بچوں کی نفسیات اور تربیت کے تقاضے

سرفراز فیضی تعلیم و تربیت

تربیت کیا ہے؟
تربیت انسان سازی کا فن ہے، انسان خَلق اور خُلق دو چیزوں سے مرکب ہوتا ہے، خَلق یعنی اس کا جسم اور خُلق یعنی اس کے اخلاق، عادات، اطوار، ذہنیت، کردار اور شخصیت، جسم تو کائنات کی ہر مخلوق کے پاس ہے لیکن کردار اور اخلاق انسان کی شخصیت کا ممتاز حصہ ہے ، بلکہ انسان کی اصل اور شناخت اس کا کردار اور اخلاق ہی ہے ، دنیا میں اس کے مفید اور مضر ہونےاور آخرت میں اس کے کامیاب اور ناکام ہونے کا انحصار اس کے کردار پر ہی ہے، تربیت اسی کردار سازی کا نام ہے جسے ہم دوسرے لفظوں میں انسان سازی بھی کہہ سکتے ہیں ، انسان اپنی شخصیت میں کچھ اچھائیاں اور کچھ برائیاں لے کر جنم لیتا ہے ، فطرت اس کی شخصیت میں اس کی پیدائش سے پہلے ہی کچھ کمالات اور کچھ نقائص ودیعت کردیتی ہے:

( فالھمھا فجورھا وتقویٰھا)

تربیت کا مقصد اس کی اچھائیوں کو اجاگر کرنا ، ان کو اپنے اور اپنے معاشرے کے لیے امکانی حد تک مفید بنانا اور کمال تک لے جانا ہے ،اسی طرح تربیت انسانی نفس میں پائے جانے نقائص کو امکانی حد تک ختم کرنےاور ان نقائص کو خود اس کے اپنے لیے اور پھر اپنے معاشرے کے لیے مضر بننے سے روکنے کا نام ہے ۔
انسانی بچہ اپنی عمر کے ابتدائی مراحل میں جس طرح اپنی جسمانی صحت اور نشونما کے لیے اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح اپنے کردار کی بھلائیوں تک رسائی ، اپنی فطرت میں ودیعت کیے گئے کمالات کی بازیابی اور نفس کی شرانگیزیوں سےمحفوظ رہنے کےلیے روحانی اور اخلاقی تربیت کا بھی ضرورت مند ہوتا ہے ، بچے کی جسمانی نشونما اور پرداخت پر توجہ دینا اور اس کی کردار سازی اور تربیت کو نظر انداز کردینا اس کے ساتھ ظلم ہے ۔
تربیت کون کرے؟
تربیت ایک مسلسل فکرمندی اور انتہائی توجہ اور نگہداشت کا کام ہے ، جس طرح بچے کی جسمانی نشونما بغیر مسلسل کوشش اور توجہ کے ممکن نہیں اسی طرح اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لیے مسلسل نگرانی اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ، بچوں کی تربیت میں مختلف افراد اور اسباب کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس میں سب سے اہم کردار ماں باپ ادا کرتے ہیں ، کیونکہ بچہ اللہ کی امانت ہے جو ماں باپ کے سپرد کیا جاتاہے اور انسان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس کے ماں باپ کا حق اور اختیار اس پر سب سے زیادہ ہوتا ہےکیونکہ دنیا میں اس کے وجود میں آنے کے سبب وہی ہیں ، اس لیے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بھی اصلا اس کے والدین ہی کو ادا کرنی ہوتی ہے ، اس کے ساتھ ہی انسان کی شخصیت اور ذہنیت پر سب سے گہرا اثر اس کے ماں باپ ہی کا ہوتا ہے ، یہ اثر اتنا شدید ہوتا ہے کہ فطرت پر پیدا ہونے والے بچّے کو اس کے ماں باپ اپنی تعلیم اور تربیت سے یہودی ، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
بچپن کمہار کی چاک ہے اور بچہ اس چاک پر رکھی گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے ، ماں باپ کا ہاتھ اس گیلی مٹی کو جیسا رخ دیتا ہے بچے کی شخصیت اسی سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے ۔
بچّے کی تربیت میں ماں کا کردار اس اعتبار سے کافی اہم ہے کہ اس کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے ، باپ کا بیشتروقت معاشی مصروفیات کی وجہ گھر سے باہر گذرتا ہے ایسے میںبچوں کو سب سے زیادہ قربت ماں ہی کی نصیب ہوتی ہے ، ماں کے احترام اور حقوق کی ادائیگی کی شریعت میں شدید تاکید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماں کی تربیت کا اثر انسان کی شخصیت پر بہت گہرا ہوتا ہے ۔
لیکن بچوں کی تربیت میں باپ کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے ، کیونکہ وہ گھر کا مرکز ہے ، شریعت نے اس کو اہل خانہ پر قوام اور نگراں بنایا ہے ، گھر پر اس کی مرضی نافذ ہوتی ہے اور اس کا حکم چلتا ہے ، گھر کا ماحول مرد کے مزاج کے موافق ہوتا ہے ، فکر اور منہج میں گھر والے اس کے تابع ہوتے ہیں ، اس کا اثر اہل خانہ پر سب سے زیادہ ہوتا ہے ، اسی کے طے کردہ اصول اور قوانین گھر کے ہر فرد پر لاگو ہوتے ہیں ، اس لیے گھر والوں کی دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اس کی توجہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت پربرابر ہونی چاہیے ۔
تریبت کیوں کریں ؟
1) بچّے اللہ کی طرف سے دی گئی ذمہ داری ہیں ۔
اولادماں باپ کو اللہ کی طرف سے سپرد کیا گیا ایک مشن ہوتے ہیں ، ایک طرف ان کی جسمانی نشونما والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے تو دوسری طرف ان کی تربیت اور کردار سازی بچے کا حق ہے ، اولاد کو اللہ نے قرآن مجید میں’’فتنہ‘‘ قرار دیا ہے ، یعنی دنیا میں اللہ انسان کو جن ذریعوں سے آزماتا ہے ان میں سے ایک’’ اولاد‘‘ بھی ہے ، ان کی صحیح تعلیم اور تربیت انسان کے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا باعث ہے تو ان کی تربیت میں ہونے والی کوتاہی انسان کو جہنم تک لے جاسکتی ہے ، اس لیے حدیث میں والدین کو(راعی) چرواہا قرار دیا گیاہے جن کے ذمہ اللہ نے اولاد کی پرورش اور تربیت کا کام سپرد کیا ہے اور قیامت کے دن اللہ بندوں سے ان کے حقوق کے متعلق سوال کرے گا۔ اس طرح بچوں کی پرورش اور تربیت کے حقوق بھی اصلا اللہ ہی کا حق ہے اور اس میں کوتاہی اللہ کے حق میں کوتاہی ہے ۔
یہ بچّے اللہ کی طرف سے دیا گیا Task ہیں جن کی تکمیل بندے کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے لازم ہے ، یہ بچے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، اور قیامت کےدن اللہ بندوں سے اپنی دی گئی نعمتوں کے بارے میں سوال کرنے والا ہے ، اس لیے ماں باپ کےلیے ضروی ہے کہ وہ بچے کی تربیت کی اہمیت اور اس کے طریقہ کار کو سمجھیں ۔
2) بچّوں سے محبت کا تقاضہ
بچوں کی محبت دنیا کی خالص ترین محبت ہے ، یہ دنیا کی واحد محبت ہے جس میں خود غرضی اور بدلے میں مفادات کے حصول کا عنصر نہیں پایا جاتا یا انتہائی کم پایا جاتا ہے ، ماں باپ کی محبت بالخصوص ماں کی محبت دنیا کی سب سےمثالی محبت ہے ، اس محبت کا کوئی بدل نہیں ، اس خلوص کی دوسری کوئی مثال نہیں ، اللہ نے جہاں بندوں سے اپنی محبت کی مثال بیان کرنی چاہی وہاں ماں کی محبت کو مثال کے طور پر پیش کیا، قرآن میں جہاں قیامت کی ہولناکیوں کا بیان کیا گیا وہاں قیامت کی شدت کا سب سے خطرناک پہلو یہ بیان کی گیا کہ اس دن دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، بچوں کی محبت فطرت کا حصہ ہے ،اولاد کے لیے یہ محبت اللہ نے دنیا کے ہر انسان بلکہ ہر جاندار میں رکھی ہے ، دنیا کا خونخوار سے خونخوار جانور کا دل بھی اپنے بچوں لیے رحمت اور شفقت کے جذبات سےپر ہوتا ہے ، مرغی جیسا معصوم پرندہ بھی اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے سانپ سے لڑجاتا ہے۔
یہ محبت اللہ نے انبیاء کے دلوں میں بھی رکھی ، اسلئے جن انبیاء نے اللہ سے اولاد کی نعمت کیلئے دعا کی ، حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا ڈوبنے لگا تو دل دکھ سے تڑپ اٹھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی محبت کا امتحان کا مقابلہ بیٹے کی محبت سے کرایا گیا، نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی جانکنی کے موقع پر رسالت ماٰب فداہ ابی وامی کی مبارک آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
یہ محبت اور لگائو ہی ماں باپ کو بچوں کے لیے فکر مند بناتی ہے، یہ فکر مندی بہت اچھی بات ہے لیکن ضروری ہے کہ اس فکر مندی کا رخ صحیح کیا جائے ، بچّے کی محبت کا تقاضہ اگر دنیا میں اس کے مسقتبل کےلیے آپ کو فکرمند بناتا ہے تو اس کی آخرت کے لیےآپ کو اور زیادہ فکر مند ہونا چاہیے جو اس کا اصل مستقبل ہے اور جہاں کی کامیابی اصل کامیابی اور ناکامی حقیقی ناکامی ہے ۔
یہ بچے کے ساتھ ظلم ہے کہ دنیا میں مصائب و مشکلات کی آنچ اس تک نہ پہنچے اس کیلئے آپ صبح وشام کی تگ ودو اس کے نام کردیں لیکن آخرت میں اس کو اللہ کے شدید عذاب سے بچانے کیلئے کوئی انتظام نہ کریں ، دنیا میں رہائش کی خاطر ایک چھت فراہم کرنے کیلئے زندگی کی جمع پونچی لگا دیں لیکن قبر میں اللہ کے عذاب سے بچانے کا کا کوئی سامان نہ کریں ، دنیا میں اس کی بھوک اور پیاس سے تو آپ کا دل تڑپ اٹھے لیکن اس بات کی آپ کو سِرِے سے کوئی فکر ہی نہ ہو کہ قیامت کے دن جب انسان گرمی کی شدت سے پسینے میں ڈوبا جارہا ہوگا اس وقت اللہ کے عرش کا سایہ اور حضور اکرم ﷺ کے ہاتھوں سےجام کوثر اس کو نصیب ہوسکے گا یا نہیں ۔آپ کو یہ بات تو پریشان کرتی ہو کہ مستبقل میں وہ اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکے گا یا نہیں لیکن اس بات سے بالکل ہی لا پرواہ رہیں کہ قیامت کے دن پل صراط بھی پار کرسکے گا یا نہیں۔
اپنے بچوں کا حقیقی خیر خواہ وہ باپ ہے جو اپنے بچوں کی دینی تربیت کے ذریعہ ان کو جہنم کی آگے سے بچالے ، بچوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق یہی ہے ۔ اللہ نے اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن میں فرمایا:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ) (التحریم:6)

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے فرماتے ہیں : علموا أنفسكم وأهليكم الخير وأدبوهم’’ جہنم کی آگ سے بچائو اس طرح کی خود کو اور اپنے اہل خانہ کو خیر کی تعلیم دو اور ادب سکھائو‘‘۔ (تفسیر فتح القدیر)
3) بچّے آپ کی آخرت کا سرمایہ ہیں؟
بچے ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا ہیں اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ بچےوالدین کی آخرت کا بہت بڑا سرمایہ بھی ہیں ، اولاد کی صحیح تربیت اللہ سے تقرب کا بڑا ذریعہ ہے ، ماں باپ بچے کو نیکی کا راستہ دکھا تےہیں ، بچے جب تک خیر کے اس راستے پر چلتے رہتے ہیں ان کے ہر ہر قدم کی نیکی والدین کے نامہ اعمال میں بھی درج کی جاتی ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کے مطابق خیر کی رہنمائی کرنے والے کو بھی عمل کرنے والے کے برابر اجر دیا جاتا ہے، بچے اللہ کی طرف سے والدین کیلئے آزمائش ہیں تو ان کی صحیح تربیت کرنے والے اس آزمائش میں کامیاب ہوجانے والےہیں اور اللہ کے یہاں کامیابی کا اجر بہت بڑا ہے ، بچے کے منہ میں ایک لقمہ ڈالنا بھی کار ثواب ہے تو بچے کی صحیح تربیت کرکے اس کو جہنم کی آگے سے بچالینے کا اجر اللہ کے یہاں کتنا بڑا ہوگا۔
بچے آخرت کا ایسا ذخیرہ ہیں جو انسان کی موت کے بعد بھی اس کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں، نیک بچے کی دعا آخرت میں بندے کی بلندی درجات کا سبب بنے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کےنبی ﷺ نے فرمایا:

“إنَّ الرجل لتُرفع درجتُه في الجنَّة فيقول : أنَّى هذا فيقال : باستغفار ولدك لك ” ۔

’’ ایک آدمی کے درجات جنت میں بلند کیے جائیں گے، وہ پوچھے گا کہ یہ مقام مجھے کیسا ملا تو جواب دیا جائے کہ ترے بچے کے ترے لیے استغفار کی وجہ سے ‘‘۔( ابن ماجه (3660) صحيح الجامع(1617)
4) دیندار یعنی فرمانبردار اور اطاعت شعار اولاد
بچوں کی دینی تربیت آپ کی آخرت ہی نہیں آپ کی دنیا کی بھی ضرورت ہے ، ایمان جب کسی بندے کے دل میں گھر کرتا ہےتو اس کے کردار کے گوشے گوشے کو منوّر کردیتا ہے، دینداری ایک بندے کا اللہ ہی سے تعلق استوار نہیں کرتی بلکہ اس کو دنیا میں اپنے متعلقین کے حقوق کی ادائیگی کے لیے بھی فکر مند بناتی ہے ، اللہ کےبندوں کے حقوق بھی اصل میں اللہ ہی کا حق ہےا ور بندوں کے حقوق ادا کیے بغیر اللہ کا حق  ادا نہیں کیا جاسکتا ، اللہ کی بندگی بندے کے دل میں اللہ کے بندوں کے لیے رحم اور شفقت پیدا کرتی ہے ، ایمان سچا ہو تو بندہ انسانوں ہی نہیں جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھنے والا بن جاتا ہے ، اللہ کا خوف جب بندے کے دل میں گھر کرتا ہےتو بندہ اللہ کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق میں کوتاہی سے بھی اللہ سے ڈرنے لگتاہے ۔ تقویٰ جب دل میں صحیح جگہ پر پہنچتا ہے تو مومن بندوں کی خدمت میں اللہ کی رضا تلاش کرتا ہے ۔
شریعت نے والدین کا مقام ومرتبہ بہت بلند رکھا ہے ، قرآن میں اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک، ان کی اطاعت اور خدمت کی تاکید کی گئی ہے ، والدین کے ان حقوق اور مرتبے کو دین دار اولاد جتنا سمجھ سکتی ہے بے دین اولاد نہیں سمجھ سکتی۔
اپنے بچوں کی تربیت دین پر کریں تاکہ وہ آپ کا مقام سمجھ سکیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے، ان کو اللہ سے ڈرنے والا بنائیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ بدسلوکی اور آپ کی نافرمانی کے معاملہ میں اللہ سے ڈریں ، ان اللہ سے محبت کرنے والا بنائیں تاکہ دنیا میں آپ کی اطاعت اور خدمت کو وہ اللہ سے تقرب کا ذریعہ سمجھیں ۔
یہ بچے آپ کی کھیتی ہیں ، ان کے اندر دین کا جذبہ ، اللہ سے تعلق اور وابستگی کا پودا لگائیں گے تو فرمانبرداری کے برگ وبار ان سے نکلیں گے ، یہ اللہ کا حق جانیں گے تو آپ کا حق بھی سمجھیں گے اگر ان کو اپنے رب سے وفاداری نہیں سکھائیں گے تو یہ آپ کے ساتھ بھی وفاداری نہیں کرنے والے ۔
دینی تربیت کے بغیر دنیا کی تعلیم انسان کو مفاد پرست اور خود غرض بنادیتی ہے ، اولاد کی اس مفاد پرستی اور خود غرضی کے کتنے مظاہر آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، معاشرے کے جسم پر گھناؤنے گھاؤ کی طرح پھیل رہے اولڈ ایج ہاؤس ہماری ناقص تربیت ہی کا شاخسانہ ہیں ، آپ چاہتے ہیں کہ اولاد آپ کی فرمانبردار بنے تو اس کو اللہ کا فرمانبردار بنائیں!
تربیت کب کریں؟
انسانی شخصیت کی ہر خوبی اور خامی ، ہر کمال اور نقص کی جڑیں اس کے بچپن میں پیوست ہوتی ہیں ، انسانی کردار کی بنیادیں اس کے بچپن میں رکھی جاتی ہیں اس کی شخصیت کی پوری عمارت انہیں بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ، بچپن میں ملنے والا ماحول ، تعلیم ، تربیت، مشاہدات ، تجربات، حادثات، رویے انسان کے کردارکو تراشتے ہیں ، سنوارتے ہیں یا بگاڑتے ہیں ، بلند کرتے ہیں یا پست کرتے ہیں ،انسان کا کردار بچپن میں اس کے ذہن پر لکھے گئے متن کی شرح ہوتا ہے ، انسان کی فکر اور سوچ کا بیج اس کے بچپن میں بویا جاتا ہے اس کے کردار کا حسن اور قبح اس کے بچپن میں کی گئی تخم ریزی کا نتیجہ ہوتا ہے ، جس طرح ایک کاشتکار کے فصل کی عمدگی کا انحصار اس کے بیج کی عمدگی اور کاشتکاری میں اسکی محنت پر ہوتا ہے اسی طرح ایک انسان کی کردار کی عمدگی کا انحصار بھی بچپن میں اسکو ملنے والے ماحول اور تربیت پر ہوتا ہے، ماں باپ اپنے بچوں میں بڑے ہونے کے بعد کردار کے جو کمالات دیکھنا چاہتے ہیں ان کے بیج بچپن ہی میں اس کے ذہن اور کردار میں بونے چاہیے، ان کے کردار کو جس سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں اس کی صورت گری ان کو بچپن ہی میں کرنی چاہیے ۔
تربیت کے لیے فکر مندی اور منصوبہ بندی :
بچوں کی تربیت بہت بڑا مشن ہے جو والدین کے سپرد کیا جاتا ہے ، بچوں کی تربیت ایک محنت طلب ذمہ داری ہے ، اس کےلیے انتہائی نگہداشت اور توجہ درکار ہوتی ہے ، یہ کام بغیر کامل منصوبہ بندی کے ممکن نہیں ، بچوں کا ذہن ایک زرخیز کھیت کے مانند ہوتا ہے ، اس میں کمال کا ایک ایک پودا بونا پڑتا ہے ، نقائص کی خود رو جھاڑیاں نکال کر الگ کرنی پڑتی ہیں، ایمان، تقویٰ ، تدیّن ، حبِّ الٰہی ، خوفِ خدا، توکل ، انابت، ، قناعت، سخاوت، شرافت، شجاعت ، خود اعتمادی، رقتِ قلب،حیا، غیرت، کظمِ غیض،صبر وتحمل، ایمانداری ، عہد کی پاسداری، سلیقہ شعاری، راست بازی، خوش گفتاری، حسنِ خلق، عاجزی وانکساری، محنت کشی ، انصاف پسندی، وقار اور سنجیدگی غرضیکہ انسانی شخصیت کے ہر کمال کا بیج جب بچپن کی زمین پر بویا جاتا ہے تو عمر کی پختگی کے ساتھ کردار میں اس کے ثمر بار آور ہوتے ہیں ،تربیت کوئی خود کار کام نہیں ، اس کے لیے ہر ہر قدم پر محنت درکار ہوتی ہے، اس لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ والدین اپنی ذمہ داری کا احساس کریں ، تربیت کی اہمیت کو سمجھیں ، اس کے لیے درکار احساس ذمہ داری پیدا کریں اور خود کو اس محنت کے لیے تیار کریں ۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بچوں کی کردار سازی کی طرف ہماری توجہ اتنی بھی نہیں ہوتی جتنا ایک گھر کی تعمیر میں ہوتی ہے ، ہم ایک چھوٹا سا گھر بھی تعمیر کرتے ہیں تو پوری پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کرتے ہیں ، کھڑکی کہاں کھولنی ہے، کچن کس حصے میں ہوگا، بیڈ اور صوفے کہاں رکھے جائیں گے ، ٹائلز کس طرح کی ہوگی ، کلر کون سا لگایا جائے گا، غرضیکہ کہ ایک ایک کام کامل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے ، لیکن بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہمارا رویہ بالکل لاپرواہی کا ہوتا ہے ، ہمارے معاشرے میں بچوں کی کرداز سازی ماں باپ کےبجائے موبائل فون اور ٹی وی سے ہورہی ہے ، ہم نوجوان نسل کے بگاڑ کا رونا روتے ہیں، حالانکہ اس بگاڑ کے اصلی مجرم ہم خود ہیں ، یہ نوجوان آسمان سے نازل نہیں ہوتے ، یہ ہمارے گھر میں پرورش پاتے ہیں ، ان کا بگاڑ ہماری لا پرواہی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کی پیدا وار ہے ۔
اسوہ کی پیروی :
انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہدایات سے زیادہ اسوہ کی پیروی کرتا ہے ، حکم سے زیادہ مثال کے پیچھے چلتا ہے ، انسان کی اسی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے محض احکام نازل نہیں کیے بلکہ اسوہ کی شکل میں انبیاء کو مبعوث فرمایا۔
نقالی انسان کی فطرت کا سب سے طاقتور داعیہ ہے ،انسان اپنے سامنے موجود مثال کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے ، انسان کے کردار پر اس کے ماحول کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے ، بچوں کے سیکھنے کی ابتداء بھی نقالی سے ہوتی ہے ، بچہ عقل اور شعور کی منزل پر پہنچتے ہی اپنے ارد گرد کے افراد کی نقل کرنا شروع کردیتا ہے، احکام سمجھنے اور ہدایات پر عمل کرنے کا مرحلہ بہت بعد میں آتا ہے، یہ بات آپ کے مشاہدے میں بھی آئی ہوگی کہ چھوـٹا بچہ جو ابھی اٹھنے بیٹھنے لائق بھی نہیں ہوا ہے گھر میں والدین کا نماز پڑھتا ہوا دیکھتا ہے تو اپنے طور پر ہاتھ باندھنے اور سجدے میں جانا شروع کردیتا ہے ، گھر میں باپ اگر سگریٹ پیتا ہے تو چھوٹا بچہ بھی موقع پاکر سگریٹ اٹھا کر منہ میں لگالیتا ہے ، یہ انسان کی فطرت ہے، وہ اپنے سامنے موجود مثالوں کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے ، اس لیے انسان کا کردار ، اس کی ذہنیت اور عقیدے ، اس کے رہن سہن، بول چال، اخلاق اور آداب پر اس کے ماحول کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے ، جس طرح انسان کا جسم بچپن میں ملنے والے موسم کے مطابق خود کا ایکجسٹ کرتا ہے اس طرح اس کی نفسیات اور کردار بچپن میں ملنے والے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں ، اس لیے انسان کا کردار اس کے ملے ماحول کا مظہر ہوتا ہے ، اس کی سوچ، گفتگو، اخلاق بتاتے ہیں کہ کس طرح کے ماحول میں اس کی نشونما ہوئی ہے اور کس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہ کر وہ بڑا ہوا ہے ۔
بچوں کی تربیت کی ابتداء اپنی تربیت سے :
والدین کا کردار بچوں کے لیے سب سے زیادہ مثالی ہوتا ہے ، زندگی کے ابتدائی دور میں بچوں کے سامنے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ والدین ہی کا اسوہ ہوتا ہے، اس لیے بچے کے اخلاق اور کردار پر سب سے زیادہ والدین کے اخلاق اور کردار ہی اثر انداز ہوتے ہیں ، لہٰذا بچے کی تربیت کی ابتداء بھی والدین کی تربیت سے ہوتی ہے ، بچے اپنے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہیں اس لیے پہلے والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنا رخ درست کریں، خود کو اس راستے پر ڈالیں جس راستے پر وہ اپنے بچے کو چلانا چاہتے ہیں، اچھائی اور برائی کا تصور بچے میں والدین سے منتقل ہوتا ہے ، دین ، عقیدہ ، اخلاق اور آداب بچے کو اپنے والدین سے وراثت میں ملتے ہیں ، اچھائی اور برائی بچہ دونوں اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہے ، لہٰذا والدین جو خوبیاں اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہے ہیں پہلے خود ان کو اپنی شخصیت میں وہ خوبیاں پیدا کرنی پڑیں گی،جن برائیوں سے اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں پہلے خود اپنے کردار سے ان برائیوں کو ختم کرنا پڑے گا، والدین کا کردار وہ سانچہ ہوتا ہے جس میں بچہ خودکو ڈھالتا ہے ، لہٰذا والدین جو کردار والدین اپنے بچوں سے چاہتے ہیں ۔پہلے د اس کردار میں خود کو ڈھالیں۔
والدین کے کردار کی خوبیاں ان کے بچوں میں منتقل ہوں اس کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں، ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ، بچوں کو والدین سے زیادہ موبائل اور ٹی وی کی صحبت میسر ہے اس لیے بچوںکے کردار پر بھی والدین سے زیادہ فلمی اداکاروں اور کارٹون کے کرداروں کا اثر ہے ۔
نبی ﷺ کے اسوہ کی پیروی :
انسان جس کو عظیم سمجھتا ہے اس کے نقش قدم پر چلتا ہے، اپنے کردار کو اس کے کردار کے موافق بناتا ہے ، اس کو اپنے لیے اسوہ اور مثال مان کر اس کے جیسا بننے کے کوشش کرتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ بچپن سے ہی نبی ﷺ کی عظمت بچوں کے دل میں بٹھائی جائی، بچہ بولنے لائق ہو تو کلمہ توحید کے ساتھ کلمہ رسالت یاد کرایا جائے، مختلف حوالوں سے بار بار نبی ﷺ کا نام اس کے سامنے لیا جائے۔ بچے کی ذہنی صلاحیت کے مطابق آسان لفظوں میں اس کو رسالت اور رسول کے معنی اور اہمیت سے آگاہ کیا جائے ،نبی ﷺ کی سیرت آسان لفظوںمیں بتائی جائے، نبی ﷺ کے اخلاق اور کردار کی خوبیاں بیان کی جائیں تاکہ بچے کی دل میں رسول اللہ ﷺ کی محبت اور عظمت پیدا ہو، یہ محبت اور وابستگی اس کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے راستے پر چلائے گی ۔
دوستوں کا حلقہ :
والدین کے بعد انسان کی شخصیت پرسب سے زیادہ اثر اس کے دوستوں کا ہوتا ہے اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے ’’الرجل علیٰ دین خلیلہ فلینظر من یخالل‘‘ یعنی ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا ہر آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے‘‘۔(ترمذی)
گرچہ ماحول اور معاشرے میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن بچوں کو سماج سے کاٹ کر نہیں رکھا جاسکتا ، اس لیے والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو دوستوں کا اچھاحلقہ فراہم کریں ، دو مقامات ہیںجہاں سے بچے کو دوست میسر آتے ، ایک محلہ اور دوسرا اسکول ، والدین کو چاہیے کہ رہائش کے لیے اچھے علاقے اور تعلیم کے لیے ایسے اسکول کا انتخاب کریں جہاں سے بچوں کو اچھے دوست مل سکیں ۔
کوئی بچہ نالائق نہیں ہوتا :
اللہ رب العزت نے یہ کائنات حق کے ساتھ پیدا کی ہے ، اس میں پیدا کی گئی ہر چھوٹی بڑی شئی کی تخلیق کے پیچھے اللہ رب العزت کی حکمت ہے ، قرآن مجید میں یہ حقیقت اللہ نے مختلف مقامات پر بیان کی ہے کہ اللہ نے کائنات کو باطل نہیں پیدا کیا ، یعنی ہر مخلوق میں اللہ نے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور رکھا ہے ، اس کائنات کی ہر مخلوق میں خواہ جاندار ہو یا بے جان اللہ نے کسی نہ کسی طرح کا کمال رکھا ہے ، انسان تو اس کائنات کی سب سے اعلیٰ اور اشرف تخلیق ہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ نے کسی انسان کو بغیر کسی کمال کے پیدا کردیا ہو اور کوئی لیاقت اور صلاحیت اس کی شخصیت میں نہ رکھی ہو۔
کائنات کی تخلیق میں اللہ نے تنوع رکھا ہے ، یہ تنوع انسان کی تخلیق میں بھی رکھا ہے ، جیسے انسانوں کے چہرے مختلف بنائے ہیں ویسے ہی ان کی صلاحیتیں بھی مختلف بنائی ہیں ، سوچنے ، سمجھنے اور سیکھنے کے طریقے مختلف رکھے ہیں ، ہربچہ منفرد صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے ، ہر بچے میں اللہ نے الگ الگ طرح کے کمالات رکھے ہیں ، ہمارے معاشرے میں محض حافظے اور زود فہمی کو ہی کمال سمجھا جاتا ہے اور جس بچے کا حافظہ کمزور ہو یا باتوں سمجھنے میں دقت پیش آتی ہو اس کو نالائق سمجھ کر سائڈ کردیا جاتا ہے، بچے کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا ظلم ہے، ہر بچہ منفرد ہے ، والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی شخصیت کو پرکھیں ، اس کی نفسیات کا تجزیہ کے اس کے مثبت اور منفی پہلووں کا جائزہ لیں ، اس کے کمالات اور نقائص ، خوبیوں اور خامیوں کو سمجھیں، اس کی خوبیوںکو پروان چڑھائیں ، اس کی صلاحیتوں کو تیز کریں اور خامیوں پر قابو پانے میں اس کی مدد کریں۔
بچےکو نیچا نہ دکھائیں!
بچّوں کو اچھے بچّوں کی مثالیں دینا اچھی بات ہے لیکن مستقل کسی ہم عمر بچّے کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کو بیان کرکے بچّے کو طعنہ دینے اور نیچا دکھانے کا مزاج نہ بنائیں ۔
اس رویّے سے بچّے کے دل میں حوصلہ نہیں حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، حوصلہ بچّے کو مثبت رخ پر لے جاتا ہے اور حسد منفی راستے پر ۔
ہر بچّہ اپنی منفرد خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے ، اس لیے دوسرے بچّوں کی صلاحیت اپنے بچّوں سے برآمد کرانے کی ناکام کوشش کے بجائےاس کی اپنی صلاحیتوں کی بازیابی میں اس کی مدد کریں ۔
بچّے اور مشین کا فرق :
بچے مشین نہیں ہوتے ، کہ آپ نے اپنا خواب ڈالا اور انہوں نے تعبیر چھاپ کر دےدی ۔
بچوں کے مستقبل کا فیصلہ اپنی آرزؤوں کے بجائے ان کی صلاحیت کی بنیاد پر کریں بلکہ جائز دائرے میں رہ کر اُن کو ان کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیں، ہر انسان کے اندر اللہ نے کچھ نا کچھ صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں ، دنیا میں وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جو وہ کررہا ہو جس کے لیے اسے پیدا کیا گیاہے، اگر آپ اپنے بچوں سے وہ برآمد کرنے کی کوشش کریں گے جو ان میں رکھا ہی نہیں گیا تو انہیں ناکارہ بنا دیں گے ۔
ان کے پروں کو کھلنے کا موقع دیں، اپنی اڑان وہ خود بھر لیں گے، اپنے تقاضوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈال کر ان کو ان کے آسمان سے محروم نہ کریں، اپنی مرضی کے راستوں پر ان کو گھسیٹنے کے بجائے ان کے اپنے طے کیے ہوئے راستے پر آگے میں ان کی مدد کریں ۔
انسان فطرتا آزادی چاہتا ہے ، جبر صحیح چیزوں پر بھی ہوتو بچّے کو باغی بنا دیتا ہے، ضرورت سے زیادہ پہرے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مار دیتے ہیں ، بچّوں کی صلاحیت کو باہر آنے کے لیے آزادی ، حوصلہ اور خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے جیسے جیسے بچوں کی عمر بڑھے بچے سے مشورہ کرنے ،اپنی باتوں کے لیے کنونس کرنے اور اپنے خلاف ان کی صحیح باتوں کو تسلیم کرنے کا مزاج بنائیں!
بچوں کا حوصلہ نہ توڑیں!!
دنیا کے تمام کامیاب انسانوں میں خود اعتمادی ایک مشترک صفت ہے ، انسان کا اپنی ذات اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا بہت ضروری ہے ، یہ اعتماد ہی زندگی کی راہوں میں انسان کو آگے بڑھنےاور مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتا ہے ، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ بچپن ہی سے بچے کو خود اعتماد بنائیے ، اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کیجیے ، اس کو اس بات کا احساس دلائیے کہ وہ خاص ہے، اس میں کچھ کر گذرنے کی صلاحیت ہے ، وہ منفرد ہے ، اس رویے سے بچے کا حوصلہ پختہ ہوتا ہے ۔
والدین اور اساتذہ جب بچے کو غبی، کمزور اور نالائق قرار دے کر سائڈ کردیتے ہیں تو بچّہ خود اپنے آپ سے مایوس ہوجاتا ہے، ایسا بچہ زندگی کے راستے پر قدم روک کر کھڑا ہو جاتا ہے ، اس میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ختم ہوجاتا ہے ، وہ مشکلوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے ، زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے ، اس لیے بچے کو ہمیشہ اس کی انفرادیت کا احساس دلانا چاہیے ، اللہ نے ہر انسان میں الگ الگ طرح کی صلاحیتیں رکھی ہیں ، ان صلاحیتوں کو نکھارنے اور کارآمد بنانے کےلیے کبھی کم کبھی زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے ، ان بچوں کو اپنی ذات کے گھونسلے سے صلاحیتوں کے آسمان تک پہنچے کے لیے حوصلہ درکار ہوتا ہے ، چڑیا کے بچے کے دل میں اگر اڑان کا خوف ڈال دیا جائے اور دماغ میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ وہ زندگی میں کبھی اڑان نہیں بھر سکتا تو اس کی پوری زندگی گھونسلے ہی میں کٹ جائے گی ، یہی معاملہ بچوں کا ہے ، اس لیے بچوں کو یقین دلائیے کہ وہ بھی دنیا کے لامتناہی آسمان میں دوسرے پرندوں کے دوش بدوش اڑ سکتے ہیں، ان کو ان کے گھونسلے میں قید کرنے کے بجائے ان میں اڑان کی امنگ پیدا کریں۔
بچوں کے سوالوں کا خوش دلی سے استقبال کریں!
نبی ﷺ نے فرمایا: جہالت کا علاج سوال ہے ، تجسس انسان کے دل میں علم کے راستے پر چلنے کی للک پیدا کرتا ہے ، علم کے راستے سوال سے کھلتے ہیں ، جواب کی تلاش انسان کو ایجادات اور اکتشافات تک لے جاتی ہیں ، علم کی ابتداء سوال سے ہوتی ہے ، دنیا کے سارے فلسفے سوال ہی سے وجود میں آتے ہیں ، غور وفکر ، تفکر وتدبر کے دروازے’’ کیا؟‘‘،’’ کیوں؟ ‘‘، ’’کب؟ ‘‘اور ’’کیسے؟‘‘ سے ہی کھلتے ہیں، سوال کرنا انسان کی ذہانت کی علامت ہے ، اس کے ذہن ودماغ کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ۔ سوال کے وسیلے سے انسان کائنات کی گہرائیوں میں اترتا ہے ۔
ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے کہ ہم سوالوں کو پسند نہیں کرتے ، سوال ہم پر گراں گذرتے ہیں، والدین بچوں کے ، اساتذہ طلبہ کے اور حکمراں عوام کے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتے۔
بچو ں کے سوالوں کا تشفی بخش جواب دیں ، سوال کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کریں ، ان کے اندرکے تجسس کو مار کر ان پر علم کا دروازہ بند نہ کریں ، ان میں غور وفکر کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں ، اگر وقت پر سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے تو ان سے مہلت مانگیں، بلکہ خود آگے بڑھ کر ان کو سوال کرنا سکھائیں ، جواب تلاش کرنا سکھائیں۔
بچے اچھے برے کی تمیز کیسے کرتے ہیں ؟
بچے اپنے والدین اور اساتذہ کے رد عمل کے بنیاد پر کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا طے کرتے ہیں، کسی عمل پر والدین کی خوشی ، غصہ، شاباشی ، حوصلہ افزائی ، ناراضگی کی شدت کے اعتبار سے بچے کسی کام کا مرتبہ طے کرتے ہیں ،، اس لیے والدین کو اپنے رد عمل کے معاملہ میں ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے ، بچہ اگر نیکی اور بھلائی کا کوئی کام کرتا ہے تو اس پر اسی اعتبار سے خوشی کا اظہار اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اوراگر بچہ کوئی برا فعل انجام دیتا ہے تو اس پر کام کی برائی کے لحاظ سے غصے کا اظہار اور تادیبی کی کاروائی ہونی چاہیے۔
بچے کے برے کام پر آپ خوشی کا اظہار کریں گے تو وہ اسے اچھا کام سمجھے گا، جیسے بعض والدین کم عمر بچوں کی زبان سے گالیاں سن کر ہنستے ہیں ، اس سے بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ گالیاں دینا اچھائی کا کام ہے ، بچے کی بڑی غلطی پر آپ محض معمولی غصہ کا اظہار کریں گے تو وہ اسے معمولی غلطی کے خانے میں ڈال دے گا اور کسی چھوٹی سے غلطی پر اس کی پٹائی کردیں گے تو وہ اس کو بڑی غلطی کے خانے میں رکھے گا۔ الغرض بچے ہمارے رد عمل کی بنیاد پر اعمال کے مراتب طے کرتے ہیں، لہذا ہمارا ردّ عمل تربیت کا بڑا اہم ذریعہ ہے تو اس کا اظہار شعور اور منصوبے کے ساتھ ہونا چاہیے ۔
بچوں کو مارنا :
بچوں کو تادیبا مارنا بھی تربیت کا ایک وسیلہ ہے لیکن یہ مارنا بھی اصول وضوابط کے ساتھ ہونا چاہیے ۔
آخری حد تک کوشش کریں کہ بچوں کو مارنے کی نوبت نہ آئے ، اللہ کے نبی ﷺ دنیا کے سب سے اچھے مربی ہیں ، آپ نے کبھی کسی عورت، بچے یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا ، اگر اصلاح اور تربیت کے وسائل درست طریقے سے اختیار کیے جائیں تو مارنے کی نوبت بہت کم آئے گی۔
•بچوں کو ہر غلطی پر نہ ماریں ، بڑی غلطی پر ماریں، بات بات مارنے سے بچے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں ، بچے پر مار سے زیادہ مار کا خوف اثرانداز ہوتا ہے ، زیادہ مار کھانے والے بچے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں ، ان کے دل سے مار کا خوف نکل جاتا ہے، وہ مارکھانے کے عادی ہوجاتے ہیں ، پھر کوئی اور چیز ان کو غلطی سے نہیں روک پاتا۔
مارنا تربیت میں آخری تادیبی کاروائی ہے، جب تربیت ، افہام ، تفہیم اور اصلاح کے سارے وسائل اختیار کیے جاچکے لیکن اصلاح ہوکر نہ دے رہی ہو تو مارنا آخری حل ہوتا ہے ۔
•بچوں کو اس عمر میں ماریں جب ان کو مار کا مطلب سمجھ آتا ہو، اللہ کے نبی ﷺ نے نماز کے متعلق فرمایا کہ بچے کو سات سال کی عمر میں نماز کی تاکید کرو اور دس کی عمر میں نماز ترک کرنے پر مارو، اس حدیث سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ کم عمری میں بچے پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے ۔ کم عمری میں بچوں پر ہاتھ اٹھانے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان پر کیے جانے والا تشدد خود ان کے مزاج کا حصہ ہوتا ہے ، پھرے ایسے بچے دوسرے بچوں اور بڑوں پر ہاتھ اٹھانا سیکھ لیتے ہیں اور پھر پوری زندگی کے لیے یہ تشدد ان کی شخصیت کا جز بن جاتاہے ۔
بچوں کو تادیب کے لیے ماریں غصہ اتارنے کےلیے نہیں ، ہمارے معاشرے میں بہت سارے والدین کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ آفس اور گھر کا غصہ معصوم بچوں پر اتارتے ہیں ، عورتیں ساس ، سسر، نند اور شوہر سے لڑائی کرکے اور شوہر باس،کلیگز، کسٹمرز کا ٹینش گھر پہنچ کر بچوں پر انڈیل دیتا ہے ۔
مارنے میں اعتدال قائم رکھیں، ہلکی مار ماریں، جانوروں کی طرح بچوں کو نہ پیٹیں ، غصہ کی حالت میں نہ ماریں کیونکہ غصہ کی حالت میں دماغ اور ہاتھ قابو میں نہیں ہوتے ، مارنے کے کچھ دیر بعد محبت کا بھی اظہار کریں۔
مار کے ساتھ محبت بھی باقی رکھیں، بچوں کے ساتھ رویہ ایسا رکھیں کہ ان کے دل میں آپ کی محبت آپ کے خوف پر ہمیشہ غالب رہے ، زیادہ مارنے سے خوف محبت پر غالب آجاتا ہے ، بعض مرتبہ یہ خوف نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے ، بچے والدین سے نفرت کرنے لگیں یہ بہت بڑا نقصان ہے ، اس طرح تربیت کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے ۔
پیار کے ساتھ خوف بھی :
بچوں سے محبت ضرور کریں لیکن اس محبت کو اپنی ایسی مجبوری نہ بننے دیں جس کا بچے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیں ، محبت اور سختی میں توازن رکھیں ، آپ کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ کا خوف بھی بچے کے دل میں ہونا چاہیے ، حد سے بڑا ہوا لاڈ پیار بچوں کو بگاڑ دیتا ہے ، ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار میں پلے بڑھے بچے والدین کے نافرمان اور بد تمیز ہوتے ہیں، آپ کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی ڈانٹ اور مار کا خوف بھی بچے پر ہونا چاہیے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔

” علقوا السوط حيث يراه أهل البيت فإنه لهم أدب “.

“ایسی جگہ پر کوڑا لٹکاؤ، جہاں سے گھر والے افراد کو نظر آ سکے، کیونکہ یہ ان کیلئے با ادب ہونے کا سبب ہے۔“

(الطبراني: 10/344-345، السلسلة الصحيحة برقم 1447)

لہذا پیار اور محبت کے باوجود بچوں سے اتنا فاصلہ بناکر رکھیں کہ آپ کی شخصیت کی ہیبت اوررعب ان سے ختم نہ ہو۔
بچے کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں!
زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے خود اعتمادی اور عزت نفس لازمی ہے ، کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اپنی خوبیوں کاعلم ہو، اپنے صلاحیتوں پر اعتماد ہو، جو شخص اپنی نظروں میں گرجائے وہ دوسروں کی نظر میں اٹھ نہیں ، دوسروں سے عزت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلےانسان آپ خود اپنی عزت کریں۔
بچے کے دل میں بچپن سے ہی خود اعتمادی کو پروان چڑھائیں، ان کو احساس دلاتے رہیں کہ وہ منفرد ہیں ، با صلاحیت ہیں ، کسی سے کمتر نہیں ، ، ان کو ان کی عمر اور محنت کے اعتبار سے ان کا جائز مقام دیں ، ایسے باتوں سے گریز کریں جن سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، تنقید کی ضرورت ہوتو خیر خواہانہ اور مثبت انداز میں کریں، مجلس میں ، مہمانوں اور رشتہ داروں کے سامنے ، اس کے ٹیچر اور دوستوں کے سامنے ڈانٹنے ، سرزنش کرنے سے پرہیز کریں ، غلطیوں کی اصلاح تنہائی میں کریں ، اس کو نکما، گدھا، بے وقوف، نالائق نہ کہیں ، گالیاں نہ دیں ، بچے زبان اپنے ماں باپ سے سیکھتے ہیں، آپ کی زبان سے نکلنے والی گالیاں اس کے دماغ میں فیڈ ہوجائیں گی ، پھر وہی گالیاں غصے میں خود بخود اس کی زبان سے بھی نکلیں گی جس کا شکار کبھی آپ خود بھی ہوسکتے ہیں ۔
تنقید کے ساتھ تعریف بھی :
یہ ضروری ہے کہ بچے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ اپنا خیر خواہ سمجھیں ، مسلسل نکتہ چینی ، ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی سے بچے کے دل سے ماں باپ کے لیے احترام نکل جاتا ہے ، مسلسل نکتہ چینی کرنے سے بچے کے دل میں یہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ ماں باپ اس کے بدخواہ ہیں ، پھر وہ تنقید اور اصلاح کو منفی نقطہ نظر سے دیکھنے لگتا ہے پھر اس پر اصلاح اور تربیت کارگر نہیں ہوتی ۔ لہٰذا غلطیوں پر مثبت طریقے سے اصلا ح کے ساتھ ساتھ خوبیوں کی تعریف بھی کیجیے ، محنت کی حوصلہ افزائی بھی کیجیے۔
نادانستگی میں ہونے والے غلطی اور جرم میں فرق کریں!
بندوں کی بھول، چوک اور ناداستگی میں ہوجانے والی غلطی تو اللہ نے بھی معاف کی ہے ، لہذا جرم اور نادانستگی میں ہوجانےو الی خطا میں فرق کیجیے، بچہ کوشش کرنے کے باوجود اگر کامیاب نہیں پارہا تو اس کی ڈھارس بندھائیے ، حوصلہ افزائی کیجیے ، اس کی محنت کی تعریف کیجیے ، ناکامی سے بچے کا حوصلہ ٹوٹتا ہے ، لہذا ایسے وقت میں اس کو حوصلہ افزائی کی اور زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
بچے اچھل کود اور شرارت کود نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟
اچھل کود ایک حد تک بچے کی جسمانی نشونما کے لیے ضروری ہیں ، ان کو اتنی اچھل کود کے لیے اسکوپ دیں ، غذا سے جو توانائی بچوں کو ملتی ہے وہ اسی اچھل کود میں صرف ہوتی ہے ، بچوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ بڑے لوگوں کی طرح با ادب اور پرسکون انداز میں ایک جگہ بیٹھےرہیں گے ۔
بچوں کی شرارت ان کے ذہانت کی پیداوار ہوتی ہیں ، بچہ جتنا ذہین ہوتا ہے اتنا شرارتی ہوتاہے ،شرارت بچوں کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے ، اس لیے ان کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا ، البتہ ان شرارتوں کو مثبت رخ دے کر ان کی تربیت کی جاسکتی ہے ، ان کے تخلیقی صلاحیتوں کوپروان چڑھانے میں اس کا استعمال کیا جاسکتاہے۔

آپ کے تبصرے

3000