دوسری زندگی

ابوالمرجان فیضی عقائد و نظریات

زندگی رنگ و نور سے بھری پڑی ہے۔ ہر طرف چہچہاہٹ ہے۔زندگی کا شور ہے۔ اپنے جیسے لوگ ہیں۔ جن میں وہ دوست بھی ہیں جن کے بنا چین نہیں۔ وہ بچے ہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ وہ والدین ہیں جو سراپا شفقت ہیں۔ انواع و اقسام کی نعمتیں ہیں جن سے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس لیے سب ہی زندگی کو پسند کرتے ہیں۔

حیات کسے پسند نہیں لیکن ایک زندگی ایسی ہے جس کو زیادہ تر لوگ نہیں پسند کرتے۔وہ َزندگی ہے مرنے کے بعد کی زندگی۔ لوگ اس زندگی کو اس لیے ناپسند کرتے ہیں کیونکہ ان کو مواخذے کا ڈر ہوتا ہے۔ حساب و کتاب کا معاملہ ہوتا ہے۔ جزاء وسزا اور جنت و جہنم کاسامنا کرنا پڑے گا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں جن تین چیزوں کی دعوت دیتے رہے وہ توحید، رسالت اور آخرت تھی۔

آخرت کا مسئلہ اہل ایمان کے لیے مشکل نہیں کہ ان کا سارا عقیدہ ہی ایمان بالغیب پر ہے۔ لیکن جو مشاہدے کے بعد ماننے پر اصرار کرتے ہیں ان کے لیے آخرت پر ایمان آسان نہیں۔

اور جب صورتحال ایسی ہو تو کفار مکہ جیسی معاند قوم بھلا کیسے آخرت کا اقرار کرتی؟

چنانچہ انھوں نے ہر وہ اعتراض کیا جو کرنا ممکن تھا۔

کبھی کہا کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی و ہڈی ہوجائیں گے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کو دوبارہ زندہ کیا جائے؟

أيعدكم أنكم إذا متم وكنتم ترابا وعظاما أنكم مخرجون(المؤمنون:۳۵)

کیا یہ تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈی (کے سوا کچھ نہ رہے گا) تو تم (زمین سے) نکالے جاؤ گے؟

کبھی کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں میں سے کسی کو زندہ کرکے دکھاؤ

فأتوا بآبائنا إن كنتم صادقين(الدخان:۳۶)

پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر) لاؤ؟

قرآن نے ان اعتراضات کا کئی طرح سے جواب دیا ہے۔زیر نظر مضمون میں ان ہی جوابات کا جائزہ لیا جائے گا۔

چنانچہ حيات بعد الممات پر قرآن میں چار چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے:

(۱)مقصدیت

وما خلقنا السماوات والأرض وما بينهما لاعبين

ما خلقناهما إلا بالحق ولكن أكثرهم لا يعلمون( الدخان :۳۸۔۳۹)

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے ان کو کھیل کود کرتے ہوئے نہیں بنایا

ان کو ہم نے با مقصد پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی پیدا ہوتا ہے، کماتا کھاتا ہے اور مر جاتا ہے۔ تو کیا وہ جانوروں کی طرح تلاش رزق، کھانے اور مرجانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟

حال یہ ہے کہ لائف پیریڈ میں وہ جو کچھ بھی کرتا ہے دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ممکن ہے وہ ظالم ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو اور دنیا میں اس سے بدلہ نہ لیا جاسکا ہو۔ اگر وہ مر کر ختم ہوگیا تو اس سے بدلہ کہاں لیا جائے گا؟ اگر آخرت برپا نہ ہو تو یہ تو کھلواڑ ہوگیا۔ زندگی بے مقصد ہوگئی۔

اسی طرح دوسرا شخص ہے جس نے زندگی مظلومیت میں گزاری۔ دنیا میں بدلہ نہیں مل سکا۔ اب اگر آخرت قائم نہ ہوگی تو اسےانصاف کہاں اور کب ملے گا۔ یہ تو اس کے ساتھ مذاق ہوگیا جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اسی لیے آخرت قائم ہوگی اور جزا وسزا کے لیے مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔

(۲)مردہ زمین کو زندہ کرنا

والله الذي أرسل الرياح فتثير سحابا فسقناه إلى بلد ميت فأحيينا به الأرض بعد موتها كذلك النشور(فاطر:۹)

اورالله ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادل کو اُبھارتی ہیں پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں۔ پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتے ہیں۔ اسی طرح مردوں کو جی اُٹھنا ہوگا۔

رزقا للعباد وأحيينا به بلدة ميتا كذلك الخروج(ق:۱۱)

(یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کے لیے (کیا ہے) اور اس (پانی) سے ہم نے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کو زندہ کیا۔ (بس) اسی طرح (قیامت کے روز) نکل پڑنا ہے۔

پودے اور کھیتیاں اگا کر اللہ مردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے۔

آپ مئی کے مہینے میں دیکھیں گے کہ زمین پر دھول اڑ رہی ہو گی۔ کسی پودے کی بیج کا پتہ نہیں ہوگا۔لیکن جب بارش نازل ہوتی ہے تو پتہ نہیں کہاں سے بیج زندہ ہوجاتا ہے اور اس سے پودے اگ آتے ہیں۔

بالکل اسی طرح آدمی جب مرجاتا ہے، سڑ گل جاتا ہے مٹی ہوجاتا ہے تب بھی عجب الذنب(دُم کی ہڈی) کہیں نہ کہیں سلامت رہتی ہے جو پودوں کے بیج کے قائم مقام ہے۔ جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یہ زمین سے ایسے اگیں گے جیسے سبزی اگتی ہے۔ مادر زاد ننگے اور غیر مختون۔ پھر ان کو میدان حشر کی طرف لے جایا جائے گا تاکہ حساب و کتاب ہو اور جزاء و سزا مل سکے۔

حدیث میں ہے:

عن أبي هريرة: ما بينَ النفختينِ أربعونَ، ثُمَّ يُنزِلُ اللهُ منَ السماءِ ماءً فيَنبُتونَ كما يَنبُتُ البقْلُ، وليس مِنَ الإنسانِ شيءٌ إلّا يبلى إلّا عظْمٌ واحدٌ وهُوَ عَجْبُ الذنَبِ، منه خُلِقَ، ومنهُ يُرَكَّبُ يومَ القِيامَةِ.

(بخاری:٤٩٣٥،مسلم:٢٩٥٥)

دونوں نفخوں کے بیچ چالیس( سال ) کا فاصلہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا جس سے لوگ اگیں گے۔ جیسے سبزی اگتی ہے۔ اور انسان کی ہر چیز فنا ہوجاتی ہے سوائے ایک ہڈی کے جسے عجب الذنب کہتے ہیں وہ اسی سے پیدا کیا گیا اور قیامت کے دن اسی سے جوڑا جائے گا۔

(۳)تشکیل نو (Reconstruction)

وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهو أهون عليه وله المثل الأعلى في السماوات والأرض وهو العزيز الحكيم(الروم:۲۷)

اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے پھر اُسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور یہ اس کو بہت آسان ہے۔ اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان بہت بلند ہے۔ اور وہ غالب حکمت والا ہے۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے۔ ایک کارپینٹر ٹیبل بناتا ہے۔ وہ اسے خوبصورت بناتا ہے۔ پھر اسے آرڈر ملتا ہے کہ چند ٹیبل اور بنا دے۔ ہوسکتا ہے پہلی بار بنانے میں اسے مشقت کا سامنا ہو۔ كچھ کمی اور خامی رہ گئی ہو لیکن دوبارہ بنانا اس کے لیے اور آسان ہے۔ تو کیا جس نے پہلی بار پیدا کیا، وہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ یقیناً وہ قادر ہے اور وہ دوبارہ ضرور پیدا کرے گا۔

(۴)بعض انسانوں کو بالفعل زندہ کرکے دکھا دینا

ہوسکتا ہے کچھ لوگ ان دلائل سے پھر بھی مطمئن نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ بالفعل کسی مردے کو زندہ دیکھنا چاہتے ہوں گے۔

ایسے لوگوں کے لیے سورہ بقرہ میں چار واقعات بیان ہوئے جن میں مردوں کو اسی دنیامیں زندہ کیا گیا ہے۔

مردوں کو اسی دنیا میں زندہ کرنا ایک معجزہ ہے، جو ہمیشہ دکھایا نہیں جاتا۔کیونکہ یہ قوانین فطرت کی خلاف ورزی ہے جو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے۔ اوریہ دنیا دیگر بہت سی دلائل سے بھری پڑی ہے جو آخرت پر ان کے ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔ اسی لیے لوگوں کو ہمیشہ معجزہ نہیں دکھایا جاسکتا۔ ہاں اس طرح کے واقعات ‌ضرور بتائے جاسکتے ہیں جو قرآن میں بتادیے گئے ہیں تاکہ لوگ یقین کرلیں۔

مثلاً سورہ بقرہ میں مردوں کو زندہ کرنے کے چار واقعات بیان ہوئے ہیں۔

پہلا واقعہ :

ہم اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں

وإذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة فأخذتكم الصاعقة وأنتم تنظرون۔ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون(البقرة:۵۵۔۵۶)

اور جب تم نے (موسیٰ) سے کہا کہ موسیٰ، جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے، تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے۔پھر موت آ جانے کے بعد ہم نے تم کو ازسرِ نو زندہ کر دیا، تاکہ احسان مانو۔

بچھڑے کی پرستش کے بعد اللہ سے توبہ و معذرت طلب کرنے کے لیے موسی علیہ السلام بنی اسرائیل سے ستر مردوں کو کوہ طور پر لے گئے۔ وہاں انھوں نے مطالبہ کردیا کہ ہمیں اللہ کو دکھاؤ۔ چونکہ یہ نامناسب مطالبہ تھا اس لیے ان پر بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گئے۔ پھر موسی علیہ السلام کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ نے ان کو اسی دنیا میں دوبارہ زندہ کردیا۔

جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔

دوسرا واقعہ :

قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے ذبح کرو۔

فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيي الله الموتى ويريكم آياته لعلكم تعقلون(البقرة:۷۳)

تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو۔ اس طرح الله مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

بنی اسرائیل میں ایک قتل ہوگیا۔ اور مقتول کے بھتیجے نے چچا کے دشمنوں پر قتل کا الزام لگادیا۔ لیکن وہ لوگ انکار کررہے تھے۔ حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا کوئی ٹکڑا مقتول پر مارو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ مقتول جی اٹھا اور اس نے بتایا کہ میرے دشمن معصوم ہیں میرا اپنا بھتیجا ہی میرا قاتل ہے۔ پھر دوبارہ مرگیا۔

یہ بھی اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔

تیسرا واقعہ : ہلاک شدہ بستی کیسے آباد ہوگی

عزیر

أو كالذي مر على قرية وهي خاوية على عروشها قال أنى يحيي هذه الله بعد موتها فأماته الله مائة عام ثم بعثه قال كم لبثت قال لبثت يوما أو بعض يوم قال بل لبثت مائة عام فانظر إلى طعامك وشرابك لم يتسنه وانظر إلى حمارك ولنجعلك آية للناس وانظر إلى العظام كيف ننشزها ثم نكسوها لحما فلما تبين له قال أعلم أن الله على كل شيء قدير(البقرة:۲۵۹)

یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جس کا ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاقاً گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ اللہ اس ( کے باشندوں ) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو اللہ نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ ( مرے ) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔اللہ نے فرمایا ( نہیں ) بلکہ سو برس ( مرے ) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ ( اتنی مدت میں مطلق ) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو ( جو مرا پڑا ہے ) غرض ( ان باتوں سے ) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے ( اپنی قدرت کی ) نشانی بنائیں اور ( ہاں گدھے ) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر ( کس طرح ) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

جب بخت نصر نے بیت المقدس تاراج کردیا تو عزیز علیہ السلام کا اس پر گزر ہوا۔ انھوں نے افسوس سے سوچا کہ اب یہ بستی نہیں بسے گی۔ ایسا سوچتے ہی اللہ نے ان کو وفات دے دی وہ سو سال تک مرے پڑے رہے۔ پھر جب زندہ ہوئے تو بیت المقدس آباد ہوچکا تھا۔

یہ واقعہ بھی دلیل ہے کہ اللہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔

چوتھا واقعہ : تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟

وإذ قال إبراهيم رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي قال فخذ أربعة من الطير فصرهن إليك ثم اجعل على كل جبل منهن جزءا ثم ادعهن يأتينك سعيا واعلم أن الله عزيز حكيم(البقرة:۲۶۰)

اور جب ابراہیم نے (اللہ سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ اللہ نے فرمایا کیا تم نے (اس بات پر ) یقین نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں)کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔

اس واقعہ میں تفسیر ابن کثیر میں وارد ہے کہ چار مختلف پرندے لیے ان کو ذبح کیا۔ سر اپنے میں لیا اور جسم کی بوٹی بوٹی کرکے ایک دوسرے میں ملا چار مختلف پہاڑوں پر رکھ دیے۔ اور جب نام لے کر بلانا شروع کیا ان کی بوٹیاں آپس میں مل کر سر سے جڑ گئیں اور ہر پرندہ زندہ ہوگیا۔

یہ واقعہ بھی دلیل ہے کہ اللہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے۔ وہ قیامت کے دن سب کو زندہ کرے گا اور میدان حشر میں جمع کرے گا پھر سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

اللهم حاسبنا حسابا يسيرا

آپ کے تبصرے

3000