چراغ ہیں، ان تینوں شخصیات نے اپنے عالی مرتبت والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورے ملک کے علمی وادبی اور صحافتی حلقوں میں اپنا نام روشن کیا ہے، ان سطور میں فضیلۃ الدکتور شمس کمال انجم حفظہ اللہ کے شعری مجموعہ “چہرے کے پیچھے کی کہانی” اور آپ کے شاعرانہ کمالات پر اظہار خیال مقصود ہے، اتفاق یہ کہ ایک ایسی شخصیت جو شاعر، ادیب، نقاد، مصنف، مدرس اور عالم دین بھی ہے ان کے کلام پر اظہار خیال کے لیے مجھ جیسے بے مایہ اورادب کے ایک معمولی طالب علم کو حکم ملا ہے، بہر کیف اپنی علمی بے بضاعتی کے اعتراف کے ساتھ اشہب قلم کو جیسے تیسے آگے بڑھا دیا ہے۔

جب کرم رخصت بیباکی و گستاخی دے

کوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیں

(غالب )

شاعری‌ ایک ایسی صنف سخن ہے جو انسان کے ذوق جمال اور حس لطیف کو سیراب کرتی ہے، یہ صنف انسان کے ذوق ومیلان پر کمند ڈالتی ہے،بڑے بڑے اذہان و قلوب کو اپنا اسیر بنا لیتی ہے،ایک بات جو نثر میں کہی گئی ہو،وہی بات جب نظم کے پیرائے میں کی جاتی ہے تو اثرپذیری اور حسن تعبیر کی ہزار خوبیوں کے باوجود لطف کو دوبالا کردیتی ہے،کلیم الدین احمد نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے:

“شاعری نقاشی،مصوری،موسیقی جملہ فنون لطیفہ سے برتر ہے،اس لیے اس کی دنیا محدود نہیں ہے،یہ صرف فنون لطیفہ میں اولین درجہ نہیں رکھتی،یہ سائنس اور فلسفے سے بھی بالاتر ہے، شاعری گویا نفیس اور بیش قیمت تجربات کا حسین مکمل و موزوں بیان ہے۔”

(اردو شاعری پر ایک نظر :ص 2)

اردو شاعری جب ایک لطیف فن اور ذریعہ اظہار ہے تو اس میں طبع آزمائی اور مہارت بھی زرخیز اور زیرک ذہنوں کا حصہ ہے،یہاں تک کہ علماء اور ائمہ بھی اس کوچے میں کبھی کبھار نکل آتے ہیں ،چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی داد سخن دیا ہے اور مولانا آزاد نے بھی اس بحر کی غواصی کی ہے،اہل علم کا اس دشت کی سیاحی کرنا اور قابل ذکر کارنامہ انجام دینادراصل اسلام کے صحیح تصور شاعری کی نمائندگی کرتا ہے،مشق سخن جب سالوں کا سفر طے کرتی ہے تو کوئی دیوان یا کوئی مجموعہ ترتیب پاتا ہے،زیر نظر مجموعہ بھی طویل کاوشوں کا حاصل ہے۔

اس صنف ادب کو کس طرح الگ الگ ذہنوں نے اپنی افتاد طبع کا مشق ستم بنایا ہے،یہ سب کچھ عیاں وبیاں ہے،مگر جب اس میدان کے شہسوار علماء دین ہوں،رمز شناسان شرع متین ہوں تو قدریں کیسےنکھرتی ہیں؟الفاظ اور معانی رستے ہوئے زہرکے لیے کس طرح تریاق فراہم کرتے ہیں؟صالح روایات کا وقار کیسےبحال ہوتا ہے؟مزرع زندگی کیسے ہری ہوتی ہے؟شمس کمال انجم کی غزلوں میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے،آپ کے یہاں اگر فن کا کمال ہے تو قدروں کا جمال بھی ہے،لب ولہجہ کا حسن ہے تو تعبیر وبیان کا بانکپن بھی ہے،شگفتگی ہے تو نغمگی بھی ہے،سلاست ہے تو طلاقت بھی ہے،پورے مجموعے میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ادب‌وبلاغت کی جوئے رواں بہہ رہی ہے،کہتے ہیں شاعری صرف لفظی پہلوانی یا تعبیر کی فراوانی کا نام نہیں ہے بلکہ فن ،ادب، تجربہ اور فکر کے طویل مجاہدے کا نام شاعری ہے،شمس الرحمن فاروقی نے بہت اچھی بات کہی ہے:

“کھپریل کی منڈیر پر اونگھتے اور غٹرغوں کرتے مٹیالے کبوتر ہوں یا فضائے بسیط میں پرواز کرتے طائر لاہوتی، شعر کا موضوع اسی وقت بن سکتے ہیں جب ان کا تذکرہ قاری کے ذہن میں تجربے کے کسی سلسلے کو تحریک دے یا معنی خیز امکانات کے دروازے کھولے یا تخیل انگیز قال و اقوال پیدا کرے۔”

“چہرے کے پیچھے کی کہانی”کے تخلیق کار شمس کمال انجم غزل گوئی کے سفر میں ان مراحل فکر و فن سے خوش اسلوبی سے گزرے ہیں،سرورق پر آویزاں یہ شعر شہادت کے لیے کافی ہے جو تخیلات کے بالاخانے سے اتر کر درد وکرب میں لپٹی حقیقتوں کو محسوس کرنے کی دعوت دیتا ہے،خود پڑھ لیں۔

اگر چہرے کے پیچھے کی کہانی تم سمجھ جاؤ

کہاں سے آتا ہے آنکھوں میں پانی تم سمجھ جاؤ

دکھی انسانیت کا کرب الفاظ کے پیرہن میں کیسے بولتا ہے؟اس شعر میں اور نکھار کر حاضر کیا ہے،

مطلع ومقطع ہی کیا ساری غزل ہے زخمی

آدمی درد کے اشعار نظر آتا ہے

آپ نے سماج ومعاشرے کے مسائل، انکہی سچائیوں، رشتوں کے دکھڑوں،دین بے زاری کا المیہ، اخلاقی ناہمواریوں اور سیاست کی طوطا چشمیوں کو موضوعات بنا کر خوب داد سخن دیا ہے،انسان کی اخلاقی تنزلی اور سماجی پستی کو خوب کوسا ہے،ترقی پسند تحریک صحیح معنوں میں اور کیا ہے؟سماج میں اعلی قدروں کی بازیابی کیسے ہوگی؟ اسی اصلاحی داعیہ کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے حق وصداقت کا نقیب بن کر اصلاح وتزکیہ کا عالمانہ اور واعظانہ فریضہ انجام دیا ہے،انقلابی شاعر جانتا ہے کہ ہوا کے رخ پر بہنے کا نام فنکاری اور ترقی پسندی نہیں ہے بلکہ دھارے کے مخالف تیرنا دراصل سچی فنکاری ہے اور ایک صالح ادبی مہم جوئی ہے۔

آپ کی شاعری کلاسیکی ادب کے محاسن کو سموئے ہوتی ہے،آپ نےاچھوتے تشبیہات واستعارات کو ہنرمندی سےبرتا ہے،شاعر کا تخلیقی عزم مشق سخن کرتا ہوا سہل ممتنع اور تلمیح کی سنگلاخ وادی میں بھی آنکلا ہے،الفاظ کی نشست وبرخاست ایسی ہے کہ جیسے تراشے ہوئے نگینے کو خوش اسلوبی سے جڑدیا گیا ہے،خرام یار کی طرح گل کترنے کی ادا کا اظہار ہوتا ہے،انگریزی الفاظ کو بھی اردو کی بساط پر ایسے سلیقے سے نبھایا ہے کہ جیسے چمکیلے ہموار پتھر پر یاقوت وزمرد چن دیا ہو،درج‌ذیل اشعار میں سلیقہ مندی اور ہنرمندی کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔

کٹورے میں سجاکر گڑ کی میٹھی کھیر لائے ہیں

ہم اپنے پن ڈرائیو میں تری تصویر لائے ہیں

ہم آئے ہیں ابھی مل کر کے اپنے ابن سیریں سے

چچا گوگل سے اپنے خواب کی تعبیر لائے ہیں

وحی الٰہی کی مشعل لےکر جب ذہن شعر وسخن کی راہ پر آگے بڑھتا ہے تو ایسے بامقصد اور اعلی اشعار وجود پذیر ہوتے ہیں جو سررشتہ قلب و ذہن کو دینی فضائل سے منسلک کرتے ہیں،پڑھیے اور جھوم جائیے۔

مصیبت کی نظر سے دور رہنے کے لیے اےشمس

وہ ڈیلی کچھ نہ کچھ گلک میں صدقہ ڈال دیتا ہے

ایک دوسرے مقام پر بس اسی‌رنگ میں دینی حوالے کا اظہار بڑی خوش اسلوبی سےکیا ہے۔

استخارہ جو کبھی دل سےکیا ہے میں نے

خواب میں نور کی مانند اشارا نکلا

یہ سچ ہے کہ رومانیت شاعروں کے اعصاب پر سوار ہوتی ہے،وہ اپنی تمام شعری توانائیوں کو عشق ومحبت کے مضامین میں رنگ بھرنےکے لیے بروئے کار لاتے ہیں،آپ کےنگارخانہ ادب میں رومانوی مضامین کا بیش قیمت تحفہ بھی ہے،مگر اعتدال اور ابتذال کے درمیان کے حدفاصل کو ملحوظ رکھا گیا ہے،صحت مندقلم نے کہیں بھی جنسی ترغیبات کی سبز چراگاہ میں منہ نہیں مارا ہے،شفافیت اور پاکیزگی کی وضع باقی رکھتے ہوئے سنبھل سنبھل کر گزرے ہیں،لکھتے ہیں۔

مرا دل جب کسی کے دل پہ دعوی ڈال دیتا ہے

تو اس کے حسن کے دولت پہ پہرہ ڈال دیتا ہے

تعلق کے دریچوں کو محبت سےنہ سیچیں تو

فصل برباد ہوجاتی ہے خوشہ سوکھ جاتا ہے

سیاست کےگلیاروں کے فریب اور ہنگاموں سے کون واقف نہیں ہے؟ شاعروں نے جم کر اپنے کلام میں سیاست کی کھال کھینچی ہے،اپنے اپنے انداز میں اس بدنام زمانہ کوچے کی فتنہ سامانیوں سے پردہ اٹھایا ہے،آپ نے تو سیاست کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دیا ہے،لکھتے ہیں ۔

تمھارے دل میں اگر تھوڑی سی عیاری نہیں ہوگی

تو تم یہ جان لو کہ تم سے سرداری نہیں ہوگی

شاعر عصری آگہی رکھتا ہو تو کلام معاملہ فہمی کا شاہکار ہوتا ہے،ضروری نہیں معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور داؤ پیچ سے ہر کوئی آگاہ ہو،احمد فراز نے اگر یہ کہا ہے کہ “دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا” تو یہ بہتیروں کو رہنمائی اور سنبھل کر قدم‌بڑھانے کاشعور دیتا ہے،شمس کمال انجم صاحب نے بھی معاشرتی زندگی کے رنگ بدلتے رویوں پر کچھ کہا ہے،پڑھ لیتے ہیں ۔

تعلقات نہ رکھو کبھی غرور کےساتھ

پر اپنی جیب میں تھوڑی سی تو انا رکھو

تعلقات کو جو سینچنا ضروری ہے

قریب لوگوں سے بھی فاصلہ ضروری ہے

نگاہ نکتہ رس تشبیہات کی جستجو میں نکلتی ہے تو کہاں کہاں سے چیزیں ڈھونڈلاتی ہے اور انھیں مفید مطلب بنا لیتی ہے اور ایک ہی تشبیہ میں دو طرح سے مطلوب بھی کشید کرلیتی ہے، قاری پڑھے اور سوچتا رہ جائے،واقعی کمال صاحب نے کمال کردیا ہے،لکھتے ہیں۔

کمرہ تو دل کا بس وہی دس فٹ کا ہی رہا

خواہش کا لیکن دوستو دالان بڑھ گیا

میرا اس شخص سے ویسا ہی تعلق ہے اے دوست

جیسے کمرے کا ہوا کرتا ہے دالان کےساتھ

میں سمجھتا تھا سمندر جسے دریا نکلا

آپ کا دل تو بھاڑےکا کمرہ نکلا

قافیہ و ردیف کا رکھ رکھاؤ ،تخیل کی بلند پروازی اور تشبیہ و استعارہ کی نیرنگی یقینا مزہ دیتی ہے لیکن عقیدہ ومنہج کی پیشانی پر سلوٹیں پڑ جاتی ہیں،ایک ایسا شعر بھی نظر آیا ہے۔

پڑھی ہیں جب سےہم نے آیتیں تیری محبت کی

تمھارے حسن کے مصحف پہ ہم ایمان لائے ہیں

شمس کمال انجم صاحب ایک ہمہ جہت صلاحیت کے حامل شخصیت ہیں ،عربی ادب کے ساتھ دوسرے بھی کئی میدانوں میں بہ یک وقت آپ کی خدمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے،آپ کے فکروفن اور علم ومطالعہ،تحقیق وتصنیف کی دنیا ایک طویل سلسلے پر پھیلی ہوئی ہے،آپ خود کہتے ہیں

خطابت ،شعر تدریس تدبر وترجمہ یعنی

ہراک میدان میں ہم ناک نقشہ چھوڑ آئے ہیں

اور

ہمارے جدامجد اور تھے ہم اور ہی شے ہیں

ہم اپنی شخصیت کی منفرد پہچان لائے ہیں

آپ کے علمی سرمائے سے استفادے کی ضرورت ہے،آپ گوناگوں مصروفیات کے باوصف اردو ادب اور شاعری میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں،امید ہے کہ اردو شاعری کو جس طرح آپ اب تک دو مجموعے دے چکے ہیں،سلسلہ جاری رکھیں گے،شعر وسخن کی دنیا کو آپ جیسے سلجھے ہوئے، بلند پایہ اور متین شعراء کی ضرورت ہے،یہ آپ کی خاندانی روایت بھی ہے لہذا باقی رہنی چاہیے۔

آپ کے تبصرے

3000