سعودی، ایران اور خلیج

ابوالمرجان فیضی تاریخ و سیرت

مسلم ممالک میں شیعہ اور سنی کشمکش کی تاریخ بہت پرانی ہےلیکن خلیج کی موجودہ صورتحال کا سہرا ایرانی انقلاب کو جاتا ہے، جو رضا شاہ پہلوی کی سیکولر حکومت کے خلاف 1979 عیسوی میں آیت اللہ خمینی کی زیر قیادت برپا ہوا تھا۔
یہ انقلاب اس قدر ولولہ انگیز تھا کہ اگر ایران عراق جنگ نہ ہوئی ہوتی تو شاید یہ اسی وقت عراق اور دھیرے دھیرے پورے خلیج کو نگل سکتا تھا۔ لیکن آنجہانی صدام حسین ایرانی توسیع پسندی کے سامنے ایک اسپیڈ بریکر بن کر کھڑے ہوگئے۔ اور راستے کے اس سنگ گراں حائل نے انقلاب کے اثرات کومحدودکردیا۔
حالانکہ پورے خلیج پر روافض کی حکومت کا خواب دیکھنے والی ایرانی حکومت نے اس کی کوشش ابھی بھی نہیں چھوڑی ہے۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری ، گرتی ہوئی کرنسی اور عوامی احتجاج کے باوجود انھوں نے ہر اس فرد اور تحریک کا ساتھ دیا ہے اوردے رہے ہیں، جو ان کے اس دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکے۔
بعض لوگوں کے نزدیک اسی کےردعمل کے طور پر سعودی حکومت نے بھی اپنے عقیدے کو ساری دنیامیں پوری طاقت سے پھیلانا شروع کردیا۔جیسا کہ ولی عہدمحمدبن سلمان نےاپنے ایک انٹرو یو میں کہا ہے۔(The Express Tribune 30 MAR 2018)
مغرب کے اشارے پر وہابیت پھیلانے کا بیان فقط ایک سیاسی بیان ہے۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ عالم اسلام شیعہ بلا ک کے بڑھتے اثرات کو روکنے لیے پوری قوت سےسلفی عقیدہ کی نشر واشاعت بہت ضروری تھی۔
شیعہ، خوارج اور اخوان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنا نظریہ پھیلانے کے لیے شروعات ہی حکومت سے ٹکراکر کرتے ہیں۔ بغاوت، خون خرابہ، دمار و تخریب کاری سے گزر نے ہی میں وہ اپنی تحریک کی کامیابی سمجھتے ہیں۔حکومتیں گراکر ،انقلاب لا کر وہ شارکٹ میں اپنی بالادستی قائم کرلینا چاہتے ہیں۔
لیکن سلفی دعوت کےحاملین اور ان کے ہم ہمنوا ،عوام کو اپنے عقیدے کی دعوت دے کر ان کے دلوں پر قبضہ جماتے ہیں۔ سلفی حکومت کے قیام سے ان کو پرہیز نہیں ہے، لیکن ان کے نزدیک یہ اس وقت ممکن ہوگا جب عوام پوری طرح سے بدل کر ہمارے رنگ میں رنگ جائے۔
حالانکہ یہ طریقہ بڑا صبر آزما اور طویل ہے۔لیکن ہے بہت ہی موثر اوردیر پا۔ حکام کے خلاف خروج کے راستے انقلاب لانے والوں کی بغاوت اسی طرح کی دوسری بغاوت سے کچل دی جاتی ہے۔اس طرح ان کی ساری کوششوں پر پانی پھرجاتاہے۔جبکہ دعوت کےذریعے کی گئی اصلاح کااثر دیر تک باقی رہتاہے۔اور اقتدار نہ بھی ملے تب بھی سماج کی اصلاح کاکام توہورہا ہوتاہے۔ حکومت کے بنابھی دین پر بآسانی چلا جاسکتاہے۔
اسی لیے نظریہ اور طریقہ کار کے لحاظ سے ایران خلیج میں جو کچھ کررہا ہے، اس کو دیگر ممالک میں بیجا مداخلت کہا جائے گا۔ لیکن دیگر ممالک میں سعودی عرب کی پرامن سلفی دعوت کو مداخلت نہیں کہہ سکتے۔
حالانکہ حکومت کے قیام کے لیے دعوت کے ذریعہ چنا گیا یہ راستہ پورا سچ نہیں ہے۔دعوت سے شروعات کی جانی چاہیے۔ لیکن آپ ہمیشہ پہلے ہی مرحلے میں نہیں رہ سکتے۔آغاز کے کچھ ہی دنوں بعد آپ کو اسی دعوت کی راہ میں بہت سارے ممالک اور افراد خود بخود روڑے اٹکاتے نظر آئیں گے۔ راستے میں حائل ان ہی رکاوٹوں کو دور کرنے کا نام جہاد ہے۔ مکہ سے شروع کی گئی پر امن دعوت ،مدینہ جاکر دوسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہوگئی تھی۔حالانکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ دوسرا مرحلہ کبھی نہ آئے۔خود سعودی حکومت کا پہلا دور صرف دعوت کا مرہون منت نہیں تھا۔دعوت کے ساتھ ساتھ تلوار بھی تھی۔مزید ہم نے ایسی کوئی مثال بھی نہیں دیکھی جس میں صر ف دعوت دین سے بنا کسی سے لڑے حکومت قائم کرنے میں کامیابی مل گئی ہو۔
الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ ہمارامقصد اقتدار حاصل کرنا بلکہ عوا م کی اصلاح ہے۔اور یہ اصلاح ہم اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک لوگ اجازت دیں گے۔جس دن مخالفت شروع ہوئی ،ہم اصلاح کا کام بند کردیں گے۔
حالانکہ ایران قدیم تاریخی ملک ہے۔ اور اس کا اثر و رسوخ پرانا ہے۔ لیکن سعودی عرب کی شہرت سلفی دعوت اور تیل کی وجہ سے چند صدیوں سے ہوئی ہے۔
بحرین اور شام :
بحرین ایک ایسا ملک ہے جس کا حاکم سنی ہے اور عوام کی اکثریت شیعہ ہے۔ جبکہ شام ایسا ملک ہے جہاں کی زیادہ تر عوام سنی ہے اور حاکم شیعہ۔ شام کے آگے بحرین کی حیثیت بہت کم ہے۔ ۲۰۱۱ عیسوی میں عرب بہاریہ نے بحرین میں حکومت کے خلاف مظاہرے کروائے۔ وہاں کے حکمرانوں کی درخواست پر سعودی عرب کی حکومت نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے مظاہرین پر کنٹرول کرنے میں مدد کی۔
2015 میں بحرین میں ایک بم بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی، جو مبینہ طور پر پاسداران انقلاب ایران کے تعاون سے چل رہی تھی، جس کے نتیجے میں ایران سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے گئے۔
ایران ہمیشہ سے بحرین میں حکومت کے خلاف گوریلا حملہ آوروں کی حمایت کرتا آرہا ہے۔(وکی پیڈیا ۔عربی )
ملک شام میں سنی اکثریت میں ہیں، لیکن حکمران شیعہ ہے۔ عرب بہاریہ کا فائدہ اٹھا کر کئی دہائیوں سے چلی آرہی الاسد خاندان کی حکومت کے خلاف 2011 میں عوام اٹھ کھڑی ہوئی۔اس تحریک نےالمناک خونی منظر دیکھے۔ لیکن سات آٹھ سالوں سے جاری اس تحریک کا کوئی فائدہ ہوتانہیں دکھ رہا ہے۔ شامی رجیم کے علاوہ کئی متحارب گروپ میدان میں آگئے اور انھوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا۔ اپنے اپنے ملکوں کی خارجہ پالیسی اور بدلتے عالمی حالات کے سبب شامی معارضہ کو دوسرے ممالک کے ذریعہ مل رہی حمایت میں بھی کمی آگئی۔ وہاں کی عوامی تحریک میں اختلاف بر پا ہوا، داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں میدان میں کود پڑیں اور القاعدہ کی شامی شاخ جبہۃ النصرۃ کے ساتھ ساتھ عوامی تحریک سے بھی لڑنا شروع کردیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے جنگجو اور روس، بشار حکومت کی حمایت میں آگے آگئے۔روس کے ذریعہ یمن میں کھلی مداخلت کے امکان کے خوف سے شام میں بشار حکومت کے خلاف سعودی امداد پہلے جیسی نہیں رہی۔ امریکہ نے بھی محض پیسوں کی خاطر کچھ وعدے کیے ،لیکن پھربھی اپنا ڈھلمل رویہ ترک نہیں کیا۔ بلکہ لاکھ کوششوں کے باوجود امریکہ نے خاطر خواہ کارروائی نہیں کی۔ اس لیے سعودی عرب اور اس کے حلیف امریکہ میں معارضہ کی حمایت میں وہ پہلے والا جوش نہ باقی رہا ۔
یمن فائلس: زمین اورمذہب کی لڑائی
نجد و حجاز سمیت ملک یمن میں1538 سے 1632 عیسوی تک عثمانیوں کی حکومت تھی۔ ان کے بعد زیدیوں کے ہاتھ میں آئی ۔لیکن داخلی جھگڑوں کی وجہ سے حکومت دوبارہ عثمانیوں کے پاس پہنچ گئی۔ عثمانی حکومت جسے انگریزوں نے1839عیسوی میں ختم کردیا۔اور یہ اس وجہ سےتھا کہ انگریزوں کا ایک تجارتی بیڑا لوٹ لیا گیا تھا۔اور ان کو اس کے بدلےکے ساتھ ساتھ کوئلہ بھی چاہیے تھا۔لیکن 1872 عیسوی میں حکومت پھر عثمانیوں کی طرف لوٹ کر آگئی ۔مگر بیسویں صدی کی شروعات میں عثمانیوں نے کافی فوج اور خزانہ گنوانے کے بعد سلطنت متوکلی زیدی امام کے حوالے کردی۔امام یحیی حمیدالدین متوکل 1911 عیسوی میں یمنی سلطنت کے بادشاہ بنے۔ (تاریخ الیمن القدیم والحدیث: موضوع3.کوم)
ادھر یمن کے جنوب مغرب میں عسیر و جازان و نجران و صبیاکے علاقےمیں ادریسیوں کی حکومت قائم ہوئی۔جوانگریزوں کے مددگار تھے، جب کہ یمن کے باقی علاقوں میں امام یحیی حمیدالدین متوکل زیدی برسر اقتدارتھے۔ ان کی سلطنت کو سلطنت متوکلیہ یمنیہ کےنام سے بھی جانا جاتاہے۔ در اصل عثمانی حکومت نے جاتے جاتے انگریزوں کے ساتھ یمن کو دو حصو ں شمالی یمن اور جنوبی یمن میں تقسیم کا معاہدہ کر لیا تھا۔ جنوبی یمن کی راجدھانی عدن اور شمالی یمن کی راجدھانی صنعا ہوتی۔جو متوکلی حکومت کو منظورنہیں تھا۔ امام یحییٰ پورے یمن کو اپنے تسلط میں لینے کے لیے ادارسہ کے خلاف آمادہ جنگ ہوئے۔ ادارسہ نے ان کی بالادستی تسلیم کرنی چاہی لیکن اس شرط پر کہ ان کو اپنے علاقوں پر ماتحت حاکم کے طور پر باقی رکھا جائے گا۔ امام یحییٰ متوکلی نےان کو اپنا ماتحت حاکم ماننے سے انکار کردیا۔ چنانچہ ان کے خوف سے حسن ادریسی نے 1925 عیسوی میں ملک عبد العزیز آل سعود سے معاہدہ کر لیا، جسے معاہدہ مکہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کی رو سے ادارسہ کے علاقوں پر آل سعود کی سرپرستی لیکن ادارسہ ہی کی حکومت رہے گی۔ کچھ دنوں کے بعد حسن ادریسی کو احساس ہوا کہ آل سعود دھیرے دھیرے اس کے علاقے کو نگل جائیں گے، چنانچہ اس نے امام یحییٰ متوکلی کی پناہ حاصل کرکے آل سعود کے خلاف بغاوت کردی۔ جس کے نتیجے میں 1933 کی مشہور جنگ ہوئی، یمنی حکمران شکست کھاگئے۔ طائف کا معاہدہ ہو ا اور ان علاقوں کو مملکت سعودیہ عربیہ میں ہمیشہ کے لیے ضم کر لیا گیا۔ (تاریخ الیمن الحدیث ،موضوع ۔کوم)
متوکلی سلطنت کے سقوط کے بعد جب یمن میں جمہوری حکومت قائم ہوئی تو علی عبد اللہ الصالح جو یمن کے صدر منتخب ہوئے، نے ایک قرارداد پاس کرکے سعودی عرب سے یمن کے علاقے واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ جسے سعودی حکومت نے رد کردیا،لیکن سن 2000 عیسوی میں جدہ کا معاہدہ ہوا ۔جس میں یمن کے وزیر خارجہ نےسعودی اور یمن کے موجودہ حدود کی توثیق کردی۔اور پرانے معاہدہ طایف کا اعتراف و اقرار کرلیا۔ (بحوالہ عربی وکی پیڈیا )
حوثی تحریک :
حوث شمالی یمن کی راجدھانی صنعا کے اطراف میں عمران نامی کمشنری میں ایک ضلع ہے ۔صعدہ اور تعز بالخصوص اور شمالی یمن بالعموم حوثی تحریک کا گڑھ ہے۔ حوثی تحریک کے گاڈ فادر بدر الدین حوثی (وفات 2010 عیسوی) ہیں۔ ایران نے آٹھ سال تک اپنے یہاں بدر الدین حوثی کی اس طرح سے میزبانی کی کہ وہ ولایت فقیہ اور صحابہ کوگالی دینے والےعقیدے کے ساتھ ساتھ بارہ اماموں پر بھی ایمان لے آیا ۔ وہ زیدی فرقہ کو اثناعشری فرقہ سے اتنہائی قریب کرنے والاداعی بن گیا۔
ویسے بھی جس طرح سے پہلےکے زیدی تھے یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینے کے علاوہ اہل سنت سے ان کا کوئی بھی اختلاف نہیں تھا ۔اس طرح سےاب یمن کے زیدی نہیں ہیں ۔ مرور زمانہ کے ساتھ ان کے اندر بہت ساری خرابیا ں اور برائیا ں در آئی ہیں۔ اور یہ منحرف ہوکر بارہ امامیہ کے قریب ہوچکے ہیں۔
بدر الدین حوثی کو یمن میں امامیہ کا داعی بنا کر بھیجا گیا۔ شروع میں اصلاح دین اور اصلاح معاشرہ ،تعلیم وغيرہ کے نام سے اپنے کیرئیر کی شروعات کی۔حرکۃ الشباب المومن اورحرکۃ انصار اللہ جیسی جماعتیں قائم کی۔ انہی جماعتوں کو بعد میں حوثی جماعت کہا گیا ۔ دھیرے دھیرے یہ یمن کی ایک ایسی سیاسی طاقت بن گئے، جن کے سامنے حکومت بھی جھکنے لگی۔ بدر الدین حوثی کی زندگی ہی میں اس کا بیٹا حسین بدر الدین الحوثی (مقتول 2004 عیسوی) اس سیاسی اور عسکری تحریک کا سربراہ بنا۔ یمنی حکومت کے ساتھ جنگ میں حسین کے مارے جانے کے بعد اس کے والد اور پھر بھائی اس تحریک کے سربراہ بنے۔ فی الحال ان کا قائد عبد المالک حوثی ہے۔ بے شمار ثبوتوں سے یہ واضح ہوگیا ہےکہ علی عبد الصالح اور عبد ربہ منصور ہادی کے تعاون اور رضا سے ہی حوثیوں نے صنعاٗ اور اطراف پرقبضہ کیا۔ حوثیوں نے سیاسی طاقت بننے کے بعد یمنیوں کے اندر سعودی عرب سے زمین کے جھگڑے کو لے کر جو نفرت تھی، اس کو بھنانا شروع کر دیا اور مذہب اثنا عشریہ کی دعوت کے ساتھ ساتھ اپنی زمین کی بازیابی کی دعوت بھی شروع کردی۔
اس دعوت کو اس حد تک کامیابی ملی کہ حکومت میں دخیل ہو بیٹھے ۔ آنجہانی صدر علی الصالح نے کئی طرح سے ان کا تعاون کرکے حکومت پر ان کا دعویٰ پکا کردیا۔ ادھر حوثی عوامی تحریک نے بھی عوام میں اپنی مضبوط پکڑ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ حوثیوں کی طاقت اتنی بڑھی کہ انھوں نےمنتخب حکومت کے خلاف ہی بغاوت کردی۔ یمنی منتخب حکومت کو سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی۔ نہ صرف پناہ بلکہ مدد کی درخواست بھی کرنے پر مجبور ہوئے۔اب حوثی باغیوں کوموقع ہاتھ آیا۔چنانچہ وہ یمنی قوم کی دیرینہ خواہش اپنی زمین کی واپسی اور روافض کی دیرینہ تمنا مکہ و مدینہ پر قبضہ کرنے کی خواہش کا برملا اعلان کرنے لگے۔ اسی کے باعث سعودی عرب نےعرب ممالک کا اتحاد بنا کریمن پر حملہ شروع کردیا۔ اور یہ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔
یہ حملہ یمن کے منتخب صدر عبد ربہ منصور ہادی کی درخواست پر اور اپنے تحفظ و بقاکے لیے ہوااسی لیےسعودی اتحاد کے ذریعہ یمن پر حملے کو مداخلت نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ ایک تو سعودی عرب کی سالمیت پر خطرہ منڈرا رہا تھا۔ اور دوسرے حرمین شریفین کی طرف رافضی شیطان دانت نکوسے آگے بڑھ رہا تھا۔
لبنان اور عراق :
لبنا ن کی رافضی تحریک حزب اللہ اور حسن نصر اللہ کو کون نہیں جانتا ۔یہ تحریک جب چاہتی ہے حکومت کو یرغمال بنا لیتی ہے۔ رفیق الحریری کے قتل میں بھی پاسداران انقلاب شامل تھے۔
عراق میں ایران کی حرکات چھپی نہیں ہیں۔ صدام حسین کے بعد پورا عراق ایران کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرچکا ہے۔عراق اور شام سے داعش کے خاتمے میں بھی پاسداران انقلاب کا زبردست ہاتھ رہا ہے۔
خلیج کے زیادہ ترممالک عراق، شام، لبنان، یمن اور بحرین کے اندر تخریبی کارروائی میں ایران واضح طور پر ملوث ہے، جبکہ سعودی عرب اور اردن میں خفیہ طور پر۔
قطر :
سعودی عرب کا قطر سے اختلاف نیا نہیں ہے۔بلکہ یہ اس کےجنم سے ہی جڑا ہے۔ 1913 عیسوی ہی سے سعودی عرب اسے اپنے صوبے الاحسا سے جوڑنے کی کوششیں کررہا تھا۔دو سال بعد انگریزوں کے اصرار پر اسے الگ ملک کے طورپر قبول کرکے قطر کےحدود کااعتراف کیا۔لیکن دونوں ممالک کے درمیان حدود کی آخری تحدید 1965 عیسوی میں ہوئی۔
اس کے باوجود خفوس کا حادثہ ۱۹۹۲ عیسوی میں پیش آیا۔جس میں قطر اور سعودی عرب کی فوجوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی۔اور ایک سعودی اور دو قطری فوجی مارےگئے۔خفوس کے علاقے پر سعودی عرب کا مکمل قبضہ ہوگیا ۔اس سے پہلے یہ متنازعہ علاقہ تھا۔اس علاقے میں بنومرہ کےقبائل آبادتھے۔قطر کا الزام ہے کہ سعودیہ نے بنو مرہ کے قبائل کو بھڑکا کر یہ جھگڑا کھڑا کیا۔
1996عیسوی میں قطر کے حاکم حمد بن خلیفہ آل ثانی کے خلاف تختہ پلٹنے کی ایک سازش بے نقاب ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے حمدکے والدخلیفہ آل ثانی خود تھے ۔جو امارات سے انقلاب کی نگرانی کررہے تھے۔حمد نے اپنے والد سے بغاوت کرکے حکومت چھینی تھی۔ قطر کا الزام ہے کہ سعودی عرب نے انقلاب لانے کے لیے والد خلیفہ کی بھرپور مدد کی۔اس انقلاب کا پردہ فاش ہونے پر تقریبا پانچ ہزار لوگوں کی قطری نیشنلٹی چھین لی گئی ۔(وکی پیڈیا۔ عربی)
خطے میں قطر ایک ایسا ملک ہے جو معاشی لحاظ سے کافی مضبوط ہے۔
شاید اسی لیے اس نے اپنی دوسری پالیسی بنائی ہوئی ہے۔ سنی ملک ہونے اور سعودی اتحاد میں شامل ہونے کے باوصف یہ روافض اور اخوان سے نزدیکیاں بڑھاتا رہا ہے۔ سلفی دعوت کے برعکس اس کی قربتیں رافضی اور اخوانی و تحریکی دعوت کے ساتھ ہمیشہ سے زیادہ رہی ہیں۔2014 میں سعودیہ امارات اور بحرین نے دوسرے ممالک میں مداخلت کرنے کا الزام لگاکر قطرسے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے۔ (وکی پیڈیا۔ عربی ) پانچ جون 2017 کو سعودی عرب سمیت چھ ممالک امارات مصر بحرین مالدیپ نے ہرطرح کے تعلقات ختم کر لیے اور بری و بحری ہر قسم کے راستےمسدود کردیے ۔اپنے باشندوں کے لیےقطر کا سفر ممنوع کر دیا۔اور اخوان،حوثی،القاعدہ، داعش کو سپورٹ کرنے اور ایران کی حمایت کرنے اور دیگر ممالک میں مداخلت اور امن و استحکام تباہ کرنے کا لزام لگایا۔(العربیہ.نٹ)
اب قطر نے اشیاء خورد و نوش کی خریداری اور تجارت وغیرہ بھی ایران کے ساتھ شروع کر دی ہے۔ یعنی یہ سنی ملک پوری طرح سے ایران کے قبضے میں ہے۔ مزید ترکی کےساتھ بھی دوستی کی پینگیں اس حد تک بڑھی ہیںکہ ترکی نے اپنے پانچ سو فوجی کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھیج دیے۔
سعودی اور ایران جنگ :
حوثیوں کے ذریعے سعودی عرب پر مسلسل میزائل حملوں کے پیچھے ایران کھڑا ہے۔ ایسا سعودی عرب کا ماننا ہے۔ مزید عراق و شام و لبنان و یمن چہار جانب سے سعودی عرب کو گھیرنے کی ایران نے کامیاب کوشش کر لی ہے۔
ایسے میں مستقبل قریب میں ایران اور سعودی عرب کی جنگ حتمی مانی جارہی ہے۔ لیکن دونوں ممالک زمینی لڑائی کی جگہ پر فضائی جنگ کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ ایران سعودی عرب کے بجلی گھروں اور تیل کے کنوؤں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جواب میں سعودی عرب بھی اسی طرح کی کارروائی کرے گا۔ دونوں ہی ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مزید یہ کہ باب المندب پر ایران کا یمن کے ذریعے بلا واسطہ کنٹرول ہے۔ وہ نہر سوئز کوحوثیوں کے ذریعے بند کروا سکتا ہے۔ آبنائے ہرمز توایران کے خود کےکنٹرول میں ہے۔ اس اہم گزرگاہ کو بھی بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب تجارتی و عسکری بحری جہازوں اور تیل کے نقل وحمل کے بنیادی راستے ہیں۔
ان راستوں کے بند ہونے پر امریکہ فوری مداخلت کرے گا اور چند گھنٹوں میں ایران کے بحریہ اور فضائیہ کو ختم کردے گا۔ اس طرح سے جنگ میں سعودی عرب کی جیت ہوسکتی ہے۔
لیکن جنگ کے بعد بھی سعودی عرب کو ایرانی چنگل میں پھنس چکے ممالک سے بے پناہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور ایران اس کے لیے پہلے سے زیادہ کوششیں کرسکتا ہے۔ایک طرف ملک کے برباد کردیے گئے انفراسٹرکچرکی تعمیر ۔اور دوسری پڑوسی ممالک میں زور دار مزاحمت سعودی عرب کےحق میں بہتر نہیں ہوگا۔اس لیے جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔اصل حل تو ایران کےانقلاب کو فیل کرنا اور اس کو محدود کرنا ہے۔کیا ولی عہد محمد بن سلمان ایسا کرپائیں گے؟

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
اجمل

آبنائے ہرمز گرچہ ایران کے قبضے میں ہے لیکن اسے کبھی بند نہیں کر سکتا۔
اس وقت باب مندب کے کنارے ایران پھٹک بھی نہیں سکتا۔
اور سویز کینال تک حوثیوں کا پرندہ بھی نہیں پہونچ سکتا۔ وہ تو ابھی مقامی بندرگاہ حدیدہ پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ابوالمرجان

عالمی برادری کو متوجہ کرنے کے لئے دوران جنگ آبنائے ھرمز کو بند کرنے کا بھر پور امکان ہے. اس سے پہلے بھی مغربی طاقتوں کے ساتھ زبانی جنگ میں اسے بند کرنے کی دھمکی دے چکا ہے… بہر حال یہ ایک قیاس آرائی ہے. اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے. رہی بات حوثیوں کی تو میری اطلاعات کے مطابق پورے یمن پر شمال و جنوب سمیت.حکومت سے زیادہ حوثیوں کا کنٹرول ہے. ویسے بھی یمن میں ہمیشہ سے حکومتوں سے زیادہ قبائل مضبوط رہے ہیں. اللہ کرے حدیدہ کا معرکہ آخری معرکہ ہو. اور ان کی طاقت ٹوٹ جائے.… Read more »