اسلامی تاریخ میں جن مجددین امت کو یاد کیا جاتا اورجن کے علوم ومعارف سے استفادہ کیا جاتا ہے ،ان میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (1328-1263ء) کا مقام سب سے بلند ہے۔ ان کی حیات وشخصیت پر کافی کام ہوچکا ہے اور ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔اہل علم مسلسل ان کے افکار وخیالات کو مختلف انداز میں پیش کررہے ہیں اور ان کی معنویت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلام خالص کی حقیقی تصویر پیش کرنے کا ان کا جو سادہ انداز ہے اور جس طرح وہ نصوص کے انبار لگا دیتے ہیں، آج ہمارے لیے وہ ایک اعلی نمونہ ہے کہ اسلامی دعوت اور اس کے پیغام کی ترسیل وتفہیم کس طرح کی جائے۔ ہمارے دینی مدارس کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ شیخ الاسلام کی حیات اور کتاب وسنت پر مبنی ان کے افکار ونظریات کا مطالعہ ضرورکریں۔ اس سے نہ صرف ان کے علم میں اضافہ ہوگا بلکہ ان کے اندر وسعت ذہنی بھی پیدا ہوگی اور ملت کے تئیں اہل علم کے فرائض کا صحیح معنوں میں ادراک ہوگا۔
اردو زبان میں ان کی کئی ایک کتابوں اور رسائل کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ برصغیر میں اس کا آغاز نواب صدیق حسن خاں بھوپالی (1890-1832ء) اور غزنوی علمائے حدیث نے کیا تھا اور پھر مولانا ابوالکلام آزاد (1958 -1888ء) کی تحریک پر کئی ایک افراد نے ان کی تحریروں کے اردو ترجمے کیے اور یہ سلسلہ بحمداللہ جاری ہے ۔ راقم سطور کو بھی ایک پروجیکٹ کے تحت ان کے بہت سے فتاوی کے ترجمہ کا شرف حاصل ہے ، اللہ کرے کہ جلد ہی ان کی اشاعت عمل میں آسکے ۔ اسی طرح ان کی شخصیت پر علامہ شبلی (1914 -1857ء)، مولانا ابوالکلام آزاد (1958 -1888ء)، مولانا غلام رسول مہر (1971-1895ء)، ڈاکٹر غلام جیلانی برق (1985 -1901ء)، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی (1999-1914ء) اور مولانا یوسف کوکن عمری (1990-1916) نے بہت کچھ لکھا ہے، اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب ابوزہرہ کی ہے جس کا اردو ترجمہ رئیس احمد جعفری (1968-1908ء) نے کیا ہے اور تعلیقات و حواشی مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (1987-1908ء) نے لگائے ہیں۔ یہ کتاب دارالسلفیہ لاہور سے شائع ہوتی ہے، ابھی تک ہمارے ملک کے کسی ادارے نے شاید اسے شائع نہیں کیا ہے لیکن محدث ڈاٹ کام پر یہ کتاب دستیاب ہے، اہل علم اس سائٹ سے کتاب ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
عربی زبان میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر کافی کام ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس سلسلے کا سب سے اہم کام شیخ صلاح الدین مقبول مدنی حفظہ اللہ (ولادت: 1956ء) اور ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی حفظہ اللہ (ولادت:1372ھ) کا ہے ۔ اول الذکر کی کتاب کا نام ’’دعوۃ شیخ الإسلام وأثرہا فی الحرکات المعاصرۃ‘‘ ہے جب کہ موخر الذکر کی کتاب کا نام: ’’شیخ الإسلام ابن تیمیۃ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ‘‘ (۴ مجلدات) ہے۔ ڈاکٹر فریوائی حفظہ اللہ نے شیخ الاسلام پر بعض اہم اور مفید کام عربی زبان میں اور بھی کیے ہیں۔ علمائے ہند میں شیخ الاسلام پر سب سے زیادہ علمی کام معروف سلفی محقق اور مخطوطات وتراث اسلامی کے پارکھ برادر محترم شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ (ولادت:1957ء) کا ہے۔ اب ان کی شہرت شیخ الاسلام کے متخصص کی ہے اور بلا شبہ وہ معاصر علماء میں شیخ الاسلام کی متنوع خدمات، ان کے علوم ومعارف اور ان کے افکار وخیالات کے سب سے بڑے واقف کار ہیں۔انھوں نے شیخ الاسلام کی شخصیت اور ان کی کتابوں پر جو کام کیے ہیں، ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
(1) الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ خلال سبعۃ قرون (بالاشتراک، جمع وتدوین)۔
شیخ الاسلام کی حیات، شخصیت اور علمی خدمات پر گزشتہ سات صدیوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے، یہ اس کا مجموعہ ہے۔ شیخ محمد عزیر کے ساتھی نے اس کا تکملہ بھی تیار کردیا ہے۔
(2) جامع المسائل (۱تا۹)،
شیخ الاسلام کے غیر مطبوعہ فتاوی کا مجموعہ۔ بعض بڑے نادر فتاوی اس مجموعے میں شامل ہیں بلکہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں امام موصوف کا جو مبنی برحق نقطۂ نظر ہے، پہلی بار اسی مجموعے سے وہ ہمارے سامنے آیا ہے ۔ اب تک ہم امام ابن قیم جوزیہ کی کتابوں سے امام موصوف کے نقطۂ نظر کو پڑھ رہے تھے۔ کئی سال ہوئے اس کی ابتدائی چھ جلدوں کا تعارف راقم نے ماہنامہ نداء الصفا، ڈومریاگنج، میں کرایا تھا جسے شیخ محمد عزیر صاحب نے پڑھ کر اپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
(3) تنبیہ الرجل العاقل علی تمویہ الجدل الباطل لابن تیمیہ (بالاشتراک، تحقیق وتخریج)
(4) جواب الاعتراضات المصریۃ علی الفتیا الحمویۃ لابن تیمیہ (تحقیق وتخریج)
شیخ محمدعزیر شمس حفظہ اللہ کو اللہ نے اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ان کا حافظہ غضب کا ہے۔ اسلامی تراث کی مطبوعات ومخطوطات کے ایک بڑے حصے سے وہ باخبر ہیں اور اسلامی شخصیات کی تاریخ ولادت و وفات ان کی زبان پر ہوتی ہے۔ مطبوعہ مجموع الفتاوی لابن تیمیہ کے وہ ایک طرح سے حافظ کہے جاسکتے ہیں۔۳۵؍جلدوں پر مشتمل اس مجموعے فتاوی کے بارے میں انھیں بہ خوبی علم ہے کہ اس میں امام موصوف کی کون کون سی کتابیں شامل ہیں، کون سے فتاوی مکمل ہیں اور کون سے نامکمل۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ مجموع الفتاوی کے محترم جامعین جن مخطوطات کو پڑھ نہیں سکے تھے اور جو امام ابن تیمیہ کے اپنے قلم سے تھے، شیخ عزیر نے ان کو پڑھا اور پھر ان کو مرتب کرکے شائع کرایا۔ اللہ ان کی صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائے ۔آمین
شیخ الاسلام کی حیات اور شخصیت سے متعلق یہ باتیں بطور تمہید درج کردی گئی ہیں تاکہ ہمارے نوجوان اسکالرس ان کی طرف رجوع کریں اور امام ابن تیمیہ کے معارف سے ذہنی مناسبت پیدا کرکے دور حاضر کی مشکلات اور آزمائشوں کا کوئی حل تلاش کریں۔ آج جس طرح کی سیاسی اور مذہبی دشواریوں کا ہم سامنا کررہے ہیں، جس طرح دشمنان اسلام ، اسلام اور اہل اسلام پر پل پڑے ہیں، جس طرح مسلم حکمرانوں اور ان کی رعایا کے درمیان کشمکش جاری ہے اور جس طرح مسلمانوں کے اندر عقیدہ وفکر کے اعتبار سے جنگ وجدال برپا ہے، شیخ الاسلام کے دور میں کچھ اسی طرح کے حالات تھے۔ انھوں نے اگر ایک طرف گمراہ فرقوں کے اعتقادی اور عملی زیغ وضلال کو واضح کیا تو دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان ا تحادواتفاق اور الفت ومحبت قائم کرنے کے لیے سعی وجہد فرمائی، متکلمین اور فلاسفہ نے ذات وصفات الٰہیہ کے تعلق سے جو عقلی پراگندگی پھیلائی تھی ،اسے کتاب وسنت کے نصوص سے سادہ انداز میں بیان کرکے بتایا کہ اس سلسلے میں راہ صواب ومستقیم صرف وہی ہے جو سلف صالحین کا ہے، اہل کتاب خصوصاً عیسائیوں نے جس طرح سیدنا عیسی علیہ السلام کی شریعت میں تحریف کی اور ان کے لائے ہوئے دین کی تصویر مسخ کردی، اس کو بھی انھوں نے طشت ازبام کیا، رافضیوں نے اہل بیت کی محبت کے حوالے سے صحابہ کرام کی عظمت کو جس طرح داغدار کیا ہے اور جو کفریات اپنی کتابوں میں درج کی ہیں، ان کا جواب بھی ا نھوں نے ایسا دیا ہے کہ آج تک اس کا کوئی علمی جواب رافضیوں کی طرف سے نہیں آسکا ہے۔ اسلام کے سیاسی پہلو پر جب گفتگو کرتے ہیں تو وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت کا قیام واجبات دین میں سے ہے اور پھر مسلم حکمرانوں کو سیاست کس طرح کرنی چاہیے اور اسلام کے سیاسی نظام کی ترجیحات کیا ہیں، ان کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اپنے دور کی ایک مسلم حکومت کے تحفظ اور اس کی بقا کے لیے تلوار بھی اٹھاتے ہیں اور میدان جہاد میں سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ حیات مستعار کا خاصا بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرتا ہے لیکن وہاں بھی اپنے مشن کو جاری رکھتے ہیں۔معاصر علماء کی دشمنی اور ان کی منافرت کے نتیجے میں طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرتے ہیں لیکن جب ان سے انتقام لینے کا موقع ہاتھ آتا ہے اور وقت کا حکمراں ان کے مخالف علماء کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو نہ صرف سب کو معاف کردیتے ہیں کہ بلکہ تمام مخالف علماء کے محاسن اور کمالات بیان کرکے سب کا سرکاری وظیفہ بھی بحال کراتے ہیں اور ان کے مناصب انھیں واپس دلاتے ہیں۔ فقہی فروعات میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے متبوع ائمہ وفقہاء کی علمی شخصیت اور ان کے طریقہ استنباط واجتہاد کی وضاحت کرتے ہیں اور پھر ان میں ابھرنے والے اختلافات کی خوبصورت توجیہ کرتے ہیں۔ سماجی مسائل اور بیع وشراء کے معاملات میں عصری الجھنوں کا حل نصوص کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جس سے معاصر علماء کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ تقلید اعمی کے شکار دور حاضر کے مفتیان کرام مکھی پر مکھی مارتے رہتے ہیں اور پھر عمرانہ، طلاق ثلاثہ اور حلالہ جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جو اسلام کے چہرۂ صافی کو داغدار کرجاتے ہیں ۔ فقہ کے بعض جزئی مسائل کو وحی الٰہی سمجھ کر اس طرح اس سے چمٹ جاتے ہیں کہ روح شریعت لہو لہان ہوجاتی ہے لیکن ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ شیخ الاسلام کی فقہی ترجیحات کا مطالعہ کرجائیے، آپ کو دور حاضر کی بہت ساری الجھنوں کا حل اس میں مل جائے گا یا اجتہاد واستنباط کی ایسی شاہ کلید ہاتھ آجائے گی جس سے ہر بند دروازے کو بآسانی کھولا جاسکتا ہے۔
مختصر یہ کہ آج کے دور میں ہم جن مصائب میں گرفتار ہیں اور ہمارے اہل فکر ودانش جس طرح مختلف خیموں میں تقسیم ہوکر ارہاب، دہشت گردی، مغربی جمہوریت، بادشاہت، مسلم حکمراں کے خلاف خروج وبغاوت، عالم اسلام کی وحدت وسالمیت اور اعدائے اسلام کے خلاف سیاسی حکمت عملی وغیرہ فکری وعملی مسائل سے جوجھ رہے ہیں، ان کا تسلی بخش جواب شیخ الاسلام کی تحریروں میں موجود ہے۔ ایک پڑھی لکھی نومسلم خاتون مریم جمیلہ رحمہا اللہ (2012-1934ء) نے اپنی ایک کتاب میں کافی پہلے لکھا تھا کہ آج کے دور کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی ضرورت ہے لیکن ان کی آواز صدا بہ صحراء ثابت ہوئی اور ہم امام موصوف کے دینی افکار اور ان کے علوم ومعارف سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ تقلید اعمی کے شکار حضرات تو ابن تیمیہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، گمراہ صوفیاء اور اہل بدعت انھیں اٹھتے بیٹھتے شب وروز گالیاں دیتے ہیں لیکن اہل حق کے اس گروہ کو کیا ہوگیا جو امام ابن تیمیہ سے ذہنی وفکری مناسبت رکھتا ہے، وہ آگے کیوں نہیں آتا۔ امام ابن تیمیہ جیسا جگر پیدا کیجیے، سب کے لیے دلوں میں وسعت پیدا کیجیے، داعی اسلام بن جائیے اور پھر دیکھیے کہ امام ابن تیمیہ کی تحریریں کس طرح ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فقہی توسع کی ایک مثال نقل کردی جائے تاکہ جو حضرات اس نوع کے فقہی مسائل کو امت میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں کھل سکیں اور شیخ الاسلام سے محبت کرنے والوں کو بھی پتا چلے کہ ہمارا اصل پیغام کیا تھا اور رد عمل کا شکار ہوکر ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔
ہمارے برصغیر میں مسلکی منافرت کی انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز کے لیے اقامت فرادی کہہ دے تو وہ تسلیم نہیں کی جائے گی اور اقامت دوبارہ کہلوائی جائے گی۔ اسی طرح اگر کہیں اقامت مثنی کہہ دی جائے تو افضل کے ترک پر کم ازکم دل میں ناگواری محسوس کی جائے گی۔بعض لوگوں نے یہ درمیانی راستہ نکال کر بھی فتوے دیے ہیں کہ اذان اگر ترجیع کے ساتھ دی جائے تو اقامت مثنی کہی جائے، ورنہ فرادی کہی جائے۔ مسلکی مساجد کی شناخت آج اقامت اور اذان بھی بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں جو احادیث موجود ہیں اور ان سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے، اسی طرح اس تعلق سے ائمہ فقہ کے رجحانات کیا ہیں، ان پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے:
وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَالصَّوَابُ مَذْہَبُ أَہْلِ الْحَدِیثِ وَمَنْ وَافَقَہُمْ وَہُوَ تَسْوِیغُ کُلِّ مَا ثَبَتَ فِی ذَلِکَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَکْرَہُونَ شَیْئًا مِنْ ذَلِکَ إذْ تَنَوُّعُ صِفَۃِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَۃِ کَتَنَوُّعِ صِفَۃِ الْقِرَاء َاتِ وَالتَّشَہُّدَاتِ وَنَحْوِ ذَلِکَ. وَلَیْسَ لِأَحَدِ أَنْ یَکْرَہَ مَا سَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأُمَّتِہِ. وَأَمَّا مَنْ بَلَغَ بِہِ الْحَالُ إلَی الِاخْتِلَافِ وَالتَّفَرُّقِ حَتَّی یُوَالِیَ وَیُعَادِیَ وَیُقَاتِلَ عَلَی مِثْلِ ہَذَا وَنَحْوِہِ مِمَّا سَوَّغَہُ اللَّہُ تَعَالَی کَمَا یَفْعَلُہُ بَعْضُ أَہْلِ الْمَشْرِقِ فَہَؤُلَاء ِ مِنْ الَّذِینَ فَرَّقُوا دَیْنَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا۔وَکَذَلِکَ مَا یَقُولُہُ بَعْضُ الْأَئِمَّۃِ – وَلَا أُحِبُّ تَسْمِیَتَہُ – مِنْ کَرَاہَۃِ بَعْضِہِمْ لِلتَّرْجِیعِ وَظَنِّہِمْ أَنَّ أَبَا مَحْذُورَۃَ غَلِطَ فِی نَقْلِہِ وَأَنَّہُ کَرَّرَہُ۔لِیَحْفَظَہُ وَمِنْ کَرَاہَۃِ مَنْ خَالَفَہُمْ لِشَفْعِ الْإِقَامَۃِ مَعَ أَنَّہُمْ یَخْتَارُونَ أَذَانَ أَبِی مَحْذُورَۃَ. ہَؤُلَائِ یَخْتَارُونَ إقَامَتَہُ وَیَکْرَہُونَ أَذَانَہُ وَہَؤُلَائِ یَخْتَارُونَ أَذَانَہُ وَیَکْرَہُون إقَامَتَہُ. فَکِلَاہُمَا قَوْلَانِ مُتَقَابِلَانِ. وَالْوَسَطُ أَنَّہُ لَا یُکْرَہُ لَا ہَذَا وَلَا ہَذَا۔
(مجموع الفتاوی۲۲؍۶۶-۶۷جلد اور صفحات کی تعیین شاملہ سے کی گئی ہے)
’’جب مسئلے کی نوعیت یہ ہے تو درست مسلک اہل حدیث اور ان لوگوں کا ہے جو ان سے ہم آہنگی رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے سب کو جائز قرار دیا جائے ۔اہل حدیث ان میں سے کسی پر ناگواری کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ اذان اور اقامت کا تنوع قراء ات اور تشہدات وغیرہ کے تنوع کی طرح ہے۔کسی کے لیے جائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جسے سنت بتایا ہو ، اس پر ناگواری کا اظہار کرے۔ لیکن جس کی حالت اختلاف وتفریق کی بن چکی ہے حتی کہ وہ ان یا ان کی طرح دوسرے مسائل کی بنیاد پر جن کو اللہ نے جائز رکھا ہے ، ایک دوسرے سے محبت کرتا،دشمنی رکھتا اور جنگ وجدال کرتا ہے جیسا کہ بعض اہل مشرق کیا کرتے ہیں، تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنھوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرلیے اور مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔یہی حالت بعض ان ائمہ کی ہے………میں ان کا نام یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا………جو اذان میں ترجیع کو ناپسند کرتے ہیں اور بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے الفاظ اذان دہرانے میں غلطی کی تھی ، نبی اکرم ﷺ نے ان کو یاد کرانے کے لیے شہادتین کو دہرایا تھا۔ اسی طرح بعض ائمہ مثنی اقامت پر ناگواری ظاہر کرتے ہیں جب کہ وہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان ترجیع کو ترجیح دیتے ہیں۔ اول الذکر حضرات سیدنا ابومحذورہ کی اقامت کو پسند کرتے ہیں اور ان کی اذان کو ناپسند اور موخرالذکر حضرات ان کی اذان کو پسند کرتے ہیں اور تکبیر کو ناپسند ۔دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوجاتے ہیں جب کہ اعتدال کی شاہراہ مستقیم یہ ہے کہ نہ اِس پر ناگواری کا اظہار کیا جائے اور نہ اُس پر‘‘۔
ہمارے لیے عبرت کی بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اہل حدیث کا مسلک دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال والا مسلک کہتے ہیں اور ہم اہل حدیث ہوتے ہوئے آج وہی راستہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی تردید شیخ الاسلام کررہے ہیں اور اہل مشرق کی فرقہ وارانہ ذہنیت پر اپنی برہمی کا اظہار کررہے ہیں۔ مزید وہ یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ اس طرح کا کام وہی لوگ کرتے ہیں جنھوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کرلیے ہیں اور مختلف جتھوں اور گروہوں میں خود کو تقسیم کرچکے ہیں-
۔فاعتبروا یا أولی الأبصار
آپ کے تبصرے