وراثت میں عورتوں کا حصہ

وراثت میں عورتوں کا حصہ

رفیق احمد رئیس سلفی عبادات

وطن عزیز کے میڈیا میں اس وقت مسلمان عورت کی مظلومیت کی جو داستان چھڑی ہوئی ہے اور کئی ایک مسائل کے حوالے سے جو مکالمہ جاری ہے، اس میں سچائی کم اور خاص مقصد کے لیے پروپیگنڈہ زیادہ ہے۔ سماج میں مرد کی حاکمیت اور عورت کی محکومیت کا تصور مسلمانوں نے اسلام سے نہیں بلکہ برادران وطن سے لیا ہے۔بدقسمتی سے مسلمانوں کا سماجی تانا بانا وہی بن گیا ہے جو برادران وطن کا ہے۔پردہ، وراثت، شادی کی رسومات اور وفات کے بعد کی بعض رسمیں، میاں بیوی کے باہمی تعلقات وغیرہ پر کئی قسم کے منفی اثرات مسلم سماج نے قبول کیے ہیں۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق پر جتنی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، اتنی تفصیل دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی اور نہ جدید افکار ونظریات کے تحت وجود میں آنے والی اور تحریک آزادی نسواں کی قیادت کرنے والی تنظیموں کے یہاں وہ اعتدال پایا جاتا ہے جو اسلامی قوانین کے اس شعبے میں موجود ہے۔ میڈیا میں اسلام کے موقف کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ہمیں مسلم سماج کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ دینی تعلیم کے فقدان اور صحیح دینی شعور نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں دونوں ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی کرتے نظر آتے ہیں۔ ازدواجی رشتہ ایک مقدس رشتہ ہے، اس میں پیار، محبت، ہمدردی اور اپنائیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے لیے قربانی دینے کا جذبہ ہوتا ہے ۔ جس باہمی اعتماد پر یہ رشتہ قائم ہے، وہ خاص اہمیت رکھتا ہے، دونوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ یہ اعتماد مجروح نہ ہونے پائے۔دونوں جس طرح اپنے حقوق کے مطالبہ کا حق رکھتے ہے، اسی طرح انھیں اپنے فرائض کی ادائیگی کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ عورتوں کے تعلق سے کئی ایک حقوق مسلم سماج ادا نہیں کرپارہا ہے۔ ان میں سب سے اہم اور سنگین مسئلہ وراثت کا ہے۔ بیٹیاں اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ نہیں پاتیں۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوی کو وراثت نہیں ملتی، بیٹی کی وفات کے بعد ماں کو بھی وراثت سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بہنوں کو بھی وراثت سے دور رکھا جاتا ہے ۔ عورتوں کو وراثت میں کس کس حیثیت سے کتنا حصہ ملتا ہے، اس کی تفصیل ہمیں قرآن میں ملتی ہے لیکن شاید ان آیات کا درس ہم سنتے نہیں یا ہمارے علماء خطبات جمعہ اور دوسرے دینی جلسوں میں اس کے مسائل کی تفہیم نہیں کراتے ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس مسئلے پر بطور خاص توجہ دیں ۔ ذیل کا مضمون اسی پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ایک مسلمان عورت اپنے والد، اپنے شوہر اور اپنی اولاد کے ترکہ میں سے ہرحال میں حصہ پاتی ہے اور بہن کی حیثیت سے اس وقت اپنے بھائی کی جائیداد میں حصہ پاتی ہے جب بھائی کی کوئی اولاد نہ ہو۔ قرآن اور حدیث میں اس کے سارے احکام اور مسائل تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی عام حالت یہی ہے کہ پہلے وہ بیٹی ہوتی ہے، شادی کے بعد بیوی کی حیثیت سے جانی جاتی ہے اور پھر اولاد ہونے پر اسے ماں کا درجہ ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وراثت کے احکام سورۃ النساء (۱۱۔۱۴) میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔بعض وضاحتیں احادیث پاک میں ملتی ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن اور حدیث کے ان احکام پر عمل کریں۔ عورتوں میں وراثت تقسیم کرنے کی سنت مردہ ہوچکی ہے، بہت کم لوگ ہیں جو اس قانون پر عمل کرتے ہیں۔اسی موقع کے لیے وہ حدیث ہے جس میں عام بگاڑ کے وقت کسی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا ثواب سو شہیدوں کے برابر بتایا گیا ہے۔
وراثت کے احکام اور مسائل میں مسلمانوں کے درمیان کوئی خاص اختلاف نہیں ہے بلکہ وراثت کے موضوع پر ایک ہی کتاب ’’السراجی‘‘ تمام مکاتب فکر کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ وراثت کا تعلق حقوق اور معاملات سے ہے، جس میں کوئی کوتاہی قابل معافی نہیں ہے اور نہ عبادات سے اس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود دین دار اور بے دین دونوں حلقوں میں تقریبا ایک جیسی صورت حال ہے۔ مسلمانوں نے برادر وطن کی تقلید میں جہیز کے نام سے ایک چیز شروع کررکھی ہے جسے وہ وراثت کا بدل سمجھنے لگے ہیں جب کہ اس غیر اسلامی رواج کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ذیل میں بیٹی، بیوی اور ماں کو کتنا ورثہ ملے گا، اس کی وضاحت کی جارہی ہے تاکہ عام مسلمان اس کو سمجھ سکیں اور اس کی ادائیگی کو ایک فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔
(۱) بیٹی کا وراثت میں حصہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ فَإِن کُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَیْْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِن کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْف (النساء۴؍۱۱)

’’تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے ۔ اگر میت کی وارث دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو انھیں ترکہ کا دوتہائی دیا جائے گا اور اگر وارث ایک ہی بیٹی ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔‘‘
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اگرکسی مسلمان مرد یا عورت کا انتقال ہو اور انھوں نے اپنے پیچھے بیٹے اور بیٹیاں دونوں چھوڑی ہیں تو جائیداد اس طرح تقسیم ہوگی کہ دو بیٹیوں کے برابر ایک بیٹے کا حصہ ہوگا۔ اس کا بالکل سیدھا طریقہ یہ ہے کہ فرض کریں کسی میت نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں تو بیٹوں کو چار سمجھ لیں اور دونوں بیٹیوں کو ان کے ساتھ شامل کرکے تعداد چھ بنالیں اور پوری جائیداد چھ حصوں میں تقسیم کرکے دو دو حصہ بیٹوں کو اور ایک ایک حصہ بیٹیوں کو دے دیں۔ لیکن اگر کسی میت نے صرف ایک بیٹی چھوڑی ہے تو ایسی صورت میں بیٹی صرف نصف جائیداد کی وارث ہوگی اور اگر کسی میت نے صرف دو یادو سے زیادہ بیٹیاں چھوڑی ہیں، بیٹا نہیں ہے تو ایسی صورت میں بیٹیاں صرف دو تہائی جائیداد کی وارث ہوں گی اور اسی دو تہائی جائیداد کو وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیں گی۔ ایک بیٹی ہونے کی صورت میں باقی نصف اور دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہونے کی صورت میں باقی ایک تہائی جائیداد میت کے بھائی بہنوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اس کی مزید تفصیلات بھی ہیں جو علمائے کرام سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔
(۲) وراثت میں ماں کا حصہ
ماں اپنی اولاد کی وفات کے بعد اس کی جائیداد سے ورثہ پائے گی۔اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی،شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ہمارے سماج میں ایک غلط فہمی اور پیدا ہوگئی ہے کہ شادی کے بعد اگر بیٹی کا انتقال سسرال میں ہوجائے تو بیٹی کی ماں کو اس کی جائیداد میں حصہ دینے کا کوئی خیال کسی کو نہیں آتا۔جب کہ ماں اپنی مرحومہ بیٹی کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں حصہ پائے گی۔
اللہ کا ارشاد ہے:

وَلأَبَوَیْْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِن کَانَ لَہُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ یَکُن لَّہُ وَلَدٌ وَوَرِثَہُ أَبَوَاہُ فَلأُمِّہِ الثُّلُثُ فَإِن کَانَ لَہُ إِخْوَۃٌ فَلأُمِّہِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِیْ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ آبَآؤُکُمْ وَأَبناؤُکُمْ لاَ تَدْرُونَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْما حَکِیْما(النساء۴؍۱۱)

’’اگر مرنے والا مرد یا عورت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کوترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی۔یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے جب کہ میت کی کی ہوئی وصیت پوری کردی جائے اور اس پر جو قرض ہو وہ ادا کردیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے نفع کے لحاظ سے کون تم سے قریب تر ہے۔یہ حصے اللہ نے مقرر کردیے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مرنے والا مرد یا عورت اگر اولاد چھوڑ کر گیا ہے تو ایسی صورت میں ماں کو جائیداد کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر مرنے والے نے اولاد نہیں چھوڑی ہے تو ماں کو جائیداد کا تیسرا حصہ ملے گا لیکن اگر مرنے والے کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں کو صرف جائیداد کا چھٹا حصہ ملے گا۔ اس طرح معلوم ہوا کہ ماں کسی بھی صورت میں جائیداد سے محروم نہیں ہے لیکن ہمارے سماج کو دیکھیے کہ وہ ماں کے اس مقام کو سمجھنے اور جائیداد میں اسے حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔برادران وطن نے بیٹی کی سسرال کا پانی حرام کررکھا ہے، اس کے اثرات غیر شعوری طور پر ہم نے قبول کیے ہیں ۔آج کسی کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ جوان شادی شدہ بیٹی سسرال میں فوت ہوگئی ہے تو اس کی اپنی ذاتی ملکیت میں اس کے والدین کا بھی حصہ ہے،سب کچھ شوہر اور سسرال کا ہوجاتا ہے۔
(۳) بیوی کا وراثت میں حصہ
بیوی اپنے مرحوم شوہر کی جائیداد میں حصہ پائے گی۔اسے اسلام نے کسی بھی حال میں شوہر کی جائیداد سے محروم نہیں کیا ہے۔چاہے اس نے شوہر کے ساتھ طویل زندگی گزاری ہو یا مختصر ۔ہم نے دیکھا ہے کہ شادی کے فوراً بعد اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو سماج ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا کہ اسے اس کے شوہر کی جائیداد میں سے حصہ دیا جائے بلکہ میکہ والے اسے اپنے گھر لے آتے ہیں اور سسرال کے لوگ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ چلو ایک بوجھ ہلکا ہوگیا۔دوسری شادی عورت کرے یا نہ کرے ،ہر صورت میں وہ اپنے مرحوم شوہر کی جائیداد میں سے حصہ پائے گی۔قرآن کی تفصیل دیکھیں:

وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْْن(النساء۴؍۱۲)

’’اور تمھاری بیویاں تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو،ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہوگا۔یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے جب کہ تمھاری کی ہوئی وصیت پوری کردی جائے اورتم پر جو قرض ہو وہ ادا کردیا جائے۔‘‘
اس آیت میں قرآن بیوی کی صرف دو حالتیں بیان کرتا ہے۔اس کے شوہر کے کوئی اولاد ہے یا نہیں۔اگر شوہر نے اپنے پیچھے اولاد چھوڑی ہے خواہ وہ دوسری بیوی ہی سے کیوں نہ ہو،اس صورت میں بیوی کو اپنے شوہر کی کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ملے گا۔لیکن اگر شوہر نے اولاد نہیں چھوڑی ہے تو اس صورت میں بیوی شوہر کی جائیداد کے چوتھائی حصہ کی وارث ہوگی۔
وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد قرآن نے ایک خاص وارننگ دی ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔اسی سے اس قانون کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا نازک معاملہ ہے۔اگر اس سلسلے میں کوتاہی ہوئی تو قیامت کے دن کیا ہوگا۔اللہ کی وارننگ سنیں:

تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَمَن یَعْصِ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْن(النساء۴؍۱۴)

’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرجائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔‘‘
ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے درمیان وراثت کے مسائل بیان کیے جائیں اور اس کی اہمیت بتائی جائے۔ اس عذاب سے متنبہ کیا جائے جو وراثت نہ دینے کی وجہ سے قیامت کے دن برداشت کرنا پڑے گا۔ جس طرح سے دین کے دیگر معاملہ میں مسلمان حساس ہیں کوئی وجہ نہیں کہ معلومات ہونے پر وہ وراثت کے قانون کو نہ مانیں۔ ہماری بعض دینی تنظیمیں کئی ایک موضوعات پر ہفتہ مناتی ہیں اور ملک کے کونے کونے میں اس کے لیے سیمینار اور جلسے منعقد کرتی ہیں،کیا ہی بہتر ہوتا کہ تمام دینی تنظیمیں مسئلۂ وراثت کی تفہیم اور اس کے تفصیلی مسائل سے عوام کو واقف کرنے کے لیے کوئی منظم پروگرام بنائیں اور اس کی اہمیت، فرضیت اور ضرورت واضح کریں۔ بنگال کے ضلع مرشد آباد کے کچھ علاقوں اور بستیوں میں تقسیم وراثت کا نظام قائم ہے، بعض دوستوں نے بتایا ہے کہ وہاں ایک ناخواندہ شخص بھی جانتا ہے کہ میت کے کن کن وارثین کو کتنا کتنا حصہ ملے گا۔یہ شاید وہی علاقہ ہے جہاں فرائضی تحریک کا اثر تھا اور اس تحریک سے وابستہ لوگوں نے بطور خاص مسئلۂ وراثت کو موضوع بناکر اس پر عمل کرنے کی طرح ڈالی تھی۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد منت اللہ علیگ

ما شاء اللہ، بہت عمدہ اور مدلل تحریر،
اللہ شیخ کو جزاء خیر سے نوازے، اور انہیں معاشرے سے جڑے اس جیسے اہم مسائل پر مسلمانوں کے اصلاح کے لیے مزید لکھتے رہنے کی توفیق دے، اور ہمیں ان سے مستفید ہونے کا مواقع عنایت کرتا رہے، آمین

محمد اطہر

ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے