دعوت دین اور زبان دانی کی اہمیت

عبدالوحید عبدالقادر سلفی

دعوتِ دین کی اہمیت و فضیلت ہم میں سے کسی پر مخفی نہیں ۔ ہر زمانے میں اس کی اہمیت رہی ہے اور تاقیامت باقی رہے گی۔ دعوت کا کام کوئی معمولی اور آسان عمل نہیں ہے کہ ہر کس وناکس اس میدان میں کود پڑے چاہے اسے دعوت کے اصول و مبادی سے آگاہی ہو یا نہ ہو اس کے اسباب و وسائل کو برتنا جانتا ہو، یا اس سے پیدل ہو ، حالات و ظروف اور مصالح و مفاسد کی نزاکتوں سے باخبر ہو یا نہ ہو، دعوت کے اسرار و رموز سے عدم واقفیت بسا اوقات فتنہ و فساد کا سبب بن جاتی ہے، مدعو قوم و افراد کو غلط پیغام جاسکتا ہے اور اس کی نزاکت کا علم نہ ہو تو اپنوں کی تکفیر و تفسیق اور غیروں سے نفرت و عداوت کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔
یوں تو دعوت دین کی انجام دہی کے لئے بہت سارے اسباب و وسائل اور عوامل و محرکات کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کا ایک اہم عنصر اور لازمی جزء ہے زبان دانی اور اسلوب و بیان کی مہارت، خصوصاً اگر مدعو و مخاطب آپ کی زبان نہ سمجھتا ہو یا جس زبان میں آپ دعوت کا کام انجام دے رہے ہیں اس سے وہ نابلد ہو، ایسی صورت میں مدعو کی زبان سیکھنا اور اس کے شایان شان لب و لہجے کا استعمال انتہائی ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ معلوم یہ ہوا کہ اگر مخاطب آپ کے زبان و بیان کا فہم رکھتا ہے تو بآسانی اس تک پیغام پہونچایا جاسکتا ہے لیکن بصورت دیگر آپ کو مخاطب کی زبان سیکھنا، مہارت حاصل کرنا ، اس کے مالہ و ماعلیہ پر غور کرنا نیز میدان عمل میں اترنے سے پہلے ضروری وسائل و ساز و سامان سے آراستہ ہونا ایک داعی دین سے مطلوب و مقصود ہے۔
اب یہاں ایک خیال ہمارے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا شرعی نقطۂ نظر سے مقصدِ دعوت کے لئے غیر عربی زبان کا سیکھنا درست ہے؟ یا اس میں کوئی قباحت ہے؟ اس قضیے کو سمجھنے کے لئے آئیے ہم عہد رسول ﷺ کی طرف پلٹتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ کیا آپ ﷺ کے زمانے میں اس کی ضرورت محسوس ہوئی اور اگر ہوئی تو آپ ﷺ کا طرزِ عمل کیا رہا؟
دین اسلام پوری کائنات کے لئے ہے جہاں مختلف زبان وبیان کے لوگ بستے ہیں ۔ عربی زبان نہ تو ان کی مادری زبان ہے اور نہ ہی ثانوی۔ کتنے ہی لوگ ایسے خطے سے آتے ہیں جنہیں عربی کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ۔ ایسے میں اگر ایک داعیِ دین پیغامِ ربانی کو محض اپنی زبان میں ان لوگوں کو سنائے تو کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی زندگی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ جب اسلام مکہ و مدینہ کی حدود سے باہر نکلا اور بڑی تعداد میں لوگ اسلام قبول کرنے لگے تو غیر عرب بھی اسلام میں داخل ہونے لگے اور یہود تو اپنی سریانی زبان پر قائم تھے بلکہ ان کی دینی کتابیں بھی اسی زبان میں موجود تھیں اور بعض دفعہ مسلمانوں کو دامِ فریب میں مبتلا کرنے کے لئے اپنی زبان کا سہارا بھی لیتے تھے ۔ آپ ﷺ نے اس کی خطرناکی اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے استفسار کرتے ہوئے کہا جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند کے اندر روایت کیا ہے کہ

’’تُحْسِنُ السُّرْیَانِیَۃَ ؟ إِنَّھَا تَأْتِیْنِي کُتُبٌ،قَالَ: قُلْتُ:لَا،قَالَ: فَتَعَلَّمْھَا، فَتَعَلَّمْتُھَا فِي سَبْعَۃَ عَشَرَ یَوْماً‘‘ (۳۵؍۴۶۳، رقم الحدیث: ۲۱۵۸۷)

کیا تم سریانی زبان جانتے ہو؟ میرے پاس کتابیں (خطوط ورسائل) آتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ تو آپﷺ نے کہا کہ تم اس زبان کو سیکھ لو، چنانچہ میں نے اسے سترہ دنوں میں سیکھ لیا۔

و رواہ الحاکم و زاد: قال الأعمش: ’’کَانَتْ تَأْتِیْہِ کُتُبٌ لَایَشْتَھِي أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْھَا إِلَّا مَنْ یَّثِقُ بِہِ‘‘(مستدرک حاکم:۵۷۸۱)

امام حاکم نے تھوڑے اضافے کے ساتھ روایت کرتے ہوئے کہا کہ اعمش کہتے ہیں کہ ’’ آپ ﷺکے پاس کتابیں (خطوط ورسائل ) آتی تھیں آپ ﷺ کی چاہت ہوتی تھی کہ ان کو کوئی معتمد اور بھروسے مند شخص پڑھے‘‘۔
امام بخاری نے تعلیقا ذکر کیا ہے:

قال خارجۃ بن زید بن ثابت عن زید بن ثابت أن النبيﷺأمرہ أن یتعلم کتاب الیھود حتی کتبت للنبيﷺکتبہ وأقرأتہ کتبھم إذا کتبوا إلیہ‘‘(صحیح البخاری:۷۱۹۵)

’’خارجہ بن زید بن ثابت زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ان کو حکم دیا کہ وہ یہود کی کتاب سیکھیں (تو میں سیکھنے کے بعد) نبیﷺ کے لئے ان کے خطوط لکھتا اور ان کے خطوط کو آپ ﷺکو پڑھ کر سناتا جب وہ آپﷺ کے پاس بھیجتے‘‘۔

وقال أبو حمزۃ: ’’کنت أترجم بین ابن عباس وبین الناس‘‘ (صحیح البخاری: باب ترجمۃ الحکام وھل یجوز ترجمان واحد: ۷۱۹۵)

’’ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس اور لوگوں کے درمیان ترجمان کا فریضہ انجام دیتا تھا‘‘۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی ﷺ، صحابۂ کرام اور تابعین عظام رحمھم اللہ بغیر ضرورت غیر عربی زبان نہیں سیکھتے تھے ہاں ضرورت و مصلحت کے تحت دوسری زبان بھی سیکھ لیتے تھے جیسا کہ مذکورہ احادیث سے ہمیں ثبوت بھی مل جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ’’غیر عربی زبان سیکھنا حرام نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات اس کا سیکھنا واجب بھی ہوسکتا ہے جب غیر عرب کو دعوت دین پہونچانے کے لئے اس کی زبان سیکھنا ناگزیر ہوجائے یعنی ہمارے لئے ممکن نہیں کہ اس شخص کو اسلام کی دعوت دیں، مگر یہ کہ اس کی زبان کا علم رکھتے ہوں اور اسے مخاطب کرسکیں تو ایسی صورت میں اس کی زبان سیکھنا فرض کفایہ ہے اس لئے کہ غیر عرب کو اسلام پہونچانا ضروری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بہت اہم ہے چاہے اس کے لئے ان کی زبان ہی سیکھنی پڑے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

(وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ )(سورۃ ابراھیم: ۴)

’’اور ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر اسی کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں واضح طور پر بیان کردے”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

(لِیُبَیِّنَ لَہُمْ) أي بلغتھم لیفھموا عنہ۔ (تفسیر ابن کثیر: ۴؍۴۷۷) حکم تعلم اللغۃ الاجنبیۃ والتحدث بھا: للشیخ ابن عثیمین www.sahab.net)

گزشتہ نصوص و اقوال کی روشنی میں بہ آسانی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ دعوت دین کے لئے کسی دوسری زبان کا سیکھنا اور اس میں مہارت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات اس کا سیکھنا فرض کفایہ کے درجے میں ہوتا ہے ۔
تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھنے والا بآسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ اسلام کی نشرواشاعت میں زبان دانی کا بڑا اہم رول رہا ہے ، مختلف ممالک میں جب برق رفتاری سے اسلام پھیلنے لگا اور لوگ جوق درجوق اسلام کے سایے میں پناہ لینے لگے تو بڑے پیمانے پر ترجمان اور مترجمین کی ضرورت پڑی ۔ یہ ضرورت دورِ رسول ﷺ اور دورِ صحابہ میں بھی تھی اور بعد کے ادوار میں اس کی ضرورت دوچند ہوگئی اور جب دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی تو متعدد زبانوں کے ماہرین (Multilinguists) کی مانگ میں بھی کافی اضافہ ہونے لگا۔ ترجمے کے شعبے کھلنے لگے اور دعوتی مراکز میں کثیر لسانی دعاۃ کی طلب میں بھی خوب اضافہ ہونے لگا۔ اور آج کے اس میڈیائی دور میں زبانوں کی یلغار اور اثرات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کا سیکھنا ناگزیر سا ہوگیا ہے ۔
آج دعوتی مقاصد کے لئے جدید وسائل کے استعمال میں کافی اضافہ ہوا ہے، اس کی سب سے واضح مثال انٹرنیٹ اور اس پر موجود مختلف زبانوں کی ویب سائٹس ہیں جہاں دیگر زبانوں میں اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کا بڑا عظیم الشان کام ہورہا ہے مثلا www.islamhouse.com, www.islamqa.info
بلکہ آج کل دعوتی مجال میں سرگرم ویب سائٹوں میں متعدد زبانوں میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ ان سے استفادہ کرنے والے مسلم اور غیر مسلم کما حقہ فائدہ اٹھاسکیں۔ اسی طرح ’’مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف‘‘ اس کی بہت بڑی مثال ہے جو قرآن کے تراجم دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں پیش کرنے کا اعجاز رکھتا ہے ۔ جریدۃ الریاض میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مجمع ملک فھد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد العوفی کے بقول سالانہ ۳۰۰ ملین قرآن کے نسخے شائع ہوتے ہیں۔ (جریدۃ الریاض ۱۲ ذی القعدۃ ۱۴۳۹ مطابق ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء) ۔
شاہ فہد رحمہ اللہ کی اس عظیم خدمت کے سبب آج مجمع نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے اور قرآن کریم کے سادے یا مترجم نسخے پوری دنیا میں پہونچانے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے ۔ آج اس کی برکتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد قرآن کو پڑھ کر اور اس کے مقصود و مطلوب کو سمجھ کر آغوش اسلام میں پناہ لے رہے ہیں اور اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے ذھنوں سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوا ہے ۔
عصرِ حاضر میں بغیر زبان دانی کے سفراء اور دعاۃ کا تصور کافی مشکل امر ہے ۔ دوسری زبانیں سیکھنے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ یورپ و امریکہ میں لاکھوں لوگ غلط فہمیوں کے جال سے باہر نکل کر دامن اسلام میں داخل ہوچکے ہیں اور خود بڑے پیمانے پر اسلام کی دعوت غیر مسلموں کے درمیان پہونچا رہے ہیں۔ سچ کہا ہے علامہ اقبال نے :
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
مستشرقین نے مذہب اسلام کا جو مذاق اڑایا اور اپنی درپردہ سازشوں کے تحت اسلام کو جو نقصان پہونچایا اس کا جواب دینے کے لئے ایسے علماء و دعاۃ کی اشد ضرورت رہی ہے اور ہے بھی جو دوسری زبانوں پر عبور رکھتے ہوں اور غیر عربی زبان میں تحریر و خطابت کی بھرپور صلاحیتوں سے معمور ہوں۔ اگر غور کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ آج غیر قومیں اپنی زبان سکھانے کے لئے دوسروں کے لئے اسکالرشپ جاری کرتی ہیں ، باقاعدہ حکومتوں کی جانب سے اس کے لئے فنڈ مقرر کیا جاتا ہے تاکہ لوگ ان کی زبان سیکھ کر ان کی تاریخ و ثقافت کو بآسانی سمجھ سکیں، ان کی زبان کی خوب ترویج ہو اور مشنری کا کام بھی بآسانی ہوسکے۔ بعض تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے ممالک خصوصا یورپ وامریکا میں بہت بڑے پیمانے پر ترجمے کا کام ہوتا ہے تاکہ Knowledge sharing کا عمل بآسانی انجام پاسکے۔ آج غیر قومیں تعلیمی، سیاسی، اقتصادی، عسکری، ثقافتی اور صنعتی اعتبارسے اتنی مضبوط ہیں اور ان کی مصنوعات کی ریل پیل کا اتنا اثر ہے کہ کمزور اور مغلوب قومیں ان کی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اپنے مقاصد کی برآری کے لئے دنیا کی دیگر زبانوں کے سیکھنے سکھانے کے ادارے اور ریسرچ سنٹر قائم کرتے ہیں تاکہ پوری دنیا میں ان کا اثر و رسوخ قائم ہو اور دیگر اقوام کے تمام شعبہائے زندگی کو سمجھنے اور ان پر اثرانداز ہونے میں کامیاب ہوسکیں اور نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
زبان اور ترجمے کے حوالے سے ایک سروے (Survey) یہاں پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق یہ اشارہ ملتا ہے کہ عباسی خلیفہ مامون کے دور سے عصرحاضر تک محض دس ہزار کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں ہوا جبکہ اتنی ہی کتابوں کا ترجمہ اسپین ہر سال اپنی زبان میں کرتا ہے (صحیفۃ الاھرام المصریۃ ۵ ینایر۲۰۱۶قراء ۃ في أحوال الترجمۃ والمترجمین)
بات چل رہی تھی دعوتِ دین کے لئے زبان دانی کی ضرورت اور اس ضمن میں بہت ساری باتیں در آئیں جن کا مقصود یہ ہے کہ آج زندہ قوموں کے یہاں متعدد زبانوں کے سیکھنے اور سکھانے کی بڑی اہمیت ہے اور یہ کام وہ لوگ کررہے ہیں جن کے پاس کوئی ربانی پیغام نہیں کہ لوگوں کو رب کی معرفت اور مقصدِ تخلیق سے روشناس کرائیں جبکہ ہم اس دینِ اسلام کے حامل ہیں جو پوری کائنات کے لئے ہے جس کا پیغام حتی المقدور لوگوں تک پہونچانا واجب ہے اور اس پیغام یعنی پیغام توحید کو دنیائے انسانیت میں عام کرنے کے لئے ایک بہت ہی اہم میڈیم اور وسیلے کی ضرورت ہے اور وہ ہے دعوتِ دین کے لئے مدعو اور مخاطب کی زبان کو سیکھنا۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس اہم موضوع پر سنجیدگی سے غور و فکر کی توفیق دے اور ہمارے درمیان ایسے علماء ودعاۃ پیدا فرمائے جو دعوت توحید کو مدعو اور مخاطب کی زبان میں پہونچانے کی صلاحیت سے معمور ہوں ۔آمین

آپ کے تبصرے

3000