سحر کا جال، آبشار خیال

کاشف شکیل تعارف و تبصرہ

بہت دنوں کی بات ہے، شباب پر بہار تھی، فضا بھی خوش گوار تھی، بھلی سی ایک شا‌م میں آج سے تقریبا دس برس قبل میں ندوۃ الطلبہ (جامعہ سلفیہ بنارس) کی لائبریری میں تھا، میں نے مجلہ دی فری لانسر ممبئی پہلی بار وہیں دیکھا، اس مجلے کا جامعہ کے طلبہ میں بہت شہرہ تھا۔ اس کی بے باک صحافت دل کی آواز محسوس ہوتی تھی، مانو روایتی روح جدید پیکر میں آکر ہم سے ہمکلام ہو رہی ہو۔ یہ خوبصورت پیکر ادب کا سنگار کر کے بے حد دلکش لگتا تھا، بلاشبہ اس کی بین السطور کی خموشیاں بھی بولتی تھیں۔ یہاں مسائل پر بات ہوتی تھی اور اس کا حل بھی بتایا جاتا تھا۔ یہاں تنقید کے قوی کبھی مضمحل نہیں ہوتے تھے نہ ہی عناصر بے اعتدالی کا شکار۔
اس مجلے میں ایک نمایاں شخصیت جس کی تحریر اور غزلیں من موہ لیتی تھیں وہ حضرت شعبان بیدار صفاوی کی تھی۔ کسی نثر یا نظم کے سرے پر آپ کا نام ہی دامن دل کھینچنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ اور اسی وقت سے جناب شعبان بیدار میرے پسندیدہ قلمکار بن گئے۔
~ سنا ہے ایک عمر ہے معاملات دل کی بھی
شعبان بیدار صاحب کا اسلوب تحریر مجھے سب سے الگ اس وجہ سے لگا کہ ان کے تخلیق کردہ ادب میں روحانیت کا ہالہ محسوس ہوتا ہے، الفاظ معانی کا نہیں بلکہ احساسات کا پیکر ہوتے ہیں، جملے براہ راست دل پر اثر انداز ہوتے ہیں جیسے الہام ہو رہا ہو۔ کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی شائستہ زبان، نپی تلی تراکیب، جذبات کے سمندر میں بھی آپ حقائق کی کشتی سے نہیں اترتے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اعلی درجے کے فلسفیانہ مباحث بھی آپ بہت خوبصورت اور آسان پیرائے میں پیش کردیتے ہیں کہ قاری کو بآسانی سمجھ آ سکے۔
سب سے نمایاں وصف آپ کی تحریروں میں جو دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر تحریر میں الگ رنگ اور منفرد ڈھنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سماجی موضوعات پر دقیق مشاہدہ ہو یا سیاسی حالات کی تصویر کشی، نت نئے ابھرتے ہوئے مسائل ہوں یا سائنس کے پیدا کردہ جدید وسائل، فقہ النوازل ہو یا معاشرے میں فتنہ و فساد کے عوامل، ہر ایک پر آپ کی تحریر ہمیں مل جاتی ہے، اور ہر ایک میں جو قدر مشترک ہے وہ اسلوب کی سحر انگیزی اور دلکشی۔ اگر کسی کو نئے مسائل پر نئے انداز سے سوچنے کا ہنر سیکھنا ہو تو وہ جناب شعبان بیدار کی تحریریں ضرور پڑھے۔
میرے لیے سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ کے قلم سے نکلی ہوئی یہ موتیاں دی فری لانسر کے بانی مدیر جناب ابوالمیزان نے پرو کر ایک ہار کی شکل میں مرشد پبلی کیشنز کے پلیٹ فارم سے پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ یعنی آپ کے بکھرے مقالات کے مجموعے کی پہلی جلد “آبشار خیال” طبع ہوچکی ہے۔ جناب ابوالمیزان صاحب اس اہم کام کے لیے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔
اس جلد میں جو مضامین شامل اشاعت ہیں وہ انتہائی اہم، حساس اور سنجیدہ مباحث ہیں۔ کچھ موضوعات تو ایسے ہیں جن پر شاید قارئین نے اس سے پہلے کبھی کوئی تحریر ہی نہ دیکھی ہو۔
مثلا کچھ عناوین یوں ہیں : ادب میں ارتداد کی لہریں، نعت رسول کے قابل اعتراض اسالیب، سنگل پیرنٹ، بدکاری کو ملی نئی پیکنگ، ایڈلٹ موویز ایک غیر حقیقی دنیا، جب مائیں بنا لی جائیں گی آیا، اعلی معیار کے کتے، بڑھتی ہوئی پیاس وغیرہ
“آبشار خیال” کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی، ادبی اور سماجی تجزیوں کو ایک ساتھ جوڑتی ہے۔ اس کتاب میں بطور خاص شعبان بیدار صفاوی کا ادبی انداز بہت خوبصورت ہے۔ وہ اپنے مقالات میں موضوعات پر استناد اور گہرائی سے بات کرتے ہیں۔ ان مقالات میں تعلیمی، روحانی اور اخلاقی تجزیے بھی شامل ہیں جو قارئین کو اسلامی دنیا کے مختلف پہلووں پر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
شعبان بیدار صفاوی کے ادبی تبصرے بھی عموماً بہت سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ان کے تبصرے میں عموماً گہرائی، تفکر اور روحانیت کا رنگ محسوس ہوتا ہے۔ “آبشار خیال” کتاب کے ذریعے بلاشبہ قارئین کو دینی، ادبی اور سماجی موضوعات پر شعبان بیدار صفاوی کے مقالات کا لطف اٹھانے کا موقع ملے گا۔ ساتھ ہی ساتھ دوسری اور تیسری جلد کے انتظار کی لذت بھی۔
نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں:9990674503

آپ کے تبصرے

3000