(شکوک وشبہات اور بعض غلط فہمیوں کا ازالہ)
راقم سطور کا مضمون”سلفیت اپنے مداحوں اور ناقدین کے نرغے میں” سلفی منہج کی توضیح وتشریح اور اس پر چھائے گردوغبار کو صاف کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔میرا عقیدہ ہے کہ اصل سلفی منہج عین اسلام ہے اور اسلام کی جوتعبیر وتشریح یہ منہج پیش کرتا ہے، اسی میں سلامتی اور عافیت ہے۔
امت میں فرقوں اور مسلکوں کا وجود ملت میں انتشار وافتراق کی بنیادی وجہ ہے۔ جو حضرات تقلید غیر معصوم کو واجب قرار دیتے ہیں اور حق کو ائمہ اربعہ کے درمیان محصور ومقید سمجھتے ہیں، وہ منصب رسالت میں نقب زنی کرتے ہیں اور چاروں مسالک کو مجموعی طور پر مقام رسالت پر فائز کردیتے ہیں۔
بعد کے ادوار کی دینی تنظیمیں اور جماعتیں اگر اصولی طور پر کتاب وسنت کو اپنا مرجع قرار دیتی ہیں اور ان کا فکر وفہم منہج سلف سے ہم آہنگ ہے تو سلفیت کو ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن جو نام تو اتباع کتاب وسنت کا لیتی ہیں لیکن ان کی تعبیروتشریح کے معاملے میں منہج سلف کی پیروی نہیں کرتیں، وہ کہیں نہ کہیں اس امت کو بدعت وضلالت کے راستے پر ڈال رہی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کے علاوہ کوئی نہیں جس کی تمام باتیں قابل قبول ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی غلطیوں اور خطاؤں سے صرف اپنے نبی کو معصوم رکھا ہے ۔باقی کسی کی کوئی ضمانت نہیں لی جاسکتی۔یہی وجہ ہے کہ سلفی منہج میں حوالہ صرف نصوص کتاب وسنت کا دیا جاتا ہے، اقوال رجال پر اکتفا نہیں کیا جاتا کیوں کہ نصوص کے مقابلے میں ان کے اجتہادات کو پیش کرنا ہی بنیادی غلطی ہے ۔
مضمون کے اصل مقصد کو نظر انداز کرکے اسے جن حضرات نے سلفی فکر ومنہج پراپنی جارحانہ تنقید کا ذریعہ بنایاہے ،انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے اپنے جتھوں اور فرقوں کا حال کیا ہے۔ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، اپنے گھر کی اصلاح ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
مجھے انتہائی خوشی ہے کہ برصغیر کے سلفیوں نے میرے اس مضمون کو پڑھا اور انھوں نے ان کمزوریوں کو تسلیم کیا جو اس جماعت میں پیدا ہوگئی ہیں لیکن جو حضرات اس مضمون کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، ذرا وہ بھی اسی جراء ت وہمت کے ساتھ اپنے گھر کی خبر لیں۔کمزوریوں کو دبائے رکھنا اور غیر ضروری طور پر ان کا دفاع کرنا کوئی مثبت رویہ نہیں ہے۔
خلافت وملوکیت از مولانا مودودی ایک متنازعہ فیہ کتاب ہے۔مولانا عبدالغفار حسن رحمانی کا ایک خط جب وہ مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ میں استاذ تھے،مولانا محمد امین اثری کے نام ہے جو میری ترتیب دادہ کتاب مکاتیب رحمانی میں موجود ہے،اس میں انھوں نے اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور جماعت اسلامی میں شامل علماء کے رویے پر افسوس جتایا ہے۔پروفیسر محمد یسین مظہر صدیقی نے مرکز جماعت دہلی میں اپنا مقالہ پڑھا جس میں خلافت وملوکیت کی بھی کچھ باتیں زیر بحث آئیں اور جب سوالات ہوئے تو یہ کہہ کر سب کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ آپ مولانا مودودی کو صحابہ کرام پر تنقید کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن خود مولانا مودودی پر تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ڈاکٹر وصی اللہ عباس حفظہ اللہ نے بھی مرکز میں پہنچ کر ذمہ داران کو توجہ دلائی کہ اب یہ کتاب بغیرحواشی کے شائع نہیں ہونی چاہیے لیکن رجال کی وہی عصبیت یہاں بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے مسالک میں موجود ہے۔
جماعت اسلامی کی ایران اور شیعیت سے قربت جگ ظاہر ہے۔کئی ایک ذمہ دار سرکاری مہمان بھی بن چکے ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں اسلامک موومنٹ آف انڈیا کی قربت ایران سے بڑھ رہی تھی، لکھنؤ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں مدرسہ بیک گراؤنڈ کے ارکان نے سختی کے ساتھ اس کا نوٹس لیا کہ اگر ایران سے تعلقات بڑھائے گئے تو ہم سب تنظیم سے واک آؤٹ کرجائیں گے لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔
شام اور یمن میں جو صورت حال ہے،اس سے ہم سب واقف ہیں،ایران کے اس میں کردار کی بھی ہمیں خبر ہے لیکن اس کے خلاف جماعت اسلامی کے قلم کار کچھ لکھنے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں۔کبھی ہمارے ملک میں طاغوت کی ملازمت شرک اور کفر کے درجے میں تھی ،اس کی سیاست میں حصہ لینا طاغوت کو تقویت پہنچانے کے مترادف تھا لیکن اب اسی طاغوت کی چاکری دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شناخت بن چکی ہے۔ملک کے دین دار طبقے کو ایک طویل عرصے تک جس طرح سیاست سے دور رکھا گیا ،اس کا جو نقصان ہوا اور جس کا خمیازہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں،اس کا کفارہ کون اور کیسے ادا کرے گا؟
یہ نتیجہ ہے اس سوچ کا کہ صرف ہم اسلام کے ترجمان ہیں،دنیا کی سیاست کو صرف ہم سمجھتے ہیں اور اگر صالح انقلاب کہیں آئے گا تو وہ صرف ہمارے ہاتھوں سے ۔ضرورت سے زیادہ اس خود اعتمادی نے پوری جماعت کو غرور میں مبتلا کردیا ہے اور اب جو صورت حال ہے ،اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، ارباب بصیرت اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔
جب سے میں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا ہے، دانشوروں، دانشوروں سے مرعوب علماء،جماعت اسلامی کےبنیادی لٹریچر کی سیر کرنے والے کم پڑھے لکھے عوام پر مشتمل یہ جماعت عالمی سیاست پر بہت زور شور سے گفتگو کرتی ہے ۔کبھی مصر،کبھی ترکی اور کبھی سعودی عرب اس کا موضوع بنتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر ان ملکوں کی باگ ڈور ان کے حوالے کردی جائے تو وہاں پورے طور پر اسلام آجائے گا۔جس ملک میں ہم رہتے ہیں،وہاں کے مسلمان کس اذیت سے دوچار ہیں ،اب تو ان کے وجود اور تہذیبی تشخص پر تلوار لٹک رہی ہے، جماعت کے ارباب حل وعقد ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے ترکی اور مصر کے لیے فکر مند ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل اور بنیادی کام تو ہم سے ہونہیں پارہا ہے لیکن لکھنے اور بولنے کی بیماری لگی ہوئی ہے ،اس لیے دل کو مطمئن کرنے کے لیے دوسروں پر سنگ باری ہوتی رہنی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر ترکی اور سعودی عرب کے حوالے سے جو مکالمہ جاری ہے اور اس میں میرے مضمون کو جس طرح سے گھسیٹا گیا ہے ،مجھے اس کا بہت دکھ ہے ۔مجھے امید ہے کہ اس میڈیا پر سرگرم حضرات سنجیدگی سے ان باتوں پر غور کریں گے اور سلفیوں کی اصلاح کے لیے لکھی گئی میری تحریر کا غلط استعمال نہیں کریں گے۔کسی دینی جماعت کے خلاف لکھنے بولنے سے میں عام طور پر احتراز کرتا ہوں، اصولی باتیں لکھنے پر اکتفا کرنا میری عادت ہے ،اپنی اس عادت کے خلاف یہ مختصر تحریر محض اس لیے لکھ دی ہے کہ کوئی کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہو ،جماعت اسلامی کو میں نے پڑھا بھی ہے اور برتا بھی ہے، جب میں اس کے تعلق سے کبھی کوئی مستقل مضمون لکھوں گا تو ان شاء اللہ مثبت اور منفی دونوں باتیں پیش کروں گا کیوں کہ حق اور انصاف کا تقاضا یہی ہے ۔والسلام
آپ کے تبصرے