حج و عمرہ کا مہتم بالشان مہینہ اپنی تمام تر برکات و ثمرات کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اللہ نے جنھیں حج و عمرہ کی استطاعت سے نوازا ہے وہ دیار مقدس کی طرف عازم سفر ہوں گے اور جن کی مالی بساط قربانی کے اخراجات کو اٹھا سکتی ہے وہ جانور کی خریداری کے لیے آمادہ ہوں گے۔ حج وقربانی کے موسم میں یہ دونوں عبادتیں بہت نمایاں ہوکر منظر عام پر آتی ہیں۔ یقیناً وہ لوگ جو ذہن رسا اور دل بینا رکھتے ہیں وہ کائنات کی دیگر نشانیوں کے ساتھ ایثار و فداکاری پر مبنی ان عبادتوں کو بھی غور وفکر کا موضوع بناتے ہیں۔ اسلام کی صداقت اسلامی تعلیمات کے اندر سے جھانکتی ہے۔ باشعور افراد عظمت اسلام کے اس رخ کو سمجھتے ہیں اور کبھی یہی بات ان کی فکر کی تبدیلی کا محرک بن جاتی ہے۔
آج قصور اسلام کے علمبرداروں کے طرز عمل کا ہے جو کبھی ہمیں اور ہمارے دین کو وہیں لاکر کھڑا کر دیتا ہے جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ ہمیں باطل اور واہیات نظر آتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم دین کی تعلیمات کو مطلوبہ فطری طریقہ پر انجام دیں تو ہم جگہ جگہ عظمت دیں اور صداقت توحید کا نقش بٹھاتےچلےجائیں گے۔اسلام کی فطری قوت تسخیر اپنا کام کرکے رہے گی۔ لیکن آج لوگ دین کو اپنے ڈھب اور صوابدید کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ دین کو اپنے مزاج و خواہشات کے تابع کرنے لگ جاتے ہیں ۔
آپ ایک سرسری نظر ڈالیے تو آپ کو وہ تمام بے اعتدالیاں نظر آئیں گی جو شریعت کے مزاج سے متصادم ہیں مثلا اخلاص کو شریعت مطہرہ میں بہت زیادہ ترجیح اور فضیلت حاصل ہے تاہم حج جیسے عظیم عمل میں بہتیروں کے یہاں اخلاص مفقود رہتا ہے۔
حج کرنے والوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ جانے سے پہلے اپنے سفر کی تشہیر وسیع پیمانے پر کرتے ہیں. وہ جہاں بھی جاتے ہیں پہلے سب کو یہی بتاتے ہیں کہ میں نے فارم بھر دیا ہے یا پیسے جمع کرا دیے ہیں۔ بس تاریخ کنفرم ہونی باقی ہے. آگے پیچھے وہ بھی ہو جائے گا۔ ہر رشتے دار ملاقاتی پڑوسی وغیرہ کو جب تک بتا نہیں دیتے انھیں چین نہیں آتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ پتہ سب کو چل جاتا ہے لیکن ایک بات یہ ہوتی ہے کہ آثار وقرائن سے معلوم ہونا جس میں عازم حج کی نیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور ایک یہ ہے کہ وفور شوق و چاہت سے بتانا، دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ ایک یہ ہے کہ کسی نے پوچھا اور آپ نے بتا دیا اور ایک ہوتا ہے بغیر پوچھے بلا وجہ آپ شروع ہوگئے اور پوری بلیٹن سنا دی۔ حج کا سفر کنفرم ہو نہ ہو لیکن مہینوں پہلے تشہیر ہوتی رہتی ہے اور گھر گھر قریہ قریہ خبر پہونچا دی جاتی ہے-
دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ لوگ حج سے پہلے شاندار دعوت بھی کرتے ہیں، وسیع پیمانے پر لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے پھر جہالت بالائےجہالت یہ کہ بعض اپنا بقایا عقیقہ بھی اسی شبھ اوسر پر ٹھان لیتے ہیں۔ خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر عقیقہ نہیں ہوا ہے تو حج بھی قبول نہیں ہوگا اور دعا و نیک خواہشات کے بہانے واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ پر بھی خبر پوسٹ کی جاتی ہے۔ پتہ نہیں حاجی صاحب کے حج سے قوم وملت کا کون سا فائدہ وابستہ ہے، خرافات کا سلسلہ یہیں پر رک نہیں جاتا بلکہ ایک بڑی تعداد کو ائیر پورٹ تک لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے دولہے کے ساتھ بارات روانہ ہورہی ہو، اپنی روانگی کو بھی یاد گار بنانے کی کوشش کہ جاتی ہے۔ بعض لوگ گاڑیوں پر بھی بینر لگا دیتے ہیں کہ حجاج کا قافلہ یا حاجیوں کی روانگی وغیرہ۔ یہی نہیں بلکہ شوشل میڈیا کے اس جنوں پرور دور میں جذبہ فراواں فارغ کہاں بیٹھنے والا ہے۔ وہ قوم جو مریض کی عیادت پر سیلفی سے نہیں چوکتی وہ بھلا دیار حرم میں صبر کہاں سے لائے گی۔ چنانچہ حرم پر نظر پڑتے ہی ایمان جوش مارے نہ مارے جذبہ خودنمائی ضرور جوش مارنے لگتا ہے۔ پھر ارکان حج کی ادائیگی میں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ان کا کیمرہ بھی چل رہا ہوتا ہے۔ پل پل کی تصویر اتاری جاتی ہے اور ایک ایک عمل کی ویڈیو بنائی جاتی ہے۔ طواف کی سیلفی، سعی کی سیلفی، قربانی کی سیلفی، رمی کی سیلفی، اور واپسی پر دوسروں کو دکھانے کی غرض سے اسے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ تصویروں کا البم بھی قبولیت حج کا حصہ سمجھ کر بنا لیا جاتا ہے تاکہ آگے نیک نامی کا سامان ہوتا رہے۔ گھر میں جیسے ہی کوئی اہم مہمان یا رشتے دار وارد ہوتا ہے کھجور اور زمزم کے ساتھ تصویروں کے البم اور ویڈیوز سے بھی ان کی تواضع کی جاتی ہے۔
حج سے زیادہ شاپنگ اور خریداری پر توجہ ہوتی ہے۔ خوبصورت مالوں اور شاپنگ سینٹروں میں جیسے دل اٹکا سا رہتا ہے۔ سامانوں کی ریڈی میڈ لسٹ موجود ہوتی ہے جو گھر ہی میں تیار کی گئی ہوتی ہے۔ تحفے تحائف کے ساتھ فرمائشی اشیاء کی طویل لسٹ بھی محفوظ ہوتی ہے۔ ادھر حج کے ارکان ختم ہوئے ادھر دل کے ہاتھوں مجبور دنیاوی امور ومشاغل میں دل وجان سے مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایک لاکھ نمازوں والی جگہ پر دوسرے خوبصورت مقامات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ سیروتفریح اور لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران کا بھی طواف چلتا رہتا ہے۔
حج کیا ہوا ایک مذہبی پکنک ہوگئی۔ اسی لیے تو کچھ بھاری بھرکم آمدنی والے دوڑ دوڑ کر ہر سال عمرے اور حج کے لیے پہونچتے ہیں اور شوق پورا کرتے ہیں۔ سفر سے واپسی پر ایک بات اور بھی دیکھی گئی ہے اور وہ ہے حج کے بعد حاجی صاحب سے کم کے خطاب پر راضی نہ ہونا۔ اب انھیں جب کوئی حاجی صاحب کہہ کر پکارتا ہے تو مسرت سے چہرہ چمک اٹھتا ہے، چائے اور کافی کا آرڈر بھی لگے ہاتھ صادر فرما دیا جاتا ہے تاکہ تھوڑی دیر اور خود پرستانہ طبعیت کی سیری ہوسکے، اگرکسی نے حاجی صاحب نہیں کہا تو ریسپونس ملنے والا نہیں ہے۔ پتہ نہیں حکایت صحیح یا غلط پر ہے بہت دلچسپ۔
ایک صاحب حج کرکے گھر واپس ہوئے تو اس دکان پر گئے جہاں سے ادھار راشن لایا کرتے تھے حاجی صاحب نے پہونچتے ہی کہا: حساب کی ڈائری نکالو-
دکاندار خوش ہوگیا کہ لگتا ہے آج پرانا حساب بے باق کردیں گے ۔ حج پر جاکر بدل گئے ہیں۔ ڈائری نکالا تو حاجی صاحب نے پوچھا: میرا نام کہاں ہے؟
دکاندار نے انگلی رکھ کر کہا: یہ ہے۔
کہا: ٹھیک ہے اب میرے نام کے آگے حاجی صاحب بڑھا دو۔
یہ تو کچھ نہیں ہے کتنے تو ایسے ہیں جو مزدوروں کی پگار روک کر، بیوپاریوں کو مہینوں لٹکا کرحج پر نکلتے ہیں۔ اگر کوئی مطالبہ کرنے آجائے تو کہتے ہیں، سنتے ہو کہ حج پر جانے والا ہوں پھر بھی چلے آئے تقاضا کرنے۔ ارے پہلے دعا کرو کہ جارہا ہوں صحیح سلامت واپس آجاؤں لین دین تو زندگی بھر چلتا رہےگا۔ آدمی بیچارہ تکلیف اٹھا لیتا ہے کہ آپ کا حج ہوجائے باقی لوگ جائیں بھاڑ میں۔ ادھر واپسی کے بعد جب بے چارہ مروت کا ستایا ہوا مزدور پیسہ مانگنے آیا تو حاجی صاحب پائیجامے سے باہر ہوگئے۔ جانتا ہے کہ ابھی حج سے واپس آیا ہوں لاکھوں روپیے خرچ ہوگئے ہیں پھر بھی شرم نہیں آئی اللہ کا شکر ادا کرو صحیح سلامت واپس آگیا۔ پیسہ دوں گا ناں کہاں بھاگا جارہا ہوں ۔
خیر یہ تو وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو وقتی تکلیف میں مبتلا کرکے جاتے ہیں۔ کتنے ایسے بھی ہیں جو لوگوں کا حق مارمار کر حج وعمرہ کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔ لیکن حج وعمرہ کی تاثیر پتہ نہیں کہاں بھٹک جاتی ہے جس کی چھاپ دور دور تک ان کی زندگیوں میں نہیں دکھائی دیتی۔ قول و فعل میں کہیں بھی تقوی کی پرچھائی نظر نہیں آتی۔
ترے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
حج جیسا روحانی عمل بھی اگر شخصیت میں، ذہن وفکر میں انقلاب نہ لائے تو افسوس کے ساتھ شرم کی بھی بات ہے. اگر حج صرف اپنے دل کی تسلی کے لیے کیا جاتا ہے تو غیر مسلم بھی کاشی متھرا امرناتھ کی یاترا کرتے ہیں اور گنگا جل پی کر اپنے دل کی تسلی کرلیتے ہیں۔ ان کے یہاں بھی ان کی یاترا سے کوئی اخلاقی انقلاب وابستہ نہیں ہوتا۔ کیا فرق ہے ہمارے حج و عمرے اور ان کی مذہبی یاتراؤں میں؟ جن کے قلوب حج وعمر ے کے لئے بھی ایمانی تڑپ، محبت رب، انابت کے جذبے اور شوق عبادت سے خالی ہوں ان کی زندگی میں حج کے بعد کوئی خوشگوار تبدیلی نظر نہیں آسکتی۔ وہ سوکھا ہوا کھوکھلا جذبہ لے کر جاتے ہیں اور اسے مزید پژمردہ کرکے واپس لاتے ہیں ۔ زندگی کو کوئی نئی سمت نہیں ملتی، سوز نہاں نہیں ملتا، جذبہ آخرت پروان نہیں چڑھتا، انابت الی اللہ انگڑائی نہیں لیتی، بلکہ فسق وفجور عود کر آتے ہیں اور حج کے بعد کی زندگی “چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی” کے مصداق بن جاتی ہے-
حاجی صاحب نمازیں بھی چھوڑتے ہیں، نوکروں کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ ان کے بزنس میں دھاندلیاں بھی پہلے جیسی جاری وساری ہیں، بیٹے کے رشتے کے لیے ڈیمانڈ بھی کررہے ہیں۔ شب وروز کی رفتار بے ڈھنگی میں ذرا بھی فرق نہیں آتاہے۔ سچ کہا ہے شاعر نے
کعبہ بھی گئے پر نہ گیا عشق بتوں کا
زمزم بھی پیا پر نہ بجھی آگ جگر کی
اور حیرت کی انتہا یہ ہے کہ دل اتنے سخت ہوجائیں کہ فاسق وفاجر بھی ان کی حرکتوں کو دیکھ کر شرماجائے اور یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ ہزار برائی کے باوجود میں تو خیر ان سے اچھا ہی ہوں۔
ایک صاحب نے حاجی صاحب کو برائی میں ملوث دیکھا تو طنزا کہا کہ شرم نہیں آتی ہے حج کرکے آئے ہو اور حرکتیں ایسی ہیں۔ حاجی صاحب نے کمال ڈھٹائی سےکہا کہ اس میں کیا ہے ۔ ایک بار پھر جاکے حج کرلون گا۔
کیا سمجھے آپ، حج کے تعلق سے یہی سوچ کارفرما ہے، ہزار برائیاں کرو یا زندگی بھر برائیاں ہی کرتے رہو بس ایک بار حج کرلو، سب معاف ہوجائے گا۔ بعض باحیثیت لوگ تو اسی لیے حج میں تاخیر کرتے ہیں کہ فسق وفجور کے شراب ناب میں خوب غوطہ لگا لوں۔ حرام حلال ذریعے سے دولت جمع کرلوں۔ اخیر زندگی میں کاروبار بیٹے کو سونپ کر حج کرکے بس صرف اللہ اللہ کروں گا۔ جب تمناوں اور آرزوؤں کی شکم پری ہوجاتی ہے تو ایک عدد حج کرکے تلافی مافات کرتے ہیں اور کسی قدر مومنانہ زندگی کا آغاز کرکے معاشرے کی ہر برائی پر جگہ جگہ لیکچر دیتے ہوئے پھرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ حج جیسا عظیم الشان عمل بھی بے روح عبادت بن کر رہ گیا ہے۔ تاثیر و انقلاب کا عمل ایک بھولی بسری بات بن گئی ہے۔وگرنہ حج کے اعمال میں دین و تقوی پر مبنی عظیم اور غیرمعمولی دروس وپیغامات ہیں۔اخلاص وللہیت اور روحانی وشعوری طور پر ایک ایک عمل کو برتنے والا یقینا اپنی دل کی دنیا کو بدلتا ہوا محسوس کرے گا۔ وہ اپنے اندر قوت ایمانی کی اٹھان اور جذبہ عمل کو پروان چڑھتا ہوا پائے گا۔ حج سے فراغت کے بعد وہ اپنی مومنانہ کیفیت پر یہ کہے بغیر نہ رہے گا کہ
صد سالہ دور چرخ تھا ساقی کا اک جام
نکلا جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
آپ کے تبصرے