ماہنامہ “اہل السنہ” جو اسلامک انفارمیشن ممبئی کا ترجمان ہے، اس کا شمارہ نمبر۸۲ بابت ماہ ستمبر ۲۰۱۸ء اس وقت میری میز پر ہے ۔ اس کا اداریہ برادر عزیز شیخ کفایت اللہ سنابلی زادہ اللہ علماً نے تحریر فرمایا ہے۔ عنوان ہے: “مذہبی دائرۂ تفقہ: مذاہب اربعہ کے بیشتر مفتیان کا المیہ”۔
اگر برادر عزیز اجازت دیں تو عنوان میں تھوڑی سی تبدیلی کروں گا تاکہ عربی تعبیرات سے ناواقف حضرات بھی اسے سمجھ سکیں۔ اسلامی تراث کی فقہی کتابوں میں مذہب کا وہی مفہوم ہے جو اردو میں مسلک کا ہے اور مسلمانوں کے درمیان فقہی مکاتب فکر کو عام طور پر مسلک کے نام سے ہی جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے اگر عنوان کچھ اس طرح ہوتا تو بات فوراً سمجھ میں آجاتی: “مسلکی دائرۂ تفقہ: چاروں مسالک کے مفتیان کرام کا المیہ” ۔
اداریہ پڑھنے کے بعد میں نے برادر عزیز کو فون کرکے انھیں مبارک باد پیش کی اور انھیں بتایا کہ بلاشبہ یہ ایک برمحل تحریر ہے جس کی ضرورت دوسروں سے کہیں زیادہ برصغیر کے اہل حدیث عوام وخواص کو ہے۔ اس بصیرت افروز تحریر سے قارئین ذی احترام کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اس نوجوان اسکالر کا مطالعہ کتنا وسیع ہے اور وہ اہل حدیث منہج کو علمی انداز میں پیش کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ایک بزرگ عالم دین کی تصنیف فرمودہ کتاب پر خاکسار کو ان کے حکم کی تعمیل میں مقدمہ لکھنا پڑا تھا، اس میں میں نے اپنے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اہل حدیث منہج کو غیر شعوری طور پر حنبلیت میں گڈمڈ کیا جارہا ہے اور اسی وجہ سے کئی ایک مسائل کے سلسلے میں پوری جماعت کنفیوژن کا شکار ہورہی ہے۔ اس وقت بعض مدنی دوستوں سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے اس بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی بلکہ بعض دوستوں نے میری اس تحریر کو غلط معنی پہنائے اور بدگمانی کا شکار ہوگئے۔ عزیز محترم کا آج جب یہ مضمون مطالعہ میں آیا تو خوشی ہوئی کہ حدیث، رجال حدیث، فقہ حدیث اور علوم حدیث پر گہری نظر رکھنے والے اس نوجوان اسکالر کے بھی خدشات وہی ہیں جو میرے تھے ۔بلکہ بعض دوسرے اہل علم حضرات کے بھی ہیں لیکن جو ہمت وجراءت برادر موصوف نے دکھائی ہے، اس کی توفیق سب کو کہاں ملتی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اہل حدیث منہج کے امتیازات کو مکمل طور پر مثالوں کے ذریعے نمایاں کیا جائے اور تقلید کے نتیجے میں جو فقہ ترتیب پائی ہے اور جو فتاوی صادر ہوئے ہیں ،ان کا تفصیل سے علمی، تحقیقی اور معروضی تجزیہ کیا جائے تاکہ عوام وخواص کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ اہل حدیث جس صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے ہیں، اس کی تفصیلات قرآن، حدیث، آثار صحابہ اور اقوال تابعین میں ملیں گی۔ جب بات اجتہاد کی آئے گی تو روح شریعت اور مزاج شریعت پیش نگاہ رہے گی اور بغیر کسی فرق وامتیاز اور ذہنی تحفظ کے تراث اسلامی کے پورے ذخیرے سے استفادہ کیا جائے گا۔ جب اہل حدیث ائمہ اربعہ کی اندھی تقلید سے انکار کرتے ہیں جو علم وفضل اور تقوی وتدین میں اپنی مثال آپ تھے، وہ آج کے مفتیان ذی احترام کی آنکھ بند کرکے تقلید کیوں کر کرسکتے ہیں ۔ برادر عزیز سے یہ درخواست کروں گا کہ اس موضوع پر زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے مفصل کتاب تحریر کریں تاکہ حنبلیت اور اہل حدیثیت کے درمیان موجود فرق سامنے آسکے ۔ اللہ برادر عزیز کو صحت وسلامتی عطا فرمائے، ان کے علم میں اضافہ کرے تاکہ ان کی علمی وتحقیقی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے اور وہ اپنے معاصر اور ہم عمر نوجوان سلفی علماء کے لیے ایک اچھی مثال بن سکیں۔ تمہیدی کلمات کے لیے معذرت خواہ ہوں، اب برادر عزیز کا یہ بصیرت افروز اداریہ ملاحظہ فرمائیں:
آپ کے تبصرے