علامہ احسان الہی ظہیر ایک عہد ایک تاریخ

آصف تنویر تیمی تعارف و تبصرہ

گذشتہ ماہ کے بالکل اخیر میں دو دنوں کے لیے دہلی جانا ہوا۔دو دنوں میں سے ایک دن ٹرین کی غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔ جس کی وجہ سے بہت سارے پروگرام درہم برہم ہوگئے۔ایک دن ہی بچا۔ جلدی جلدی اپنا سارا کام مکمل کیا۔چند گھنٹوں کے لیے مکتبہ ترجمان اردو بازار جانا ہوا۔حسب عادت مکتبہ کی تازہ ترین کتابوں پر ایک نگاہ دوڑائی۔ چند کتابوں پر نظر پڑی جس میں زیر تبصرہ کتاب ’علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ایک عہد ایک تاریخ‘ مجھے بے حد بھائی۔اس کتاب کے مصنف بھی میرے لیے اجنبی نہیں رہے تھے اس سے قبل بھی ان کی ایک کتاب ’مرکزی دار العلوم بنارس نو گڑھ کانفرنس کی ہی دین ہے‘ہاتھ لگی تھی جس کے مطالعہ کے بعد علم وعلماء سے متعلق ان کی والہانہ محبت اور معلومات کی پختگی کا اندازہ ہوا تھا۔

مصنف کے علاوہ اس کتاب کا عنوان بھی میرے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی شخصیت عالمی شہرت یافتہ ہے۔ان کی وفات کو تقریبا چالیس سال کا عرصہ گزرنے والا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ چند دنوں کی بات ہو۔اس کی بڑی وجہ ان کی غیر معمولی دعوتی اور تصنیفی خدمات اور ان کی خدمات سے ہنوزاستفادہ ہے۔ان کا زمانہ پانے والے اور نہ پانے والے دونوں طرح کے لوگ ان سے یکساں طور پر محبت کرتے ہیں۔یہ ان کے اخلاص و للہیت اور محبوبیت کا نتیجہ ہے۔

کتاب کے مصنف مولانا عبد الرزاق عبد الغفار سلفی حفظہ اللہ نے اپنی اس کتاب کا نام ’علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ایک عہد ایک تاریخ‘رکھا ہے۔کتاب ’مرشد پبلیکیشن،نئی دہلی‘سے طبع ہوئی ہے۔کتاب کل 265 صفحات پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ بھی مختلف مشہور مکتبات سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔جن میں اہم مکتبہ ترجمان دہلی،مکتبہ الفہیم مئو اور مکتبہ سلفیہ بنارس ہے۔میں نے مکتبہ ترجمان ہی سے کتاب حاصل کی ہے۔

کسی کتاب کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس کے مراجع ومصادر سے ہوتا ہے۔لہذا مصنف موصوف نے فہرست مصادر میں کل 25 کتابوں اور 5 رسائل وجرائد کے اسماء درج کیے ہیں۔ان مصادر سے کتاب کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔ اب تک کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔تیسرا ایڈیشن میرے سامنے ہے۔

کتاب از اول تا آخر معلومات سے پُر ہے۔مطالعے کے بعد ہی قاری کو اس کی افادیت کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔تاہم کتاب کی ان خوبیوں نے مجھے متاثر کیا ہے:

۱۔کتاب کی زبان بے حد شستہ، شگفتہ اور سبک ہے۔

۲۔جا بجا اردو اور عربی کے اشعار نے کتاب کے حسن کو دو بالا کردیا ہے۔

۳۔کتاب میں مصنف کا جذباتی لگاؤ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ سے صاف جھلکتا ہے۔

۴۔کتاب کا سب سے اہم حصہ میری نگاہ میں وہ ہے جس میں مصنف نے براہ راست علامہ صاحب سے ملاقات کی روداد کو دل کی سیاہی سے قلمبند کیا ہے۔علامہ صاحب سے ملاقات کا جو راستہ انھوں نے اختیار کیا وہ دوسرے کے گھر میں گھس کر وار کرنے کے مترادف ہے۔یقینا علامہ صاحب سے ملاقات کے وقت مصنف موصوف کی عمر بہت زیادہ نہیں رہی ہوگی تاہم علامہ صاحب کی مہمان نوازی،عزت افزائی اور اپنے ملنے جلنے والوں سے تعارف کراتے وقت اپنا مہمان خصوصی قرار دینا ان کی غایت درجہ بلندی اخلاق اور ان کی عظمت کی دلیل ہے۔جس زمانے میں مصنف موصوف کی ملاقات علامہ صاحب سے ہوئی ہے وہ علامہ صاحب کے عروج کا وقت تھا پورے ملک میں ان کے نام کا طوطی بولتا ہے۔کوئی لمحہ ان کا تقریر وتحریر سے خالی نہیں ہوتا تھا۔اس کے باوجود ایک مہمان کو اتنا وقت دینا ان کی علم دوستی،مہمان نوازی اور علماء پروری کا واضح ثبوت ہے۔

کتاب کے قاری کو ؃ 189_196 ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ان صفحات میں علامہ صاحب کا علم وعمل چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔

۵۔صفحہ 197_206 بھی نہایت اہم ہیں ان صفحات میں مصنف موصوف نے پہلے بر صغیر کے مشہور محدث ’مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ‘سے اپنی خوشگوار ملاقات کا دلچسپ واقعہ ذکر کیا ہے۔مصنف موصوف لکھتے ہیں:

’’حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی رحمہ اللہ سے ملنے شیش محل گیا۔ان دنوں وہ تقریبا صاحبِ فراموش تھے۔آپ سراپا تواضع وشرافت تھے۔آپ کی سادگی،رہن سہن اور لباس وغیرہ دیکھنے کے بعد سلف صالحین کی یاد تازہ ہوگئی۔آپ کا اخلاص،عمل وکردار کی پاکیزگی اور قلب ونظر کی وسعت دیکھنے کے بعد دل آپ کا اسیر ہوکر رہ گیا۔وہیں پر آپ کے خاص تربیت یافتہ شاگرد حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔‘‘(ص۱۹۹)

کتاب کے صفحہ 200-203 پر فلسفی وقت،متکلم اسلام اور مفکر ملت وجماعت حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ سے براہ راست ملاقات کا تذکرہ مذکور ہے۔مصنف موصوف مولانا کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’دوران گفتگو مولانا کے علم ومطالعہ کی گہرائی کا اندازہ ہوا۔خوش پوشاکی،گفتگو میں متانت وتوازن،اخلاق کی بلندی،مطالعہ کی وسعت،علم کی گیرائی و گہرائی،شرافت ومروت اور کم سخنی آپ کی نمایاں خوبیاں تھیں۔سچ پوچھیے تو ان کو علم ومطالعہ میں ڈھلا ہوا انسان پایا اور ان کی ہر گفتگو خیر الکلام ما قل ودل کی آئینہ دار تھی۔‘‘

مصنف موصوف مولانا ندوی سے اپنی ملاقات کے تذکرے کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مولانا نے از راہ عنایت اپنی چند تالیفات ابن تیمیہ،عقلیات ابن تیمیہ،افکار ابن خلدون اور دوسری کتابیں بطور ہدیہ مرحمت فرمائیں…..یوں تو ان کی ہر نصیحت پُر مغز اور معنی خیز تھی لیکن ایک نصیحت جو میری زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز رہی ہے اور جس کو میں نے گرہ دے رکھا ہے ان کی یہ بات’بیٹا ہمیشہ طالب علم بن کر رہنا‘تھی۔

۶۔کتاب پر آٹھ علمائے کرام کے گراں قدر تبصرے موجود ہیں۔

۷۔کتاب کی طباعت اور جلد سازی شایانِ شان ہے۔

شائقین کتب کے لیے مصنف موصوف کی یہ کتاب ایک قیمتی تحفہ ہے۔ بالخصوص محبینِ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے لیے۔

اللہ عز وجل مصنف کی اس علمی کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے لیے توشہ آخرت بنادے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000