توحید کے فروغ میں سعودی حکومت و سعودی علماء کا کردار/خدمات

رشید سمیع سلفی عقائد

مملکہ سعودیہ عربیہ توحید کا علمبردارملک اور خالص اسلام کا آہنی قلعہ ہے۔ توحید اور منہج کتاب وسنت اس ملک کا طرہ امتیاز ہے۔یہ مملکہ اپنے آغاز قیام سے لے کر اب تک توحید اور کتاب وسنت کے منہج پر گامزن ہے۔لہذا بت پرستانہ عقائد، غیراللہ کی عبادت اور ان کے نام پر قربانی، نذر ونیاز اور چڑھاؤوں جیسی شرک جلی پر مبنی عقائد، اوہام وخرافات، بدعات وضلالات کو کہیں جائے پناہ نہیں۔دنیاکی کوئی طاقت انھیں ان کے مشن اور اصولوں سے نہیں ہٹا سکتی،شرک وبدعت کے لیے یہ حکومت زہر ہلاہل ہے۔سلف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھوں نے پورے ملک کو خیر وتقوی اور امن وامان کا گہوارہ بنادیا ہے۔مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کے باد سموم میں مملکہ پوری خود اعتمادی اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے سعودی عرب نے پوری دنیا کے مسلمانوں کی جو غیر مشروط مددکی ہے وہ عالم آشکارا ہے نیزتوحید اور عقائد صحیحہ کی نشر واشاعت میں سعودی حکومت یا سعودی علماء کا جو کردارہے وہ آج اپنی نظیر نہیں رکھتا،اس مقدس مشن کے لیے جودرکارذرآئع اور وسائل تھے انھیں بروئے لانے میں مملکت توحید نے کوئی بھی کسر اٹھا نہ رکھی۔یہ سچ ہے کہ عصر حاضر میں دعوت کا کام پہلے سےکہیں زیادہ منصوبہ بندی، ماہرانہ پلاننگ ،تنظیمی اور ادارتی اسلوب کا متقاضی ہے تاکہ یہ نتیجہ خیز اوردوام واستمرار کے ساتھ جاری وساری رہے۔سعودی حکومت کی نظر ان تمام پہلوؤں پر روز اول سے ہے،لہذا وہ دعوت توحید کے اس مشن کے لیے تمام میدانوں میں ان وسائل وذرآئع کو بروئے کار لاتی ہے،خواہ وہ متعدد موضوعات پر مختلف زبانوں میں کتابوں کی تصنیف وطباعت اور مفت تقسیم ہویا اخبارات ، جرائد و مجلات ہوں یا علمی اکادمیاں، بورڈ ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے عام وخاص پروگرام ہوں یا ذاتی وپبلک لایبریریاں ہوں یا کیسیٹ اور سی ڈیز کی تقسیم ہو یا دعوتی نقطہ نظر سے نصاب کی تشکیل اور اسکول وجامعات میں اس کا نفاذ ہویا دعوہ کورسیز کا جا بجا طویل سلسلہ ہو یا ایم،اے ،ایم فل یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے توحید کے موضوع پر مقالے لکھوانے کا طریقہ ہویا افریقی، خلیجی ،یورپی اور ایشیائی ممالک میں مبعوثین کا تقرر ہواورپرکشش مشاہرہ دے کر ان سے دعوتی سرگرمیاں انجام دلانا ہویا مساجد کی تعمیر وتاسیس ہو یا اپنے خرچ پر دنیا بھر میں جامعات ومدارس اور دعوہ سینٹرز کا قیام اور ان کی کفالت ہو۔ سوال یہ ہے کہ آخر دیگر تمام ممالک کے بالمقابل سعودی حکومت دعوت وتبلیغ اور خدمت دین وسماج کے لیے اتنا متحرک کیوں ہے ؟کیوں پوری دنیا کے مسلمانوں اور انسانیت کا غم اس کو ستاتا ہے؟ دراصل یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تحریک کا نتیجہ ہے۔بات جب بھی سعودی عرب کی دعوتی کارکردگی اور فروغ توحید کی ہوگی تو شیخ محمد بن عبدالوہاب کے تذکرے کے بغیر گفتگو ناتمام رہے گی۔
یہ اس دور کی بات ہےجب حجاز کا طول وعرض شرک وبدعت سے اٹا پڑا تھا ،ضلالت وگمراہی نے پورے خطے کو لپیٹ میں لے رکھا تھا،ایمان وہدایت کو سر چھپانے کی جگہ نہ تھی،شرافت ماری ماری پھر رہی تھی، اس کا مذہبی نقشہ ایک امریکی مفکراسٹاڈرڈ کی زبانی ملاحظہ کرتے ہیں۔لکھتے ہیں:
مذہب بھی دیگر امور کی طرح پستی میں تھا ،تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی توحید کو ڈھک لیا تھا ،مسجدیں ویران اور سنسان تھیں،جاہل عوام ان سے بھاگتے تھے،تعویذ گنڈے اور مالا میں پھنس کر گندے فقیروں اور دیوانے درویشوں پر اعتقاد رکھتے تھے،اور بزرگوں کے مزارات پر زیارت کے لیے جاتے،جن کی پرستش بارگاہ ایزدی کے شفیع اور ولی کے طور پر کی جاتی۔کیونکہ ان جاہلوں کا خیال تھا کہ خدا کی برتری کے باعث وہ اس کی اطاعت بلا واسطہ نہیں کرسکتے، قرآن کریم کی تعلیم نہ صرف پس پشت ڈال دی گئی تھی بلکہ اس کی خلاف ورزی کی جاتی تھی ،یہاں تک کہ مقامات مقدسہ مکہ اور مدینہ بد اعمالیوں کے مرکز بن گئے تھےاور حج جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض میں داخل کیا تھا ،بدعات کی وجہ سے حقیر ہوگیا تھا۔فی الجملہ اسلام کی جان نکل چکی تھی،اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں آتے تو اپنے پیروؤں کے ارتداد اور بت پرستی سے بیزاری کا اظہار کرتے۔
(محمد بن عبدالوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح،ص 24/25)
شیخ محمد بن عبدالوہاب نے شرک وبدعت کے خلاف جد وجہد شروع کی اور مزاحمت اور مخالفت کے جھکڑوں کا سامنا کرتے ہوئے اصلاح وتزکیے کے پرخار راستے پر آگے بڑھتے چلے گئے،بدعت کے ٹھیکیداروں نے آپ کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جال بننا شروع کردیے۔جب تحریک توحید کے دشمنوں نے آپ کا عرصہ حیات تنگ کردیا تو آپ کو عینیہ سے ہجرت کرکے درعیہ میں پناہ لینی پڑی، درعیہ میں آپ کو ایک معاہدہ کے تحت محمد بن سعود کی حمایت ملی اور آپ نے توحید کے مشن کو ایک بار پھر سے پوری قوت سےشروع کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ مصر اور آل رشید کے سبب یہ حکومت تسلسل سے اس مشن کو جاری نہ رکھ پائی لیکن موجودہ سعودی حکومت کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے طویل جلا وطنی کے بعد نجد اور حجاز کے علاقے پھرسے بازیاب کرالیے۔اور بدعات ومحدثات کا ایک ایک کرکے صفایا کیا۔قبوں کی پرستش سے مسلمانوں کو نجات دلائی،پورے نجد و حجاز کو بدعات ومحدثات سے پاک کردیا،توحید اور صحیح عقیدے کی ترویج واشاعت اس کے بعد ہر زمانے اور ہر دورمیں سعودی عرب اور علماء کا محبوب مجال رہا ہے،توحید کے معاملے میں کسی بھی طرح کی مداہنت اور سمجھوتہ ناقابل قبول رہا،ہمیشہ کتاب وسنت ان کا منشور رہا ہے، آج تک توحید یا تصحیح عقائد پر سعودی عرب اور علماء نے جو کام کیا ہے، اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی،یہ کوئی زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، سعودی حکومت سے پہلے کی حکومتوں میں خطے کی فکری ،اخلاقی، عملی اور ثقافتی صورتحال کیا تھی اور اب کیا ہے کوئی بھی اندازہ کرسکتا ہے۔
کیا آج شرک وبت پرستی کےوہ مظاہر جو دوسرے ممالک اور علاقوں میں نظر آتے ہیں،کہیں مملکت توحید میں بھی ان کی پرچھائیں نظرآتی ہے؟کیاقبوں اور مزارات کا چلن سعودی عرب میں بھی عام ہے؟کیا قبروں کی تجارت اور مردوں کی ہڈیوں پر دکانداری وہاں بھی پروان چڑھ رہی ہے؟کیا وہاں بھی نذرانوں اور چڑھاؤوں کا سیل رواں مجاوروں اور اصحاب جبہ ودستار کی جیبوں کی طرف بڑھا چلا آرہاہے؟ کیا سعودی عرب میں بھی اونچے اونچے گنبدوں، مقبروں کی شان و شوکت ، دیواروں کی مینہ کاری اور تابوت کے نقش و نگارہیں ؟ کیا وہاں بھی اکتساب فیض، طلب برکت اور استمداد کے نام پر ہفوات ولغویات،بدعات وخرافات اور مشرکانہ عقائد واعمال کا بازار گرم ہے؟ کیامملکت توحید میں بھی جابجا عرس اورمیلوں کے زرق برق ہنگامے ہیں؟کیا سعودی میں بھی ساز اور قوالیوں پر جھومنے والے مرد وخواتین کی بھیڑ اور اختلاط مرد وزن کے تماشے ہیں؟کیا وہاں بھی صحابہ کی قبروں پر قبے اورپر شکوہ عمارتیں اور قبوری شریعت کے بکھیڑے ہیں؟کیا وہاں بھی قبرستانوں میں چراغاں اوررنگ برنگی روشنیاں ہیں؟کیا وہاں بھی پیروں ،مریدوں اور مجاوروں کے نام پر کوئی علیحدہ مخلوق بستی ہے اور ان کے بدنام زمانہ چونچلوں سے دینی آب وہوا مسموم ہے؟کیا وہاں بھی گدھوں، کتوں اور دیگر جانوروں کی قبریں اوران سے استمداد کرنے والوں کا ہجوم ہے؟کیا مملکت توحید میں بھی تصوف کے نام پر باطل افکار ونظریات کی بادصرصر چل رہی ہے؟کیا سرزمین توحید میں بھی طریقت کے نام پر روح توحید کی پامالی ہے؟کیا سعودیہ میں بھی محرم اور ربیع الاول میں مشرکانہ نعت اورجھوٹے قصوں کا شور قیامت ہے؟کیا وہاں بھی دینی اسٹیجوں پر ناچنے اور تھرکنے والے ارباب جبہ ودستار ہیں؟کیا وہاں بھی میوزک اور موسیقی سے لرزتے اسٹیج ہیں؟
ان تمام خرابات کے برعکس وہاں کا نظام احتساب اتنا مستحکم ہے کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے جنونی چاہ کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور آل بیت کی قبروں پر کوئی بھی شرکیہ عمل نہیں کرسکتے،اس کی جرأت کرنے والوں کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
یہ طویل کارنامہ اور دعوتی فتوحات بس یونہی انجام نہیں پاگئے بلکہ سعودی عرب اور علماء توحید کی غیرمعمولی مساعی کا طویل سفر ہے جس پر موجودہ دور میں آثار وقرائن غماز ہیں۔عقیدہ توحید کو راسخ کرنے اور شرک کے دروازوں کو بند کرنے کے لیے سعودی عرب کی مثالی کوشش اور علماء کی جو غیرمعمولی خدمات ہیں،آئیے ایک سرسری جائزہ لے لیا جائے تاکہ دعویٰ دلیل سے آراستہ ہو جائے۔
موجودہ دور میں تعلیم فکر وذہن پر اثر انداز ہونے کا بہت مؤثر ذریعہ ہے۔سعودی عرب نے تعلیم کے نظام ونصاب دونوں کو دعوتی مقاصد سے ہم آہنگ کیا ہے۔چنانچہ سعودی عرب میں آغاز ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس کا تعلیمی نظام پورے طور سے اسلامی اصولوں میں ڈھلا ہو۔تعلیم،اس کے اغراض ومقاصد،اسباب ووسائل،طریق ہائے کار، تعلیمی ادارے غرضیکہ تعلیم کا پورا سسٹم اور نظام اسلامی اصولوں ہی پر استوار ہو،اور اس بات کا بطور خاص خیال رکھا کہ ملک میں تعلیم کے اصولوں کی اساس، اللہ کے معبود حقیقی ہونے ،اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ورسول ہونے پر ایمان ہو۔
سعودی عرب کی تعلیمی پالیسی نے کچھ معیار قائم کررکھی ہیں،جنھیں تعلیم کے جملہ مراحل اور طریق ہائے کار میں ملحوظ رکھا جاتاہے،اس میں سے ایک یہ ہے کہ پرائمری ،مڈل اور ثانوی تعلیم کے تمام مراحل میں دینی علوم اپنے جملہ فروع کے ساتھ نصاب میں ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل رہیں،اور اعلی تعلیم کے تمام سالوں میں اسلامی ثقافت ایک بنیادی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب رہے۔سعودی عرب کے تمام تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں ان تعلیمی ترجیحات کے ساتھ میدان دعوت میں کوشاں ہیں،خواہ وہ جامعہ ام القری مکہ مکرمہ ہو یا جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ بالریاض ہویا الجامعۃ الاسلامیہ بالمدینۃ المنورۃ ہو، سعودی عرب نے اپنی یونیورسٹیوں کے دروازے فرزندان اسلام کے لیے کھول رکھے ہیں اور اپنے یہاں داخلہ دینا اور علوم نبوت سے آراستہ و پیراستہ کرنا اور وظائف دینا یہ تمام ذمے داریاں سعودی حکومت نبھاتی ہے۔مدینہ یونیورسٹی میں تقریباً ٨٥ فیصد تعلیمی وظائف غیر سعودی طلباء کے لیے مخصوص ہیں،اورجس کے طلبہ (١٢٠)یا اس سے بھی زیادہ قومیتوں اور ملکوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔اس دعوتی مشن کے برکات یہ ہیں کہ پوری دنیا میں سعودی یونیورسٹیوں کے فارغین دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور سعودی دعوتی نہج پر عقائد واعمال کی اصلاح اور تزکیہ اور ایسا دور رس کام کیا ہے جس کے اثرات ونتائج مشرق ومغرب میں صاف نظر آرہے ہیں،اس یونیورسٹی کے ذریعہ عالم اسلام میں جاری دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کے متعلق ڈاکٹر عبداللہ بن احمد قادری جو جامعہ اسلامیہ کے وفد کے ایک رکن تھے جنھوں نے مشرق ومغرب کے تمام ممالک کا طویل دورہ کیا تھا،اپنے دورے سے واپسی پر لکھتے ہیں:
ہم جہاں بھی گئے ہم نے جامعہ اسلامیہ کے فارغین اور فضلاء کی فیض رسانیوں کومحسوس کیا،ان کی وجہ سے لوگ براہ راست عربی زبان کے ذریعہ کتاب وسنت کے فہم سے بہرہ ورہو رہے ہیں اور کردار وسلوک میں بھی یہاں کے فضلاء وفارغین دوسروں پر فائق ہیں۔
(سعودی عرب کی دعوتی و تعلیمی سرگرمیاں اور ان کے اثرات ونتائج صفحہ( ١١٤)
ان یونیورسٹیوں کے ذریعے اور بھی دعوتی فرائض انجام پارہے ہیں مثلاً ان کی طرف سے شائع ہونے والے مجلات اور عقائد اور دیگر موضوعات پر کتابیں،اور ملک وبیرون ملک ان یونیورسٹیوں کی شاخوں کا اسی طرز پر کام کرنا ہے۔
وزارۃ الشؤون الاسلامیہ والاوقاف والدعوہ والارشاد
ایک عظیم الشان دعوتی ادارہ ہے جو اسلامی عقائد اور عقیدہ توحید پر مبنی دینی ورثہ اور منہج کے بقا وتحفظ کے لیے کوشاں ہے۔یہ وزارت، عقیدہ اسلام کے تحفظ کی پوری کوشش کے ساتھ ان فکری وعقائدی دراندازیوں کی کوششوں کے سامنے بند باندھ رہی ہے،جو شریعت اسلامیہ کے مخالف ہیں،اور جن کا مقصد پس پردہ اسلامی عقائد میں شک پیدا کرنا،مسلمانوں کو ان کے عقائد سے ہٹانا،اور ان کے اندر دین حنیف سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے کی خاطر بدعات اور نئی نئی خرافات کو پھیلانا ہے۔اس وزارت کے زیر اثر کتابوں اور رسائل، نیز ویڈیوز اور کیسٹ کی صورت میں علمی وفکری تخلیقات کا ایک سیل رواں امڈ آیا ہے۔یہی نہیں بلکہ وزارت کے ماتحت مختلف ممالک میں کئی شعبہ جات کام کررہے ہیں جو مختلف مساجد،عام ہالوں ،حکومتی سیکٹروں ،وزارتوں،اداروں اور کمپنیوں میں عقیدہ ،فقہ،اخلاق اور دیگر پند و نصائح والے مختلف موضوعات پر ہفتہ واری تقریری پروگرام کا انتظام کرتے ہیں۔ان پروگراموں میں ممتاز وبالغ نظر علماء خطاب کرتے ہیں۔وزارت کے زیر نگرانی چلنے والا ایک اور ادارہ المکتب التعاونی للدعوۃ والارشاد وتوعیۃ الجالیات ہے جو پوری دنیا سے آئے ہوئے مثلا انڈین، پاکستانی، بنگالی، نیپالی، فلپینی، سریلنکا، اسبانیا، وغیرہ(کم از کم دس یا اس سے زائد زبانوں) کے غیر ملکیوں میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
شعبہ جالیات میں دعوتی ناحیہ سے جس بات پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہ عقیدہ توحید ہے۔عقیدہ کی اصلاح ہی اہم ٹارگٹ ہے، عقیدہ سے متعلق دروس، محاضرات، مسابقات، دورہ کتاب التوحید اور بہت سارے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔
اور دوسرا اہم پروگرام غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت ہے۔
اس سلسلے میں غیر مسلموں کے درمیان کتابوں کی تقسیم، ماہنامہ پروگرام ، پکنک ٹور اور مختلف کھیلوں کے پروگرام منعقد کر کے انھیں اسلام کی طرف راغب کیا جاتا ہے اور ان پروگراموں میں کھانے کے ساتھ ساتھ قیمتی انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔
الحمداللہ اس سے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں کا ہر فرد مردوخواتین، بچے، بوڑھے سب کے سب غیر مسلموں کو دعوت دینے کے معاملے میں بڑے حریص ہیں۔
بات دعوت توحید کی ہورہی ہے تو کہتا چلوں کہ مساجد عبادت،ذکر الہی کے ساتھ ابلاغ اور دیگروسائل کے مقابلے میں موثر ترین دعوتی ذریعہ ہیں،بلکہ مسجد ہی وہ پہلا ادارہ ہے جس کا دعوت وتبلیغ ،تعلیم وتربیت اور رہنمائی میں نمایاں مقام ہے۔اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے مملکہ نے مدارس و جامعات،سرکاری دفاتر اور صنعتی علاقوں،انجمنوں،فوجی چھاونیوں،پارکوں اور کیمپوں میں مساجد کا جال بچھا دیا ہے۔صرف مملکہ میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں سعودی عرب نے اپنے خرچ سے شاندار اور پر شکوہ عمارتیں مساجد کے لیے تعمیر کی ہیں اور سلسلہ ابھی بھی چل رہا ہے۔رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں موتمر رسالۃ المسجد کے نام سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی تھی،اس میں عوامی نمائندوں، انجمنوں،اسلامی تنظیموں اور مختلف ممالک کے علماء دانشوروںاور اسلامی شخصیات نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں مساجد کی بین الاقوامی، براعظمی،علاقائی اور مقامی مساجد کمیٹیوں کا قیام،دنیا کے متعدد ممالک کی راجدھانیوں میں عمل میں آیا،تاکہ ان کے تعاون کے ذریعہ مساجد کی تعمیر ہوسکےاور مختلف ممالک میں مساجد کے حالات کی نگہداشت ہوسکے،اور مساجد کی دعوتی سرگرمیوں سے توحید کی تابشوں کو گرد وپیش میں پھیلایا جاسکے۔
دعوت توحید کی اشاعت میں حج کابھی غیر معمولی کردار ہے،یہ ایسا بہترین موقع ہے جہاں اللہ کے مہمانوں کی خدمت کے بہت سارے دعوتی وسائل و ذرائع اکٹھا ہوجاتے ہیں،چنانچہ بہت سی دینی تقریبات اور لوگوں میں دینی شعور و آگہی اور مذہبی بیداری اور روابط پیدا کرنے اور باہم مشورہ کرنے کے پروگراموں کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔اس کے لیے “وزارت اسلامی امور واوقاف ودعوت و ارشاد” جن وسائل کو اپناتی ہے وہ وہی ہیں جو تمام خطوں کی حکومتیں اپناتی ہیں جیسے ریڈیو،ٹیلی ویژن،اخبارات ،مجلات،میگزین اور دیگر مطبوعات اور پمفلٹ، آڈیو ویڈیوذاور دیگرذرائع ابلاغ،جو کہ موسم حج میں استعمال ہوتے ہیں۔
اسی طرح الرئاسۃ العامۃ لادارہ البحوث العلميہ والافتاء بھی اپنی دوسری قسموں کےساتھ میدان دعوت میں سرگرم عمل ہے،جیسے اللجنہ الدآئمۃ للبحوث العلمیہ والافتاءاور ھیئۃ کبار العلماء وغیرہ۔یہ ادارہ بھی نہایت وسیع پیمانے پر دعوت توحید اور منہج کتاب وسنت کے فرائض ،مختلف شکلوں میں پوری دنیا میں انجام دے رہا ہے اورموثر ذرائع ووسائل کو اختیار کرتے ہوئے کامیابیوں کو سر کیا ہے۔
قرآن کریم کی بابت مملکہ کی خدمات وکاوشیں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں،الجماعۃ الخیریۃ لتحفیظ القرآن الکریم کے زیر اشراف مختلف جہات میں یہ کد وکاوش ایک عرصہ درازسے جاری وساری ہے،اس کے تحت تلاوت،تجویدوتفسیرقرآن کا بین الاقوامی انعامی مقابلہ منعقد کرایا جاتا ہے جس میں پوری دنیا کے 7،سال سے 30،سال کی عمر کے طلبہ شرکت کرتے ہیں جیسے یورپ،شمالی وجنوبی امریکہ، ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا، بحرالکاہل کے جزیرے اور مغربی ہند کے جزیرے۔
یہی نہیں بلکہ مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف کا منصوبہ عمل میں آیا اور اس کے تحت قرآن کریم کی اعلی درجے کی طباعت اور مختلف زبانوں میں تراجم وتفاسیراور ماہر علماء کی تحقیقات، مشہور قراء کی قرات کی کیسٹس اور سی ڈیزتیار کرنااور مساجد ،مدارس ،یونیورسٹیوں،ہوٹلوں ،تحفیظ قرآن کریم کے شعبوں اور بازاروں وغیرہ میں سپلائی کرناانجام پاتا ہے۔
دعوت توحید کا ایک اہم مجال سعودی الیکٹرانک میڈیا (ریڈیو ٹیلیویژن) بھی ہے جو مختلف زبانوں اور مختلف قوموں کی طبیعت ومزاج سے ہم آہنگ اسالیب میں ریڈیو نشریات کے ذریعے اندرون ملک اور بیرون ملک اسلامی شریعت کو پھیلانے ،پوری دنیا میں دعوت توحید کے پرچم کو بلند کرنے اور اخلاقیات پر مبنی پروگرام پیش کرنے کا فریضہ انجام دیتاہے۔
الغرض یہ تمام کاوشیں اور دعوت توحید کی منظم اور ہمہ جہت مساعی کا سہراسعودی حکومت کے ساتھ علماء سعودیہ کو بھی جاتا ہے جن کی رہنمائی میں دعوت توحید کا پورا سسٹم چل رہا ہے اور تمام طرح کے اعمال خیر میں وہ علماء،سعودی حکمرانوں کے شانہ بشانہ چلتے رہے ہیں۔عقائد کے میدان میں سعودی علماء کاعلمی و فنی کام قابل ستائش ہے،باطل افکار ونظریات کا تعاقب اور عقیدہ توحید اور اسلامی تعلیمات پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب،حقائق دین کے تئیں پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کارد، وہ جہود ہیں جو قیامت تک اہل توحید کے لیے مشعل راہ ہیں۔توحید کے مسائل کو انھوں نے جس طرح منقح کرکے پیش کیا اور ایک ایک مسئلے کوکتاب وسنت کی روشنی میں واضح اور مبرہن کیااورگہرے تعمق اور نکتہ آفرینی کے ساتھ اس کی اہمیت اور سنگینی کو نمایاں کیا ،یقینا وہ علوم دینیہ کا قابل قدر اثاثہ ہیں۔موجودہ دور میں پوری دنیا میں جو فکری بیداری اور عقیدے کی سمت میں جو اصلاح وتزکیے کی لہر چلی ہے اس کا بہت بڑا حصہ، اسی دیار مقدس اور علماء عرب کی کاوشوں کا ثمرہ ہے،ان تمام ظاہر وباہر حقائق کے باوجودایک طبقہ بڑے تواتر سے یہ کہتا آرہا ہے کہ یہ حکومت امریکہ واسرائیل کی ایجنٹ ہے اور اس کے علماء خوشامدی اور حیض ونفاس کےعلماء ہیں۔
فیا للاسف!

آپ کے تبصرے

3000