١-دین اسلام دائمی اور آفاقی مذہب ہے۔ اس کے اندر بھر پور صلاحیت ہے کہ وہ قیامت تک چل سکے۔
لیکن یہ دنیا لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہے اور جو چیز بھی یہاں لانچ کی جاتی ہے وہ تغير پزیر ہوجاتی ہے۔ اس پر زنگ لگ جاتا ہے وہ زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔
حکماء نے کہا کہ ایک سو بیس ( ١٢٠ ) سال میں کسی بھی نظریہ کی شکل بدل جاتی ہے۔ کسی بھی قوم یا سماج کی عمارت اتنی بوسیدہ ہوجاتی ہے کہ ہوائیں اس کو گرا دیں۔
اسی طرح کی بات علامہ ابن خلدون نے حکومتوں کے متعلق کہی ہے کہ تقریباً 120 سال میں حکومتیں ختم ہوکر رہ جاتی ہیں اور اسے کسی مجدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
کیونکہ اجداد جو ٨٠ سے اوپر کے ہیں فنا ہورہے ہوتے ہیں
آباء جو چالیس سال سے اوپر کے ہیں بوڑھے ہورہے ہوتے ہیں
بچے جو چالیس سے کم عمر کے ہیں وہ زندگی کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔
ان نسلوں کا ایک دوسرے سے اتصال ہوتا ہے اور ٹچ میں رہنے کی وجہ سے وراثت ان کی سمجھ میں آتی ہے اور یہ وراثت میں ملے تصورات و مسلمات کی حفاظت کرتے ہیں۔
لیکن ان کے بعد آنے والی نسلوں کو ان سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کا کانسیپٹ بدل چکا ہوتا ہے اور چیزوں کو دیکھنے کا ان کا نظریہ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ بھلا اسی سال سے اوپر کے بوڑھے سے جو کسی نظریے کا معمار تھا ایک نوزائیدہ بچے کا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ اور وہ نوزائیدہ بچہ اپنے نئے ماحول میں تقریباً سو سال پرانے مسلمات کو ٹھیک سے کیسے سمجھ سکتا ہے، وہ کیسے اس کے لیے متعصب ہوسکتا ہے یا اسے لاگو کرسکتا ہے؟
ایسے میں کسی مجدد کی ضرورت ہوتی ہے جو نئے تناظر میں پرانے عقائد کو لوگوں کے دماغوں میں صیقل کرے۔ اسے قابل قبول بنائے۔ جدید دور میں بھی ان کی افادیت ثابت کرے اور نئے سوالات کا جواب دے، نئے اذہان کو مطمئن کردے۔
اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(سنن أبي داود)
عن أبي هريرة – فيما أعلم – عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها۔”
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ ہر سو سال پر اس امت میں ایسے لوگ بھیجے گا جو اس کے دین کی تجدیدِ کریں گے۔
تجدید کا مطلب ہے سنتوں کو زندہ کرنا اور بدعات کو ختم کرنا۔
٢-ریشنلزم( الاتجاه العقلي):
موجودہ زمانہ عقل پرستی کا زمانہ ہے۔ لوگ بر ملا کہتے ہیں کہ جو عقل میں آئے اسے تسلیم کرلو اور جو نہ سمجھ میں آئے اس کا انکار کردو۔ نظریاتی سائنس اور تجرباتی سائنس نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں فہمِ دین کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ زمانہ گھوم گھام کر پھر پہلی حالت پر آگیا ہے۔ زندگی کا معنی پھر سے یہ بیان کیا جانے لگا ہے کہ کھاؤ پیؤ اور مرجاؤ۔ نہ حساب ہے، نہ کتاب ہے، نہ جزا ہے اور نہ ہی سزا۔
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُمْ بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (سورہ جاثیہ: 24)
اور ان لوگوں نے کہا کہ ہماری تو صرف دنیاوی زندگی ہے اور ہم کو گردش زمانہ ہی ہلاک کرتی ہے۔ حالانکہ ان کو اس کا علم نہیں وہ صرف گمان کررہے ہیں۔
٣-نظریاتی سائنس: اسلام نے اللہ کے وجود پر بہت زیادہ گفتگو نہیں کی۔ کیونکہ یہ بدیہی چیز ہے۔ بلکہ نحو کی کتابوں میں اللہ کو اعرف المعارف کہا گیا ہے۔ یعنی پہچانی گئی متعین چیزوں میں سب سے زیادہ واضح شئے۔ یعنی
آفتاب آمد دلیل آفتاب
گر دلیلے بایدت زو رو متاب
سورج خود ہی سورج کی دلیل ہے۔ اگر تم کو دلیل چاہیے تو اس سے منہ نہ پھیرو
لیکن اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے دلیلیں دینی پڑتی ہیں۔
نظریاتی سائنس کا ایک اصول ہے Test of falsification. یعنی غلط نہ ہونے کا ٹسٹ۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ جو بھی دعویٰ پیش کیا جائے اس کے غلط ہونے کا ٹسٹ لیا جائے۔ اور اس ٹسٹ کے لیے ان کے اپنے ضابطے ہیں۔ جو اس پر کھرا اترے اس کو مان لو، جو کھرا نہ اترے اسے رد کردو۔ مزید کہتے ہیں کہ جس دعوے کا test of falsification نہ کیا جاسکے اسے بھی نہ مانو۔
یہ طریقہ استدلال ریشنلزم کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
اور چونکہ وجود باری تعالیٰ اس ٹسٹ کے دائرے میں نہیں آتا اس لیے وہ اسے نہیں مان سکتے۔
٤-تجرباتی سائنس:
سورہ طارق میں ہے: خلق من ماء دافق * يخرج من بين الصلب والترائب
انسان ایک اچھل کر نکلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔
میڈیکل سائنس نے کافی ترقی کرلی ہے۔ اتنی کہ وہ آپ کے بازو کو کاٹ کر جوڑ سکتے ہیں مختلف بیماریوں میں اعضاء کو اسکین اور آپریشن کرنا، ان کا علاج کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ تشریح منافع الاعضاء میں سائنس نے پایا کہ منی(اچھلنے والا پانی) خصیوں میں بنتی ہے۔ اور bladder سے متصل ایک تھیلی میں جمع ہوجاتی ہے جہاں سے مباشرت کے وقت ایک نلکی کے ذریعے عضو تناسل میں آتی اور اچھل کر باہر نکلتی ہے۔
اس واضح تجربے نے اس آیت پر سوالات کھڑے کیے۔
یعنی اس میں پیٹھ یا سینے کا کیا رول ہے؟ اگر منی سے دونوں کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوپاتا تو یہ اللہ کا کلام نہیں۔(نعوذ باللہ)
علماء اسلام نے اس کا دو طرح سے جواب دیا:
1-وہ یہ کہ ریڑھ کی ہڈی میں نروس سسٹم کی کچھ رگیں ہیں جو دماغ کو اعضاء تناسلیہ سے جوڑتی ہیں۔ اگر یہ ڈیمیج ہوجائیں تو Erection اور ejaculation سب میں پرابلم آجائے۔
٢-دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ یخرج کا فاعل ماء دافق نہیں بلکہ انسان ہے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ (موجود embroy سے) نکلتا یعنی پیدا ہوتا اور اس دنیا میں آتا ہے۔ لہذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔
چنانچہ ریشنلزم اور اس کو بنیاد فراہم کررہی تھیوریکل و ایکسپریمنٹل سائنس کے ذریعے جن بدعات اور بد عقیدگی کا ظہور ہورہا ہے ان میں سے صرف دو مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ جو مشتے از خروارے کے قبیل سے ہیں۔ ستم یہ کہ ایسی ہی ہزاروں مثالیں روزانہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔
٥-ساتویں صدی ہجری کے ایک مجدد گزرے ہیں جن کو دنیا ابن تیمیہ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ عقیدہ، حدیث، تفسیر، ادیان کے ساتھ ساتھ فلسفہ و منطق اور علم الکلام کے بھی استاد تھے۔ انھوں نے اہل کلام کو ان کے ہی اصولوں سے غلط ثابت کیا اور فلاسفہ کی وجہ سے جن بدعات کا ظہور ہوا تھا ان کا قلع و قمع کردیا۔ اس باب میں ان کی تصنیف درء تعارض العقل و النقل دیکھنے کے قابل ہے۔
یہ تو ساتویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔ آج پھر ایک ایسے مجدد کی ضرورت ہے جو عقائد و فقہ و سیرت ومغازی قرآن و حدیث کو نئے اعتراضات کی روشنی میں مرتب کرے۔ وہ ان علوم میں ابن تیمیہ کا شاگرد ثابت ہو۔ ساتھ ہی ساتھ نظریاتی و تجرباتی سائنس میں سر ائزک نیوٹن، البرٹ آین اسٹائن، جارج اسٹیفن ہوکنگ کی طرح نالج رکھے۔ اور عقل پرستوں کی وجہ سے جن بدعات کا ظہور ہورہا ہے ان کا توڑ ان کے ہی قواعد کی روشنی میں کرے تاکہ دین کی بنیاد کم از کم آنے والے سو سالوں تک پکی ہوجائے۔ اور بڑا سے بڑا ریشنلسٹ اس کا بال بیکا نہ کرسکے۔ اللہ توفیق دے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
بہت ہی سود مند مضمون۔