سعودی عرب اور عالم اسلام کی قیادت

شمس الرب خان سیاسیات

سعودی عرب کے پاس عالم اسلام کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں یا اگر ہے تو کس قدر ہے اس کا تعین کرنے سے پہلے ہمیں پوری دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ایک طرف جہاں عالم اسلام کی جغرافیائی حدود انتہائی وسیع ہیں تو دوسری طرف گلوبلائزیشن کے دور میں عالم اسلام پوری دنیا کے ساتھ بڑی گہرائی کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے سعودی عرب کو طاقت و قوت کے بین الاقوامی میزان پر پرکھنا ہوگا۔
سعودی عرب طاقت و قوت کے بین الاقوامی میزان پر :
بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کی حیثیت سمجھنے کے لیے ہمیں اس میزان پر سعودی عرب کو پرکھنا ہوگا جس کا استعمال ‘بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ملک کی طاقت و قوت کو پرکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میزان کے کئی عناصر ہیں جنھیں ‘ملکی طاقت و قوت کے عناصر (Elements of National Power ) کہا جاتا ہے۔ یہ عناصر مختلف و متعدد ہیں لیکن مجموعی طور پر انھیں چند خانوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ خانے ہیں: جیو اسٹریٹجک اہمیت، معیشت، آبادیات، فوجی قوت، ٹکنالوجیکل طاقت، سیاسی تنظیم اور قیادت نیز خارجہ پالیسی۔ ذیل میں مختصر طور پر ان عناصر کی میزان پر سعودی عرب کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سعودی عرب کی جیوسٹریٹجک اہمیت
سعودی عرب مغربی ایشیا میں واقع جزیرہ نما عرب کے بیشتر حصہ پر مشتمل ہے۔ اس کا رقبہ 2,150,000 مربع کلومیٹر کو محیط ہے۔ جغرافیائی طور پر، یہ مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک، ایشیا میں پانچواں بڑا ملک، عرب ممالک میں الجزائر کے بعد دوسرا بڑا ملک اور پوری دنیا میں بارہواں بڑا ملک ہے۔ اس کی سرحدیں سات ممالک (عراق، اردن، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان اور یمن) اور تین آبی اجسام ( خلیج عربی، بحر احمر اور خلیج عقبہ) سے ملتی ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع کے علاوہ، درج ذیل حقائق سعودی عرب کی جیو اسٹریٹجک اہمیت کو بڑھاتے ہیں:
١- اسلام کے نزدیک دو مقدس ترین شہر مکہ و مدینہ سعودی عرب ہی میں واقع ہیں، جہاں دنیا بھر سے مسلمان حج کے لیے آتے ہیں۔ سعودی عرب حج کا انتظام و انصرام کرتا ہے اور دیگر عرب اور اسلامی اسکیموں کو پیسہ فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً، سعودی عرب تمام مسلم ممالک پر قابل لحاظ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
٢- یہ نہ صرف علاقائی قائد رہا ہے بلکہ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC) اور اوپیک کا کلیدی رکن ہے۔
٣- کافی عرصہ سے امریکہ کا حلیف ہونے کے ناطے بھی اس کی علاقائی حیثیت مزید اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔
٤- خلیج عربی اور بحر احمر پر لمبا ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے اسے خلیج عربی اور نہر سویز کے راستے سامان کی ترسیل میں خاصی سہولیات میسر ہیں۔
٥- تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کا مالک ہونے کی وجہ سے، سعودی عرب عالمی تیل قیمت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
٦- سعودی عرب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اچھی خاصی مقدار میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اسے بین الاقوامی امور میں اضافی اثر و نفوذ حاصل ہے۔
سعودی عرب کی معیشت
سعودی عرب کی معیشت تیل پر منحصر ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق، سعودی عرب کے پاس ۲۰٦ بلین بیرل کے تیل ذخائر ہیں، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی وجہ سے اوپیک میں غالب کردار ادا کرتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس یومیہ ۱۰ ملین بیرل پیداوار کی صلاحیت ہے، جسے وہ بڑھا کر یومیہ ۱۵ ملین بیرل کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے اسے بین الاقوامی تیل سپلائی اور قیمتوں پر بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔ سعودی عرب کو انرجی سپر پاور کہا جاتا ہے۔۲۰۱٦ کے ایک اندازہ کے مطابق، سعودی عرب کے پاس، تیسرا سب سے قیمتی قدرتی وسائل ہیں جن کی قیمت ٣٤.٤ ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق، سعودی عرب کے پاس، ٢٢٦ مکعب فٹ گیس کے ذخائر ہیں، جو کہ روس، ایران اور قطر کے بعد چوتھا بڑا گیس ذخیرہ ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق، اب تک سعودی عرب کے محض ١٥ فیصدی رقبہ میں گیس ذخائر کی دریافت مکمل کی گئی ہے۔ اب تک الربع الخالی کی بھی دریافت نہیں کی گئی ہے، جس میں اندازا ٣٠٠ ٹریلین مکعب فٹ گیس ذخائر ہو سکتے ہیں۔
پیٹرولیم سیکٹر سے سعودی بجٹ کی آمدنی کا تقریبا ٨٧%، برآمدات کا ٩٠% اور جی ڈی پی کا ٤٢% آتا ہے۔ جی ڈی پی کا دوسرا ٤٠ فیصد پرائیویٹ سیکٹر سے آتا ہے۔ تقریبا ٧.٥ ملین غیر ملکی قانونی طور پر سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں۔
سعودی حکومت نے اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ، حالیہ سالوں میں پٹرولیم آمدنی کا ایک حصہ تیل پر منحصر اپنی معیشت کو جدید صنعتی ملک میں تبدیل کرنے کے لیے خرچ کرنا شروع کیا ہے۔ گرچہ اقتصادی منصوبہ کار تمام مقاصد حاصل نہیں کر پائے ہیں، لیکن پھر بھی معیشت نے تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔ تیل آمدنی نے اکثر و بیشتر سعودیوں کے معیار زندگی کو بلند کیا ہے۔ اگرچہ، ابھی بھی پٹرولیم آمدنی پر انحصار جاری ہے، لیکن انڈسٹری اور زراعت کا حصہ ملکی معیشت میں بڑھا ہے۔
سعودی گریجویٹس کی ملازمت کی صلاحیتوں اور پرائیویٹ جاب مارکیٹ کی ضرورتوں کے درمیان موجود خلیج معاشی تنوع اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تقریبا ٤.٦ ملین غیر ملکی سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں۔
تیل اور گیس کے علاوہ، سعودی عرب میں سونا، چاندی، لوہا، تانبہ، زنک، مینگنیز، ٹنگسٹن، سیسہ، سلفر، فاسفیٹ، سوپ اسٹون وغیرہ پائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کا زرعی شعبہ بہت چھوٹا ہے۔ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کی کوششوں کے باوجود، سعودی عرب کو اپنی غذائی ضروریات کا ٧٠ فیصد حصہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ یہ ملک کھجوروں کی پیداوار میں دنیا کے بڑے ممالک کی صف میں ہے۔ جانوروں میں، تقریبا ٧.٤ ملین بھیڑیں، ٤.٢ ملین بکریاں، نصف ملین اونٹ اور ربع ملین مویشی ہیں۔ ٢٠٠٨ میں، سعودی عرب نے ” غیر ملکی سرزمین میں سعودی زرعی سرمایہ کاری پہل” کا آغاز کیا تھا۔ اس اسکیم کے مطابق، سعودی عرب نے پوری دنیا میں اور خاص طور پر ایتھوپیا، انڈونیشیا، مالی، سینیگال اور سوڈان میں کاشتکاری کے لیے زمینیں خریدیں۔
گرچہ تقریبا دو ملین حاجیوں کی آمد کی وجہ سے پیدا شدہ ملازمتیں زیادہ دنوں تک نہیں ٹھہرتیں، لیکن حج کے دوران آئل انڈسٹری سے زیادہ لوگ امور حج کے تعلق سے ملازمتیں پاتے ہیں، جو تقریبا چالیس ہزار عارضی ملازمتوں کی شکل میں ہوتی ہیں اور دو سے تین بلین امریکی ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
آبادیات
ایک اندازہ کے مطابق، ٢٠١٨ میں سعودی عرب کی آبادی ٣٣ ملین تک پہنچ گئی تھی۔ اس میں تقریبا پانچ سے دس ملین غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ ١٩٥٠ سے لے کر اب تک سعودی عرب کی آبادی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھی ہے اور کئی سالوں تک آبادی بڑھنے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ یعنی لگ بھگ تین فیصد تھی۔
١٩٧٠ کی دہائی تک، اکثر سعودی دیہی علاقوں میں رہتے تھے، لیکن ٢٠١٢ تک سعودی عرب کی ٨٠ فیصد آبادی میٹروپولیٹن شہروں میں رہ رہی تھی۔
سعودی عرب کی آبادی میں جوانوں کی کثرت ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق، سعودی عرب کی آدھی سے زیادہ آبادی ٢٥ سال سے کم عمر کی تھی۔
فوجی قوت
سعودی افواج بری، بحری اور فضائی افواج کے علاوہ رائل سعودی ایئر ڈیفنس، رائل سعودی اسٹریٹجک میزائل فورس اور سعودی عربین نیشنل گارڈ پر مشتمل ہے۔
مشرق وسطی میں سعودی عرب کی فوج سب سے زیادہ فنڈ رکھنے والی فوج ہے۔ مملکت اپنے بجٹ کا ٢٥% دفاع پر خرچ کرتی ہے جو تقریبا ٨٨ بلین امریکی ڈالر ہے۔
افرادی قوت کے حساب سے، سعودی افواج میں کل ٦٨٨٠٠٠ فوجی ہیں جس میں سے تین لاکھ فوجی بری فوج میں ہیں۔ نیشنل گارڈ میں دو لاکھ سے زیادہ فوجی ہیں۔ تقریبا ٢٥ ہزار فوجیوں پر مشتمل قبائلی فوج ہے۔
بحری فوج میں ٦٠ ہزار لوگ ہیں۔ ایئر ڈیفنس فورسز اور اسٹریٹجک راکیٹ فورسیز میں تقریبا ٤٠ ہزار فوجی ہیں۔
فضائی فوج میں ٦٣ ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔ فوج کے پاس اپنی انٹلیجنس سروس بھی ہے، جس کا نام جنرل انٹلیجنس پریزیڈنسی ہے۔
سعودی عرب اپنا زیادہ تر فوجی اسلحہ یوروپی اور امریکی سپلائرس سے درآمد کرتا ہے، البتہ حالیہ سالوں میں کچھ سعودی کمپنیوں نے بھی دفاعی ساز و سامان بنانا شروع کردیا ہے۔
ٹکنالوجیکل طاقت
ٹیکنالوجی کے میدان میں سعودی عرب کوئی خاص مقام نہیں رکھتا۔ البتہ حالیہ سالوں میں اس طرف کافی توجہ دی جا رہی ہے۔ سعودی عرب نے سائنس اور ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری بڑھائی ہے۔ یونیورسٹیاں اور یونیورسٹیوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے کھولے جا رہے ہیں، نیز مغربی ملکوں اور کمپنیوں کا تعاون لیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کوششیں بار آور ہوں گی۔
سیاسی تنظیم اور قیادت
سعودی عرب میں بادشاہت ہے۔ عموما، بادشاہ اپنے خاندان، وزراء اور مشیروں کی مدد سے حکومت چلاتا ہے۔ چونکہ اسلام سرکاری مذہب ہے اور ملک میں شریعت نافذ ہے، اس لیے علماء کا بھی اثر و رسوخ مضبوط ہے۔ عوامی سطح پر بھی سیاسی حصہ داری کا انتظام ہے لیکن اس کی شکل جمہوری ممالک کی طرح نہیں ہے۔ مغربی ممالک کے پروپیگنڈوں کے باوجود رعایا خوش اور مطمئن ہے۔ البتہ، کبھی کبھی کچھ بھٹکے ہوئے عناصر کی طرف سے بے اطمینانی کی خبریں ملتی رہتی ہیں جو اندرونی و بیرونی سازشوں کے سبب وجود پذیر ہوتی ہیں۔
کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی عوام اپنے حکمرانوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
خارجہ پالیسی
فی الحال، سعودی عرب کی خارجہ پالیسی حقیقی معنوں میں علاقائی عزائم کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کا رینج محدود ہے۔ یہ حقیقت علاقائی طاقت سے آگے بڑھ کر عالمی طاقت یا کم از کم بڑی طاقت بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
نتیجہ:
مذکورہ بالا جائزہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سعودی عرب مجموعی طور پر بلا شبہ مشرق وسطی میں ایک علاقائی طاقت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام کے دو مقدس ترین شہروں کے یہاں واقع ہونے کی وجہ سے اس کی مذہبی حیثیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس کے پاس تیل اور گیس کے بڑے ذخائر ہیں جس کی وجہ سے دولت کی فراوانی ہوئی ہے اور عالمی سطح پر بھی اقتصادی اہمیت حاصل ہوئی ہے، لیکن دیگر عوامل طاقت میں کمزوری کے باعث یہ ایک علاقائی طاقت ہی ہے۔
سعودی عرب کو اگر عالم اسلام کا قائد بننا ہے تو اسے علاقائی طاقت سے آگے بڑھ کر عالمی طاقت یا کم از کم بڑی طاقت بننے کے بارے میں سوچنا، منصوبہ بندی کرنا اور عمل کرنا ہوگا۔ ذیل میں اسی منصوبہ بندی کے کچھ خطوط کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
١- سعودی عرب کو اپنی خارجہ پالیسی بلکہ تمام قسم کی پالیسیوں کی از سر نو اس نہج پر تشکیل کرنی چاہیے کہ وہ آگے چل کر ایک عالمی طاقت بنے۔
٢- اپنی جیو اسٹریٹجک اہمیت کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کا فائدہ اس طرح اٹھانا کہ عالم اسلام کی قیادت ملنے کی راہ ہموار ہو۔
٣- اپنی روایتوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی تنوع پر کام کرنا اور تیل پر انحصار کم کرنا۔ وژن 2030 اچھا منصوبہ ہے۔ خیال رکھیں کہ یہ منصوبہ عملی جامہ بھی پہنے۔
٤- تعلیم کے شعبہ کو مزید بار آور بنانا تاکہ سعودی فارغین ملکی معیشت میں حصہ لے سکیں اور اسے ترقی کی نئی اونچائیوں تک لے جائیں۔
٥- سعودی عرب کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی غذائی ضروریات کے معاملہ میں خود کفیل ہو سکے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو انتہائی قریبی مسلم ممالک کا تعاون لینا چاہیے۔
٦- سعودی عرب کی موجودہ آبادی یا آبادی کی کوالٹی اس کو صرف ایک علاقائی طاقت بنائے رکھنے کے لیے کافی ہے۔ سعودی عرب کی توجہ ایک عالمی طاقت بننے کی طرف ہونی چاہیے اور اس کے لیے اسے اپنی آبادی میں اضافہ کے ساتھ آبادی کی کوالٹی میں بھی بہتری لانی ہوگی۔
٧- سعودی عرب کے پاس خاطر خواہ تعداد میں فوج ہے، لیکن یہ فوج لڑنے کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کمزور ہے۔ سعودی حکومت کو اپنی فوج کو لڑنے کی صلاحیت اور سازوسامان کے اعتبار اعلی معیار کا بنانا ہوگا۔
٨- دفاعی شعبہ میں عالمی طاقتوں کے دوش بدوش ہونا اور ساز وسامان کے تعلق سے مکمل خود انحصاری حاصل کرنا سعودی عرب کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔
٩- میزائل پروگرام، نیوکلیر ٹیکنالوجی، خلائی پروگرام اور سائنس و ٹیکنالوجی کے دوسرے شعبوں میں ترقی یافتہ بننے کی کوششیں تیز تر کرنا چاہیے۔
١٠- مسلم ممالک کو متحد کرنے، ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ان کو ایک مضبوط سیاسی، معاشی اور فوجی محاذ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا۔
یہ چند خطوط ہیں جنھیں میں یہاں ذکر کر سکا۔ یہ نہ تو حصری ہیں اور نہ ہی حتمی۔ سعودی حکومت کو اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرکے منصوبہ بنانا چاہیے اور اس پر بار آور انداز میں عمل کرنا چاہیے تاکہ سعودی عرب کو ایک عالمی طاقت کے روپ میں دیکھنے کا ہمارا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔
واللہ ولي التوفيق!!!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif shakeel

ماشاءاللہ بہت عمدہ
مبنی بر حقیقت