براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

رشید سمیع سلفی عبادات

قربانی اسلام کا عظیم الشان عمل اور غیر معمولی عظمتوں سے معمور ہے۔ قربانی کو اگر اس کے پس منظر سے ملاکر غور و فکر کے خوردبین سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ قربانی کا عمل ایک انسان کو ایثار وفداکاری کے منصب بلند پر پہونچانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ قربانی ایسی کیفیات و حسیات سے لبریز ہے کہ دل زندہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور جذبہ عمل کو کچھ کر گزرنے کے لیے مضطرب ہوجانا پڑے۔
کیا یہ قربانی اہل ایمان کے ذہن کو ہزاروں سال پیچھے ابراہیم علیہ السلام کے گرد وپیش کے روح پرور فضا میں نہیں پہونچاتی ہے جہاں ایک مومن کی نگاہوں کے سامنے تسلیم ورضا،ایثار وفداکاری کی تمام روایتیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ عقل وخرد کی تمام‌ پیش بندیاں اپناسا منہ لے کر رہ جاتی ہیں۔ اور علامہ اقبال کا شعر “عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی” حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کی یادگار قربانی تا قیامت ادا کی جاتی رہے گی۔ اہل ایمان کی زبانیں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی لیکن وہ جذبہ فدویت، وہ تڑپ، وہ جانثاری، وہ عزم فراواں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کردار کا حصہ ہے عنقا ہی رہے گا ۔ اب تو ان جذبات واحساسات کا قربانی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا بلکہ قربانی بہ تمام وکمال روح قربانی سے عاری ہوکر ریا و نمود، فخر ومباہات، دنیوی اغراض ومقاصد میں گھری ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے قربانی کرنے والا متقیانہ جذبوں سے لبریز اور مومنانہ امنگوں سے سرشار ہوتا ہے اور اس جانور کی قربانی کے ساتھ اپنا سب کچھ راہ خدا میں وار دینے کا حوصلہ لے کر اٹھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ طرز عمل اور ظاہری رکھ رکھاؤ اصل جذبے کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ ہمارے عملوں کا نام، صرف قربانی اور سنت ابراہیمی ہوتا ہے پس پردہ وہ سب کچھ ہوتا ہے جو شیطان کو خوش کرنےاور اللہ کو ناراض کرنے والا ہوتا ہے
ابراہیمی عمل کا نام نہاد دعویدار اپنے عمل وکردار سے قربانی کے برعکس پیغام دیتا ہے۔ جو جتنا مالدار ہوتا ہے وہ اسی مقدار میں بکرے لا کر اپنی مالداری کا رعب جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ حسن اخلاص وعمل کے بجائےکثرت تعداد یہاں بھی مد نظر ہوتی ہے خیال یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال جتنے بکرے لائے تھے اس سے کم تو لانا نہیں ہے یا فلاں صاحب جتنے لاتے ہیں اس سے کم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فخر و مباہات یا اپنے مالی حیثیت کو جتانے کی خاطر قربانی کی جاتی ہے۔ کوئی اگر بکرے کی ذرا سی تعریف کردے تو سیدھا ہوش ربا مہنگائی کا حوالہ دے کر قیمت بتانے لگتے ہیں کہتے ہیں بکرا بھاری ہے تو مضبوط پیسہ بھی تو لگا ہے۔ بعض لوگ اصل قیمت سے بڑھا کر بھی بتاتے ہیں تاکہ آپ کو ان کی مصنوعی پہنچ کا علم ہوجائے۔ جانوروں کو گلی کوچوں میں پھرانا اور گھمانا عام سی بات ہے۔ بعض جذبہ قربانی رکھتے ہوئے جانور لانے سے معذور ہوتے ہیں تو اپنے رشتے داروں کے جانور عاریتا گھر کے سامنے لاکر باندھ دیتے ہیں تاکہ پتہ تو چلے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ بس آپ مومنوں کے ایمان افروز واقعات سنتے جائیے اور سر دھنیے ۔
شوشل میڈیا کےاس دور میں تو لوگوں کی قربانی بھی اس کی برکتوں سے شادکام ہوتی رہتی ہے جانوروں کے ساتھ سیلفی تو بڑی بات نہیں وہ تو اکثر لیتے ہیں سیلفی تو موبائل والوں کا اہم مشغلہ ہے۔ جانور کی تصویر کھینچ کر رشتہ داروں اور دوست احباب کو بھیجنا، معمول کی بات ہے۔ ہمارے بہتیرے باذوق بھائی پروفائل اور ڈی پی بھی قربانی کے جانور کی لگا لیتے ہیں اور اس وقت تک نہیں ہٹاتے جب تک کہ اس جانور کے بقایاجات فریج سے معدوم نہیں ہوجاتے۔
ایک صاحب کے جانور کی ذرا تعریف کردی تو وہ موبائل نکال کر کئی سالوں کے ریکارڈ دکھانے لگے اور تمام جانوروں کی تصویریں سنہ کے ساتھ موبائل میں محفوظ تھیں۔ کہنے لگے دیکھیے یہ 2011 اور یہ 2012 اور یہ 2013 وغیرہ
بنانے والے تو ذبح کی ویڈیو بھی بنالیتے ہیں اور دکھاتے پھرتے ہیں۔
عبادت وتقوی کی روح توعملوں سے ناپید ہے۔صرف کھوکھلے حرکات و سکنات پر ہماری دینداریوں کا بھرم قائم ہے۔ اخلاص سے عاری عظیم الشان قربانی کا مقصد گوشت خوری بھی ہوتا ہے۔ یہاں بھی مقصد قربانی اور جذبہ فداکاری کہیں کھو سا جاتا ہے ۔ مختلف قسم کی ڈشوں کے مسالے پہلے سے خرید لیے گئے ہوتے ہیں۔ بس بکرے کے ذبح ہونے کی دیر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کھانا اور گوشت کو مختلف طریقے سے پکا کر اس کا مزہ لینا حرام ہے ۔ہرگز نہیں شریعت نے اس سے منع نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تعلیم بھی دی ہے لیکن قربانی صرف گوشت خوری کے لیئے نہیں ہے۔ بلکہ غربا ومساکین کو بھی کھلانے اور تقسیم کرنے کی تعلیم دی ہے لیکن تقسیم کے مسئلے میں بھید بھاؤ اور تفریق برتی جاتی ہے کس کو دینا ہے اور کس کو نہیں دینا ہے اور کن کو کتنا دینا ہے اور کیا دینا ہے سب طے شدہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے پریوار سے دور شہر میں روزگار کی خاطر مجبوری میں زندگی گزاررہے ہوتے ہیں بسااوقات ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ دوسرے کی قربانی کرانے والے عالم نے طویل انتظار کے بعد کہیں سے گوشت نہ پہونچنے کی صورت میں بدرجہ مجبوری غیر مسلم محلہ سے گوشت خرید کر پکایا ہے۔ یہ بے حسی اور بے مروتی مسلمانوں کی سرشت نہیں تھی یہ کھانے اور کھلانے والی قوم تھی جس کی نظیر آج بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے لیکن اکا دکا مثال بھی خیر کے ہر کام میں ہماری تیز رفتار تنزلی کا پتہ دے رہی ہے اور مستقبل میں یہ سلسلہ مزید در مزید اور سنگین صورت اختیار کرے گا۔
آخر ہماری نگاہیں کیوں قربانی کے گوشت اور خون تک جاکر رک جاتی ہے۔ جانور کی قربانی کے ساتھ ہر طرح کی قربانی کا ولولہ ہم میں انگڑائی کیوں نہیں لیتا۔ وہ تاریخی پس منظر آخر کہاں کھو جاتا ہے جس کا اعادہ ہم جانور کی قربانی کی شکل میں ہرسال کرتے ہیں۔ وہاں جو قربانی دی گئی تھی لخت جگر کی قربانی تھی جو برسوں کی تمناوں کے بعد ملا تھا۔ بڑھاپے کا سہارا اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھا لیکن حکم الٰہی غالب آیا اور بیٹے کو قربان کرنے کی ٹھان لی۔ ظاہر ہے جب جذبہ فدا کاری اس نکتہ عروج پر پہونچ جائے تو اور کیا چیز ہے جس کی قربانی نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ کیا اب تک کی قربانیوں کے بعد بھی اس قربانی کا عشر عشیر بھی ہمارے جذبوں تک پہونچا ہے؟۔ اگر نہیں تو دیکھئے اور محسوس کیجیے، کہیں گردش ایام کی چھری نے ہمارے ایمان ہی کی قربانی تو نہیں کردی؟
ہم بڑی چیز سمجھتے تھے پہ مے خانے میں
نکلا اک جام کی قیمت بھی نہ ایماں اپنا

آپ کے تبصرے

3000