نخوت علم

رشید سمیع سلفی

کبر و غرور انسانی زندگی کے لیے زہر ہے، دنیا و آخرت میں باعث ہلاکت ہے، غرور کسی بھی چیز پر ہو اللہ کو سخت نا پسند ہے تبھی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ بڑائی ( کبریائی ) میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند، تو جو کوئی ان دونوں چیزوں میں کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ۔
یہ ایسا خطرناک گناہ ہے جو بسا اوقات شرک سے جاکر بغل گیر ہوجاتا ہے۔ تکبر ایسا وصف ہے جو ہر طبقے میں اپنا رنگ جماتا ہے۔ کبھی یہ دولت کو آلہ کار بناتا ہے کبھی سیاست کے گلیاروں میں حکومت کرتا ہے۔ کبھی جسمانی حسن وجمال کا سہارا لیتا ہے۔ کبھی عہدہ ومنصب کو شکار بناتا ہے۔ کبھی قوت بازو بھی تکبر کا محرک بنتا ہے۔مگر ان تمام شکلوں سے قطع نظر علم و دانش پر پیدا ہونے والی نخوت و رعونت طبعیتوں کو بڑے عجائب وغرائب سے روشناس کراتی ہے۔ حقیقت میں تو اس فتنے کو علم اور اہل علم سے کوسوں دور ہونا چاہیے تھا۔ اس سے خدا واسطے کا بیر ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس آج یہ وبا اسی کوچے میں پھل پھول رہی ہےاور برگ و بار لا رہی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
وکم عالما متکبرا ستر التکبر علمہ
کم جاہلا متواضعا ستر التواضع جھلہ
ترجمہ: کتنے متکبر عالم ایسے ہیں کہ تکبر نے ان کے علم پر پردہ ڈال دیا ہے اور کتنے خاکسار جاہل ایسے ہیں کہ تواضع نے ان کی جہالت کو چھپا لیا ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول بہت بڑی سچائی اور گہرے تجربے اور نفسیات کا عکاس ہےـ
میں چاہ کر بھی اپنے مشاہدات اور محسوسات کو رقم نہیں کرپا رہا ہوں۔ لیکن آج ہمت جٹا کر طوفان اٹھانے کو جی چاہتا ہے کیونکہ
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
اس افتاد طبع نے علماء کی ایسی مٹی پلید کی ہے کہ تبصروں کو سن کر ابکائی آتی ہے۔ کس طرح لوگ نیرنگئ طبع پر مبنی واقعات پر واقعات بیان کرتے ہیں اور تمام علماء کی عزت و ناموس سے کھیلتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب آدمی نخوت اور تکبر کا آزار پال کر رکھے گا تو وہ قول وفعل میں کیسے کیسے ستم ڈھا ئے گا آپ تصور نہیں کرسکتے۔
اسے کیا کہیے گا کہ خطبے سے فارغ ہونے کے فورا بعد مقرر سامعین سے یہ پوچھے کہ آج کا خطبہ کیسا رہا؟
جواب میں مرید کہتا ہے شیخ آج تو خطبہ بہت بھاری تھاـ
لیکن اسی پر بس نہیں۔ پھر پوچھتا ہے اور اس سے پہلے والا خطبہ کیسا تھا؟
سامع کہتا ہے وہ بھی بہت بھاری تھاـ
اب مقرر یہ پوچھتا ہے کہ دونوں میں زیادہ بھاری کون سا خطبہ تھا؟
یہ سوال و جواب مقرر اعظم کی کس خو کو آشکارا کرتا ہے؟ تقریر داد و تحسین وصولنے کے لیے ہے شہرت و ناموری کے لیے ہے یا پھر اصلاح وتزکیہ کے لیے ہے؟
ایسے لوگ قوم وملت کا کیا بھلا کریں گے۔ بعض نو خیز علماء تو اپنے خطبے کا جلسوں کی طرح رنگین اشتہار بناکر فیس بک اور وہاٹس اپ پر پوسٹ کرنے لگے ہیں اور کچھ جو اشتہار بنانے سے رہے وہ اس اعلان کو سادہ طور پر اپنے وال پر سجادیتے ہیں۔ میں نے مانا کہ تصویر کے ساتھ اشتہار اکا دکا ہی آرہا ہے لیکن آگے بغیر تصویر کے اشتہار عنقاء ہوجائے گا ۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

یہ جذبہ نامسعود کہاں جاکر دم لے گا یہ تو میری سمجھ سے باہر ہے۔ بس آپ دیکھتے جائیے کہ یہ برادری کیسے کیسے لطیفوں سے گھری ہوئی ہے ۔ایک خطیب کو وقت اور عنوان ایک مہینہ پہلے ہی بتا دیا گیا ہے وہ وقت مقررہ پر خطبہ حاجہ کے بعد اکابر علماء کے جھرمٹ میں برسر اسٹیج کہتا ہے اچھا تو میرا عنوان کیا تھا؟
ذرا سوچئےحاضرین علماء پر اپنی علمی دھاک بٹھانے کی کتنی خوبصورت ترکیب ہے۔ وہی مقرر دوسرے اسٹیج پر پوری تقریر میں کہیں موضوع کو چھوتا بھی نہیں ہے اور وقت ختم ہونے پر کہتا ہے کہ ابھی تو میں اپنے موضوع پر آرہا تھا۔ نخوت علم بڑا خطرناک روگ ہے۔ نخوت کا مارا ہوا عالم کب کیا گل کھلا دے کوئی پتہ نہیں۔
اور ہاں کون کہتا ہے کہ القاب وآداب کے رسیا ہمارے علماء نہیں ہوتے۔ بھاری بھرکم خطابات کی پیاس‌ انھیں نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے باذوق علماء بھی ہیں جو فضیلۃ الشیخ، بلند پایہ شخصیت، شیخ الحدیث یا اس جیسے گھسے پٹے القاب سے آسودہ نہیں ہوتے بلکہ انھیں بھی القاب و آداب میں ھل من مزید کی طلب ہوتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہم بھی خطیب شعلہ بیاں، ادیب دوراں مقرر بے مثال، سلطان لوح وقلم سے آگے کا سفر طے کریں گے اور پھر قبلہ وکعبہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ تکلفات کسی کے قد کو اونچا کرتے ہیں۔ عزت و عظمت میں اضافہ کرتے ہیں؟
ہرگز نہیں بلکہ نخوت کی تشنہ لبی دور ہوتی ہے، بے قراری کو قرار آتا ہے اور کبھی اس کا نشہ کیسا خطرناک ہوجاتا ہے کہ آدمی ساری حدوں کو پار کرجاتا ہے۔ درس نظامی کا ایک کہنہ مشق مدرس اپنے فضائل بیان کرتا ہوا کہتا ہے کہ منطق و فلسفہ تو میرے پیشاب کے راستے بہتا ہے۔ وہ تو میری شامت آئی تھی کہ پوچھ بیٹھا کہ حضرت اور آپ کا پیشاب کس راستے سے بہتا ہے۔ وہ مجھ پر اس قدر خفا ہوا کہ آج تک بات نہیں کرتا ہے۔
نخوت علم کے عجوبے بڑے دلچسپ ہیں اور میں کیا کیا بیان کروں۔ ڈر ہے کہیں توہین علماء کا مرتکب نہ قرار دے دیا جاؤں۔
آج کل تو فتووں کی دہشت چھائی ہوئی ہے کہ کب کس پر کیا فتویٰ صادر ہوجائے۔ چلیے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ سستی شہرت اور بے محنت کی کریڈٹ کے پیچھے لوگ کیسے بھاگ رہے ہیں۔ اپنے کھوکھلے علم کا رعب جمانے کی کیسی کوشش کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے کہا فلاں صاحب کو کہیں خطبے وغیرہ کے لیے لگا دیا کرو۔ دروس وغیرہ کے لیے بھی یاد کرلیا کرو، بے چارے کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے۔
ایک بار ایک درس کے لیے فون کیا تو کہتے ہیں رکیے ذرا دیکھوں کہ میں اس تاریخ میں خالی ہوں کہ نہیں ـ دو منٹ کے بعد کال کرکے کہتے ہیں: ہاں شیخ ڈن کردیجیے آپ کہہ رہے ہیں تو آجاؤں گا۔ میں نے کہا: اب تو کسی اور کو کہہ دیا ہے۔ کہنے لگے: مولانا آپ کے لیے میں نے ایک درس کینسل کردیا ہے اور آپ ایسا کررہے ہیں۔ پھر تو وہ گلے ہی پڑ جاتے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے اسے کس چیز پر محمول کیا جائے؟ متانت وصداقت کے کس زمرے میں اس کا شمار کیا جائے؟
تھوک کے بھاؤ یہ ڈھیروں سیلفیاں بھی اسی فتنہ پرور جذبے کی پیداوار ہیں جس کے بوجھ سے سوشل میڈیا کراہ رہا ہے۔
مسکراہٹ کی سیلفی،
متانت بھرے چہرے کی سیلفی،
دوست کے ساتھ سیلفی،
بیٹے اور بیٹی کے ساتھ سیلفی،
یہاں تک کہ کھانے کی ڈشوں کی سیلفی،
قربانی کے جانور کے ساتھ سیلفی،
پھر یہ پورا انسانی کچرہ فیسبک کے گُھور پر ڈال دیاجاتا ہے۔ سیلفی کیسی بھی ہو لائک کمنٹ کے لیے تو دوست منتظر بیٹھے ہیں کیونکہ آپ نے بھی ان کو لائک کمنٹ دیا ہے۔ قرض تو اتارنا ہی پڑے گا۔ پھر جھکاس برو، نائس برو، سوپر برو وغیرہ کا لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔
تکبر کا کیڑا کھجلی کرتے رہتا ہے اور اصحاب جبہ و دستار برموقع ضرورت اپنی ادائے دلبرانہ سے شیطان کو شاد کام کرتے رہتے ہیں۔
ایک صاحب بار بار کی ملاقات اور تعارف کے باوجود جب بھی ملیں گے تجاہل برتتے ہوئے کہیں  گے آپ کی تعریف؟
مطلب ہم بڑے لوگ ہیں چھوٹوں کی اطلاع کم ہی رکھ پاتے ہیں۔ ایک بار سنبھالا نہ گیا تو  بول دیا کہ حافظہ اتنا خراب ہے تو کیوں یہ تکلف کرتے ہو پھر کیا تھا۔ من وعن پورا تعارف بیان کردیا۔ یہ شان بے نیازی یہ‌ بے پروائی اور ادا کاری کس جذبے کی علامت ہیں؟ تصور کیا جاسکتا ہے۔
نخوت علم میں ڈوبا مقرر اپنی فتوحات بیان کرتا ہوا کہتا ہے: کہ میں بند لفافے میں تقریر کا ہدیہ  نہیں لیا کرتا بلکہ لفافہ کھلواتا ہوں۔
کوئی ہدیہ کم ملنے پر عنوان لگاتا ہے “اور لفافہ ہلکا پڑ گیا”ـ
کوئی کہتا ہے: اور میں تو کہہ دیتا ہوں تقریر کی تاریخ لینی ہے تو پہلے میرے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے ٹرانسفر کردو اور ذرا جلدی کرنا نہیں تو کوئی اور خرید لے گا۔
کوئی کہتا ہے: میں ایک رات کا پچاس ہزار لیتا ہوں۔
کوئی کہتا ہے: میں پچیس ہزار لیتا ہوں۔
اور لوگ یہ بڑی بڑی رقمیں دے کر بلاتے بھی ہیں۔پرکشش ڈیمانڈ کے ان سوداگروں نے چھوٹوں میں بھی کچھ کر گزرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے۔ اب جسے دیکھیے وہ بس اسی نشان تک پہنچنے کے لیے بے قرار ہے جہاں اس کے ڈیمانڈ کو پورا کرنا جاہلوں کی مجبوری بن جائے۔ اب جو خاموش سطح پر ہلچل پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ ڈیمانڈ تو نہیں کرتے البتہ امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔
یہ دعوت وتبلیغ نہ ہوئی تجارت کی منڈی ہوگئی اور مقررین بیوپاری ہو گئے۔ آج جو وقار مجروح ہوا ہے بلاسبب نہیں بلکہ ایسے ہی کچھ حرکات و اعمال ہیں۔
کیا اس طرح کی سطحیت اور چھچھورا پن، اداکاری، سیاست بازی اور تبذل علماء کے شایان شان ہے؟
عمل و کردار میں اگر نمونہ اور اسوہ بننے کی ہمت نہیں تو یہ سفلہ پن بھی تو ہمارے کردار کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔
آج ضرورت ہے کہ علماء گندی سیاست، منافقت، تضاد اور تعلی وترفع کے احساس سے بالاتر ہوکر دوسروں سے معاملہ کریں۔ علماء اعلی اوصاف کے حامل بنیں ۔اپنے کردار میں پختگی لائیں۔ اپنی عزت نفس کو کبھی مجروح نہ ہونے دیں۔ قول وعمل میں پاکیزگی اختیار کریں۔ اگر انھوں نے اپنے معیار کو برت لیا تو آج بھی عوام انھیں ہاتھوں ہاتھ لینے کے لیے تیار ہے اور جو اپنا معیار بنا کر رہتے ہیں وہ عزت وتوقیر سے زندگی گزارتے ہیں ذرا غور سے دیکھیے تو اس کی مثالیں آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گی۔
اگر دنیا علماء ربانین سے خالی ہوتی تو دنیا انھیں کب کا کنارے لگا چکی ہوتی لیکن ہزار خرابیوں کے باوجود خیر اب بھی ان میں باقی ہے۔ اللہ کرے دوسرے بھی اس سے سبق حاصل کریں۔ اور ایک بار پھر علماء عوام کی آنکھوں کا تارا اور دلوں کی دھڑکن بن کر رہیں گے۔
بس اس شعر کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئیں

آپ کے تبصرے

3000