وہ افتخار بزم افاضل نہیں رہا (شیخ محمد بن عبدالقیوم مدنی بنارسی کی یاد میں)

اسعد اعظمی تذکرہ

۱۵؍اپریل۲۰۲۳ء مطابق ۲۳؍رمضان۱۴۴۴ھ کو صبح دس بجے جب یہ خبر ملی کہ شیخ محمد صاحب مدنی بنارسی اس دنیائے دوں کو چھوڑ کر عالم جاودانی کی طرف رخت سفر باندھ چکے ہیں تو دل اس خبر کو قبول کرنے اور برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ سوچا کہ ہوسکتا ہے کوئی غلط فہمی ہو یا ہوسکتا ہے بیماری کی خبر ہو، لیکن جو ہونا تھا ہوچکا تھا، قاضی اجل کا فیصلہ صادر ہوچکا تھا بلکہ نافذ ہوچکا تھا، خبر کو تسلیم کرنے اور قضا وقدر کے فیصلے کے سامنے سر جھکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

شیخ کے ساتھ ہماری رفاقت کی تاریخ مکمل دو دہائیوں کو محیط ہے۔ ۲۰۰۳ء میں جب میں نے جامعہ سلفیہ جوائن کیا اس وقت سے ہم دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو اپنے قریب پایا اور اخوت ومحبت کا جو رشتہ استوار ہوا الحمد للہ اس میں کبھی ناہمواری نہیں آئی۔ اخلاص، خیر خواہی، وفاداری، ہمدردی۔۔۔۔۔۔۔۔ الغرض اخوت باہمی کو مضبوطی فراہم کرنے والے تمام اوصاف وخصائل سے آپ متصف تھے۔ رمضان کا مہینہ اور خاص طور سے آخری عشرہ کی مصروفیتوں کی وجہ سے اب تک میں آپ کو خراج عقیدت نہ پیش کرسکا تھا۔ اس تاخیر کے لیے قارئین سے اور شیخ کے وابستگان سے معذرت خواہ ہوں۔

حالات زندگی :

ریکارڈ کے مطابق شیخ کی تاریخ پیدائش یکم اکتوبر ۱۹۵۵ء ہے ۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: محمد بن عبد القیوم بن عبد الرزاق بن محمد یوسف بن یار محمد بن شیر محمد بن پیر محمد فرنگی۔ آپ کے والد عبد القیوم جماعت اور سماج کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ بڑے ہی مدبر، دور اندیش اور محنتی انسان تھے، یہ سارے اوصاف شیخ کو بھی وراثت میں ملے تھے۔آپ کو عبد القیوم لائبریرین کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، کیوں کہ بنارس کی مشہور سعیدیہ لائبریری مدن پورہ کے آپ انتظام کار تھے، افسوس کہ یہ مشہور زمانہ لائبریری منتظمین کی شدید غفلت وکوتاہی کا شکار ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھی۔ جامعہ سلفیہ کی قانونی چارہ جوئی سے متعلق تمام معاملات بھی عبدالقیوم صاحب ہی کے سپرد ہوتے تھے جسے بحسن وخوبی انجام دیتے تھے۔ آپ کے پڑوسی اور بنارس کے مشہور شاعر شاد عباسی لکھتے ہیں:

’’آپ کے والد کا نام عبد القیوم تھا جو بڑے جہاں دیدہ آدمی تھے، فرنگی کی ایک شاخ ’محمد ادریس عبد الرزاق‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کا تعلق اسی خانوادے سے ہے۔‘‘(مدن پورہ کی انصاری برادری: سماجی پس منظر:۲؍۱۱۵)

شیخ محمد کے پردادا محمد یوسف کے ایک صاحب زادے محمد ادریس تھے، جن کی اولاد میں محمد ہارون، محمد لقمان، محمد شعیب، محمد احمد، محمد صالح، محمد الیاس، محمد مشتاق، محمد ارشاد اور محمد ذاکر ادریس تھے۔ ذاکرصاحب لاک ڈاؤن میں یکم نومبر ۲۰۲۰ء کو سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ خاکسار سے بڑی محبت رکھتے تھے، ان کی شخصیت پر میرا ایک مضمون جریدہ ترجمان دہلی کی اشاعت ۱۶-۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۱ء میں شائع ہوچکا ہے۔ محمد ادریس کے بیٹے محمد ہارون کے صاحب زادگان میں ڈاکٹر محمد ابراہیم مدنی، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس ہیں اور محمد لقمان کی اولاد میں ڈاکٹر اختر جمال بنارسی (مقیم مکہ مکرمہ) ہیں۔

شیخ محمد صاحب کا اصل نام محمد ابو القاسم تھا، بعد میں آپ بغیر کسی سابقہ اور لاحقہ کے صرف ’’محمد‘‘ کے نام سے جانے جائے لگے،چوں کہ بر صغیر ہند میں مفرد نام کا چلن عام نہیں، بلکہ اس طرح کے ناموں کے آگے پیچھے لوگ از خود احمد یا محمد کا اضافہ کرلیتے ہیں اس لیے شیخ کے نام کے ساتھ بھی بڑی کہانیاں جڑی ہیں۔ غالبا سنگل نام ہونے کی وجہ سے ہی آپ ہمیشہ ولدیت کے ساتھ اپنا نام (محمد بن عبد القیوم یا محمد عبد القیوم) لکھتے، اکثر لوگ یہ سمجھتے کہ اصل نام عبد القیوم ہے اور محمد کا سابقہ تبرکا لگایا گیا ہے۔ دوسروں کے بارے میں کیا کہوں میں خود اسی غلط فہمی کا شکار ہوچکا ہوں۔ ہوا یوں کہ جامعہ سلفیہ میں اپنے تقرر کے ہفتہ عشرہ کے بعد جب میں نے جامعہ کے کیمپس میں موجود اساتذہ، اسٹاف، ملازمین وغیرہ کا تعارف حاصل کرلیا تو ایک روز حافظ محفوظ الرحمن سلفی (لائبریرین) سے میں پوچھ بیٹھا کہ جامعہ کے تمام تدریسی و غیر تدریسی عملے سے تو شناسائی ہوگئی پر یہ شیخ عبد القیوم کون ہیں ان کو اب تک نہ پہچان سکا۔ انھوں نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ میری طرف دیکھا تو میں ان کا ہاتھ پکڑ کر آفس میں آویزاں نظام الاسباق کے پاس لے گیا اور شیخ محمد کے نام پر انگلی رکھ کر استفسار کیا، واضح رہے کہ وہاں بھی ’’محمد عبد القیوم‘‘ ہی تحریر تھا۔ تب جا کر یہ عقدہ کھلا کہ یہ کوئی اور نہیں ہمارے کرم فرما شیخ محمد صاحب ہیں اور عبد القیوم ان کی ولدیت ہے۔ آپ کی وفات کی خبر جب سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو اس وقت بھی بہت سارے یوزر جن میں شیخ کے کچھ شاگرد بھی شامل ہیں اس کنفیوزن کا شکار ہوئے۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

تعلیم:

شاد عباسی لکھتے ہیں:

’’آپ کے والد عبد القیوم صاحب علم کے بڑے دل دادہ تھے، وہ اپنے تمام بچوں کو عالم بنانا چاہتے تھے، لیکن گھریلو پریشانیوں نے انھیں اس کی اجازت نہ دی۔ لیکن اپنے والد کی یہ تمنا آپ نے پوری کی۔ آپ بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے، بڑے برادران بھی کمانے لگے تھے، اس لیے والد وبرادران نے تعلیمی مصارف برداشت کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہ کی۔ چوں کہ آپ کو خود بھی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اور والد صاحب بھی ہمت افزائی کررہے تھے، اللہ نے تکمیل کے مرحلے تک پہنچا دیا۔‘‘(مرجع سابق: ۲؍۱۱۶)

مولانا محمد صاحب اپنے چاربھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ جامعہ رحمانیہ مالتی باغ، مدن پورہ (بنون) سے متصل مشہور اہل حدیث مسجد ہے جسے باگڑ بلی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے پورب گلی میں آپ کا مکان ہے۔ ابتدا سے لے کر عربی کی چوتھی جماعت تک آپ نے جامعہ رحمانیہ میں تعلیم حاصل کی، بعد ازاں جامعہ سلفیہ منتقل ہوئے اور عالمیت کا کورس(۱۹۷۶ء) میں اور فضیلت کا(۱۹۷۸ء) میں مکمل کیا۔ ۱۹۸۰ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلے کی سعادت حاصل ہوئی، وہاں کلیۃ الشریعہ میں چار سال تعلیم حاصل کرکے بی اے کی سند حاصل کی۔ فراغت کا سال ۰۳-۱۴۰۲ھ مطابق ۸۳-۱۹۸۲ء ہے۔ سند کے سال میں مقالہ کا موضوع ’’التقلید والاتباع فی الإسلام‘‘ تھا جو (۹۰) صفحات پر مشتمل ہے، اسے آپ نے دکتور علی احمد بابکر کے اشراف میں ترتیب دیا تھا۔

عربی فارسی بورڈ الہ آباد سے آپ نے۱۹۷۳ء میں مولوی کا، ۱۹۷۵ء میں عالم کا اور ۱۹۷۹ء میں فاضل دینیات کا امتحان دیا۔

اساتذہ:

اس طویل تعلیمی سفر میں آپ نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

۱۔قاری عبد الوہاب

۲۔قاری احمد سعید

۳۔ماسٹر عبد الحمید جون پوری

۴۔ماسٹر عبد المنان دارانگر بنارس

۵۔مولانا عبد الوحید رحمانی

۶۔مولانا عبد المعید بنارسی

۷۔مولانا شمس الحق سلفی

۸۔مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی

۹۔مولانا عابد حسن رحمانی

۱۰۔مولانا عبد السلام رحمانی گونڈوی

۱۱۔مولانا قرۃ العین مبارک پوری

۱۲۔مولانا عزیز احمد ندوی

۱۳۔مولانا عبد السلام مدنی

۱۴۔شیخ ابو بکر جابر جزائری

۱۵۔دکتور محمد بن حمود وائلی

۱۶۔دکتور علی احمد محمد بابکر سوڈانی

۱۷۔دکتور محمد طلعت ابوصیر

۱۸۔دکتور احمد علی ازرق

۱۹۔شیخ ربیع بن ہادی مدخلی

۲۰۔شیخ عبد اللہ غنیمان وغیرہم رحمہم اللہ۔

میدان عمل میں:

۱۹۷۸ء میں جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ میں تدریس کے لیے آپ کا تقرر ہوا، ڈیڑھ دو سال آپ نے یہ خدمت انجام دی کہ مدینہ یونیورسٹی میں آپ کے داخلے کی اطلاع ملی۔چنانچہ رحمانیہ سے مستعفی ہوکر آپ نے مدینہ کا رخ کیا اور جامعہ اسلامیہ کا چار سالہ تعلیمی کورس مکمل کیا۔

مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد صفر ۱۴۰۴ھ مطابق نومبر ۱۹۸۳ء میں جامعہ فیض عام مئو میں بحیثیت مدرس آپ کا تقرر ہوا، جہاں آپ نے شعبان ۱۴۱۲ھ مطابق فروری ۱۹۹۲ء تک خدمت انجام دی۔ مفتی حبیب الرحمن صاحب فیضی سابق ناظم اور مولانا محفوظ الرحمن صاحب فیضی سابق شیخ الجامعہ کے ساتھ ایک یا دو بار جامعہ کے تعاون کے سلسلے میں کویت کا سفر بھی کیا۔ فیملی کے ساتھ مئو میں رہتے تھے، قاسم پورہ بازار کی مسجد کے سامنے گلی میں کرایے کے ایک مکان میں سکونت اختیار کی تھی۔ غالباً کچھ دنوں محلہ باغچہ میں بھی مقیم رہے۔ مئو-بنارس کے درمیان ٹرین میں سفر کے دوران پیش آنے والے بعض عبرت آموز واقعات اکثر سناتے رہتے تھے۔

جامعہ سلفیہ بنارس میں:

۱۹۹۲ء میں جامعہ فیض عام کو خیر باد کہہ کر اپنی مادر علمی جامعہ سلفیہ سے وابستہ ہوگئے۔ جامعہ میں شوال ۱۴۱۲ھ مطابق اپریل ۱۹۹۲ء سے آپ نے کام آغاز کیا، میدان عمل میں ایک مدت گزار لینے کے بعد مختلف النوع ذمہ داریوں کو انجام دینے کی بھر پور صلاحیت لے کر آپ نے اپنے آپ کو مادر علمی کے حوالے کیا تھا اور تادم واپسیں اس سے جڑے رہے۔ جامعہ کے درج ذیل شعبوں میں آپ نے خدمت انجام دی:

درس وتدریس:دیگر اساتذہ کی طرح تدریس آپ کی بھی بنیادی ذمہ داری تھی۔ مختلف اوقات میں جو کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ان میں سنن ترمذی، مشکاۃ المصابیح،سنن ابو داود، موطا مالک، بدایۃ المجتھد، اصول الفقہ للخلاف،الواضح فی اصول الفقہ، الروضۃ الندیۃ، تسہیل الوصول الی علم الاصول، تحفۃ اہل الفکر فی مصطلح اہل الاثر، القواعد العربیۃ المیسرۃ، دروس البلاغہ، شرح العقیدۃ الواسطیۃ وغیرہ شامل ہیں۔ گذشتہ تعلیمی سال کی فصل اول میں سنن ترمذی (عالمیت سال اول)بدایۃ المجتھد (کلیۃ الشریعۃ سال دوم) الواضح فی اصول الفقہ (کلیۃ الدعوۃ سال اول)اور تاریخ اندلس (کلیۃ الدعوۃ سال اول) کی تدریس آپ کے ذمہ تھی۔ فصل دوم میں سنن ترمذی (عالمیت سال اول) بدایۃ المجتھد نصف اول (کلیۃ الشریعہ سال اول) بدایۃ المجتھد نصف ثانی (کلیۃ الدعوۃ سال دوم) اور تاریخ اندلس (کلیۃ الدعوۃ سال اول) کا آپ نے درس دیا۔

ادارۃ الامتحانات:ایک عرصے تک آپ جامعہ کے مدیر امتحانات رہے۔ یہ بہت ہی حساس اور محنت طلب شعبہ ہے، آزمائشوں اور چیلنجوں سے بھرا عمل ہے۔ آپ نے اپنی اصول پسندی اور نظم ونسق کی پابندی کے ساتھ بہ طریق احسن یہ ذمہ داری نبھائی۔ امتحانی پرچوں کی تیاری کا عمل شروع ہوتا تو اپنی ٹیم کے ساتھ فجر کی نماز کے فوراً بعد جامعہ پہنچ جاتے اور کام شروع کردیتے۔ اس طرح امتحان سے متعلق سارا کام وقت پر انجام پاجاتا اور کسی طرح کی افراتفری دیکھنے میں نہ آتی۔ طلبہ اپنی مارکشیٹ اور سند وغیرہ کے مسائل لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان کی باتیں سنتے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے۔ ۲۰۰۴ء یا ۲۰۰۵ء میں بوجوہ آپ اس منصب سے مستعفی ہوگئے، البتہ امتحانی کمیٹی کے ایک فعال رکن اور مشیر کی حیثیت سے برابر کام کرتے رہے۔ تقبل اللہ جہودہ۔

شعبۂ الحاق مدارس:ملک کے مختلف علاقوں کے دو درجن سے زائد مدارس کا جامعہ سلفیہ سے الحاق ہے اور یہ مدارس جامعہ کی شاخ شمار کیے جاتے ہیں۔ مئی ۲۰۰۴ء میں الحا ق کے عمل کو زیادہ منظم کرنے کی غرض سے ملحق مدارس کے ذمہ داران کے ساتھ جامعہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں الحاق سے وابستہ متعدد مسائل پر غور وخوض ہوا۔ اسی موقع پر الحاق کی ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے کنوینر مولانا عبد الکبیر مبارک پوری حفظہ اللہ بنائے گئے۔ ممبران میں مولانا محمد مستقیم سلفی (شیخ الجامعہ)مولانا محمد صاحب مدنی اور راقم الحروف کی تعیین عمل میں آئی۔ مولانا محمد صاحب اس وقت سے شعبہ الحاق کے ایک سرگرم رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ شعبہ کی میٹنگوں میں پابندی سے حاضری، تبادلۂ خیال میں شرکت، مسائل کے حل میں تعاون اور کارکنان کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتے۔ ملحق مدارس کے اساتذہ وذمہ داران کے ساتھ منعقد ہونے والی بڑی میٹنگوں اور پروگراموں کے موقع پر آپ ایک ذمہ دار قائد کے ساتھ ہی ایک خادم کی حیثیت میں نظر آتے اور اخیر تک پوری ذمہ داری اور دل چسپی کے ساتھ مصروف عمل رہتے۔

تعلیمی کمیٹی:جامعہ کی تعلیمی کمیٹی کے بھی آپ رکن رکین تھے۔ کمیٹی کی وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والی میٹنگوں میں برابر شریک ہوتے۔ تعلیمی سال کے آغاز میں اساتذہ کے ذمہ اسباق کی ترتیب اور جدول سازی بے حد مشکل عمل ہوتا ہے اور وقت اور صبر کا متقاضی ہوتا ہے۔ تعلیمی کمیٹی کے اراکین میں شیخ کو اس معاملہ میں سب سے زیادہ مہارت اور تجربہ تھا۔ بہ ظاہر حل نہ ہونے والے بہت سے مسائل کو بھی آپ اپنے ناخن تدبیر سے حل کرلیتے اور اساتذہ اور ممبران کمیٹی کے لیے راحت کا سبب بنتے۔ نصاب تعلیم سے متعلق آپ کی تجاویز اور مشورے معقول اور قابل قدر ہوتے۔ کمیٹی پر مسلط کیے جانے والے مشوروں یا فیصلوں کو سخت ناپسند کرتے۔

عمید الکلیۃ:چار پانچ سال قبل جب جامعہ میں مرحلۂ فضیلت کی جگہ تین کلیات (کلیۃ الحدیث، کلیۃ الشریعۃ، کلیۃ الدعوۃ)قائم ہوئے تو تینوں کلیات کے الگ الگ عمید مقرر کیے گئے۔ اس موقع پر شیخ محمد رحمہ اللہ کو بھی ایک کلیہ کا عمید منتخب کیا گیا تھا۔ دو تین سال کے بعد تینوں کلیات کے عمداء کی از سر نو تعیین ہوئی، اس وقت تک آپ اس منصب پر برقرار رہے۔

مذکورہ بالا مناصب کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں آپ کے سپرد ہوتی رہیں، ان کے علاوہ طلبہ کے مقالات کا اشراف،طلبہ کے سالانہ مجلہ المنار کے مضامین کی جانچ ، عربی اردو تحریری مسابقات میں پیش کیے جانے والے مقالات کی جانچ ،ہفتہ واری اردو عربی انجمنوں کی صدارت اور اس نوعیت کے بہت سارے کام انجام دیتے رہتے تھے۔ایک بار ایک بڑی ذمہ داری آپ کے سر ڈالی جارہی تھی جسے آپ نے قبول کرنے سے معذرت کر لیا۔

امتیازی اوصاف:

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

جامعہ سلفیہ ہی کے کیمپس میں نہیں بلکہ شہر بنارس کے علمی اور سماجی حلقوں میں شیخ منفرد اور ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ آپ جامعہ کے طلبہ واساتذہ سے لے کر اپنے وطن اور سماج میں ایک خاص شناخت رکھتے تھے۔ کوئی کرو فر نہیں تھا، سراپا سادگی ان کی پہچان تھی۔ نخوت، تعلی، غرور، بڑکپن کا تو تصور ہی نہ تھا۔ خود نمائی اور خود ستائی کا شائبہ تک نہ تھا۔ ایسے اوصاف کسی کے اندر دیکھتے تو رنجیدہ ہوتے تھے، علم وفضل سے منسوب بعض اشخاص کی خود نمائی اور خود ستائی کی خواہشوں اور کوششوں کو دیکھ کر کڑھتے تھے۔ غیرت اور خودداری کی دولت سے مالا مال تھے۔ سماجی عہدے ومناصب سے دور اور نفور رہنے اور سادگی وگمنامی کی زندگی گزارنے کے باوجود دلوں پر راج کرتے تھے، آپ کے جنازے میں لوگوں کا ہجوم اس کا گواہ ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے کچھ مخصوص اخلاق وعادات کی نشان دہی کرکے ان پر روشنی ڈالی جائے۔

صوم وصلاۃ کی پابندی:صوم وصلاۃ کی پابندی کسی عالم دین کیا کسی عام مسلمان کا بھی امتیازی وصف نہیں، یہ تو ہر کلمہ گو کا فریضہ اور ہر مسلمان کی ڈیوٹی ہے۔ لیکن زوال وانحطاط کے عہد میں ہم اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں کہ یہ عمومی سے انفرادی وصف بن چکا ہے اور خال خال افراد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ مفتی عبدالعزیز اعظمی عمری رحمہ اللہ، سابق استاذ جامعہ اثریہ دار الحدیث مئو اپنے مخصوص ظریفانہ اسلوب میں اکثر کہا کرتے تھے کہ مولوی صاحب!پہلے کسی کے انتقال پر کہا اور لکھا جاتا تھا کہ ’’مرحوم صوم وصلاۃ کے پابند تھے‘‘ لیکن حالات جس رخ پر جارہے ہیں لگتا ہے اب یہ لکھنا پڑے گا کہ ’’مرحوم صوم وصلاۃ کے قائل تھے‘‘۔ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے تو عام آدمی کے تناظر میں یہ بات کہی تھی لیکن پستی کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ارباب جبہ ودستار اور حلقہ اصفیاء وابرار میں بھی اسے امتیازی وصف کے طور پر نشان زد کرنا پڑتا ہے۔

مولانا محمد صاحب سے شناسائی رکھنے والے اور ان کو دور اور قریب سے جاننے والے گواہ ہیں کہ آپ صرف نماز کے نہیں نماز باجماعت کے پابند بلکہ ’’ورجل قبلہ معلق بالمساجد‘‘ کی عملی تصویر تھے۔ صلاۃ فجر میں ہماری مسجدوں کا کیا نقشہ ہوتا ہے محتاج بیان نہیں۔ علماء وحفاظ کی بستیوں میں واقع مسجدوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کی محرابیں امامت کے لیے کسی عالم، حافظ اور مولوی کو ترس جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چار وناچار پابندی سے حاضر رہنے والے عام مصلیوں میں سے کوئی اس خلا کو پر کرتا ہے۔ پھر جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو کج کلاہوں کی ایمانی غیرت جوش مارتی ہے اور انھیں اپنا منصب یاد آتا ہے کہ مصلے پر کھڑے ہونے کا حق تو ہم کو حاصل ہے، ورثۃ الانبیاء کا خطاب تو ہمیں ملا ہے، پھر کیا ہوتا ہے، سال بھر یہ ذمہ داری نبھانے والے غریب کنارے لگا دیے جاتے ہیں، ان کی امامت اور قرأ ت میں کیڑے نکالے جاتے ہیں، ان کے فارغ التحصیل نہ ہونے کی پھبتی اڑائی جاتی ہے، پھر جیسے ہی رمضان ختم ہوتا ہے صورت حال عود کرآتی ہے۔ شیخ ان حالات سے بہت ہی کبیدہ خاطر رہتے تھے، ’’الذین ھم عن صلاتھم ساھون‘‘ کی عملی تصویر بنے جگادریوں پر بہت کڑھتے تھے۔ ان کی وفات پر علاقے کے بعض لوگوں نے کہا کہ نماز کا پابند عالم دین ہم سے رخصت ہوگیا۔

اصول پسندی:اصول پسندی شیخ کا خاص وصف تھا۔ ہر کام اس کے وقت پر ذمہ داری سے انجام دینا، وقت مقررہ پر جامعہ پہنچنا اور وقت مقررہ تک کام کرنا، وقت پر درس گاہ میں داخل ہونا اور وقت پورا ہونے تک رہنا، ہفتہ واری انجمنوں میں اور سالانہ مسابقوں میں بھی وقت کی پابندی کرنا، طلبہ کے مقالات کی نگرانی اور اصلاح، اور اسی طرح تمام درسی وغیر درسی کاموں کو وقت پر بلکہ وقت سے پہلے مکمل کرلینا ان کا معمول تھا۔ حاضری رجسٹر ہر ماہ قبل از وقت تیار کرلیتے، جس دن مہینہ مکمل ہوتا اسی دن حاضری جوڑ کر رجسٹر میں درج کردیتے۔ امتحان کے ایام میں وقت پر امتحان ہال میں پہنچنا اور گروپ نگراں کی حیثیت سے ساری ذمہ داریاں انجام دینا، امتحانی کاپیوں کو وقت مقررہ کے اندر جانچ لینا اور حوالہ دفتر کردینا۔۔۔۔۔ الغرض آپ کی اصول پسندی ہر چھوٹے بڑے عمل میں نمایاں نظر آتی۔ کوئی غیر درسی عمل کسی وجہ سے ڈیوٹی کے اوقات میں مکمل نہ کر پاتے تو اسے گھر لے جاتے اور اسی دن اس کو نپٹا لیتے، اگلے دن کے لیے نہ ٹالتے۔ اگر کبھی اس طرح کی کوئی چیز گھر لے جانا بھول جاتے تو شام کو آکر اسے لے جاتے اور اسے مکمل کیے بغیر چین سے نہ بیٹھتے۔

حق گوئی:صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے میں آپ نے کبھی مداہنت سے کام نہ لیا۔ حق بات برملا اور بلاخوف لومۃ لائم کہتے تھے۔ ایسے وقت میں جب کہ ’’دین کے قلعوں‘‘میں چاپلوسی، خوشامد، کاسہ لیسی سکہ رائج الوقت بن چکی ہے، ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘پست طبیعتوں کی فطرت ثانیہ کی شکل اختیار کرچکی ہے، ’باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘ ایک قوم کی شناخت قرار پاچکی ہے، گھٹن کے اس ماحول میں حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت جٹا پانے والے نہ صرف یہ کہ کم رہ گئے ہیں بلکہ وہ ارباب اقتدار کے غیظ وغضب کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ شیخ موصوف نے کبھی حالات سے سمجھوتہ نہ کیا، دن کو رات اور رات کو دن کہہ کر سامنے والے کو خوش کرنے کا خیال شاید ان کے ذہن میں کبھی نہ آیا ہو۔ حق گوئی کی جو بھی قیمت چکانی پڑی لیکن آپ نے منافقت وتملق کے راستے پر چلنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ گدی نشینوں کے معتوب بنے رہنا گوارہ تھا مگر ضمیر کا سودا منظور نہیں تھا۔

بس مرے لہجے میں جی حضور نہ تھا

اس کے علاوہ مرا کوئی قصور نہ تھا

اگر پل بھر کو بھی میں بے ضمیر ہوجاتا

یقین مانیے کب کا امیر ہوجاتا

فہم وفراست:قادر خلاق کی طرف سے آپ کو حکمت ودانائی، فہم وفراست اور معاملہ فہمی سے خاص حصہ ملا تھا۔ کسی بھی بات کی تہ تک بہت جلد پہنچ جاتے، ارادوں کو بہت جلد بھانپ لیتے۔ ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک رہنے کی وجہ سے آئے دن طرح طرح کے مسائل سامنے آتے تھے، وہ مسائل چاہے ادارے سے متعلق ہوں یا آپ کی ذات سے، ان کا منظر اور پس منظر سمجھنے میں آپ کو دیر نہیں لگتی تھی۔ اگر کسی نے محض آپ کو خوش کرنے کے واسطے کسی غیر حقیقی اور بے بنیاد بات کا سہارا لیا تو خوش ہونے کے بجائے اسے تنبیہ کرتے اور اس کے منصوبوں پر پانی پھیر دیتے۔

جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے

زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے

کبھی کوئی خبر ملتی یا کوئی واقعہ رونما ہوتا تو اس کی صحیح تفصیل کیسے اور کہاں سے مل سکتی ہے اس کو خوب سمجھتے تھے اور بہت جلد پورے مسئلے کا خلاصہ کردیتے جب کہ دوسرے ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے یا بات کو سمجھنے میں شدید مغالطے میں مبتلا رہتے۔

زہد وتقویٰ:

اس قدر سادہ وپرکار کہیں دیکھا ہے

بے نمود اتنا نمودار کہیں دیکھا ہے

صاف ستھرے مگر سادہ لباس میں ملبوس، ظاہری ٹیپ ٹاپ اور رکھ رکھاؤ سے بے نیاز، متانت اور سنجیدگی کا مجسم، حقیقی معنوں میں وہ زاہد ومتقی انسان تھے۔ مجلسوں میں جہاں لوگ دنیا جہان کی ضروری وغیر ضروری باتوں میں مست ومگن رہتے آپ خاموشی سے اپنے کام میں مشغول رہتے، کمال حکمت سے فضول باتوں سے رخ موڑ کر کسی بامقصد موضوع میں لوگوں کو مشغول کردیتے۔ آثار وقرائن کی روشنی میں کبھی کوئی بات تخمینے سے کہتے اور اس میں کوئی منفی پہلو ہوتا تو پہلے ہی کہہ دیتے کہ یہ میری بدگمانی ہے، ساتھ میں ’’واللہ اعلم‘‘بھی کہتے۔ قرآن کی تلاوت بکثرت کرتے تھے، وفات کے دن اور اس سے پہلے والی رات کا اکثر حصہ تلاوت قرآن ہی میں گزارا۔ سفر میں جب رفقائے سفر بات چیت میں مشغول رہتے آپ اپنے موبائل پر نظریں جمائے رہتے، دیکھنے پر معلوم ہوتا کہ تلاوت میں مصروف ہیں۔ نفلی روزوں کا بہت اہتمام کرتے، عید الفطر کا دن گزار کر عیدی روزے شروع کردیتے، دیگر مسنون روزوں کو بھی فوت نہ ہونے دیتے۔

جذبہ انفاق:ملازمت پیشہ ہونے اور محدود آمدنی کے باوجود ضرورت مندوں کاخیال رکھتے اور ان کو امداد بہم پہنچاتے۔ اس عمل میں بھی ’’حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ‘‘کا مصداق بنتے۔ جو لوگ آپ کی اس خصلت کریمانہ سے واقف تھے وہ عند الضرورۃ آپ کی طرف رجوع کرتے اور فائز المرام ہوتے۔ حاجت مندوں کو قرض حسن بھی دیتے تھے اور آڑے وقت میں لوگوں کے کام آتے تھے۔ آمد وخرچ کا حساب اہتمام کے ساتھ قلم بند کرتے اور زکاۃ کی ادائیگی وقت پر کرتے۔ وفات سے ایک یا دو روز قبل مولوی معین الدین صاحب سلفی جو بنارس میں جامعہ کا تعاون وصول کررہے تھے ان کو باگڑ بلی مسجد میں دیکھا تو اپنے گھر لے گئے اور دیر تک بات چیت کرتے رہے، اسی مجلس میں ایک اچھی رقم جامعہ کے لیے عطا کی۔ سال میں ایک دوبار احباب کو گھر پر مدعو کرتے اور پرتکلف کھانا کھلاتے۔ چار پانچ سال قبل تک آپ کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک دو بار شام کو بعد نماز مغرب جامعہ تشریف لاتے، دوستوں کے ساتھ بیٹھتے اور مختلف موضوعات پر گفت وشنید ہوتی۔ گھر سے آتے ہوئے اکثر راستے سے کھانے پینے کی کوئی چیز ساتھ میں لاتے،یعنی مہمان کی شکل میں میزبان بن کر آتے۔ عید وبقرعید کی چھٹیاں گزار کر جب ہم لوگ جامعہ پہنچتے تو آپ کے یہاں سے سویوں کا تحفہ موصول ہوتا۔

دعوتی خدمات:

روایتی جلسوں اور لچھے دار تقریروں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ شہر کی مسجدوں میں جمعہ کے خطبے کے لیے آپ کو مکلف کیا جاتا تو یہ ذمہ داری قبول کرتے، دس بارہ سال قبل تک جامعہ میں ایک ایمبیسڈر گاڑی ہوا کرتی تھی، اس کے ذریعہ اکثر وبیشتر ہم لوگ جمعہ کے خطبے یا دعوتی پروگراموں کے لیے شہر اور اطراف شہر -بھدوہی، جون پور، لوہتہ- وغیرہ کا سفر کرتے اور مختلف مساجد کا انتخاب کرکے خطبہ اور درس دیتے۔ شیخ محمد صاحب سے درخواست کی جاتی تو وہ بھی شریک ہوتے۔ افسوس کہ گاڑی نہ رہنے سے یہ مفید سلسلہ موقوف ہوگیا، البتہ انفرادی سطح پر کام جاری ہے۔ جامعہ کی مسجد میں خطبہ جمعہ کے لیے میں آپ سے درخواست کرتا تو یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ میں اس لائق نہیں۔ نیمیہ مسجد، سدانند بازار بنارس میں ایک عرصے تک ہفتہ واری درس بھی دیتے رہے۔

تحریری عمل سے خاص شغف نہیں تھا اور شاید تدریسی وغیر تدریسی مصروفیات بھی مانع رہیں۔ آپ کے کچھ مقالات ومضامین کا تذکرہ ملتا ہے جن میں ’جوا، لاٹری، پڑوس کے حقوق،والدین کی ذمہ داریاں‘ کے موضوع پر مضامین ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں آخری تعلیمی سال میں ’’التقلید والاتباع في الإسلام‘‘ پر عربی زبان میں مقالہ لکھا تھا۔ بعض مضامین کتابچے کی شکل میں جمعیۃ الشبان المسلمین کی جانب سے شائع ہوچکے ہیں جن میں سے ایک ’’پردہ:مسلم خواتین کا شعار‘‘کے عنوان سے اور ایک ’’زبان کی حفاظت‘‘ کے عنوان سے ہے۔

باگڑبلی مسجد جو آپ کے مکان سے قریب ہے اور جس کے آپ مصلی تھے اس مسجد میں عصر اور مغرب کی امامت آپ کے ذمہ تھی جسے نہ صرف یہ کہ پوری پابندی سے آپ نبھاتے تھے بلکہ بقیہ اوقات کے ائمہ کی غیر موجودگی میں بھی بالعموم آپ ہی ان کی نیابت کرتے تھے۔ا س مسجد میں بھی بسا اوقات آپ جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ اس مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے آپ رکن رکین بھی رہے۔

فرمودات واحساسات:

سطور ذیل میں شیخ کی تحریروں کے کچھ اقتباسات درج کیے جاتے ہیں جن سے ان کی ترجیحات اور ان کے جذبات واحساسات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سال ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۰۰۸ء میں جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبہ نے اپنی فراغت کے موقع کو یادگار بنانے کے لیے ایک ڈائری شائع کرنے کا فیصلہ کیا، اس ڈائری کے لیے انھوں نے اپنے اساتذہ سے تاثرا ت لکھنے کا مطالبہ کیا۔ شیخ نے اس موقع پر عربی زبان میں اپنے قیمتی نصائح درج فرمائے۔ ’’بساط بزم یاراں‘‘ کے نام سے شائع اس ڈائری سے شیخ کے تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی النبي الأمین، الذي لا نبي بعدہ، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، وبعد:

فأیھا الإخوۃ الطلاب المتخرجون، أحییکم بتحیۃ الإسلام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوف تبدؤون أنتم حیاتکم العملیۃ أو العلمیۃ بالتعلیم العالي بعد التخرج في ھذہ الجامعۃ الموقرۃ، فعلیکم الاھتمام البالغ لفلاحھا بالسعادۃ الحقیقیۃ التي ھي الھدف الوحید لکل منکم فیھا، وقد اختلفت الآراء في مفھوم السعادۃ وکیف تتحقق، فھناک من یری أنھا تتحقق بجمع الأموال وتنمیتھا، والبعض یراھا في صحۃ الأبدان والأمن في الأوطان، ومنھم من یراھا في الرزق الحلال وتحصیل العلم النافع، ومنھم من یراھا في مفھوم السعادۃ ما دام متفقا مع القواعد والضوابط الشرعیۃ۔

إذ السعادۃ منقسمۃ إلی قسمین:۱- سعادۃ دنیویۃ موقتۃ محدودۃ بعمر قصیر، ۲-وسعادۃ أخرویۃ دائمۃ لا انقطاع لھا ولا حدود، وکلاھما متلازمتان مقترنتان ببعضھما، فسعادۃ الدنیا مقرونۃ بسعادۃ الآخرۃ، والحیاۃ الطیبۃ السعیدۃ الکاملۃ في الدنیا والآخرۃ إنما ھي برضی اللہ للمؤمنین المتقین، حیث قال عز من قائل: {من عمل صالحا من ذکر أو أنثی وھو مؤمن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ ولنجزینھم أجرھم بأحسن ما کانوا یعملون} (النحل)

أیھا الإخوۃ المتخرجون، ترون ما ھي السعادۃ کلھا وکیف تتحقق، وما ھي الشقاوۃ کلھا وکیف نحذرھا؟ إن السعادۃ مجموعۃ في طاعۃ اللہ سبحانہ وطاعۃ رسولہ الکریم محمد النبي الأمین ﷺ کما أن الشقاوۃ کلھا مجموعۃ في معصیۃ اللہ ورسولہ حیث قال تعالی: {ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا} وقال تعالی: {ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما} (الأحزاب) فقد عرفتم أن راحۃ القلب وسرورہ وزوال ھمومہ وغمومہ ھو الغرض الأصلي والھدف الأسمی لکل أحد منکم وبہ تحصل الحیاۃ السعیدۃ ویتم السرور والابتھاج، ولھا أسباب دینیۃ وطبیعیۃ وعملیۃ، ولا یمکن اجتماعھا کلھا إلا للمؤمنین، وأنتم أیھا الإخوۃ المتخرجون أحق بھا فاجتھدوا لھا اجتھادا بالغا واسعوا إلیھا سعیا کاملا۔

وفقني اللہ إیاي وإیاکم وجمیع المؤمنین لھذہ السعادۃ الحقیقیۃ، آمین، تقبل یا رب العالمین۔

والسلام علیکم

أخوکم في اللہ والمدرس بالجامعۃ

محمد عبد القیوم

۹؍رجب ۱۴۲۹ھ

(بساط بزم یاراں،ص:۱۸۔۱۹)

شہر بنارس کے نامور شاعر شاد عباسی صاحب نے اپنی کتاب ’’مدن پورہ کی انصاری برادری‘‘ کے دوسرے حصے کو علاقے کے کچھ علماء، شعراء اور کچھ نامور شخصیات کے تذکرے کے لیے مختص کیا، علماء کے لیے شاد صاحب نے ۴۷؍نقاط پر مشتمل ایک سوال نامہ تیار کیا اور ان سے جواب طلب کیا، اسی جواب کی روشنی میں ان کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ بعض سوالات علماء کی حیثیت اور ان کے کردار کے بارے میں بھی ہیں۔ اسی طرح کے کسی سوال کے جواب میں شیخ محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’آج کل بلکہ صدیوں سے علماء کے دو گروپ رہے ہیں ، ایک متدین عالم دوسرے علمائے سوء۔ آج کل تو علمائے سو ء کی کثرت ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ تعلیمی دور کی دس سالہ تربیت کے بعد ان پر کم ہی دینی رنگ چڑھتا ہے، فارغ ہوتے ہیں تو کلین شیو رہتے ہیں، پھر اپنی وضع قطع مکمل طور سے بدل دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنا حلیہ اس طرح بنائیں کہ ان پر کوئی ملا مولوی کی پھبتی نہ کس سکے۔ دینی شعائر، نماز، روزہ ترک کردیتے ہیں۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر عوام علماء سے بدگمان ہوگئے ہیں اور ان کی حیثیت وہ نہیں رہ گئی ہے جو ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس صالح علماء کی قدر وعزت آج بھی برقرار ہے۔ میرے نزدیک قوم کے دوسرے افراد کی طرح آج بیشتر علماء کو قوم وملت کی رہنمائی سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور حق تو یہ ہے کہ ان کے اندر خلوص، تقویٰ اور دیانت داری نہیں ہے۔‘‘(مدن پورہ کی انصاری برادری: ۲؍۱۱۷)

شاد صاحب کا ایک سوال اس طرح تھا:

’’آپ اپنی برادری کے ان روایات ورسومات کا ذکر کریں جو دین کے مطابق درست نہیں ہیں، لیکن عام آدمی اس پر عمل پیرا ہے، کیا کبھی ایسے رسومات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟‘‘(۲؍۳۱)

اس سوال کا مختصر اور جامع جواب شیخ کی جانب سے اس طرح دیا گیا تھا:

’’ہر وہ رسم جو اسلام کے خلاف ہے خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی وہ بدعت وگمراہی ہے، اس کا مشاہدہ مدن پورہ کا ہر فرد کرسکتا ہے، شمار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس کوشش میں تو اللہ کے فضل وکرم سے ہم پتھر اور گالیاں کھاتے ہیں اورا للہ کا شکر ہے اسے اپنے لیے شرف سمجھتے ہیں۔‘‘ (۲؍۱۲۰)

ازدواجی زندگی:

مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم کی تکمیل کے بعد جب آپ وطن لوٹے اور جامعہ فیض عام مئو میں درس وتدریس کی خدمت انجام دینی شروع کی تو ان ہی دنوں ۵؍فروری ۱۹۸۴ء کو آپ رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ علاقے ہی کی ایک صابر وشاکر خاتون آپ کے عقد میں آئیں اور ان کے بطن سے اللہ رب العزت نے ۲؍ بیٹے اور ۳؍بیٹیاں مرحمت فرمائیں۔ آخری بیٹے کے علاوہ سب کی شادی سے سبک دوش ہوچکے تھے اور نواسے نواسیوں اور پوتوں کے بیچ خوش وخرم رہتے تھے۔ دو بیٹوں میں بڑے حافظ حنظلہ ہیں جنھوں نے جامعہ سے حفظ قرآن کی تکمیل کی، اس کے بعد جامعہ ہی سے تجوید وقرأ ت کا دو سالہ کورس کیا۔ چھوٹے بیٹے مولوی فضالہ ہیں۔ آپ نے جامعہ رحمانیہ میں پرائمری کی تعلیم حاصل کی، پھر جامعہ سلفیہ سے متوسطہ سال اول سے لے کر فضیلت سال آخر تک کا دس سالہ کورس مکمل کیا۔ تین چار سال قبل فارغ التحصیل ہوئے، اس وقت کاروبار میں مصروف ہونے کے ساتھ جمعہ کے خطبے اور کچھ دعوتی کاموں سے بھی جڑے ہیں اور شادی خانہ آبادی کے منتظر ہیں۔

علالت اور وفات:

ابھرتے ہوئے قد اور معتدل جسمانی ساخت کے مالک شیخ محمد صاحب صحت مند اور چاق وچوبند رہتے تھے۔ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد چہل قدمی کے لیے دور تک نکل جاتے تھے۔ گھر سے جامعہ آنے جانے میں پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے، جب کہ آپ کے آس پاس کے آپ کے ہم عمر کئی لوگوں کو دیکھا جاتا کہ انھیں سواری کی تلاش ہوتی۔ مرض وصحت کے مسائل سے دوچار ہوتے تو مرض کو زیادہ اہمیت نہ دیتے، بوقت حاجت ایک دو خوراک دوا لینے پر اکتفا کرتے۔ مرض کی وجہ سے اگر جامعہ آنا مشکل ہوتا تو چھٹی لے لیتے، لیکن اکثر دیکھا جاتا کہ دو تین گھنٹی گذرنے کے بعد جامعہ آ وارد ہوتے، پوچھنے پر کہتے کہ گھر پر پڑے پڑے بوریت محسوس ہونے لگتی ہے، تھوڑا سا افاقہ محسوس ہوا تو چلا آیا۔ ادھر دو تین سالوں سے دیکھا جا رہا تھا کہ بہت کم وقفے سے عوارض کی ضد میں آرہے تھے، لیکن حسب معمول انھیں جھیلتے رہتے اور خوش وخرم دکھائی دیتے۔ احباب آپ سے چیک اپ اور باقاعدہ علاج کے لیے کہتے تو خاطر خواہ توجہ نہ دیتے۔ تنفس کی شکایت پہلے سے تھی جو تقریباً ایک سال سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ گذشتہ تعلیمی سال میں دیکھا جاتا کہ کبھی کبھی جامعہ پہنچنے پر کسی مناسب جگہ جاکر کچھ دیر کے لیے لیٹ جاتے، پھر اٹھ کر معمول کے مطابق کام شروع کردیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ تنفس کا معاملہ نہیں تھا بلکہ عارضہ قلب کا پیش خیمہ تھا۔

رمضان میں وفات سے دو تین روز قبل سے سینے میں تکلیف اٹھتی اور کم ہوجاتی۔ ۲۳؍ویں رمضان کی شب قدر میں جب آپ گھر پر ہی عبادت وریاضت میں مصروف تھے تکلیف کا احساس ہوا۔ بچوں نے علاج کے لیے کہیں لے جانا چاہا مگر راضی نہ ہوئے، کچھ راحت محسوس ہوئی تو پھر تلاوت اور ذکر واذکار میں مصروف ہوگئے۔ وقت ہوا تو سحری کھائی، فجر کی نماز کے لیے مسجد جانے کی پوزیشن میں نہ ہونے کی وجہ سے گھر پر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد پھر تلاوت میں مصروف ہوگئے۔ اہل خانہ آپ کو پرسکون دیکھ کر مطمئن تھے۔ شب قدر میں بیداری کی وجہ سے جلد ہی سب لوگ نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔ صبح ۹ اور ۱۰ کے بیچ آپ کی اہلیہ کی اچانک آنکھ کھلی تو آپ کو شدید اضطراب کی حالت میں دیکھا، فوراً بچوں کو جگایا، لیکن یہ صورت حال دیر تک قائم نہ رہی اور جلد ہی یہ صائم وقائم انسان ہر طرح کے الم واضطراب سے سکون پاکر ابدی نیند میں چلا گیا، بچے فوراً ڈاکٹروں کو لے آئے جنھوں نے چیک کرنے کے بعد اعلان کردیا کہ اب آپ آخرت کے راہی ہوچکے ہیں۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون

بعد نماز مغرب نگینہ والی مسجد کے پاس وسیع وعریض میدان میں آپ کے بھتیجے حافظ عبد الرحیم سلفی کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور ریوڑی تالاب میں واقع آبائی قبرستان میں سپردخاک ہوئے۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اہل علم کے تاثرات:

آپ کی وفات پر اہل علم نے اپنے غم والم کا اظہار کیا ہے اور آپ کو خراج عقیدت پیش کی ہے جن میں سے بعض کا تذکرہ سطور ذیل میں کیا جاتا ہے۔

(۱)مولانا اصغر علی مدنی، امیر جمعیت اہل حدیث ہندلکھتے ہیں:

’’مولانا محمد عبد القیوم مدنی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا، آپ بڑے خلیق وملنسار، دوربیں اور معاملہ فہم انسان تھے۔ ایک مدت تک جامعہ کے مدیر الامتحانات کے منصب پر فائز رہے۔ آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے تحصیل علم کے بعد عملی زندگی کا آغاز شمالی ہند کی معروف دینی دانش گاہ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو سے کیا جہاں آپ ایک مدت تک مدرس رہے، پھر مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبہ تعلیم وتربیت سے وابستہ ہوگئے اور یہ سلسلہ تادم واپسیں جاری رہا۔۔۔۔۔‘‘

(۲)ڈاکٹرعبد الغنی قوفی، جامعہ سراج العلوم(نیپال) لکھتے ہیں:

’’آپ جامعہ سلفیہ بنارس کے مایہ ناز استاذ، ایک بھرپور باوزن اور باوقار علمی شخصیت کے حامل شخص تھے ۔۔۔ شیخ جامعہ کے ماہر اساتذہ میں سے تو تھے ہی ساتھ ہی ادارتی امور میں بھی ادارے کو شروع سے ہی اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچاتے رہے۔ آپ کے ساتھ تقریباً دو سال کام کرنے کا موقع ملا۔ بہت ہی ملنسار، ہنس مکھ، متحمل مزاج شخص تھے۔ بذلہ سنجی اور ظرافت طبیعت کا حصہ تھی، امتحانات سے متعلق سارے امور اس زمانے میں آپ ہی دیکھتے تھے، یہ شعبہ کسی بھی ادارے کا بڑا صبر آزما شعبہ مانا جاتا ہے لیکن انھوں نے پورے تحمل، بردباری اور صبر وحوصلہ مندی سے اس شعبہ میں اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف ادا کیا بلکہ اسے نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ اس وقت بقیہ مواد کے ساتھ مشکاۃ کی تدریس بھی آپ کے ذمہ تھی، طلبہ طریقہ تدریس سے بہت متاثر تھے، کافی سراہے جاتے تھے۔۔۔‘‘

(۳)مولاناراشد حسن مبارک پوری، استاذ جامعہ فیض عام مئوفرماتے ہیں:

’’مسائل شریعت پر گہری دستگاہ، نیک، خدا ترس، پرہیز گار، شریف النفس، متواضع، شہرت طلبی سے متنفر، انداز تفہیم اعلیٰ، صاف گو، بلا خوف لومۃ لائم بات کہہ دینے والی عظمت چل بسی۔۔۔۔‘‘انتہی۔

اللہ رب العزت آپ کی حسنات کو قبول فرمائے،لغزشوں پر قلم عفو پھیر دے،قبر کو نور سے بھر دے اور جنت میں اعلی علیین میں جگہ عطا کرے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000