برادر مکرم ڈاکٹر فاروق عبد اللہ مدنی کے دو رسالے

آصف تنویر تیمی تعارف و تبصرہ

ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے،ایک صاحبِ قلم کا دوسرے صاحبِ قلم سے ایک دوست کا دوسرے قابلِ فخر دوست سے محبت کرنا دین کا تقاضہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ دینی محبت کے بجائے آج کے زمانے میں حسد اور جلن زیادہ پایا جاتا ہے۔

مجھے ہمیشہ اپنے ذی علم وعمل دوستوں سے قربت رہی ہے۔بلکہ ان لوگوں پر رشک ہوتا ہے۔ان کے جیسا بننے کی کوشش کرتا ہوں۔ہمارے ایسے ہی قابل رشک دوستوں میں سے ڈاکٹر فاروق عبد اللہ مدنی ہیں۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں وہ مجھ سے ایک سال سینئر تھے۔ہم دونوں کا کالج الگ الگ تھا۔وہ حدیث فیکلٹی کے طالب علم تھے اور میں فقہ فیکلٹی کا۔تاہم ہم دونوں گاہے بہ گاہے ملتے جلتے اور مختلف علمی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ایک مرتبہ زکوة الفطر میں نقد کے اخراج کے جواز اور عدم جواز پر ان سے گرما گرم علمی بحث ہوئی اور یہی بحث اس موضوع پر میرے اردو اور عربی میں رسالہ لکھنے کا باعث بنا۔دیر سویر میرے یہ دونوں رسالے ان شاء اللہ طبع ہوں گے۔

ڈاکٹر فاروق عبد اللہ مدنی کی علمی لیاقت وصلاحیت مسلم ہے۔طالب علمی کے زمانے سے ہی علمی حلقوں میں ان کے رسوخِ علمی کا شہرہ تھا۔اکابرین علم وفضل ان کی تحریروں کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔طلبہ کو ان سے کافی حوصلہ ملتا ہے۔اب جب کہ انھوں نے مسندِ درس وتدریس کو سنبھالا ہے علماء برادری کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کی علمی کتابوں کو اپنی تقریر وتحریر کا موضوع بناتے ہیں۔ایک استاد کی حیثیت سے ہندوستان میں قدم رکھنے کے بعد یکے بعد دیگرے سلف کی کئی کتابوں کے دروس کا انھوں نے مبارک سلسلہ شروع کیا ہے۔ایسی کتابیں جن کا بہت سارے لوگ نام بھی نہیں جانتے ہیں۔یقینا یہ ایسا کارنامہ ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔یہ تو ان کی زندگی کےابتدائی مراحل ہیں اگر اللہ نے صحت کے ساتھ ان کی عمر میں برکت دی تو ان شاء اللہ ان کی ذات سے اہل حدیثانِ ہند کو جو فیض پہنچے گا لوگ دیکھیں گے۔

برادرم ڈاکٹر فاروق عبد اللہ مدنی نے مجھے اپنے دو رسالے(۱)کلمة لا إله إلا الله فضلها،ومعناها،و اركانها،وشروطها،ونواقضهااور(۲)سجدہ شکر کے احکام ومسائل اور نماز شکر کی شرعی حیثیت، بذریعہ ڈاک ارسال کیے ہیں۔کئی دنوں سے دونوں کا انتظار تھا۔ایک طالب علم کے اندر جتنا شوق کتاب کے پانے اور خریدنے کا ہونا چاہیے اس سے زیادہ شوق اس کے پڑھنے کا ہونا چاہیے۔

الغرض میں نے باری باری دونوں کو پڑھا ہے۔اولا کلمة لا إلاه إلا الله کا مطالعہ کیا۔دیکھنے اور پڑھنے کے اعتبار سے یہ ایک مختصر رسالہ ہے مگر اپنی معنویت اور جامعیت کے لحاظ سے علم وحکمت کا خزانہ ہے۔

رسالے کی اہم خصوصیتیں:

۱۔موضوع اور مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے رسالے کی شاندار طباعت اور مضبوط غلاف کا اہتمام کیا گیا ہے۔

۲۔اوراق کافی دبیز اور عمدہ ہیں۔

۳۔متن کی آسان خواندگی کے مد نظر اعراب لگائے گئے ہیں۔

۴۔رسالے کو بڑے سائز میں چھاپا گیا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر حواشی وغیرہ بھی لگایا جاسکے۔

۵۔اختصار کے ساتھ کلمہ توحید کے تمام گوشے اس متن میں شامل کر لیے گئے ہیں۔

۶۔سب سے پہلے لا الہ الا اللہ کی فضیلت سے متعلق آٹھ حدیثیں ذکر کی گئی ہیں۔

اس کے بعد اس کلمہ کا صحیح معنی اور اس کے ارکان مع دلائل ذکر ہوئے ہیں۔اس کے بعد لا الہ الا اللہ کی مشہور سات شرطیں قرآنی آیات واحادیث کی روشنی میں تحریر کی گئی ہیں۔

۷۔رسالے کا آخری حصہ لا الہ الا اللہ کے نواقض پر مشتمل ہے۔جن کی تعداد دس ہیں۔اور تمام نواقض کتاب وسنت کے دلائل سے مزین ہیں۔

اس رسالے کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلاف کے دیگر متون کی طرح یہ متن بھی اپنے آپ میں بے نظیر اور قابل اعتنا ہے۔بلکہ اس کا درس طلبہ اور عام لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے تاکہ اس کلمہ کا معنی اور مفہوم ٹھیک سے سمجھا اور سمجھایا جاسکے۔

اگرچہ یہ رسالہ متن سے تعلق رکھتا ہے تاہم اگر مولف اس میں ذکر کی گئیں حدیثوں (صحیحین کے علاوہ)کے بارے میں صحت وضعف کا حکم درج کردیتے تو قاری کو مزید فائدہ پہنچ سکتا تھا۔نیز اس رسالے کے ناشر کا نام تو درج ہے مگر زمانے کے تقاضے کے مطابق ایمیل،موبائل نمبر وغیرہ درج ہونا چاہیے تاکہ شائقین بہ آسانی اس رسالے کو حاصل کرسکیں۔

برادرم محترم کے دوسرے رسالے کو بھی پڑھا۔اپنے موضوع پر یہ رسالہ کافی اور شافی ہے۔نہایت عالمانہ انداز میں موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔چند منٹوں کے مطالعے سے قاری کو معلوم ہوسکتا ہے کہ مولف کو یہ رسالہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اسی طرح یہ بھی پتہ چلے گا کہ سجدہ شکر کا حکم اور فقہاء کے درمیان واقع اختلاف میں سے مولف نے امام شافعی اور امام احمد کے قول کو راجح قرار دیتے ہوئے سجدہ شکر کو ایک مشروع عمل قرار دیا ہے۔صفحہ نمبر 8 سے صفحہ نمبر 11 تک میں اس کی مشروعیت کے چار دلائل پیش کیے ہیں،دلائل کے طور پر پیش کی گئی چاروں حدیثوں میں سے صحیحین کی کعب بن مالک رضی اللہ عنہ والی حدیث کہ جب ان کے قبولِ توبہ کی خوش خبری ملی تو وہ سجدہ میں گر پڑے۔اور یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں غزوہ تبوک کے بعد پیش آیا تھا۔

مولف موصوف نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سجدہ شکر کا محل نئی اور اہم نعمتیں ہیں،عام اور مستمر نعمتیں نہیں۔کیونکہ انسان ایک پل بھی اللہ تعالی کی نعمتوں سے دور نہیں ہوتا۔اور اس امر کے دلائل کے طور پر علامہ سندی،علامہ شوکانی اور علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہم اللہ کے اقوال پیش کیے ہیں۔مصنف نے صفحہ 15-16 پر لکھا ہے کہ بعض علماء کا سجدہ شکر کے منسوخ ہونے کا دعوی غلط ہے۔اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ کو جب جنگ نہروان میں ابھرے ہوئے پستان والے شخص کی موت کی خوش خبری سنائی گئی تو آپ سجدہ میں گر پڑے۔(مسند احمد،حدیث نمبر:1255)

سجدہ شکر کی تعداد کے سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ احادیث پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے لیے صرف ایک سجدہ ہی مشروع ہے۔ایک سے زائد نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام سے صرف ایک سجدہ ہی منقول ہے۔اور چونکہ یہ عبادت ہے اس لیے اس میں اصل توقف ہے،سجدہ سہو یا دیگر سجود پر قیاس کرتے ہوئے دو سجدے کرنا جائز نہیں۔(ص۱۷)

کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ احادیث وآثار کی رو سے سجدہ شکر کے لیے کوئی دعا خاص نہیں ہے۔نعمت کی مناسبت سے جس طرح بھی ہو اللہ تعالی کا شکریہ ادا کیا جاسکتا ہے۔دعا عربی زبان میں ہو یا غیر عربی زبان میں کوئی حرج نہیں۔(ص۱۸)

سجدہ شکر کے لیے وضو،قبلہ رو ہونا،اللہ اکبر کہنا،تشہد میں بیٹھنا یا سلام پھیرنا ضروری نہیں ہے۔ویسے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف موجود ہے لیکن مولف موصوف نے مختلف اسباب کی بنا پر سجدہ شکر میں با وضو ہونے،قبلہ رخ ہونے،اللہ اکبر کہنے،تشہد میں بیٹھنے اور سلام پھیرنے کو ضروری نہیں ٹھہرایا ہے۔(ص۱۹۔۲۳)

مولف نےص۲۶ پر اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ اگر کسی کو ایسے وقت میں نعمت حاصل ہوئی جس وقت میں وہ سجدہ کرنے سے معذور تھا تو وہ فرصت ملتے ہی سجدہ کرسکتا ہے لیکن اگر بلا عذر یا سستی کی بنا پر سجدہ نہیں کیا تو بعد میں سجدہ کرنا درست نہیں۔اس کی تائید میں امام قلیوبی اور علامہ ابن عثیمین رحمہما اللہ کے اقوال پیش کیے گئے ہیں۔

اس کتاب کا آخری حصہ(ص۲۷سے۴۴تک)نماز شکر کی شرعی حیثیت،اس کے دلائل،دلائل کے فاضلانہ اور منصفانہ تجزیے،اور نماز شکر کی عدم مشروعیت پر بعض علما کے فتاوے پر محیط ہے۔ان صفحات کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز شکر سے متعلق جتنے بھی دلائل ہیں سب کے سب معلول ہیں۔اصل سجدہ شکر ہے جس کے دلائل صحیحہ موجود ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دونوں کتابوں کے مطالعے سے میرے علم میں اضافہ ہوا ہے اور کتاب کے مولف فاضل دوست کے لیے دل سے دعا نکلی ہے۔اللہ انھیں اسی طرح علمی دنیا میں پھلتا پھولتا اور کھلتا رکھے ان کی زندگی میں کبھی خزاں نہ آئے،بہار ہی بہار ہو۔

آپ کے تبصرے

3000