محدث عصر علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ (1914-1999) نے احادیث نبویہ کی تحقیق وتخریج اور ان پر صحت وضعف کا حکم لگانے کا جو بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے ،پوری دنیا اس کا اعتراف کرتی ہے اور اس وقت حدیث پر کوئی تحقیقی کام ان کے حوالے کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے سنن اربعہ کی تخریج کی اور اس کی صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ جلدوں میں شائع کرایا،اسی طرح امام سیوطی کی الجامع الصغیر جیسی بڑی کتاب کی تمام احادیث پر حکم لگایا ،فقہ حنبلی کی معروف کتاب’’ منارالسبیل‘‘میں موجود احادیث کی تخریج وتحقیق ’’ارواء الغلیل‘‘کے نام سے کی جس میں فقہی مسائل میں زیر بحث آنے والی اکثر وبیشتر احادیث موجود ہیں۔صحیح اور ضعیف احادیث کے دو سلسلے مرتب کیے جس میں زیادہ تر وہ احادیث پائی جاتی ہیں جو نسبتاً غیر معروف اور غیر متداول کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں بلکہ ان سلسلوں میں مخطوطات میں موجود احادیث بھی شامل کیں اور ان پر صحت وضعف کا حکم لگایا۔خود بھی کئی اہم کتابیں تصنیف کیں جن میں صرف وہ احادیث شامل کیں جو ان کے اصولوں پر پوری اترتی تھیں-
علامہ البانی رحمہ اللہ کو اللہ نے بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا ،ذہانت وفطانت کے ساتھ انھیں اجتہادی ملکہ بھی حاصل تھا ،ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا ،علمائے متقدین،متاخرین اور معاصرین کی کتابوں اور ان کی تحقیقات پر ان کی گہری نظر تھی۔انھوں نے حدیث کے میدان میں جو خدمات انجام دیں، ان سے علمی دنیا میں ایک انقلاب آگیا اور ہر خاص وعام تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ وہی حدیث دین میں حجت اور دلیل بن سکتی ہے جو جرح وتعدیل کے معیار پر کھری اترے۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوئی بھی مصنف اور مضمون نگار اپنی تحریر میں کوئی حدیث درج کرتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا حوالہ ضرور دے اور اگر صحت وضعف کا حکم مل سکے تو اس کی بھی وضاحت کردے۔اس علمی رجحان کو عام کرنے میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔اللہ ان کی خدمات کو شرف قبول عطا فرمائے اور انھیں اجر وثواب سے نوازے۔آمین
علامہ البانی رحمہ اللہ نے جو طریقۂ تحقیق اپنایا ،اس پر ایمان داری سے عمل پیرا رہے۔راستے میں کوئی بھی سامنے آیا،اگر اس کے یہاں کوئی جھول یا کمزوری دیکھی تو اس کو بغیر کسی ڈر اور خوف کے واضح کردیا۔اسلام نے جو مزاج بنایا ہے،اس میں بھی یہی بات آتی ہے کہ عصمت خاصۂ نبوت ہے ،عام امتی خطاونسیان سے پاک نہیں ہیں،ان سے تسامحات ممکن ہیں۔چنانچہ ان کے قلم نے امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام ذہبی، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن حجر عسقلانی جیسے محدثین کی بعض تحقیقات سے علمی اختلاف کیا اور جہاں ان کو نظر آیا کہ آسمان حدیث کے ان چاند ستاروں سے کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو اسے بیان کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہیں لیا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی دوایک حدیثوں پر بھی ان کے تحفظات رہے جیسا کہ انھوں نے شرح عقیدۂ طحاویہ کے مقدمے میں اس کا ذکر کیا ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس طرح کی چیزیں بار بار سامنے آتی ہیں،مجھے نہیں معلوم کہ ان کی ان مثبت،تعمیری اور علمی تنقیدات کو کسی صاحب علم نے جمع کیا ہے یا نہیں ،اس کی نشان دہی تو جامعہ اسلامیہ دریاباد کے ہمارے ذی احترام فضلاء کرسکتے ہیں کیوں کہ جامعہ کے سرپرست ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ حفظہ اللہ نے جو خودبھی البانیات کے متخصص ہیں،اس میدان میں اپنے بعض اساتذہ کی تربیت اور رہنمائی بہت اچھی طرح کی ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ علی گڑھ میں اس طرح کی نئی کتابوں کی نہ صورت دیکھنے کو ملتی ہے اور نہ ان کی کوئی خبر ہی پہنچتی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات اور شعبۂ عربی میں علامہ البانی کی بعض اہم کتابیں جو نظر آتی ہیں ،وہ بھی شیخ عبدالباری حفظہ اللہ ہی کا فیضان ہے۔اللہ کرے یہاں کے اہل علم ان کتابوں سے استفادہ کریں اور حدیث وسنت کے باب میں جو شکوک وشبہات علی گڑھ کی فضامیں پائے جاتے ہیں،ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کی ایک بڑی خوبی اور ان کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ اپنی غلطی واضح ہوجائے تو فوراً اس سے رجوع کرتے ہیں،کوئی سابقہ تحقیق بدل گئی تو ذرا بھی دیر نہیں لگتی فوراً اس کا اظہار کرتے ہیں۔احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگانے میں کہیں تسامح ہوا ہے تواپنے قلم سے اس کا اعتراف کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے اتنے فیصلوں سے رجوع کیا ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے باقاعدہ ایک کتاب ہی تصنیف کردی ہے جس میں علامہ کے رجوع کی پوری تفصیل درج ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث ایک زندہ فن ہے ،اس پر تحقیق وتنقید کا سلسلہ چلتا ہی رہے گا ۔اگر آج علامہ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو بہت سی نئی تحقیقات ہمارے سامنے ہوتیں اور خود اپنے ہی کتنے فیصلوں سے وہ رجوع کرچکے ہوتے۔اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق وتنقید کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے جو راستہ دکھایا ہے،اس پر ایمان داری اور امانت داری کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔اس راہ پر چلتے ہوئے خود علامہ کی بہت سی تحقیقات موضوع بحث بن سکتی ہیں اور ان پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے ۔یہ کام اہل علم اور اہل فن کا ہے کہ وہ اصول حدیث کے تمام قواعد وضوابط کو استعمال کرتے ہوئے علمی زبان میں گفتگو کریں اور اگر کہیں کسی حدیث پر صحت وضعف کا حکم لگانے میں تسامح ہوا ہے تو اس کی نشان دہی کریں۔علامہ البانی رحمہ اللہ ایک انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے ان سے سہوونسیان ممکن ہے ،اس لیے کسی متنازعہ مسئلے میں اصولوں کی بنیاد پر گفتگو کی جائے،شخصیات کی تحقیقات درمیان میں نہ لائی جائیں۔البتہ یہ ضرور خیال رہے کہ جس طرح ایک انجینئر سے بیماری کا علاج نہیں کرایا جاسکتا اور نہ کسی ڈاکٹر سے انجینئرنگ کا فارمولا معلوم کیا جاسکتا ہے ،اسی طرح اصول حدیث،رجال حدیث،اصول جرح وتعدیل اور شواہد ومتابعات کی اصولی حیثیت سے ناواقف کسی عالم کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ علامہ البانی اور دوسرے محدثین کے فیصلوں کو جذباتی انداز میں چیلنج کرے اور ان کا مذاق اڑائے ،وہ واعظ ہوسکتا ہے،مفتی ہوسکتا ہے،ہزار دوہزار مریدوں کا بڑا پیر ہوسکتا ہے اور متاخرین کی فقہ پڑھ کر فقیہ ہوسکتا ہے لیکن محدث نہیں ہوسکتا ،لہذا حدیث کے میدان میں اولاً تو اسے اترنا نہیں چاہیے اور اگر اتربھی جائے تو اس کی کسی بات کا کوئی وزن نہیں ہوگا۔اسی اصول کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بہت سے نوجوان حدیث وسنت کے سلسلے میں تشکیک کا شکار ہوچکے ہیں کیوں کہ انھوں نے بعض ایسے علماء کی تحریریں پڑھی ہیں جو حدیث کے فن سے کماحقہ واقف نہیں تھے اور نہ علمی دنیا میں ماہر حدیث کی حیثیت سے ان کی کوئی شناخت ہے۔
حدیث کے سلسلے میں دور جدید کے اس انقلاب کے اثرات دوسری زبانوں پر بھی پڑے ہیں بلکہ اسلامیات کا کام جس جس زبان میں ہورہا ہے ،ہر جگہ حدیث کے سلسلے میں یہی بیداری نظر آرہی ہے۔ہماری اردو زبان شاید اس باب میں سب سے زیادہ خوش قسمت ہے ۔کتب صحاح کے ترجمے تو بہت پہلے ہوچکے تھے،لیکن محسوس یہ کیا جارہا تھا کہ ایک سو پچیس سال پہلے اردو زبان کا جو انداز اور اسلوب تھا ،اب اس میں کافی تبدیلی آچکی ہے ،اس لیے صحاح ستہ کے بھی نئے تراجم اور تشریح کی ضرورت ہے۔برصغیر کے کئی ایک سلفی اداروں نے اس سلسلے میں کاموں کا آغاز کیا لیکن ان میں سب سے ممتاز کام دارالسلام ریاض کا سامنے آیا۔ان کی شائع کردہ کتب احادیث بہت خوبصورت ہیں،ان کی برقی کتابت،طباعت اور ٹائٹل وغیرہ پر کافی توجہ دی گئی ہے۔ترجمہ رواں ہے،ساتھ ہی ساتھ تخریج کا بھی اہتمام ہے اور احادیث پر فنی نوعیت کا حکم بھی لگادیا گیا ہے۔
اس کے مدیر مولانا عبدالمالک مجاہد صاحب نہ صرف کتابوں کے ایک کامیاب تاجر ہیں بلکہ علم وتحقیق کا ستھرا ذوق بھی رکھتے ہیں۔انھوں نے نہ صرف عربی اور اردو میں بلکہ دنیا کی کئی ایک زبانوں میں سلفی نقطۂ نظر کی حامل کتابوں کا انبار لگادیا ہے اور انھیں اہل علم کی ایک بڑی ٹیم کا تعاون بھی حاصل ہے جو شب وروز محنت کرکے مختلف نوعیت کی علمی وتحقیقی کتابیں اور ترجمے تیار کرتی رہتی ہے۔ایک خوش حال ملک میں جہاں عام طور پر لوگوں کی قوت خرید قابل رشک ہے،وہ بہت خوبصورت اور دیدہ زیب کتابیں شائع کرتے ہیں اور ان کو کافی گراں قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ برصغیر کے بعض ناشرین ان کی کتابیں اپنے اداروں سے شائع کررہے ہیں اور اس طرح یہاں کے لوگوں کو وہ کتابیں ان کی قوت خرید کے مطابق دستیاب ہوجاتی ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنے مکتبہ دارالسلام سے اجازت لے کر ان کی کتابیں شائع کرتے ہیں اور کتنے بغیر اجازت کے شائع کرکے اپنی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کا موقف اس سلسلے میں بڑا دوٹوک اور واضح تھا ،وہ مصنف کی کتاب کو اس کی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے اور اس کی اجازت کے بغیر اس کی کتاب شائع کرنے کو اس کے گھر میں چوری کرنے کے مترادف سمجھتے تھے۔ہمارے دور کے فقہاء اور ارباب فتاوی اس سلسلے میں کیا موقف رکھتے ہیں،اس سلسلے میں ہمیں ان سے ضرور رجوع کرنا چاہیے۔
اردو قارئین کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر فن حدیث سے واقف نہیں ہیں،رجال حدیث کی انھیں خبر نہیں ہے،اصول حدیث کی بھاری بھرکم اصطلاحات انھوں نے سنی بھی نہیں ہیں اور ائمہ جرح وتعدیل کے مناقشے اور تجزیے سے انھیں کوئی واسطہ نہیں ہے ۔البتہ اب ایک بڑی تعداد یہ ضرور چاہتی ہے کہ ہم صرف صحیح اور حسن احادیث پر عمل کریں کیوں کہ یہ موٹی بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے کہ موضوع اور منکر حدیث نہ قابل عمل ہے اور نہ اس سے دین کا کوئی مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ان کی اس دینی بیداری کو اس وقت بڑی تقویت ملی جب ابوداؤد،ابن ماجہ اور نسائی کے اردو تراجم تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع ہوئے ۔اب وہ آسانی سے ان کتابوں میں موجود احادیث کی استنادی حیثیت معلوم کرسکتے ہیں۔ہر حدیث اعراب کے ساتھ موجود ہے،اس کا بہترین رواں ترجمہ بھی ہے ،فوائد ومسائل انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور سب سے اہم کام یہ کہ ہر حدیث پر نیچے حاشیہ دے کر اس کی مکمل تخریج کی گئی ہے یعنی یہ بتادیا گیا ہے کہ یہ حدیث مزید کن کن کتابوں میں پائی جاتی ہے اور قوسین میں اس کا حکم بھی بیان کردیا گیا ہے۔البتہ اردو قارئین کی ایک بڑی الجھن بھی سامنے آرہی ہے ،اس کو سمجھنا اور پھر کوئی حل تلاش کرنا اس وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ایک واقعے سے اس الجھن کو سمجھا جاسکتا ہے اور اگر اسے دور نہ کیا گیا تو خود حاملین منہج سلف میں کس طرح کا فکری انتشار پیدا ہوسکتا ہے ،اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
علی گڑھ میں میرے ایک دوست ہیں جو الحمد للہ حافظ قرآن ہیں ،نئے اہل حدیث ہیں اور دین کے احکام ومسائل کے تعلق سے وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ایک دن انھوں نے مجھے مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ کی کتاب’’اسلامی وظائف‘‘کا ایک ایسا ایڈیشن دکھایا جو محقق تھا اور جس کی تمام احادیث کی تخریج کرکے ان پر حکم لگایا گیا تھا۔یہ تمام علمی کام پاکستان کے مشہور محقق حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کا ہے ۔ٹائٹل سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر ثانی کا کام حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ہمارے دوست نے اسی نسخے کا ایک صفحہ کھولا جس میں موجود ایک دعا پر مشتمل حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگا ہوا تھا اور پھر انھوں نے سنن ابی داؤد کا وہ اردو ترجمہ نکالا جو دارالدعوۃ دہلی سے شائع ہوا ہے۔اسلامی وظائف میں زیر گفتگو حدیث کے لیے حوالہ سنن ابی داؤد کا دیا ہوا تھا ،اس لیے انھوں نے رقم حدیث کے ذریعے ابوداؤ سے وہ حدیث نکال لی۔اس میں اسی حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگا ہوا ہے۔انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟کس کو صحیح سمجھیں اور کس پر اعتماد کریں؟دارالدعوۃ دہلی سے شائع شدہ سنن ابی داؤد کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ اس کی احادیث کی تحقیق وتخریج کا کام ہمارے فاضل بزرگ دوست شیخ احمد مجتبی سلفی مدنی حفظہ اللہ کا ہے اور وہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر اعتماد کرتے ہیں،اس لیے مجھے یہ اندازہ کرنے میں مشکل نہیں پیش آئی کہ سنن ابی داؤد کی مذکورہ حدیث پر حکم دراصل علامہ البانی کا ہے اور اسلامی وظائف پر حکم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا ہے۔دونوں محققین کے یہاں اصول حدیث کے بعض مباحث میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔خاص طور پر تدلیس کے مسئلے میں علامہ البانی کا موقف کچھ ہے اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا کچھ ہے۔
یہی حال دارالسلام ریاض سے شائع شدہ سنن ابی دا ؤد اور سنن ابن ماجہ کا ہے۔محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے تحقیق وتخریج حدیث کا کام حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے کرایا ہے اور پھر نظر ثانی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ سے کرائی ہے ۔ یہاں بھی وہی صورت حال ہے۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں اورمترجم ومحقق حفظہ اللہ دوسرے محققین کا حوالہ دے کر اسے صحیح یاحسن قرار دیتے ہیں۔یہ دونوں حکم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔قارئین کے اطمینان کے لیے میں یہاں ایک اقتباس درج کرنا چاہوں گا ۔فن حدیث سے شغف رکھنے والے اہل علم حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی اس مسئلے پر ہمدردی سے غور کریں اور اردو قارئین کو کچھ مشورے دیں تاکہ وہ اپنے فکر وعمل میں توازن پیدا کرسکیں اور فکری انتشار سے محفوظ رہیں:
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر:۲۸۸،کو حافظ ابوطاہر زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سلیمان اعمش کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن فوائد ومسائل کے ذیل میں مولا ناعطاء اللہ ساجد حفظہ اللہ لکھتے ہیں:ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جب کہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھئے:(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد۳؍۳۷۲، حدیث:۱۸۸۲،وصحیح الترغیب للألبانی ،حدیث:۲۰۸،وصحیح أبی داؤدللألبانی،حدیث:۵۲)لہذا مذکورہ حدیث دیگر شواہد کی بناپر قابل حجت ہے۔
محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے یہ ایڈیشن شائع کرکے جماعت اہل حدیث کو سخت آزمائش میں مبتلا کردیا ہے ۔برصغیر کے مناظرانہ ماحول کو وہ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں ،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسلکی تشدد اور تلخیوں نے اس کی دینی فضا کو مسموم کررکھا ہے ۔اپنی تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود تقلید کے پرستار اپنی اکثریت کا راگ الاپتے اور عوام کو کتاب وسنت سے دور رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ایک بڑا طبقہ میلاد اور قوالی کو عین تقاضائے اسلام سمجھتا ہے اور دوسرا طبقہ چلہ کشی اور صوفیانہ کشف وکرامات کا اسیر ہے ۔اہل حق کی معمولی کمزوری اسے بیساکھی فراہم کردیتی ہے اور وہ انھیں ائمہ کا گستاخ اور صوفیائے کرام کی جناب میں بے ادب کہنے میں کوئی شرم نہیں محسوس کرتے۔یہاں تو ابھی تک ہم نواب وحید الزماں حیدرآبادی اور نواب صدیق حسن خاں کے فقہی ونظریاتی تفردات سے جوجھ رہے تھے اور مخالفین جماعت نے ان کے حوالے سے کئی ایک کتابیں لکھ دی ہیں اور ان کو جگہ جگہ تقسیم کرتے اور پھیلاتے ہیں۔ابوبکر غازی پوری کی تمام دل آزار کتابیں آج بھی جگہ جگہ نظر آتی ہیں،اس اللہ کے بندے نے جو اب دنیا میں نہیں رہے،الٹے سیدھے اقتباسات جہاں تہاں سے نقل کرکے جماعت اہل حدیث،اس کی فکر اور اس کے علما کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا ہے ،اس کو پڑھتے ہوئے نہیں لگتا کہ یہ تحریر کسی ایسے عالم دین کی ہوسکتی ہے جس نے اسلامی شریعت کی تعلیم حاصل کی ہو اور جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو۔ اگر ہمیں علامہ البانی کے حکم پر اعتماد نہیں تھا اور ہم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیقات پر اعتماد کرتے تھے تو پھر اسی تحقیق کو شائع کیا جاتا۔حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ خود ایک ذمہ دار عالم دین،مفسر،محدث اور فقیہ ہیں ،ان کی اپنی تحقیقات شائع کی جاتیں لیکن یہ کیا کہ تحقیق تو حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی ہے اور نظر ثانی حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی جس میں جگہ جگہ وہ محقق سے اختلاف کرتے ہیں اور جس حدیث کو انھوں نے ضعیف قرار دیا ہے،اس کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ بعض دوسرے محققین نے اسے صحیح یا حسن کیا ہے۔ اردو کا ایک عام قاری کیا کرے گا۔بلکہ بہت سے علماء اس تضاد بیانی سے الجھنوں کا شکار ہوجائیں گے۔
ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ بعض راویان حدیث کے سلسلے میں ائمہ جرح وتعدیل کی آراء مختلف ہیں ،اسی طرح اصول حدیث کی بعض بحثیں اپنے اندر خاصی وسعت رکھتی ہیں اور اپنے اپنے نقطہائے نظر کے مطابق ائمہ جرح وتعدیل بعض احادیث پر حکم لگاتے ہیں ۔اہل علم ان مباحث سے چوں کہ واقف ہیں ،اس لیے ان کے لیے حدیث پر لگائے جانے والے حکم کے اختلاف کو سمجھنا اور اس کا تجزیہ کرنا آسان ہے لیکن عوام یا حدیث سے کماحقہ واقفیت نہ رکھنے والے اہل علم کیا کریں گے۔کاش محترم عبدالمالک مجاہد صاحب تک میری یہ بات پہنچ پاتی اور ہم ان سے یہ درخواست کرتے کہ آیندہ کے ایڈیشن میں اس تضاد بیانی اور متضاد احکام سے کتب احادیث کے اردو ترجموں کو پاک رکھیں ۔ورنہ خود محبان کتاب وسنت میں اختلاف فکر ونظر پیدا ہوجائے گا اور مخالفین کے یہاں ہماری یہ روش مضحکہ خیز بن جائے گی۔
آخر میں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ حکم احادیث کا اختلاف ہو یا فقہی احکام ومسائل کا اختلاف ،عوام الناس اسے ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ بعض بے عمل اور بدعمل لوگ علمائے کرام کے اندر پائے جانے والے ان اختلافات کو استہزاء کا موضوع بناتے ہیں۔ لہذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ عام اہل حدیث علماء کے متفقہ فیصلے سے اختلاف ہونے کی صورت میں خود انہی سے رجوع کیا جائے اور اپنے دلائل سے انھیں آگاہ کرکے مسئلے کی صحیح نوعیت سامنے لائی جائے ۔ عجلت میں ایک نیا مسئلہ اور ایک نئی تحقیق شائع کرکے عوام کے ہاتھوں میں تھمادینا نہ دین داری ہے اور نہ صحیح طرز فکر وعمل۔اس سے صرف فکری انتشار پیدا ہوگا اور متضاد قسم کے گروہ وجود میں آئیں گے۔مجھے یاد ہے شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ نے اپنے ایک مکتوب میں سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ استفسارات کے جو جواب وہ تحریر کرتے ہیں ،انھیں جماعتی رسائل میں شائع کردیا جائے ۔حدیث کی صحت اور ضعف کا مسئلہ بہت نازک ہے ۔بہتر ہوگا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹرعبدالباری فتح اللہ،ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی ،شیخ محمد جعفر مدنی (جامعہ اسلامیہ دریاباد ) اور شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہم اللہ سے رجوع کیا جائے اور ان حضرات سے درخواست کی جائے کہ علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی کے نقطہائے نظر میں جو اختلاف ہے ،اس کو واضح کردیں اور حق وصواب کا معاملہ کس طرف ہے ،اس کی بھی تعیین فرمادیں ،ورنہ آگے چل کر یہ اختلاف مزید وسعت اختیار کرے گا اور افراد جماعت انتشار کا شکار ہوں گے۔