اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و رہبری، فوز و فلاح، اُن کی دنیوی و اخروی سعادت و کامرانی کے لئے انبیاء و رسل کی بعثت کا ایک سلسلہ قائم فرمایا جس کا آغاز ابو البشر آدم علیہ السلام سے ہوتا ہے اور اختتام خاتم الأنبیاء و الرسل محمد ﷺ پر ہوتا ہے ۔ رب العالمین نے ہمارے نبی رحمۃ للعالمین ﷺ کی زندگی کو ہمارے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیا ہے
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (سورۃ الأحزاب: ۲۱)
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جہاں ہمارے لئے ہر اعتبار و ناحیہ سے اسوہ موجود ہے وہیں آپ ﷺ کی سیرت میں دعوتی پہلوؤں سے بھی مکمل اسوہ و نمونہ موجود ہے ۔ سیرتِ نبوی ﷺ کے مطالعہ سے ہمیں خفیہ و سری دعوت، اعلانیہ و جہری دعوت، اجتماعی و انفرادی دعوت، اسلوبِ دعوت، مبادیات و ترجیحات دعوت، وسائل دعوت، مخالف و معاند فضاء میں دعوت اور سازگار و موافق ماحول میں دعوتی فریضہ انجام دینے کے پہلو روز روشن کی طرح اجاگر ہوتے ہیں ۔ان تمام دعوتی امور اور مشنِ تبلیغ میں صبر و ثبات، حکمت و موعظت، اخلاق و کردار اور تنذیر و تبشیر کا گوشہ بھی عیاں ہوتا ہے ۔
رسالت و نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے سب سے قریبی لوگوں سے انفرادی طور پر کیا۔ اس تعلق سے آپ پر ابتدائی مرحلہ میں ایمان لانے والوں کے واقعات مشہور و معروف ہیں ۔ دعوت و تبلیغ کے اس انداز و اسلوب کا سلسلہ تین برس تک خفیہ انجام پذیر رہا۔ تین سالہ سری و خفیہ دعوت کے بعد اظہار دعوت کا پہلا حکم
(وَأَنذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ ) (سورۃ الشعراء: ۲۱۴)
’’آپ اپنے قریبی کنبہ و خاندان والوں کو ڈرائیں‘‘ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اِس آیت کریمہ کے نزول کے بعد اللہ کے نبی ﷺ نے اُس زمانے کے سب سے مؤثر میڈیا کوہِ صفا کو نداء لگانے کے لئے استعمال کرکے بطونِ قریش (قریشی کنبہ و خاندان) کو جمع کیا اور اُن کے سامنے دعوتِ حق کا واشگاف کیا اور قرآن کی آیت
(فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ) (سورۃ الزمر:۹۴)
’’آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کھول کو سنا دیں اور مشرکوں سے اعراض کریں‘‘ کے نازل ہونے کے بعد نبی ﷺ نے کھلم کھلا مشرکین کو دعوتِ توحید دینا شروع کیا۔ اہل مکہ کے علاوہ باہر سے آنے والوں پر ذوالمجاز و مجنہ کے بازاروں کا چکر لگا کر اور اہل طائف و دیگر قبائل پر خود کو پیش کرکے بھی دعوت کا فریضہ انجام دیا۔
دعوت و تبلیغ کے مکی دور میں نبی ﷺایک طرف اپنے متبعین و پیروکاروں کو مشرکینِ مکہ کی ظلم و زیادتی پر صبر و ثبات کی تلقین کرتے اور دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی کی جہاں بشارتیں سناتے تھے وہیں ان کی حفاظت اور تعلیم و تربیت کے لئے دار ارقم کا انتخاب بھی فرمایا۔ اور جب مکہ میں اہل ایمان کے لئے حالات حد درجہ ناساز گار ہوگئے ایسی صورت میں اہل ایمان کو ہجرتِ حبشہ کی اجازت مرحمت فرمائی اور اپنے کنبہ و خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب کی نظر بندی اور تین سالہ بائیکاٹ کی اذیت کو بھی برداشت کیا ۔ اِن تمام کے باوجود مشرکینِ مکہ کی ایذاء رسانی، ظلم و زیادتی، تہدید و ترغیب نبی ﷺ کی دعوت میں مانع نہ ہوسکی لیکن جب سرزمینِ مکہ اور وہاں پر عرصۂ حیات مسلمانوں پر اور خود نبی ﷺ پر تنگ ہوگیا تو آپ نے باذن الہی اپنی دعوتی مشن کے لئے سرزمین مدینہ کا انتخاب فرمایا۔
ہجرتِ مدینہ سے قبل نبی ﷺ نے رؤسائے مدینہ سے دعوتِ دین کے فریضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں نصرت و تائید اور اس راہ میں درپیش مصائب و آلام پر صبر و ثبات کا عہد و پیمان بیعت عقبہ أولیٰ و ثانیہ کے ذریعہ لیا ۔ جب ہجرت فرما کر مدینہ (یثرب) تشریف فرما ہوئے تو مسجد نبوی کو تعمیر فرمایا جو کہ رکنِ اسلام صلاۃ کی ادائیگی کے ساتھ مسلمانوں کی اجتماعیت اور صحابہ کی تعلیم و تربیت کا مقام بھی تھا اور مسجد نبوی سے متصل صفہ کو تعمیر فرماکر علم کے متلاشی صحابۂ کرام کے لئے رہائش و قیام گاہ کا انتظام فرمایا اور جب کسی جگہ تعلیم و تربیت کے لئے دعاۃ و مبلغین کی ضروت محسوس ہوئی تو معلم کائنات ﷺ نے اپنے تربیت یافتہ دعاۃ و قراء کو اہل صفہ سے منتخب فرما کر روانہ کردیا۔رجیع کا حادثہ اور بئر معونہ کا المیہ اس دعوتی پہلو کا بیّن ثبوت ہے ۔
مدینہ آنے کے بعد جب ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آگیا تو نبی ﷺ نے دعوتِ توحید کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے اور کلمۃاللہ کی سربلندی کے لئے دفاعی و اقدامی جنگیں بھی لڑیں اور جہاد کیا ۔ حکمت و مصلحت کے پیش نظر منافقین مدینہ کی ریشہ دوانیوں سے چشم پوشی بھی فرمائی اور یہود مدینہ سے میثاق مدینہ بھی قائم کیا۔
صلح حدیبیہ کے نتیجے میں جب عرب کے کسی بھی علاقہ میں آمدو رفت کے لئے فضا مامون و سازگار ہوگئی تو آپ ﷺ نے بادشاہوں اور امراء کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمائے ۔ فتحِ مکہ کے بعد جب سارا عرب فوج درفوج حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا تو قبائل میں موجود بتوں اور مظاہرِ شرک کو نیست و نابود اور ان کے نام و نشان کو مٹانے کے لئے جانباز صحابۂ کرام کو مامور فرمایا۔ آغوشِ اسلام میں پناہ لینے والی نفوس قدسیہ کی انفرادی و اجتماعی تعلیم و تربیت کرتے رہے، خطبۂ جمعہ اور موقع بہ موقع بعد نمازیں اور حسب ضرورت لوگوں کو جمع کرکے وعظ و نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ دعوتِ اسلام کے اثرات پورے جزیرۂ عرب میں نمایاں ہوگئے اور حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زائد فرزندانِ توحید کا آپ نے خود عینی مشاہدہ فرمایا اور انہیں دین کے احکام و فرامین پر مضبوطی کے ساتھ عمل آوری اور دعوت و تبلیغ کی نصیحت فرمائی ۔
الغرض آپ ﷺ کی پوری زندگی
(یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ) (سورۃ المدثر: ۱-۲)
’’اے لحاف میں لپٹنے والے ، اٹھیے اور ڈرائیے ‘‘ اور
(یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن)(سورۃ المائدہ: ۶۷)’’
اے رسول آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اور اللہ آپ کو لوگوں ( کے شر) سے بچائے گا۔ اور بلاشبہ اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘ کی عملی تفسیر رہی ۔ اور نبی ﷺ تبلیغ رسالت کے باب میں فرمان الہی
(اُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ) (سورۃ النحل: ۱۲۵)
’’اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجئے‘‘ پر عمل پیرا رہے ۔
آج کے پر آشوب دور میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ سیرت نبوی کے دعوتی پہلوؤں پر غور کیا جائے اور حالات و ظروف کا پاس و لحاظ رکھ کر سیرت نبوی کی روشنی میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کی مہتم بالشان ذمہ داری کو ادا کیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سیرت نبی ﷺ کے روشن و تابناک پہلوؤں کو سمجھنے والا اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
ماشاءاللہ