عصر حاضر میں سیرتِ ابراہیمی کی معنویت

رفیق احمد رئیس سلفی عبادات

دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی تاریخ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ ابوالانبیا ہیں اور تنہا ایک امت ہیں۔ قرآن کریم میں جن انبیائے کرام علیہ السلام کے واقعات ہمیں تفصیل سے پڑھنے کو ملتے ہیں، ان میں ایک ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں۔ ان کا شمار اولواالعزم انبیا میں ہوتا ہے۔ حج کے مناسک پر ان کی گہری چھاپ ہے بلکہ کعبہ مشرفہ کی تعمیر کا اہم فریضہ انجام دینے کے بعد جو دعائیں سیدنا ابراہیم نے مانگی ہیں اور جن کو قرآن عظیم نے محفوظ کیا ہے، ان میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ بارالٰہ ہمیں حج کا طریقہ بھی سکھادے۔ نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل بھی حج کیا جاتا تھا اور مشرکین تمام تر شرک وکفر کے باوجود کعبے کا احترام کرتے تھے اور حج کو ایک اہم عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ البتہ بعض بدعات انھوں نے اس میں پیدا کردی تھیں اور شرک کی آمیزش کرکے توحید کی معنویت ختم کردی تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف حج میں پیدا کردہ بدعات کو ختم فرمایا بلکہ توحید کے مرکز کو پھر اسی حال میں پہنچادیا جس حال میں وہ اپنی تعمیر کے اول دن تھا۔
قربانی کی عبادت بھی حج ہی کا ایک حصہ ہے، جس کا سلسلہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا ہے، جب انھوں نے اللہ کے حکم کی وجہ سے اپنے بیٹے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا عزم مصمم کرلیا تھا بلکہ اپنی دانست میں یہ قربانی پیش فرمادی تھی لیکن اللہ نے سیدنا اسماعیل کا فدیہ ذبح عظیم کی شکل میں نازل فرمادیا۔ اس بابت ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ قربانی تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے لیکن اس حدیث کو علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ” (المجلد الثانی،رقم الحدیث:۵۲۷)میں موضوع قرار دیا ہے۔ لہذا اس طرح کی کسی بات کا انتساب نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے۔
قرآن کریم نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات وسیرت کے کئی ایک واقعات کو بیان کیا ہے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے عبرت ونصیحت کا وافر سامان موجود ہے۔روز وشب کی زندگی میں کئی ایک مراحل ایسے آتے ہیں جہاں اگر اسوہ ابراہیمی ہمیں یاد رہے تو ہم خود کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور دوسروں کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں۔ ذیل میں سیدنا ابراہیم کی سیرت کے بعض پہلووں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہماری اپنی زندگی کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ وہ کس صورت حال سے دوچار ہے اور اسے اسوہ ابراہیمی سے کیا سبق ملتا ہے:-

۱۔دعوت کا آغاز اپنے گھر سے
شعور کی آنکھیں کھولنے اور اللہ کی عطا کردہ حکمت وبصیرت سے سرفراز ہونے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ہمارا گھر خود ہی شرک اور بت پرستی کا مرکز بناہوا ہے۔ والد آزر ایک پروہت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور شرک کے تمام کام ان کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔ ہر چند کہ باپ کے بعد بیٹے کو اس کی جگہ ملنے والی تھی اور قوم میں عزت ووقار کے تمام امکانات روشن تھے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ایک ایسی تدبیر اپنائی جس سے قوم کو سوچنے پر آمادہ کرسکیں۔ باپ نے جب میلے کے تیوہار میں جانے کو کہا تو جواب دیا کہ میں بیمار ہوں۔ گھر خالی ہوگیا اور بستی خالی ہوگئی تو انھوں نے اپنی سوچی سمجھی تدبیرکو عملی جامہ پہناڈالا۔ بت خانے میں گھس کر سارے بتوں کو توڑ ڈالا اور کلہاڑی بڑے بت کی گردن میں حمائل کردی۔ قوم میلے سے واپس آئی اور اس نے اپنے معبودوں کی یہ درگت دیکھی۔ بات چلی اور پہنچ گئی سیدنا ابراہیم تک کہ یہ نوجوان ہمارے ان بتوں کے بارے میں کچھ الٹی سیدھی باتیں کیا کرتا ہے۔ قوم کے سامنے طلب کیے جانے اور سوال پوچھنے پر جواب دیا کہ اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان بتوں سے ہی پوچھ لو کہ ان کے ساتھ کس نے یہ کام کیا ہے مجھے تو لگتا ہے کہ اسی بڑے بت نے دوسرے چھوٹے بتوں کا قصہ تمام کیا ہے۔ قوم سکتے میں آگئی، سر جھک گئے، ابراہیم کی دلیل سمجھ میں آرہی تھی لیکن روایت پرستی کی وہ رسم کیوں کر چھوڑی جاسکتی ہے جس کا سلسلہ آباواجداد نے شروع کیا تھا۔ قوم ہٹ دھرمی پر آمادہ ہوگئی اور ایک معقول بات تسلیم کرنے سے مکر گئی۔

قوم تک اپنی بات پہنچانے کے لیے جو تدبیر سیدنا ابراہیم نے اپنائی تھی وہ ہر لحاظ سے معقول تھی۔ نہ وہ بیمار تھے اور نہ بڑے بت نے چھوٹے بتوں کو توڑا تھا۔ لیکن شان نبوت ملاحظہ ہو کہ میدان حشر میں اللہ کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان خلاف واقعہ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلے اورشفاعت کے لیے اللہ کے سامنے جانے سے انکار کردیتے ہیں۔ حدیث میں مذکور ہے کہ اس بات کو سیدنا ابراہیم نے کذب (جھوٹ) سے تعبیر کیا ہے۔ منکرین حدیث کو موقع مل گیا، حدیث کو دوسرے درجے کی چیز سمجھنے والوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار آگیا اور انھوں نے پورے ذخیرہ حدیث کو مشکوک بنانے کے لیے اس حدیث کو اپنے لیے دلیل بنالیا۔ شان نبوت کو سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس طرح کے خیالات کا صدور عین ممکن ہے۔ دنیا کی نظر میں، قانون کی نظر میں اور خود اللہ کی نظر میں وہ جھوٹ نہیں لیکن ایک پیغمبر ذی شان کا اپنے معبود حقیقی سے جو رشتہ ہے، یہ اس کی شان سے فروتر بات تھی۔

آج ہمارے گھروں میں کئی طرح کی خلاف شرع باتوں نے دینی زندگی کو کمزور بنادیا ہے۔ حقوق اور معاملات میں ہم اسلام کے اصولوں کی نہیں ذات برادی کی روایات پر عمل کرتے ہیں۔ جہیز کا مطالبہ ہم کرتے ہیں، بچیوں کو وراثت میں حصہ ہم نہیں دیتے، زمین جائیداد کے کئی ایک مقدمات جن کا حل ہماری مساجد میں موجود تھا، ہم اسے دنیاوی عدالت میں لے جاتے ہیں تاکہ انصاف کو خرید سکیں۔ خوشی اور غم کے مواقع کی رسوم بیشتر غیر اسلامی ہیں لیکن اچھے اچھے دین دار ان رسوم سے سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں۔کیا سیدنا ابراہیم کی سیرت کا یہ واقعہ ہمیں مہمیز نہیں کرتا کہ ہم اصلاح کا کام اپنے گھر سے کریں۔ اب تو داعیان اسلام بھی دوہری زندگی جیتے ہیں، عورتوں کے حقوق پر جلسے میں زور دار تقریر فرمائیں گے اور اپنی بیوی اپنے کسی جائز حق کے لیے زبان کھول دے تو اسے سیدھے میکے کا راستہ دکھادیں گے۔ سسرال والوں کے سامنے دامادی کا رعب دکھانا اور ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہوجانا کسی دین دار کا کام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ بیوی کی اپنی عزت ہے، اس کا احترام ہے، اس کے والدین قابل اکرام ہیں، اس کے ان عزیزوں سے ترش روئی سے بات کرنا، ان سے بغیر کسی خاص وجہ کے ناراض ہوجانا اور ان کا غصہ غریب بیوی پر نکالنا نہ انسانیت ہے، نہ شرافت اور اسلام کی تعلیمات میں تو اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں کے لیے ادنی سی گنجائش نہیں ہے۔

۲۔والدین سے باادب گفتگو
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو اسلام کی دعوت دی اور واضح لفظوں میں بتادیا کہ آپ اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی پوجا میں مصروف ہیں وہ آپ کے کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ یہ ایک طرح سے شیطان کی عبادت ہے۔ سورہ مریم میں سیرت ابراہیمی کا یہ واقعہ جس پیرائے میں بیان ہوا ہے، اس میں ایک باپ کے لیے شفقت ہے، محبت ہے، درخواست ہے، اور پھر یہ کہہ کر جدا ہونے کی بات کی ہے کہ میں اپنے رب سے آپ کے لیے دعائے استغفار کروں گا۔ یہاں ایک مسئلہ زیر بحث آتا ہے کہ آزر کون تھے؟ ابراہیم کے والد تھے یا چچا تھے۔ انبیاء کی عصمت کا غیر صحت مند عقیدہ رکھنے والے بعض حضرات کا دعوی ہے کہ نبی کسی ایسے باپ سے پیدا نہیں ہوسکتے جو بت پرستی میں ملوث ہو۔ عصمت کے اس عقیدے کے پیچھے ائمہ معصومین کی عصمت ہے اور انھیں نبوت کے قائم مقام بنانے کی کوشش ہے۔ اسی سلسلے میں حضرت ابوطالب کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ بھی اٹھایا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں اپنے مزعومہ عقائد کو ثابت کرنے کے لیے وضع کی گئی ہیں ورنہ اسلام میں اس طرح کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن آزر کو ابراہیم کا باپ کہتا ہے اور عربی زبان میں تعبیرات کی کمی نہیں ہے اور نہ الفاظ محدود ہیں کہ چچا کو باپ کہا جائے۔
اس واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے اہل خانہ اور دیگر عزیزوں کو جب بھی اسلام سمجھائیں تو ہمارا لہجہ نرم اور محبت سے لبریز ہونا چاہئے۔ بعض نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے انھیں ہدایت دی، وہ توحید اور اتباع سنت کی راہ پر آگئے اور شرک اور بدعت کو سمجھ لینے کے بعد اس سے کنارہ کش ہوگئے لیکن دوسرے عزیزوں کو شفقت اور ہمدردی سے ان باتوں کو سمجھانے کے بجائے خدائی فوج دار بن بیٹھے اور کفر وشرک کے فتوے والدین، بھائی بہنوں اور دوسرے عزیزوں پر لگانے لگے۔ دین داری کا غرور اور اس کی تمکنت نے ان کی صالحیت پر سوالیہ نشان لگادیا اور چند دنوں کے بعد ان کی حیثیت ایک لڑنے جھگڑنے والے نوجوان کی بن گئی جو بات بات پر طیش میں آتا اور دوسروں پر کافر، مشرک اور بدعتی ہونے کا الزام لگاتا اور ان پر خشت باری کرتا ہے۔

۳۔شرح صدر مطلوب اور پسندیدہ چیز ہے
سیدنا ابراہیم کی زندگی کا ایک اور پہلو قرآن سامنے لاتا ہے کہ انھوں نے اللہ سے یہ درخواست کی کہ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا۔ اللہ نے پوچھا:ابراہیم! کیا تمھیں اس پر یقین نہیں ہے؟ جواب دیا:یقین ہے لیکن اطمینان قلب کے لیے یہ مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ نے حکم دیا کہ چار پرندے لیجیے۔ ان کو اپنے سے مانوس کیجیے اور پھر ان کو ذبح کرکے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کیجیے اور ان کی بوٹیاں جہاں تہاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دیجیے اور پھر ایک ایک کو آواز دیجیے۔ ہر ایک کی بوٹیاں ادھر ادھر سے جمع ہوکر باہم مل جائیں گی اور ایک جیتا جاگتا پرندہ تمھارے سامنے آجائے گا۔ سیدنا ابراہیم نے یہ منظر بھی دیکھا اور ایمان بالآخرت پر انھیں شرح صدر ہوگیا۔
ایک امتی کو یہ مطالبہ کرنے کا حق تو نہیں ہے لیکن اسلام کے جملہ معتقدات اور اس کے تمام قوانین اور احکام کے بارے میں یہ شرح صدر مطلوب ہے۔ امتی کے کرنے کام صرف یہ ہے کہ وہ علم صحیح کے جملہ وسائل کو زیر استعمال لائے اور یقین واعتماد کی وہ کیفیت اپنے اندر پیدا کرے جو اس کے اندر کسی شک وشبہ کو باقی نہ رہنے دیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں، قرآن اور حدیث پر ایمان رکھنے کی بات کرتے ہیں اور یہ بھی ہمارا دعوی ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے لیکن ایک مسلمان عورت کے لیے پردہ ضروری ہے، ہمیں اس پر شرح صدر نہیں ہے بلکہ برقعہ اور چادر کو ہم ترقی کی راہ کا روڑا سمجھتے ہیں۔ اقتصادیات میں ہمیں سود اور رشوت کی ناگزیر ضرورت کا احساس ہے اور کیا وہ دونوں واقعی حرام ہیں، اس پر طرح طرح کے شبہات لاحق ہیں۔ اسلامی قوانین، اسلامی معاشرت اور اسلامی عدل وانصاف کے کتنے گوشے ہیں جن پر شکوک وشبہات کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔ سیرت ابراہیمی کا پیغام یہ ہے کہ شرح صدر کے ساتھ اسلام پر زندہ رہیں اور تمام شکوک وشبہات کو کھرچ ڈالیں۔
ضمنی طور پر یہاں ایک بات عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ بعض حضرات نے ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعہ کو عجیب وغریب رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پرندوں کو صرف اپنے سے مانوس کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان کو ذبح کرکے ان کے اجزاء ادھر ادھر ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔ایسے دانش وروں سے صرف یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ انبیاء کے معجزات کی مادی تاویل ممکن نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کو محض اپنے سے ہلالینے سے بات نہیں بن سکتی۔ سر سید رحمہ اللہ نے نہ معلوم کس دباؤ میں یہ تاویلات اختیار کی تھیں جن کو بعد میں مولانا فراہی، ان کے شاگردوں اور ان کی فکر کے حامل دیگر اصلاحی حضرات نے علمی بنیادیں فراہم کرنے کی غیر ضروری کوشش کی اور ایک سیدھی سادی بات کو معمہ اور چیستاں بنا کر رکھ دیا۔

۴۔موت کا وقت متعین ہے
سچائی بہت مشکل سے راس آتی ہے۔خاص طور پر ایسی سچائی جس سے کسی بادشاہ کا تخت حکومت ہلنے لگے اور پھر اس سچائی کا گلہ گھونٹنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ سیدنا ابراہیم کو اس مرحلے سے بھی گزرنا پڑا۔ نمرود نے سچائی اور راست بازی کی شمع فروزاں کو ہمیشہ کے لیے بجھادینے کی تدبیر کرڈالی۔ دہکتی ہوئی آگ تیار کی گئی۔ابراہیم کو اس میں پھینک دیا گیا۔ اللہ کے پیغمبر جلیل نے منت سماجت نہیں کی اور نہ سچائی سے منہ موڑا۔نبی محترم کا عقیدہ دیکھیے کہ موت برحق ہے۔ آئے گی اپنے وقت پر۔ جب آئے گی تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا اور موت کا حکم آیا نہیں ہے تو کسی کے اندرطاقت نہیں کہ اس کی جان لے سکے۔ ظالموں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جس عظیم ہستی نے آگ میں جلانے کی خاصیت رکھی ہے وہ اس خاصیت کو اس سے سلب بھی کرسکتی ہے۔ چنانچہ یہی ہوا اور نار نمرود ٹھنڈی ہوگئی اور ابراہیم صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ ایسے زندہ معجزے دیکھنے کے بعد قوموں کے لیے صرف دوراستے بچتے ہیں۔ایمان قبول کرلیں یا تباہ ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔
اس واقعے میں ہمارے لیے عبرت کا جو سامان ہے وہ یہ کہ ہم موت سے گھبرائیں نہیں۔ یہ خوف اور دہشت کی زندگی ہمیں کمزور بنادے گی اور ہم اس جادہ مستقیم پر گامزن نہیں رہ سکیں گے جس کی منزل جنت الفردوس ہے۔ جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہمارا فطری اور قانونی حق ہے۔ اس راہ میں جان جاتی ہے تو مرتبہ شہادت ملے گا جو دنیا ومافیہا سے کہیں زیادہ بیش قیمت ہے۔ موت کا تصور صرف اپنی اصلاح کے لیے کیا جائے۔ ورنہ ایک مومن کی معراج یہی ہے کہ دنیا چھوڑ کر اگر آخرت کی بازی جیت لے جائیں تو سب سے بڑی کامیابی ہے۔مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے آج دنیا میں تمام اسلام دشمن طاقتیں لرزہ براندام ہیں۔ یہی صحیح ایمانی کیفیت ہے، اسوہ ابراہیمی سے اسے مزید جلادیجیے۔

۵۔اللہ کی راہ میں محبوب ترین چیز کی قربانی
اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے۔ ہر باپ کو ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ لیکن وہ اولاد کچھ زیادہ ہی پیاری ہوتی ہے جو برسہابرس کی دعاؤں کے بعد ایک نعمت کی شکل میں ہاتھ آئی ہو۔ سیدنا اسماعیل کی ولادت کافی عرصے بعد ہوئی تھی۔ابھی سیدنا ابراہیم کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں۔ اللہ نے شیر خوار بچے کو ان کی والدہ کے ساتھ اس سرزمین پر آباد کرنے کا حکم دیا جہاں کعبہ مشرفہ کی تعمیر کی جانی تھی۔ پھر بیٹا دوڑنے پھرنے کے قابل ہوا تو خواب میں دکھایا گیا کہ ابراہیم بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔ انبیاء کے خواب وحی پر مبنی ہوتے ہیں، خواب پریشاں نہیں ہوتے۔ اس لیے انھوں نے اس وحی کا تذکرہ سعادت مند بیٹے سے کیا۔ بیٹے نے ایسا جواب دیا جو آج بھی صفحہ گیتی پر ثبت ہے کہ اباجان اللہ کے حکم کی تعمیل فرمائیں، آپ مجھے ان شاء اللہ صابر وشاکر پائیں گے۔ بڑھاپے کی لاٹھی سہارا بنتی ہے، کوئی بھی باپ اپنے ہاتھ سے اسے توڑنے کی کوشش نہیں کرسکتا لیکن سیدنا ابراہیم نے اپنی اس بیش قیمت متاع کو حکم الٰہی کے سامنے ڈال دیا۔ اللہ کو آزمانا تھا، اپنے محبوب کی آزمائش کرلی اور پھر آزمائشوں پر کھرا اترنے کا تمغہ بھی عنایت فرمادیا۔
کاش ہم بھی اس اسوہ کو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپناپاتے۔ اللہ کی رضا کے لیے ہم ادنی درجے کی قربانی دینے کوتیار نہیں، منصب اور عہدہ کی قربانی مطلوب ہے لیکن فساد برپا کرتے رہیں گے، کرسی نہیں چھوڑیں گے۔ جان کی قربانی کا موقع آجائے تو پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ذات برادری کی رسوم وروایات ترک کرنے کی بات ہم سوچ بھی نہیں سکتے بلکہ انتہائی غیر معقول باتوں کو بھی گلے سے لٹکائے رکھیں گے۔ میت کے لیے تیجہ، دسواں اور چالیسواں دنیا میں سب سے غیر معقول کام ہے لیکن اسے بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ پیٹ کے بندے قورمہ اور نان شکم سیر ہوکر کھاتے ہیں اور میت کے گھر والوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ثواب تمھارے مرحوم کو پہنچ رہا ہے۔ جس باپ نے اپنی بیماری کے دنوں میں اپنے غریب بیٹوں سے مہنگے علاج اور عمدہ کھانوں کا مطالبہ نہیں کیا، ان بیٹوں سے یہ ظالم سماج کہتا ہے کہ چاہے قرض لینا پڑے، چالیسواں ضرور کرنا، ورنہ دنیا کہے گی کہ باپ کے مرنے کے بعد فاتحہ درود تک نہیں کرایا۔ ان بے ہودہ رسموں کی قربانی کا مطالبہ اسلام ہم سے کررہا ہے، کیا ان کی قربانی دینے کو ہم تیار ہیں۔ سیدنا ابراہیم کی سیرت وحیات کا ورق ورق قربانیوں سے عبارت ہے، کاش قربانی کا تیوہار مناتے ہوئے ہم گوشت خوری کی بجائے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی سیرت کو پیش نگاہ رکھیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ںعمان خالد

ماشاءاللہ۔ بہت عمدہ اور جامع مضمون ہے