”جذباتیت” ایک ایسا مرض ہے کہ جب وہ انتہا کو پہونچ جائے تو ”فرد” کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیتی ہے، یہ جذباتیت ہر کسی میں ہے، انسان جس چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے یا جس سے محبت کرتا ہے تو اس سے اپنے جذبات کچھ اس طرح سے وابستہ کرلیتا ہے کہ اس کے خلاف نہ تو کچھ سن سکتا ہے، نہ ہی حقائق کو تسلیم کرسکتا ہے، البتہ اسی جذباتیت کی بنیاد پر اپنے ”مخالف” کے تئیں کچھ اس قسم کا نظریہ اپنا لیتا ہے کہ اس کے نزدیک اس کا ہر عمل غلط ہوتا ہے، اور اس غلطی کو ثابت کرنے کے لئے وہ ہر قسم کے ”دلائل” ڈھونڈ لاتا ہے بھلے ہی وہ کتنے بھونڈے قسم کے یا ”جھوٹ” کا پلندہ ہی کیوں نہ ہو-
اس جذباتیت کے شکار نہ صرف ”افراد” ہیں بلکہ تحریکیں اور تنظیمیں بھی ہیں، کچھ تنظیمیں اپنے مخالف نظریات کے حامی افراد کے تئیں اس قدر جذباتی ہوا کرتی ہیں کہ ان کا رد کرنے کے لئے انہیں کسی بھی ٹھوس ثبوت کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی ہے، ان کے لئے بس مخالف نظریہ کا حامل ہونا ہی ان کے غلط ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔
بہت ساری چیزیں ہیں جن سے افراد اور تحریکیں اپنی ”جذباتیت” وابستہ کرلیتی ہیں، انہیں میں سے ایک ”خلافت” یا ”اقامت دین” بھی ہے، اب اگر کوئی شخص ان افراد یا تحریکوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس مقصد کا آپ نے ہوا کھڑا کیا ہوا ہے، اس کا کوئی فریم ورک نہیں ہے، اس کی کوئی تیاری نہیں ہے، کیا زمینی سطح پر بغیر صورت حال کا جائزہ لئے ہوئے جنگ کا بگل بجادینے سے جنگ جیتی جاسکے گی؟
پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں ”نظام حکومت اور طریقہ حکومت” پر بحثیں ہوتی ہیں، مختلف نظریات پر ”ریسرچ” کئے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون سا طریقہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے زیادہ بہتر ہے، لیکن آپ لوگ یہ ”تقابل” کیوں نہیں کرتے ہیں؟ یا عوام الناس کو کیوں نہیں بتاتے ہیں کہ ”خلافت کے خد و خال” کیا ہوں گے؟ تو وہ شخص ان تحریکوں کی نظر میں غلط ٹھہرتا ہے، عزیمت و استقامت سے دور مانا جاتا ہے، بلکہ اگر ”جذباتیت” انتہا پر پہونچی ہوئی ہے تو ”یہودی” بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک میں اپنی بات کروں تو مجھے ”موجودہ دور” کے تناظر میں خلافت وغیرہ کی باتیں پلے نہیں پڑتی ہیں، اور نہ ہی میں ”ہندوستان” میں اس قسم کا کوئی نظام چاہتا ہوں، میں ہندوستان میں وہی نظام چاہتا ہوں جو ہر طبقے کو مساوی اور یکساں حقوق دے، جس کی نظر میں ”مذہب” کی بنیاد پر تفاوت نہ ہو، جہاں ”ہیڈ آف اسٹیٹ” ایک ہندو بھی بن سکے، تو ایک مسلم بھی، ایک سکھ بھی، ایک عیسائی بھی، قانون کی نظر میں سب کی حیثیت یکساں ہو، کسی کے ساتھ بھی امتیاز نہ برتا جاتا ہو، ہر ایک کو اپنے ”مذہب” پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو، اور شخص کو اپنے ”خطوط” کے مطابق زندگی گزارنے کا ”ادھیکار” ہو، مذہبی افراد کا کام صرف ”بتلا دینا” ہو، زبردستی ”منوانا” نہیں، حکومت کے افراد مذہبی ہوں بھی تو اس کی وجہ سے حکومت کی پالیسیاں کسی خاص مذہب کے زیر اثر نہ تیار کی جاتی ہوں، مجھے ہندوستان کا یہی ”رنگ” پسند ہے، یہ الگ بات ہے کہ آج کل یہ رنگ کچھ پھیکا سا پڑ گیا ہے، مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہر تاریکی اپنے بعد ”سحر” کی نوید جانفزا لے کر ضرور آتی ہے۔
بر صغیر میں بھی بہت ساری جماعتیں اور تنظیمیں ”خلافت اور اقامت دین” کے نام پر وجود میں آئیں، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ بعض اپنے نظریات میں اس قدر غلو کر گئے کہ ”پر امن کوششوں” کے بجائے ”تشدد اور ٹکراؤ” کی راہ اختیار کرلی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ابھی اس ”پوزیشن” میں نہیں ہیں اور نہ ہی آنے والے کئی سالوں میں اس پوزیشن میں ہوں گے کہ موجودہ جو ”نظام اور حکومتیں” ہیں اس کا مقابلہ کرسکیں، پھر یوں ہوا کہ جہاں ”حکومت” کو بھنک لگی، یا ایک بھی ایسا شخص پکڑا گیا جس کے نظریات ملک مخالف تھے، تو اس کا نتیجہ اس قدر بھیانک نکلا کہ ”ہزاروں نوجوانوں” کو بغیر کسی ”ثبوت” کے محض ”شک” کی بنیاد پر پس زنداں ڈال دیا گیا، اس کا کیرئیر، گھر، خاندان، بیوی بچے، غرضیکہ اس سے جڑا ہر شخص تباہ و برباد ہوگیا، جوں ہی ”دہشت گردی” یا کسی مخصوص تنظیم سے ”ربط” رکھنے کا اس پر الزام کیا لگا، ہر کسی نے اس سے اس طرح منہ پھیر لیا جیسے کبھی آشنائی ہی نہ تھی، ان تنظیموں کی وجہ سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ لوگ ”اسلامی نظام” ہی کے مخالف ہوگئے، اس سے خار کھانے لگے اور اس کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے پھیلانے لگے۔
سب کو معلوم ہے کہ ”ہندوستان” جیسے ملک میں ”خلافت” کے قیام کی کوششیں نہ صرف ”عبث” ہیں، بلکہ یہ ”لانگ ٹرم” میں کروڑوں مسلمانوں کی جانی و مالی نقصان کا سبب بھی ہیں، اس کی سب سے بہترین مثال خود وہ ”مسلم ممالک” ہیں جہاں خلافت کے نام پر تباہی و بربادی کا ایسا ”تانڈو” مچایا گیا کہ جہاں کبھی ”خوشیاں” رقصاں ہوا کرتی تھیں، ”رونقیں” اپنا بازار لگاتی تھیں، ”دلفریب مناظر” نظروں کو اپنی ”اداؤں” کا دیوانہ بناتی تھیں، جہاں لوگ ”جوق در جوق” سیاحت کے لئے جاتے تھے، جہاں کی زمینیں سونا اگلا کرتی تھیں، وہ آج اس طرح تاخت و تاراج ہوگئی ہیں کہ ان کھنڈروں میں ”الووئیں” بھی رہنے سے ڈرنے لگی ہیں، ”خلافت” کا نقصان ”خلافت” کے فائدے سے بڑھ کر نکلا، شاید انہیں سب چیزوں کو دیکھ کر بہت ساری ”تنظیموں” نے اپنا ”چولا” بدل لیا، اپنے ”منشور و مبادی” کو یکسر تبدیل کرکے مکمل جمہوری نظام کے حامل بن گئے، ”امیر” کا چناؤ بھی حکومتوں کے ”چناؤ” کی طرح پانچ سال کے لئے ہونے لگا، مقاصد میں ”خلافت کے قیام” کی شق کو ہٹا کر ”اقامت دین” تک محدود کردیا گیا، اور مختلف سماجی و معاشرتی، رفاہی و تعلیمی منصوبوں کو بروئے کار لانے لگیں، جو کہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے، کیونکہ یہ بات تاریخ کے ذریعہ ثابت شدہ ہے کہ ”ہند” کی زمین پر جب بھی اسلامی حکومت قائم کی جائے گی، اسے ”مغلیہ سلطنت” کی طرز پر ”سیکولر” ہی بننا پڑے گا، ورنہ پاکستان کی طرح ایک چھوٹے سے ”ٹکڑے” پر قناعت کرنا پڑے گا، باوجود یکے کہ اس میں بھی کبھی اس بات کی گیارنٹی نہیں ہوگی کہ کبھی اس میں ”اسلامی نظام” پر مبنی حکومت قائم کی جاسکے گی یا نہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ ”تحریکیں” اور ”تنظیمیں” اپنے ہی ملک میں ”اقامت دین” کا فریضہ نہیں انجام دے پاتی ہیں، ان کے ناک تلے ”برائی کے مظاہر” کچھ اس قدر پھیل جاتے ہیں کہ وہ ”تماشا” دیکھ کر ”محظوظ” ہونے میں ہی ”عافیت” محسوس کرنے لگتی ہیں کہ مبادا ادھر آواز اٹھائی اور ادھر خود ان کے اپنے افراد اور کارکنان نے ”اعمال” کے ذریعہ اس کو غلط ثابت کردیا، یا ”سیاسی” سطح پر ”قوم” کی حیثیت ”زیرو” ہوجانے کے بعد بھی ان تحریکوں کی اتنی ”حیثیت” نہیں رہ جاتی ہے کہ وہ ”ملک” میں ماضی کی ”عہد رفتہ” کو واپس لا سکیں، یا جو قوم تعلیمی حیثیت سے پسماندگی کی شکار ہوچکی ہے، اس کا ”علاج” ڈھونڈ سکیں، یا ملک فرقہ پرست ہوتا جارہا ہے، اس کا ”تریاق” ایجاد کرسکیں، تو پھر تنظیمیں اور تحریکیں ”اپنی ساری ناکامیاں” چھپانے کے لئے ایک ”دشمن” ڈھونڈ لیتی ہیں، جسے گالیاں دے دے کر قوم کو ”خواب خرگوش” میں مبتلا رکھا جا سکے، اور پھر تحریروں اور تقریروں سے کچھ اس قسم کے ”واہ واہ” کرنے والے ”لاتعداد بھکت” پیدا کردیتی ہیں جو ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے دوسروں سے بھی ”آمنا و صدقنا” کی تلقین کا ”فریضہ” انجام دیتے ہیں، تاکہ ”قوم” ان کی ”ناکامیوں” پر سوال نہ اٹھا سکے، اور نہ ہی ان کی ”تقدسیت” پر کوئی آنچ آسکے، نیز ”تبرعات و صدقات” کے دروازے ان تنظیموں کے لئے ہمیشہ کھلے رہیں۔
یہ ”تحریکیں اور تنظیمیں” ایک تیر سے دو ”شکار” کرتی ہیں، ایک طرف ”ناکامیوں کا ٹھیکرا” بھی دوسروں کے سر پھوڑ دیتی ہیں، اس طرح وہ قوم کی نظر میں ”مطعون” ہونے سے بچ جاتی ہیں، دوسری طرف لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی ”جاگزیں” کرا دیا جاتا ہے کہ اسی کے ذمہ داران ”قوم” کے اصلی خادم ہیں، یہی وہ ایسے لوگ ہیں جن کے چہرے سے ملت کے تئیں ہمیشہ ”درد” ٹپکتا رہتا ہے، نیز ”عالمی” مسائل پر ان کی ”گہری نظر” ہے، ان کی آواز سے ”باطل طاقتوں” پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، بھلے ہی حقیقت اس کے برخلاف کچھ یوں کیوں نہ ہوں کہ جن کو وہ ”باطل طاقتیں” باور کرا کر ان لرزہ طاری کردئیے جانے کی بات کر رہے ہیں، ان کی نظر میں ان کی حیثیت رتی بھر بھی نہ ہو، اور ان کی باتوں کا سارا سلسلہ ”ہم” سے شروع ہوکر ”ہم” پر ختم ہوجاتا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم میں نہ تو انفرادی احساس ذمہ داری ہے اور نہ ہی اجتماعی، اسی وجہ سے ایک طرف جہاں فرد اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتا ہے، اپنی ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو قربان کردیتا ہے، اسی طرح تنظیمیں اور تحریکیں بھی ہیں، جب وہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرپاتی ہیں تو راہ فرار اختیار کرلیتی ہیں، لیکن چونکہ ”دکان ”کے بند ہوجانے کا خطرہ بھی رہتا ہے اس لئے کسی ایسے دشمن کو زندہ رکھنا بہت ضروی ہوتا ہے جن کو وہ گالیاں دے کر یہ ثابت کرسکیں کہ اصل حالات کے ذمہ دار یہی ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو قوم پسماندگی کا شکار نہ ہوتی، اگر یہ نہ ہوتے تو دنیا میں اس قدر رسوائیاں نہ ہوتیں، اگر یہ نہ ہوتے تو ”قوم” نہ جانے کب ہی عروج کے منازل طے کرچکی ہوتی، اگر یہ نہ ہوتے تو ”اسلام کا جھنڈا” کب کا پوری دنیا پر لہرا رہا ہوتا، نہ یہ ”سوپر پاور” ممالک ہوتے، نہ وہ اتنے ترقی یافتہ ہوتے۔
ایک دور ہوا کرتا تھا جب مسلمانوں کو اپنی پستی میں ”یہودی سازش” نظر آتی تھی، پھر جب لبرل طبقے نے مذاق اڑانا شروع کردیا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کی پستی میں اگر دنیا کی سب سے چھوٹی آبادی کا ہاتھ ہے تو پھر حق ہے کہ دنیا کی یہ سب سے بڑی آبادی پستی ہی کا شکار رہے، پھر جب ”برصغیر” کے دانشوروں کے حلق سے یہ بات اتری کہ اس قسم کا ”Narrative” خود ”قوم” کی رسوائی کاسبب ہے تو انہوں نے خود ”قوم” میں دشمن ڈھونڈ لئے، جن پر مختلف ”نسلی، لسانی ومسلکی” عصبیتوں کی بنیاد پر حقیقت کا ہی گمان ہو، تاکہ ”قوم” میں دونوں کی ”حیثیت” منفی اور مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر مستحکم ہوجائے، ایک کو ”قوم” کا ازلی دشمن ثابت کردیا جائے اور دوسرے کو ”قوم” کا سب سے بڑا ہمدرد، بھلے ہی حقیقت اس کے برخلاف کیوں نہ ہو۔
ان تنظیموں کو چاہئے کہ زمین سے جڑ کر رہیں، جس جگہ ہیں اس پر زیادہ فوکس کریں، برخلاف سرحد پار کے ممالک پر دھیان دینے کے، ایسا نہ ہو کہ کروڑوں کی آبادی ان کی توجہ چاہتی ہو، اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوسروں پر لعن طعن کرنے میں مصروف ہوں، اپنے لئے ”لائحہ عمل” تیار کرلیں کہ قوم کو سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ” قوم” کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں، دوسروں کی ”سیاسی” معاملات کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بھنا رہے ہیں، بہتر یہی ہے کہ وہ دلوں کو جوڑنے والے بنیں، توڑنے والے نہیں، فرقہ فرقہ کھیلنے کے مسالک کافی ہیں، ان میں ان تحریکوں کو تو خصوصی طور پر نہیں کودنا چاہئے جو اسلامی اخوت و مودت اور دین کی نصرت و حمایت کے نام پر وجود میں آئی ہیں، کیونکہ ایسا کرنا گویا اپنے ہی مقصد کو غلط ٹھہرانا ہے۔
آپ کے تبصرے