سعودی حکومت کی بنیاد میں جہاں ایک بالغ نظر، بیدار مغز، دور اندیش اور زمانہ شناس حکمران کی فہم و فراست کا دخل تھا وہیں ایک ماہر عالم دین، سلف کے منہج کا پیروکار اور اصلاح امت کے جذبے سے سرشار انسان بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑا تھا، یہی وجہ بنی کہ شاہان سعودیہ کے یہاں علم و علماء ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
زمانے نے کروٹ بدلی، حکمران بدلے، جلاوطنی کا دور آیا اور کافی اتھل پتھل کے بعد تیسری سعودی حکومت کا قیام ایک ایسے انسان کے ہاتھوں ہوا جسے زمانے کے سرد و گرم کا احساس تھا،صحرا نوردی نے اسے وقت کے اتار چڑھاؤ کی بخوبی پہچان کرادی تھی۔ اسے اچھی طرح یہ بات معلوم تھی کہ ہمارے آباء واجداد نے دین کی خدمت اور آبیاری کو اپنا حرز جان بنایا تھا اور مجھے بھی اسی ڈگر پر چل کر کامیابی وکامرانی کو اپنے نام کرنا ہے، اسی لیے انھوں نے ایک موقع پر کہا تھا “محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین میرا دستور و قانون ہے اور وہی میرا نظام و شعار ہے اسی پر چلتے ہوئے خوشگوار زندگی اور باسعادت موت کی چاہت ہے” اسی طرح اقوام متحدہ نے جب جب اپنے قوانین کا ایک نسخہ تنفیذ کی غرض سے شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں روانہ کیا تو جوابا انھوں نے قرآن اقوام متحدہ کے مرکز میں بھیج دیا اور کہا کہ یہی میرا دستور ہے اور کلمہ طیبہ ہی ہمارے ملکی جھنڈے کا شعار ہے۔
دنیائے اسلام کے قلبی حصے پر حکمرانی کے باعث شاہان سعودیہ نے عالم اسلام کو اپنی توجہ میں رکھا اور افراد و جماعات کی شکل میں تبلیغ دین، احیاء اسلام و اصلاح کا کام کرنے والوں سے انھوں نے رابطہ قائم کیا اور ان کی ہر ممکن مدد کی۔
1928 میں حسن البناء کے ہاتھوں مصر میں ایک جماعت کی تشکیل ہوئی جس کا نام “الاخوان المسلمون” تجویز ہوا، حسن البناء نے اس جماعت کی ایک شاخ سعودیہ میں بھی قائم کرنی چاہی اور اس غرض سے1936 میں حج کے موقع پر شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کی لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کردیا کہ” کلنا اخوان وکلنا مسلمون”(ہم سب بھائی ہیں اور ہم سب مسلمان ہیں)
لیکن اس جماعت سے منسلک افراد کی سعودیہ آمد و رفت رہی اور افکار و نظریات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ مصر میں جمال عبدالناصر کا دور حکومت اخوانیوں پر بہت سخت گزرا، ان کے اوپر عرصہ حیات تنگ ہوگیا، حقہ پانی تک بند ہونے کی نوبت آگئی ۔ایسے میں سعودیہ نے انھیں پناہ دی، اپنا دست حمایت ان کے سر پر رکھا اور انھیں مالی تعاون سے بھی نوازا۔
1953 میں کچھ سرکردہ اخوانی مناع خلیل قطان کے زیر قیادت سعودیہ منتقل ہوئے اور اپنا پیر مضبوطی سے جماکر اپنے منہج و فکر اور نظریات کا غیر محسوس طریقے سے پرچار شروع کردیا۔
سعودیہ میں قیام کے دوران سعودی حکمرانوں نے ان کی ہر اعتبار سے مدد کی، ان کے اوپر انعام و اکرام کی بارش ہوئی، انھیں مراعات سے نوازا گیا، عہدے و مناصب ان کے حوالے کیے گئے، مدارس و جامعات کے دروازے کھول کر ان کے لیے تعلیم و تعلم کی راہ ہموار کی گئی،نوبت یہاں تک آگئی کہ “شاہ فیصل ایوارڈ” کے سفارشی ادارے پر اخوانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ ایسے میں مودودی ہی کیا جماعت یا اخوان کے کسی عام کارکن کو بھی “شاہ فیصل ایوارڈ” مل جانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
لیکن اخوانیوں کو غیر مشروط حمایت، امن کے پروانے اور بے انتہا نوازش سے بڑھ کر بھی بہت کچھ چاہیے تھا اسی بہت کچھ کی تلاش میں جمال عبدالناصر سے سانٹھ گانٹھ ہوئی لیکن حرص ولالچ کے نتیجے میں اختلافات رونما ہوئے اور نوبت بوریا بستر کے سمیٹنے تک آگئی۔
گزرتے دنوں کے ساتھ انھیں خمینی فکری زاویے میں اپنا مستقبل نظر آنے لگا اس لیے انھوں نے ایرانی انقلاب کو اپنا رول ماڈل بنایا اور مقصد کے حصول میں جی جان سے جٹ گئے، محمد سرور زین العابدین نے اخوانی نہج پر مبنی ایک الگ تنظیم بنائی، خود کو سلفیت کے لبادے میں چھپایا تاکہ سعودی معاشرے میں پذیرائی کی راہ آسان ہو پھر امن و امان کی فضا کو مسموم کرنے میں جٹ گیا۔
ادھر اخوانیوں نے ایران سے پینگیں بڑھانا شروع کی،خمینیت زدہ رہنماؤں سے ملاقات کا دور شروع ہوا، بہار عرب کے خزاں رسید اور پرفریب نعرے کا سہارا لے کر کچھ ممالک پر خطرناک پنجوں کو گاڑا، مصر میں حسنی مبارک کے خلاف بغاوت کرکے حکومت پر قابض اور ملک میں ایرانی مداخلت کا راستہ ہموار کیا لیکن نااہلی اور ناکامی کے سبب جلد ہی راندہ درگاہ بھی ہوئے۔
دوسری جانب چین و سکون کی سانس لینے والے خلیجی ممالک پر منحوسیت کا جال پھیلانا شروع کیا، اندرون ملک سازش میں مصروف ہوئے، رعایا کو ورغلانا شروع کیا، اپنے مرشدین و قائدین کے اقوال و ملفوظات کی روشنی میں اسلامی معاشرے کو جاہلیت سے تعبیر کیا، سابقہ اسلامی حکومتوں کو طاغوت کا نام دیا اور خودساختہ نظریات پر مشتمل ایسی حکومت کے قیام کا خواب دکھایا جس کی مثال تک گزشتہ چودہ صدیوں میں نہیں ملتی ہے۔
مسلسل اخوانی فتنہ انگیزی کے باعث سعودی علماء، عوام اور حکمران ان کی ریشہ دوانیوں کو جان چکے تھے، عوام کے بیچ پھیلائے گئے نظریاتی زہر کی تشخیص ہوچکی تھی اور باغیانہ تیور کو بھی پہچان لیا گیا تھا اسی لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ نکیل کسی جائے، ان کے سازشی قدم کے آگے بند باندھا جائے، فکرو نظر کے اخوانی زاویوں کو صحیح سمت دی جائے، حکومت حاصل کرنے کے لیے جاری اچھل کود کا خاتمہ ہو اور بے ڈھنگے رویے کو سیدھا راستہ دکھایا جائے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے کے امن و امان کی خاطر حکومتوں کے خلاف بغاوت پر روک لگائی جائے اور ایسی فکر کا قلع قمع کیا جائے جس نے چودہ سو سال پر محیط اسلامی حکومتوں کو طاغوت کا نام دیا اور اسلامی معاشرے کو جاہلی معاشرہ کہا۔
کاروائی کا آغاز ہوا، عہدے اور مناصب ان سے چھین لیے گئے، ملکی معاملات میں اخوانی دست درازی کو روکا گیا، دینی، سیاسی اور دعوتی اداروں سے برطرف کیا گیا،تعلیمی اداروں سے باغیانہ فکر پر مشتمل نصاب کا صفایا ہوا۔
سعودیہ نے ایسا کرکے گویا سانپ کی دم پر پیر رکھ دیا اسی لیے جوابی حملہ عین متوقع تھا، اس حملے کی مہم قطر کے نشریاتی ادارے “الجزیرہ” نے سنبھالی، قطر اخوانیوں کے لیے نئی پناہ گاہ قرار پایا، سعودیہ نے افہام و تفہیم کا راستہ اپنایا، عمومی مصلحت کی خاطر “الجزیرہ”کی بکواس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا لیکن نتیجہ صفر رہا اور اسی صفر نے قطر کو بائیکاٹ کی ڈگر پہ لاکھڑا کیا۔
خصوصی طور اخوان اور سعودیہ کے مابین اختلاف کی چار وجوہات بیان کی جاتی ہیں :
1-صدام حسین کی حمایت میں عرب ممالک کے خلاف مظاہرات
2-اخوان کے بطن سے متعدد متشدد جماعتوں کا ظہور
3-ایران سے تعلقات کا استوار اور قلبی دوستی
4-حکومت پر قبضے کی خاطر عرب بہاریہ میں اخوان کا کردار اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ بد امنی
قطر کے بائیکاٹ کے بعد اخوانیوں کو ایک نیا حلیف ترکی کی شکل میں مل گیا جس نے سعودی پر دباؤ بنانے کے لیے اپنی فوج کا کچھ حصہ قطر روانہ کیا، شام کے معاملے میں ایران کے دوش بدوش کھڑا رہا اور دنیائے اسلام پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگا کیونکہ ماضی قریب میں ہی ترکی نے اپنا قائدانہ کردار کھویا ہے دوبارہ اسی کی حصولیابی میں جی جان سے کوشاں ہے۔
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی وحدت اور قیادت اسلامی اصولوں پر ہی قائم ہوسکتی ہے جبکہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر امت کی وحدت اور قیادت پیاسے کا سراب ہے، ایک ایسی شب ہے جس کے چراغ تاریکی کی نذر ہوچکے ہیں اور ایسا خواب ہے جس کی کوئی خوش کن تعبیر ہی نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ سعودی کے خلاف قطر اور ایران سے تعلقات قائم کرنا سعودی دشمنی کے مترادف ہے جیسا کہ بعض معاملات میں سرسری طور پر اختلافات ظاہر بھی ہوئے لیکن سفارتی سطح پر ابھی رابطے ٹھیک ٹھاک ہیں۔ البتہ برسوں سے جاری کش مکش کا نتیجہ کیا ہوگا اسے اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔
ماشاء اللہ بہت مناسب تبصرہ اللہ مزید توفیق عطا فرمائے آمین
ما شاء الله
اللہ آپکی قلمی صلاحیت میں برکت دے اور امت کو فائدہ پہونچاے
Extremely readable action containing some historical fact.
Well done bro
ماشاء اللہ، آپ نےسعودی عرب کے ماضی اور حال کی تاریخی انداز میں بہترین عکاسی کی ہے. اللہ آپکے بازوے قلم میں مزید قوت عطا کرے. آمین
جیسا لکھا ہوا ہے کہ “تحریریں ہی نہیں بین السطور کی خاموشیاں بھی بولتی ہے ”
اگر اسکو دیکھا جائے تو مضمون عمدہ ہے