مذکورہ کتاب، مؤلف اور محقق تینوں ہی اہل علم کے لیے محتاج تعارف نہیں۔ اپنے اپنے میدان میں ہمیں تینوں ہی اوج ثریا پر نظر آتے ہیں۔
”ذمیوں کے احکام ومسائل“ پر امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ سے پہلے اور بعد میں متعدد علما نے کتابیں تصنیف کیں، لیکن جو مقام ومرتبہ اور شرف قبولیت امام ابن قیم کی اس کتاب کو حاصل ہوا وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا۔ افسوس کہ آج پوری کتاب ہمارے پاس موجود نہیں، اور اس کا آخری حصہ مفقود ہے، اس کے باوجود یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک بے نظیر کتاب ہے۔ اس موضوع پر لکھنے پڑھنے والا اس سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔
شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ اور شیخ نبیل نَصَّار سندی حفظہ اللہ کی مشترک تحقیق سے یہ کتاب دو ضخیم جلدوں میں دار عطاءات العلم اور دار ابن حزم بیروت لبنان کے مشترکہ پلیٹ فارم سے چھپی ہوئی ہے۔
اس ایڈیشن سے پہلے مارکیٹ میں اس کی متعدد تحقیقات وجود میں آ چکی تھیں، اس کے باوجود شیخین فاضلین نے اس کی تحقیق کا بیڑا کیوں اٹھایا اپنے مقدمہ میں انھوں نے اس کا بالتفصیل تذکرہ کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اب تک جتنی تحقیقات مارکیٹ میں موجود تھیں کسی میں اس کے اکلوتے اصل قلمی نسخے پر اعتماد نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ اس اصل نسخے سے نقل شدہ نسخوں پر اعتماد کیا گیا تھا۔ اور ان میں بہت زیادہ غلطیاں موجود تھیں۔ اب تک کی سب سے اچھی تحقیق ڈاکٹر صبحی الصالح رحمہ اللہ کی تحقیق مانی جاتی تھی، جو کہ دار العلم للملایین بیروت لبنان سے چھپی ہوئی ہے۔ اس میں خود ڈاکٹر صبحی الصالح رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اس کے مخطوط میں بے شمار غلطیاں، تحریف اور سقط موجود ہیں۔ اس لیے نئے سرے سے اس کی تحقیق کی واقعی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جسے شیخین نے بحسن وخوبی پورا کیا ہے۔
کتاب کے شروع میں شیخین کا یہ مقدمہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے، اور اس میں تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے والوں کے لیے سیکھنے کی بہت ساری چیزیں موجود ہیں۔
کسی کتاب کی تحقیق کے وقت محقق اپنے مقدمہ میں کن کن چیزوں کے بیان کرنے کا اہتمام کرے یہ ”اس مقدمہ“ سے سیکھنا چاہیے۔
اس مقدمہ میں شیخین فاضلین نے کتاب کے عنوان، مؤلف ابن قیم کی طرف اس کی نسبت کی تحقیق، اس کا موضوع، اور اس موضوع پر لکھی گئی دیگر مؤلفات، اہمیت، مسائل کی ترتیب، اسے تیار کرنے میں مؤلف نے کن کتابوں سے استفادہ کیا ہے، بعد کی کتب پر اس کا کیا اثر رہا، قلمی نسخوں کا حال، سابقہ طبعات، اور اس کی تحقیق میں اپنا منہج بالتفصیل قلم بند کیا ہے۔
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کے اشراف میں محققین کی ایک ٹیم نے ابن قیم رحمہ اللہ کی کتب کی تحقیق کا گراں قدر کام انجام دیا ہے، جو کہ امت پر ان کا بہت بڑا احسان ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ اس تحقیقی ٹیم کے ایک معزز رکن تھے۔ اس پروجیکٹ کے تحت اس ٹیم نے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کل چونتیس(34) کتابوں کی تحقیق کی ہے، جن میں سے اکثر دار عالم الفوائد سے چھپی ہوئی ہیں۔ ان 34 کتابوں میں سے یہ کتاب سب سے آخر میں تحقیق کی گئی۔ بلکہ جان بوجھ کر اس کی تحقیق کا کام ٹالا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اکلوتا قلمی نسخہ مدرسہ محمدیہ چنئی(مدراس)، انڈیا میں موجود تھا۔ اور اس کے مالک کسی طور پر اس کی تصویر کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ صرف بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت تھی۔ تصویر کے لیے انھیں منانے کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ انھیں منانے کے لیے دوبار وہاں جاچکے تھے، لیکن کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا تھا۔ جب اس پروجیکٹ کی تمام کتابوں کی تحقیق مکمل ہوگئی تو ذمہ داران نے فیصلہ کیا کہ آپ تیسری بار مذکورہ مکتبہ جائیں اور وہاں جا کر مطبوعہ نسخے سے اس کے تقابل کا کام انجام دیں۔ چنانچہ آپ بیس سال بعد جمادی الاولی سنہ1440 میں وہاں تیسری بار تشریف لے گئے اور ایک مہینہ رہ کر یہ اہم فریضہ انجام دیا۔ بلکہ اس بار مکتبہ کے ذمہ داران نے موبائیل سے مختلف صفحات کی تصویر کی اجازت بھی دے دی۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیخ رحمہ اللہ اس کتاب کو بہتر سے بہتر صورت میں قارئین کے سامنے پیش کرنے کے لیے کس قدر فکر مند تھے، اور اس کے لیے آپ نے کتنے صبر وتحمل سے کام لیا۔ اللہ انھیں اس کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
کسی کتاب کی تحقیق کا سب سے اہم کام ہوتا ہے متنِ کتاب کو مؤلف کے لکھے ہوئے متن کے قریب ترین صورت میں پیش کیا جائے۔ ساتھ ہی مختلف ناحیے سے اس کی علمی خدمت بھی کی جائے تاکہ قاری اس سے کما حقہ استفادہ کرسکے۔ گرچہ اس کا درجہ تدوین متن کے بعد ہے، لیکن یہ بھی جزءِ لا ینفک کی طرح ہے۔
کسی کتاب کی تحقیق کی کوالیٹی متعین کرنے کے لیے یہی بنیادی معیار ہے جس پر اسے پرکھا جاتا ہے۔
جہاں تک پہلے جزء یعنی اثباتِ متن کی بات ہے تو میدان تحقیق میں محقق کی مہارت کے ساتھ ساتھ کتاب کے قدیم و نفیس قلمی نسخوں پر اعتماد بھی اس میں رسوخ اور قوت عطا کرتا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ اور ان کی اس کتاب کی تحقیق میں ہمیں بہ درجہ اتم نظر آتی ہیں۔ شیخ جہاں اس دور میں اس فن کے امام تھے، وہیں انھوں نے کتاب کے سب سے قدیم وعمدہ قلمی نسخے پر اعتماد کیا تھا۔ اس لیے تدوینِ متن کے متعلق بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولفِ کتاب کے متن کے قریب ترین صورت میں اسے پیش کرنے میں شیخ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس لیے اس ایڈیشن کا متن موجودہ طبعات میں سے ان شاء اللہ سب سے معتمد متن ہے۔
جہاں تک نصوص کتاب کی خدمت کی بات ہے تو اس میں مزید بہتری کی گنجائش باقی ہے۔ خصوصا نصوص کتاب کی سیٹنگ، مشکل کلمات کے ضبط، غریب الفاظ کی شرح، احادیث وآثار کی تخریج میں بعض مقامات پر تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
چونکہ کتاب کی تحقیق میں صرف ایک قلمی نسخے پر اعتماد کیا گیا ہے اس لیے حاشیہ میں نسخوں کے فروق کے ملنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس کے باوجود بے شمار جگہوں پر قارئین کو یہ چیز نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ نے ڈاکٹر صبحی الصالح رحمہ اللہ کی تحقیق سے چھپے ہوئے نسخے پر اس کے اصل قلمی نسخے کا تقابل کیا تھا، اور جہاں کہیں بھی کوئی فرق نظر آیا تھا اسے نوٹ کرلیا تھا، کتاب کی طباعت کے وقت بھی ان فروق کو باقی رکھا گیا ہے، جس سے قارئین آسانی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ڈاکٹر صبحی الصالح رحمہ اللہ کی تحقیق جو کہ اب تک کی سب سے اچھی تحقیق مانی جاتی تھی اس میں کتنی غلطیاں موجود تھیں۔
اللہ تعالی شیخ رحمہ اللہ کی اس تحقیق کو اور دوسری تمام علمی خدمات کو قبول فرمائے، اور ان سے اہل علم کو کماحقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کے تبصرے