سفر ہے شرط……(کاروان سلف کی دسویں جلد کے حوالے سے)

سہیل انجم تعارف و تبصرہ

سفر کو وسیلہ ظفر کہا گیا ہے۔ سفر کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات اور بات چیت ہوتی ہے۔ تجربات و مشاہدات ہوتے ہیں۔ مسافر کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ دل و دماغ کے بند دریچے کھلتے ہیں اور معلومات کی تازہ ہوائیں طبیعت میں فرحت و انبساط کا سبب بنتی ہیں۔ سفر جسمانی بھی ہوتا ہے اور روحانی بھی۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک اور سفر بھی ہے جس پر لوگوں کی نظر کم ہی جاتی ہے اور وہ سفر ہے تصنیف و تالیف کا، تحقیق و جستجو کا۔ اس سفر میں بھی نئے نئے پڑاؤ آتے ہیں۔ نئے نئے لوگوں سے شرف ملاقات ہوتی ہے اور نئے نئے تجربات و مشاہدات ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا عبد الرؤف خاں ندوی نے ایک سفر کا خواب دیکھا اور اس خواب کو تعبیر سے ہم آغوش کرنے کے جتن شروع کر دیے۔ حالانکہ انھوں نے ابتدا میں یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ جس سفر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں وہ مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے۔ بلکہ انھوں نے بقول خود ”سلفی رجال اور عظیم شخصیات کے حالات زندگی کے بارے میں ایک جامع کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیا تھا“۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بہت ہی مبارک ساعتوں میں یہ خواب دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا سفر صرف ایک کتاب کے پڑاؤ تک محدود نہیں رہا بلکہ انھوں نے ”لگا رہا ہوں مضامین نو کے میں انبار“کے مانند کتابوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگانے شروع کر دیے ۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ اب صرف انہی کا سفر نہیں رہ گیا بلکہ اس کارواں میں بے شمار لوگ شریک ہوتے چلے گئے۔ اب یہ بہت بڑا قافلہ بن چکا ہے اور مسلسل رواں دواں ہے۔ اب یہ پوری جماعتِ سلف کا سفر بن چکا ہے۔

انھو ں نے 2011 میں اس سفر کا آغاز کیا اور 2013 میں وہ اس کی پہلی منزل پر پہنچے۔ یعنی کاروان سلف کی پہلی جلد اسی سال شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔ اس پہلی جلد میں ساٹھ سے زائد شخصیات کے تذکرے، سوانح اور حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں اور اس پہلی جلد کی ضخامت 416 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد مولانا ندوی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ منزلوں پر منزلیں سر کرتے گئے اور اس طرح انھوں نے اس سفر کی دس منزلیں عبور کر لیں اور اب وہ گیارہویں منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر کثرت استعمال سے بہت پامال ہو چکا ہے لیکن پھر بھی اسے استعمال کرنا ہی پڑتا ہے۔ شعر یوں ہے کہ:سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے، ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں۔ مجروح سلطانپوری نے اسی خیال کو ذرا دوسرے انداز میں باندھا ہے۔ ان کا شعر ہے کہ:میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ مولانا عبدالرؤف خاں ندوی نے جب اس سفر کو شروع کیا ہوگا تو پتہ نہیں ان کے سامنے یہ دونوں شعر رہے ہوں گے یا نہیں لیکن اب یہ شعر ان پر اس طرح صادق آتے ہیں کہ انھیں ان کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے اس جذبے کی قدر کرنے والے بے شمار لوگ سامنے آگئے ہیں۔ اب یہ سفر چلچلاتی دھوپ کا سفر نہیں رہا بلکہ اب اس کی راہ میں جانے کتنے شجر سایہ دار کھڑے ہو گئے ہیں۔

انھوں نے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں سوچی ہوگی کہ وہ جس سلسلے کا آغاز کرنے جا رہے ہیں اس میں اتنی برکت ہوگی کہ وہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے اس کام کی اتنی پذیرائی ہوگی یا اس طرح لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھیں قدم قدم پر سہارا دینے والے موجود ہیں۔ اور یہ سہارا ہر قسم کا ہے کسی ایک قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر مولانا ندوی تھک ہار کر بیٹھ جائیں تو پھر ان کی طرف کوئی بھی اپنا ہاتھ دراز کرنے والا نہیں ہو گا۔ اس پیرانہ سالی اور خرابی صحت کے باوجود ان میں جو جوش و جذبہ ہے وہ جوانانِ پرعز م کو بھی مات دیتا نظر آتا ہے۔ اگر ان کا جذبہ جوان اور ان کی نیت میں خلوص نہیں ہوتا تو کاروان سلف کی دس جلدیں زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوئی ہوتیں۔ یہ کارنامہ کم نہیں کہ یہ دس جلدیں مجموعی طور پر ساڑھے پانچ ہزار صفحات کو محیط ہیں اور ان دسوں جلدوں میں تقریباً ساڑھے پانچ سو شخصیات کے تذکرے قلمبند ہوچکے ہیں۔ گیارہویں جلد کا مسافر پا بہ رکاب ہے اور امید ہے کہ وہ بھی عنقریب اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ ان جلدوں کی اشاعت پر خرچ ہونے والا سرمایہ الگ ہے۔ اس پر الگ سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔

مولانا عبد الرؤف خاں ندوی اور ان کے سلسلے کاروان سلف سے میرا گہرا رشتہ ہے۔ لیکن اس میں میری کم اور مولانا کی سعی مسلسل کا زیادہ دخل ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں ہر جلد پر اظہار رائے کروں۔ لیکن یہ ممکن نہیں۔ پھر بھی ”خیالِ خاطرِ احباب“کے تحت کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے۔ کاروان سلف کی پہلی جلد آنے تک میں ان سے ناواقف تھا۔ لیکن انھوں نے میرے پاس ایک نسخہ بھجوایا اور پھر جو رشتہ قائم ہوا وہ نہ صرف یہ کہ برقرار ہے بلکہ اس میں پختگی آتی چلی جا رہی ہے۔ میں انتہائی کم علم اور بے مطالعہ شخص ہوں لیکن مولانا کا حسن ظن مجھے خود کو بے علم سمجھنے سے روکے رہتا ہے۔ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میں مضامین کی حصولیابی میں تعاون پیش کرتا ہوں جسے وہ محبت آمیز انداز میں قبول کر لیتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ دسویں جلد میں چار مضامین تو ناچیز کے ہی تحریر کردہ ہیں اور تین مضامین میں کسی نہ کسی طرح اس کا تعاون شامل رہا ہے۔ گیارہویں جلد میں بھی مضامین کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ تعاون موجود ہے۔ حالانکہ ایک ہی جلد میں کسی ایک شخص کے اتنے مضامین شامل اشاعت نہیں ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ مولانا ندوی کی محبت ہے جو وہ اس قدر مہربان ہیں۔ حالانکہ ان کا تو کہنا یہ ہے کہ ہمیں ان مضامین کی ضرورت تھی خواہ وہ کسی کے بھی تحریر کردہ ہوتے۔ لیکن بہرحال میں اسے ان کی خردنوازی سمجھتا ہوں۔

مولانا ندوی کی خواہش تھی کہ میں دسویں جلد پر بھی اپنی رائے دوں۔ لیکن اپنے ہی تحریر کردہ کئی مضامین کے شامل اشاعت ہونے کی وجہ سے میں کتراتا رہا۔ لیکن بھلا مولانا ندوی جس کو پکڑ لیں وہ ان کی گرفت سے آزاد ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ ان پختہ عزائم والے لوگوں میں شامل ہیں کہ جو ٹھان لیتے ہیں وہ کر کے چھوڑتے ہیں۔ بہرحال ہمیشہ کے مانند اس جلد کے بھی بیشتر مضامین قابل مطالعہ ہیں۔ خاص طور پر ڈپٹی کلکٹر سید احمد حسن محدث دہلوی پر راشد حسن مبارکپوری، مولانا عبد الغفور بسکوہری پر ڈاکٹر شمس کمال انجم، علامہ محمد حنیف ندوی اور علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی پر علامہ عبد الحمید رحمانی، مولانا سید عبد السمیع جعفری پر مولانا عاشق علی اثری اور ڈاکٹر حامدالانصاری انجم پر مولانا ابوالوفا کے مضامین نئے گوشوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

مولانا عبد الحمید رحمانی کے دونوں مضامین جہاں دونوں شخصیات کی زندگی بھرپور روشنی ڈالتے ہیں وہیں جمعیت و جماعت اہل حدیث کے سلسلے میں بھی بہت سی تفصیلات اور اس حوالے سے دونوں شخصیات کی خدمات کو بھی سامنے لاتے ہیں۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مولانا رحمانی جماعت اہل حدیث کی تاریخ کا گہرا علم رکھتے تھے اور ان میں ایسی جماعتی غیرت تھی کہ اس کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اس سلسلے میں انتہائی جرأت تمند تھے اور اپنی بات بےباکی کے ساتھ کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ انھوں نے علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی پر تحریر کردہ اپنے مقالے میں ایک جگہ اس جذبے کا برملا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”مشہور جاہل اور بداندیش بادشاہ اکبر کے بپا کردہ فتنہ ارتداد سے لے کر مہدویت، قادیانیت، عقلیت پرستی، نیچریت، انکار حجیت حدیث، شدھی سنگٹھن، فتنہ خاکسار، تصوف، قبرپرستی اور تشکیک فی الحدیث وغیرہ دسیوں فتنے تھے جو اسلام اور اس کی ستھری تعلیمات، پاکیزہ عقائد اور اس کے دونوں اساسی سرچشموں قرآن و حدیث کے خلاف بپا کیے گئے، جن کی بیخ کنی کے لیے اللہ کی توفیق اور اس کی مدد سے تحریک اہل حدیث نے ہر عصر میں وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمہ گیر جد و جہد کی“۔

ایک شخصیت پر میری نظر پڑی تو ٹھہر گئی۔ اس شخصیت کا نام ہے حافظ عبد الکریم مسلم مصنف دیوان گلشن ہدایت۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہم نے عہد طفلی میں اپنے گھر میں دیوان گلشن کا ایک نسخہ دیکھا تھا۔ وہ مطبوعہ نسخہ نہیں بلکہ مخطوطہ تھا اور اس کی کتابت ہمارے دادا جناب جان محمد انصاری نے کی تھی۔ انھوں نے ریڈی میڈ روشنائی کے بجائے خود اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی ہلکی سیاہ روشنائی سے کتابت کی تھی۔ انھوں نے خود ہی اس کی جلد بندی بھی کی تھی۔ یہ بات ہماری والدہ نے ہمیں بتائی تھی۔ ان دنوں یعنی آج سے تقریباً پچپن ساٹھ سال قبل خود ہمارے گاؤں میں ایسے کئی افراد موجود تھے جن کو دیوان گلشن کے اشعار ازبر تھے۔ خود ہمارے والد کو بھی اس کے بیشتر اشعار یاد تھے۔ میں نے بھی جستہ جستہ اس کو پڑھا تھا۔ لیکن وائے افسوس ہمارے گھر میں بہت سی نادر و نایاب کتابوں کے ساتھ وہ گراں قدر مخطوطہ بھی جانے کیسے فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ کاش وہ اور اس طرح کی دیگر نادر کتب مل جاتیں تو ہم انھیں منہ مانگی قیمت میں خرید لیتے۔ اس جذباتی تعلق کی وجہ سے میں نے سب سے پہلے اسی مضمون کو پڑھا اور صاحب دیوان گلشن سے عقیدت میں اضافہ ہو گیا۔ اس کے لیے شیخ مطیع اللہ سلفی شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ مولانا عبد الرؤف خاں ندوی بھی شکریے کے حقدار ہیں۔ شیخ مطیع اللہ سلفی نے اپنے مضمون میں دیوان گلشن کی مقبولیت کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ”دیوان گلشن ہدایت کو اللہ نے بڑی مقبولیت عطا فرمائی۔ اسے بہار کی مسدس حالی سمجھنا چاہیے۔ اشاعت سے پیشتر ہی گھروں کی پردہ نشین خواتین کو بھی اس کے اشعار ازبر ہو گئے تھے اور اس کے اشعار زبان زد خاص و عام ہو گئے تھے۔ شمالی بہار، نیپال اور مشرقی یوپی میں یہ دیوان بہت مشہور و معروف ہو چکا تھا“۔

اسی طرح مولانا ابولوفا نے ہمارے والد ڈاکٹر مولانا حامدالانصاری انجم پر جو مضمون قلمبند کیا ہے اس میں کئی ایسی باتیں ہیں جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہیں۔ بالخصوص ایک بریلوی عالم دین سے ایک ایسے مناظرے کے بعد جو ہوا ہی نہیں تھا ان کے کئی جانی دشمن پیدا ہو گئے تھے اور انھیں محافظوں کے جلو میں باہر نکلنا پڑتا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کر دوں تاکہ جنھوں نے وہ مضمون نہیں پڑھا انھیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ”ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی“۔

مولانا ابوالوفا لکھتے ہیں کہ ”لوہرسن (ہمارے گاؤں کرنجوت عرف لوہرسن بازار سے متصل گاؤں) میں ایک بڑی تعداد بریلوی حضرات کی ہے۔ ان لوگوں نے (مولوی)حشمت علی پیلی بھیتی کا پروگرام رکھا۔ علاقہ و جوار کے لوگ کافی تعداد میں شریک اجلاس تھے۔ انجم صاحب بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ شریک اجلاس ہوئے۔ بڑا شاندار اسٹیج سجایا گیا تھا۔ حشمت علی کی تقریر شروع ہوئی۔ انجم صاحب اپنے اہل حدیث ہمراہیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھے۔ خطبہ کے بعد سورۃ الکوثر پڑھ کر مولوی حشمت علی نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور اہل حدیثوں اور وہابیوں پر طنز و تعریض لگائی۔ گالی گلوج بھی کی۔ انجم صاحب نے برجستہ کہا مولانا دیکھ کر یہاں پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں۔ پیلی بھیتی صاحب اور جوش میں آگئے اور بہت کچھ اول فول بکنے لگے۔ انجم تاباں کہاں کے رکنے والے۔ زوردار لفظوں میں آواز لگائی۔ پھر کیا تھا ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مارو بھگاؤ کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ایک شور بپا ہو گیا۔ وہ لوگ (دیوبندی حضرات)جو انجم صاحب کو لے گئے تھے بھاگ گئے۔ کسی کا اتا پتا نہیں تھا۔ ہلہ بول میں کوئی قالین لے کر بھاگا، کوئی اسٹیج کی کرسی لے اڑا اور پیلی بھیتی کو ان کے گرگے چھپا کر لے گئے۔ انجم صاحب اپنے احباب کے جلو میں کرنجوت آگئے۔ اس کے بعد ان کی جان کے لالے پڑ گئے۔ حال یہ تھا کہ انجم صاحب پندرہ بیس آدمیوں کی سیکورٹی میں چلتے تھے۔ اسی موقع پر آپ نے نظم ”آئینہ بدعت“لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔ مخالفین کا پارہ اور چڑھ گیا اور انجم صاحب کو براہ راست جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ لیکن جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے“۔

”آئینہ بدعت“ کا قصہ یہ ہے کہ وہ محض آٹھ صفحات کا ایک شعری مجموعہ ہے جس میں اسی عنوان کے تحت مسدس فارمیٹ میں ایک بڑی نظم اور’رضا خانی چیلے،فراموشیاں اوربدعتی مسلماں‘ کے زیر عنوان تین چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں۔ مجموعے کی پشت پر ایک اعلان ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد ”جنازہ بدعت“نام کا شعری مجموعہ شائع کیا جائے گا۔ آئینہ بدعت اگر ایٹم ہے تو جنازہ بدعت ہائڈروجن بم ثابت ہوگا۔ لیکن اس مختصر ترین مجموعے کو پورے ملک کا کوئی بھی پریس شائع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بالآخر حضرت مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری کے سفارشی خط پر دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے پریس نے اسے شائع کیا۔ لیکن مجموعہ گھر پہنچنے کے دوسرے روز ہی ایک تار آیا کہ جہاں پریس کا نام درج ہے اسے بلیڈ سے کاٹ دیجیے ورنہ پریس ضبط ہو جائے گا۔ لہٰذا اس جگہ کو بلیڈ سے کاٹا گیا۔ وہ شعری مجموعہ واقعی ایٹم بم تھا۔

مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ”90 کی دہائی میں بریلی اور مضافات بریلی کے قصبوں، دیہاتوں اور گاؤوں میں ایک سجادہ نشین کی مکہ مکرمہ سے دربدری کے نتیجے میں جو وبال آیا تو اس کی چپیٹ میں سارا علاقہ ہی آگیا۔ علاقہ کے فسادی ملاؤں کے علاوہ باہر کے ماہرینِ گالی گلوج اور فاضلانِ سب و شتم نے وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ اہل توحید کے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا۔ تقریروں کے علاوہ نظموں میں دن رات نئے نام، نئے الزام اور نئے بہتان۔ پریشان ہو کر میں نے ایک بچے کو تیار کیا اور انجم صاحب کی اس مسدس کو دو تین جلسوں میں پڑھوا دیا اور اعلان کروایا کہ اگر یہ حضرات باز نہیں آئے تو ہر جلسہ میں یہ نظم پڑھوائی جائے گی۔ الحمد للہ والمنۃ اس نظم نے وہ کام کیا جو زہرز دہ کی شفایابی کے لیے تریاق کام کرتا ہے۔طوفان تھما ہی نہیں بلکہ نظموں میں بد کلامیاں، بد زبانیاں سب چھو منتر ہوگئیں“۔ آج بھی اس نظم کی بڑی مانگ ہے لیکن حالات کی ناسازگاری یا تبدیلی حالات کی وجہ سے ہم لوگ اس نظم کی تشہیر نہیں کرتے۔

بہرحال مجموعی طور پر دسویں جلد بھی ہمیشہ کے مانند بڑی گراں قدر اور معلومات افزا ہے۔ 512 صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ نہ صرف یہ کہ لائق مطالعہ ہے بلکہ تمام اہل علم کی لائبریریوں کی زینت بننے کا حقدار ہے۔ البتہ اس جلد سے غم و اندوہ کی ایک خبر بھی ملی۔ یہ خبر مولانا ندوی کے صاحبزادے عزیزم محمد اقبال کی اچانک موت سے متعلق ہے۔ مولانا ندوی نے اچھا کیا جو مجموعہ کے آخر میں اس کی اطلاع فراہم کر دی۔ تاکہ قارئین کاروان سلف ان کے حق میں دعائے خیر کر سکیں۔ اللہ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مولانا ندوی کو اس پیرانہ سالی میں اس غم و الم کے بوجھ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
شمیم عرفانی

ما شاء الله تبارك الرحمن

بہت خوبصورت اور وقیع تحریر ، چشم کشا اور دل آویز تبصرہ
آئینہ بدعت کا ذکر جمیل بھی سونے پر سہاگہ ، یہ پوری پوری نظم میرے والد محترم مولانا عرفان اللہ ریاضی رحمہ اللہ نے اپنی مخصوص ڈائری می بدست خویش لکھ رکھی تھی میں نے یہ نظم بچپن میں متعدد بار کئی مواقع پر پڑھی ہے نظم کا مطلع بھی خوب تر تھا
یہ بدعتی مسلماں کافر ہیں بلکہ اکفر
قبروں کو پوجتے ہیں مشرک سے بھی ہیں بدتر
۔
اللہ میرے استاذ محترم رحمہ اللہ کو غریق رحمت فرمائے اور فردوس اعلی کا مکین بنائے۔۔۔آمین۔