شیخ محمدؒ: میرے اور میرے والد کے استاذ

فرحان سعید محمد یعقوب بنارسی تذکرہ

ہمارا آبائی مکان مالتی باغ میں تھا، باگڑ بلی مسجد کے ہم مصلی تھے، ابتداء عمر سے ہی وہیں نمازیں ادا کرتے تھے، کچھ سوجھ بوجھ ہوئی تو امام کو اچک اچک کر دیکھنے لگے۔ میں نے سب سے پہلے شیخ محمد بن عبد القیوم مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا امام پایا، شیخ رحمہ اللہ بھی ہمارے مؤقر اساتذہ میں سے ایک تھے، ۲۳ / رمضان المبارک، بروز سنیچر ۱۴۴۴ھ راہ بقا کو سدھار گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

شیخ محمد رحمہ اللہ کی شخصیت بڑی با رعب تھی، ایام طفلی میں ہم مسجد میں کھیلا کرتے تھے، جب حد سے تجاوز کر جاتے تو آپ کی ایک نگاہ ہمیں سہما دیتی تھی، پھر تو سناٹے کا بسیرا ہوتا تھا۔

آپ رحمہ اللہ کو بچوں کو کھلانے کا بڑا شوق تھا، چھوٹے موٹے ننھے منے بچوں کو بلا کر کھلایا کرتے تھے، آس پڑوس میں کوئی بچہ ہوتا، اسے اپنے یہاں بلا لیا کرتے، دن بھر رکھتے، رات کو پہنچا آتے۔ آپ رحمہ اللہ ہمارے بڑے اچھے پڑوسی بھی تھے، ہر غم خوشی اور سکھ دکھ میں شریک رہتے تھے۔ مجھ ناچیز کو بھی شیخ محمد رحمہ اللہ نے کھلایا ہے، جسے میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔

شیخ محمد رحمہ اللہ بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے، آپ کے والد عبد القیوم رحمہ اللہ خادمِ قوم و ملت تھے، جامعہ سلفیہ کی زمینوں کے مقدمات آپ کے زیر نگیں تھے، حتی کہ آپ کے علاوہ تمام افراد ان تفاصیل سے نا آشنا تھے کہ کن زمینوں پر مقدمات ہیں اور کن پر نہیں۔ آخر میں آپ اتنے مشہور ہوئےکہ آپ کا تعارف ’عبد القیوم بیرسٹر‘ کے نام سے ہونے لگا تھا، جامعہ سلفیہ سے آپ کو بڑی محبت تھی۔ جب آپ نحیف و لاغر ہونے لگے، تب آپ سے مقدموں کی تفصیلات حاصل کی گئیں۔ اللہ مغفرت فرمائے۔

شیخ محمد رحمہ اللہ کی ولادت با سعادت ۱/ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں ہوئی، ابتدائی تعلیم جامعہ رحمانیہ میں حاصل کی، مرحلۂ عالمیت و فضیلت جامعہ سلفیہ بنارس میں طے کیا۔ فراغت کے بعد آپ کی اور شیخ محمد یونس مدنی حفظہ اللہ (سابق شیخ الجامعہ، جامعہ سلفیہ، بنارس) کی تقرری جامعہ رحمانیہ میں ہوگئی تھی۔(بروایت استاذ محترم محمد ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ) شیخ محمد رحمہ اللہ میرے والد کے بھی استاذ تھے، والد محترم نے آپ سے امین النحو پڑھا تھا، لہذا معلوم ہوا کہ آپ فراغت کے بعد بحیثیت استاذ مقرر ہو چکے تھے۔

لیکن رب العالمین کو کچھ اور منظور تھا، سکونتِ مدینۃ النبی ﷺ اور دیدارِ نقوشِ سلف مقدر تھا۔ چنانچہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے منظوری آگئی، آپ مع چند رفقاء سوئے حرم روانہ ہوگئے۔ آپ نے وہاں سے کلیۃ الشریعہ سے لیسانس کی ڈگری حاصل کی اور وطن مالوف لوٹ آئے۔

وطن لوٹنے کے بعد جامعہ فیض عام، مئو میں شعبۂ تدریس سے منسلک ہوگئے، کافی عرصہ خدمات انجام دیں، کئی مہینوں تک وہاں عارضی مکان بھی لیا، لیکن بعد ازاں مئو ناتھ بھنجن کو خیر باد کہہ کر بنارس چلے آئے، اپریل /۱۹۹۲ء میں جامعہ سلفیہ میں مسند تدریس پر رونق افروز ہوئے اور تادم مرگ خدمات انجام دیتے رہے اور طالبان علوم نبوت کی تشنگی بجھاتے رہے۔

شیخ رحمہ اللہ متوسط قد ، معتدل جسم ، صاف رنگ ، نورانی چہرہ ، خوبصورت داڑھی ، لمبی ٹوپی ، آنکھوں پر چھوٹا چشمہ ، نرم گفتار ، خوش خلق ، ملنسار ، حق گو ، خیر خواہ ، مشفق مربی اور ناصح استاذ تھے ۔ شیخ رحمہ اللہ ہمیشہ سفید لباس زیب تن کرتے ، صاف ستھرا اور نظیف و نفیس پوشاک پہنتے تھے ۔ آپ کے کرتا پر میں نے کبھی شکن نہیں دیکھا ، غالبا عطر کے بھی شوقین تھے ۔

شیخ رحمہ اللہ نہایت ہی متقی اور پرہیزگار تھے ، پنج وقتہ نمازوں کے پابند تھے ، عبادت گزار و تہجد گزار تھے ، شب بیداری معمول حیات میں تھی ، سالہا سال اس کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ کئی وقتوں کے امام تھے ، یوں تو عصر اور مغرب کی امامت آپ کے ذمہ تھی ، لیکن ایک طویل عرصے تک فجر کے بھی امام تھے ، فجر بعد جب بھی ہم ٹہلنے نکلتے ، ہمیشہ آپ سے ملاقات ہوتی تھی ، ملتے علیک سلیک ہوتا ، مسکرا کر بولتے اور چل دیتے ۔

تقوی و للہیت کی ایک مثال:

جامعہ سلفیہ میں ہفتہ واری انجمن ہر جمعرات کو منعقد ہوتی تھی ، ہر کلاس کے طلبہ کا وقت متعین ہوتا ہے ، ثانویہ کے لیے ۵ منٹ ، عالمیت کے لیے ۶ منٹ اور کلیات کے لیے ۷ منٹ مقرر تھا ۔ وقت کی تکمیل پر متنبہ کرنے کے لیے امین الخطابہ گھنٹی بجاتا ۔ طلبہ جلدی چھٹی پانے کے لیے جلدی جلدی گھنٹی لگایا کرتے تھے ، لیکن شیخ محمداصول پسند آدمی تھے۔ آپ کا معمول تھا ، آتے ہی اپنی گھڑی میز پر رکھتے ، ہر طالب کا وقت دیکھتے رہتے کہ اسے کتنا وقت دیا گیا ۔ اگر کوئی جلدی لگاتا تو زار و قطار رونے لگتے ، کہتے:’’بیٹا ! آپ لوگ کیوں وقت سے پہلے گھنٹی بجاتے ہیں ، مجھے اللہ کے یہاں حساب دینا ہے۔‘‘ آج آپ کی غیر موجودگی میں ہماری آنکھیں اشکبار ہیں ، دل غمگین ہے ۔ إنا بفراقك لمحزونون !

تواضع آپ کی شخصیت کا جزء لا ینفک تھا ، چھوٹوں کو نظر حقارت سے کبھی نہ دیکھتے ، بڑی عاجزی و انکساری کا رویہ رکھتے ۔ ایک مرتبہ شیخ رحمہ اللہ امتحان حال کے نگراں تھے ، آپ کے ساتھ مولانا فضل الرحمن سلفی حفظہ اللہ (استاذ جامعہ سلفیہ ، بنارس )تھے ، شیخ مولانا فضل کو اپنی کرسی پر بٹھا رہے تھے اور مولانا فضل انکار کررہے تھے ، شیخ نے اصرار کیا تو مولانا فضل الرحمن بیٹھ گئے اور شیخ امتحان گاہ میں گشت لگانے لگے ۔ ( یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا فضل کی نئی نئی تقرری ہوئی تھی)

شیخ رحمہ اللہ بڑے بے باک تھے ، حق گوئی میں کسی کا بھی لحاظ ملحوظ خاطر نہ رکھتے تھے ، چاہے اہل مناصب ہوں یا اہل ثروت ۔ لوگ بھی آپ کے مزاج کو خوب سمجھتے تھے ، اسی لیے آپ کے سامنے ناحق اور خلاف حقیقت باتوں کا تذکرہ نہ کرتے تھے ، اگر کبھی کوئی کردیتا ، تو شیخ ایسا مسکت جواب دیتے کہ وہ جل بھن کر کباب ہوجاتے ۔

شیخ رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات تقریبا چار دہائیوں پر محیط ہے ، ابتدائی چند سال جامعہ رحمانیہ میں ، اس کے بعد کچھ سال جامعہ فیض عام میں، اس کے بعد اکتیس (۳۱)سال کی طویل مدت تک جامعہ سلفیہ میں خدمات انجام دیتے رہے ۔

اس کے علاوہ شیخ نے ’مدیر الاختبار‘ کے منصب کو کئی سال سنبھالا ، تمام طلبہ کے ساتھ منصفانہ رویہ رکھتے تھے ، کسی بھی طالب کے ساتھ قرابت و رفاقت یا رقابت کی وجہ سے نا انصافی نہ کرتے تھے ، آپ کا ہر فیصلہ مبنی پر انصاف ہوتا اور اصولوں کی کسوٹی پر کھرا اترتا تھا ۔ فی الوقت شیخ ’نائب مدیر الاختبار‘تھے ۔

شیخ رحمہ اللہ وفات سے چند روز قبل سے چپ چپ رہنے لگے تھے ، کسی سے زیادہ گفتگو نہ کرتے تھے ، وفات سے قبل مغرب کی امامت بھی کرائی تھی ، تئیسویں (۲۳ویں) شب قدر گھر میں ہی گزاری، سحری کھا کر فجر کی نماز گھر میں ہی ادا کی ، تلاوت قرآن کے بعد دراز ہوگئے ، صبح موت کی سختی ہوئی تو بیٹے بیٹیاں آگئے، لیکن وقت موعود آچکا تھا ، حرکت قلب کے بند ہونے کی وجہ سےعالم لاہوت کو سدھار گئے۔ اللهم اغفر له و ارحمه رحمة واسعة وادخله في الفردوس

آپ کی نماز جنازہ قاری عبد الرحیم سلفی (استاذ شعبۂ حفظ جامعہ سلفیہ )نے پڑھائی ، نماز جنازہ میں تقریبا ڈیڑھ ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے، لوگوں کا ازدحام اتنا تھا کہ لوگ ایک طرف سے جاتے تھے اور دوسری طرف سے لوٹتے تھے ، ایک گھنٹہ تک لوگ مٹی ڈالتے رہے ، دور دراز سے آپ کے شاگردوں نے بھی شرکت فرمائی ، جونپور ، الہ باد ( پریاگ راج )، بھدوہی ، علی گڑھ سے بھی لوگ آئے تھے ۔

پسماندگان میں ۳/ بیٹیاں اور ۲/بیٹے ہیں ، سب الحمد للّٰہ شادی شدہ ہیں بجز مولانا فضالہ کے ۔ بڑےفرزند کا نام حافظ حنظلہ ہے ۔ اور چھوٹے بیٹے کا نام فضالہ ہے ۔ جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل ہیں ، مجھ سے چند سال سینیر تھے ۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ مولانا فضالہ کو اپنے والد کا سچا جانشین اور خلف الرشید بنائے، اور منہج سلف پر قائم رکھے ۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000