استاذ مکرم ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ

رفیق احمد رئیس سلفی تاریخ و سیرت

(یادیں اورتاثرات)

استاذ ذی مرتبت ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی شخصیت،ان کے خاندانی پس منظر،ان کے تعلیمی مراحل،ان کی علمی ،تدریسی،تصنیفی،صحافتی اور انتظامی سرگرمیوں کووہ اصحاب فضل وکمال شرح وبسط سے زیر قلم لاسکتے ہیں جو ا ن کے ساتھ رہے ہیں،ان کے ساتھ کام کیا ہے یا ان کے اعزہ واقارب میں ان کا شمار ہے۔ ان کی حیات کے یہ پہلو نمایاں ہوں تو شخصیت کو پہچاننے میں مدد ملے گی اور دور کے لوگ بھی ان سے واقف ہوسکیں گے۔اب تک جو مقالات یا مضامین ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر شائع ہوئے ہیں اور جن کو پڑھنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے،ان میں خاصا مواد موجود ہے۔اس کو مزید تفصیل سے لکھا جانا چاہیے۔جہاں تک سوال ان کی علمی اور تصنیفی خدمات کا ہے،اس کی قدروقیمت بھی متعین کرنا ضروری ہے۔مجھے امید ہے کہ ان کی تمام تصانیف اور علمی کاموں کا بھی تجزیہ ہوگا اور ہم ان سے مستفید ہوسکیں گے۔ان کی متنوع خدمات کو آشکارا کرنا،ان سے مستفید ہونا اور ان کو عام کرناایک جماعتی اور ملی فریضہ ہے۔
میں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں،سوچتا ہوں کہ ان کی عظیم شخصیت کے کس پہلو کو نمایاں کروں اور کسے زیر قلم لاؤں۔جامعہ سلفیہ میں ان سے تعلق کا تو سوال ہی نہیں تھا،ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا جائے اور وہ بھی ہمارے دور طالب علمی میں بہت کم طلبہ سے راست تعلق رکھتے تھے۔اس وقت ان کی مصروفیات تدریسی نہیں تھیں۔یہ میری اور میرے ہم درس ساتھیوں کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے کچھ دنوں تک عربی ادب کی کتاب’’مختارات‘‘کے چند اسباق پڑھائے تھے اور اس طرح پڑھایا تھا کہ آج بھی ان کی یاد تازہ ہے۔اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے فن پر کتنا عبور رکھتے تھے اور تدریس کے میدان میں ان کو کتنا ملکہ حاصل تھا۔جامعہ کی زندگی میں یہ ان سے استفادہ اور تعلق کی نوعیت ہے۔
میرے ان سے تعلق کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے جب میں علی گڑھ آیا اور ماہنامہ دعوت سلفیہ کی ادارت سنبھالی۔یہ رسالہ حاجی نذیر احمد سلفی رحمہ اللہ اور بھائی عبد السمیع صاحب ادارہ دارالحدیث سے نکالتے تھے اور اس کے ابھی دو چار شمارے ہی نکلے تھے کہ پروفیسر محمد معین فاروقی حفظہ اللہ اور محترم مولانا محمد عبدالمنان اثری حفظہ اللہ کے حکم سے اس کی ادارت کی ذمہ داری میں نے قبول کی۔جوش فراواں کے زیر اثر تیز وتند اداریے لکھنا اور ملی اور جماعتی مسائل پر بے باکی سے اظہار خیال کرنا اس کی خاص پہچان تھی۔ جلد ہی رسالہ ارباب جماعت کی نظر میں آگیا اور اس کے بعض مضامین موضوع بحث بننے لگے۔اسی رسالہ سے انھوں نے مجھے پہچانا اور پھر ملاقاتوں اور علمی روابط کا سلسلہ قائم ہوا جو ان کی حیات کے آخری سالوں تک جاری رہا۔ان کی بعض باتیں ،مشورے اور علمی مسائل پر تجاویز دل ودماغ میں محفوظ ہیں۔زیر نظر تحریر میں انہی کو گرفت میں لانے کی کوشش ہوگی اور اسی سے ان شاء اللہ ان کی شخصیت کے بعض ایسے پہلو سامنے آئیں گے جو میرے خیال میں ان کا امتیاز تھے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں جب ان کی وفات پر تعزیتی نشست منعقد ہوئی تو راقم کوبھی اس میں شریک ہونے کا حکم ملا اور صدر شعبہ پروفیسر کفیل احمد قاسمی صاحب نے اس میں پہلی تقریر کرنے کی دعوت مجھے اس اعلان کے ساتھ دی کہ رفیق صاحب ان کے شاگرد ہیں،میں چاہتا ہوں کہ ان کی شخصیت پر وہی پہلے اظہار خیال کریں۔میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا لیکن حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔وفات کی خبر سے ویسے ہی دل بیٹھا جارہا تھا ،بڑی مشکلوں سے ان کی شخصیت اور فکر سے متعلق منتشرچند باتیں عرض کیں۔ اس نشست میں جماعت اہل حدیث کی نمائندگی کے حوالہ سے میں نے یہ بات نمایاں کی اور بعد میں بھی لوگوں نے اسے دہرایا کہ وہ اپنے فکر اور مسلک کی ترجمانی بڑی متانت اور پختگی سے کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے اہل علم کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بات پورے اعتماد سے علمی انداز میں پیش کرتے تھے۔استاذ جلیل کے استاذ گرامی پروفیسر مختارالدین آرزو صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ جب مجھے ان کی وفات کی خبر ملی تو میں بے چین ہوگیا۔رات میں دیر تک نیند نہیں آئی۔ آخر ان کے خطوط کا لفافہ طلب کیا اور دیر رات تک ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے خطوط پڑھتا رہا جن کی تعداد ایک سوبارہ (غالباً یہی تعداد پروفیسر صاحب نے ذکر کی تھی) تھی۔ان خطوط سے ان کی ساری یادیں تازہ ہوگئیں۔پروفیسر کفیل احمد قاسمی صاحب نے شعبہ کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ان کا ہمارے شعبہ سے گہرا اور والہانہ تعلق تھا،ہم کوشش کریں گے کہ ان کے اہم علمی اور ادبی مقالات کا کوئی مجموعہ شعبہ کی طرف سے شائع کریں ۔خدا کرے کہ شعبہ عربی اپنے اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوسکے۔
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی علمی زندگی کا یہ پہلو انتہائی تابناک رہا ہے کہ انھوں نے جامعہ سلفیہ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بڑی خوش اسلوبی ،خلوص اور امانت داری سے ادا کیا ہے۔ماہنامہ صوت الامۃ نہ صرف جامعہ کا ترجمان تھا بلکہ سلفیان ہند کی بھی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا۔اس میں شائع ہونے والے تمام مضامین اور مقالات کو دیکھنا،زبان وبیان کے نوک پلک سنوارنا اور عرب اور علمی دنیا میں اسے مقبول بنانا آسان کام نہیں تھا۔اداریہ لکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے ہر پہلو پر نظر رکھنا ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔بعض لوگ جن کی علمی دنیا میں کوئی اچھی شناخت نہیں ہے ،یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ ان کے یہاں انتاج نہیں ہے،فکرو خیال میں کوئی خاص ندرت اورجدت نہیں ہے ،ان کے یہاں مداہنت ہے اور منہج سلف کے خلاف لکھنے بولنے والوں کی پذیرائی ہے ۔یہ شکایت بے جا ہے اور اپنے زمانہ سے بے خبری کی دلیل ہے۔ڈاکٹر ازہری کے اداریوں پر اگر ایک نظر ڈالی جائے توصاف نظر آتا ہے کہ وہ منہج سلف اور دعوت کتاب وسنت کے کسی نہ کسی پہلو کو معروضی انداز میں پیش کرکے قارئین کو غور وفکرکی دعوت دے رہے ہیں اور اپنی بات دوسروں کی تحریر سے مدلل کرکے مخالف نقطہ نظر کے حاملین کو سوچنے پر مجبور کررہے ہیں۔قرآنی حکم حکمت،موعظت اور جدال احسن کی یہی عملی صورت ہے اوریہ صحافت کا ایک خاص اسلوب ہے،جس میں انھیں خاص امتیاز حاصل تھا۔آج کتنے لوگ ہیں جو منہج سلف کی دہائی دیتے ہوئے اور غیرت وحمیت کا نعرہ لگاتے ہوئے ثقاہت سے فروتر زبان لکھتے ہیں اور مخالف نقطہ نظر کے تعلق سے اتنی پھوہڑ اور ناشائستہ تحریر لکھتے ہیں کہ پڑھ کر ابکائی آجائے۔یہ نادان اور سادہ لوح سمجھتے ہیں کہ وہ منہج سلف کی خدمت کررہے ہیں اور جیسے منہج سلف ان کی خواہشات کی کنیز ہے کہ وہ جو بھی ہفوات تحریر فرمائیں گے وہ منہج سلف قرار پائے گا۔اللہ کی جس کتاب نے معبودان باطلہ کو برا کہنے سے روک دیا ہو کہ کہیں جواب میں وہ تمھارے معبود حقیقی کو گالی نہ دے دیں اور جس نبی رحمت نے یہ فرمایا ہو کہ دوسروں کے ماں باپ کو گالی دینا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے، اس کا دم بھرنے والے بعض غیر ذمہ دارحضرات دوسرے مکاتب فکر کے علماء کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور ان کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ تم بھی ہمارے علماء کی عزت وحرمت پامال کرو۔علم وفکر سے تہی مایہ یہ لوگ قرآن کی اس آیت کو نہیں دیکھتے کہ وہ عیسائیوں کی گمراہیوں کا تذکرہ کرتا ہے لیکن ان میں جو لوگ خشیت الٰہی سے سرفراز ہیں ان کی تعریف بھی کرتا ہے۔آج یہ کون سا منہج سلف سامنے آیا ہے کہ اس میں کسی کی خوبیوں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف کمیاں اور کوتاہیاں ہی موضوع بحث بنتی ہیں۔منہج سلف کی تعبیر وتشریح دور حاضرکا ایک اہم موضوع ہے اور یہ ہماری جماعت کی ایک بڑی علمی ضرورت ہے۔ دیکھیے کب اس پر کہیں کوئی سیمینار ہوتا ہے اورہمارا ذہن صاف ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ بڑی خوبی تھی کہ انھوں نے اپنی تحریروں میں اس طرح کی کمزوری کو در آنے کا کبھی موقع نہیں دیا۔منہج سلف کی ترجمانی ہمیشہ کتاب وسنت اور سلف کی روشن تعلیمات کے ذریعہ فرماتے رہے۔ نبی اکرم کے کئی ایک ارشادات’’مابال باقوام۔۔۔۔‘‘جیسے الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔کیا نبی رحمت کو متعلقہ شخصیات کے اسمائے گرامی معلوم نہیں تھے۔معلوم تھے ،اچھی طرح معلوم تھے لیکن آپ ان کی عزت ملحوظ رکھتے تھے۔خطبہ دیا ،باتیں ارشاد فرمائیں،تنبیہ کی اور اپنا اسوہ مبارک بتادیا۔متعلقہ لوگ متنبہ ہوگئے اوردوسروں کو بھی نصیحت مل گئی۔کیا سلفی منہج یہ نہیں ہے کہ صرف افکار ونظریات زیر بحث لائے جائیں،ان کی علمی تردید دلیل وبرہان سے کی جائے،کتاب وسنت سے دلائل دیے جائیں اور فریضہ دعوت کا حق ادا کردیا جائے۔لہک لہک کر ناموں کا اعلان کرنا،دلوں میں جھانکنا،شبہات ظاہر کرنا،سوئے ظن میں گرفتار ہونا،الزام تراشی کرنا اور غیر مہذب زبان تحریر کرنا کون ساسلفی منہج ہے۔جماعت حقہ کے یہ نام نہاد خیر خواہ اور نادان دوست دعوت کتاب وسنت کی پوری جدوجہد کو سبوتاژ کررہے ہیں اور غیروں کی نظر میں اس کے علمی وقار کو مجروح کررہے ہیں۔واللہ المستعان
’’صوت الامہ‘‘عربی زبان میں جماعت کا واحد رسالہ ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ شائع ہورہا ہے اور عالم عرب میں اسے وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کا اسے پابندی سے نکالتے رہنا کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ان کے اداریوں کو بے جان اور پھسپھسا کہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی کام پابندی سے کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔کئی ایک عربی رسالے جماعت کے اداروں نے جاری کیے لیکن انجام سب ہی کو معلوم ہے۔مزاج یکساں نہیں ہوتا،طبیعت برابر نہیں رہتی،گھر اور باہر کے دسیوں مسائل گھیرے رہتے ہیں۔اس کے باوجود کوئی ذمہ داری نبھاتے رہنا اور اس میں کسی طرح کا فرق نہ آنے دینا ایک عظیم کارنامہ ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جماعت کے بعض اداروں کے ترجمان میں ایک خاص قسم کے اداریے شائع ہوئے جس میں یہ تحریر کیا گیا کہ جمعیۃ کے قائدین نے قحط الرجال کا شوشہ فقط زیب داستان کے لیے بڑھا دیا ہے ورنہ ہماری جمعیۃ میں رجال کار کی کوئی کمی نہیں ہے۔ماہنامہ دعوت سلفیہ علی گڑھ میں راقم نے بھی اسی مضمون کا ایک پرجوش اداریہ بعض علمی شخصیات کے حوالہ سے تحریر کردیا جن کو ہمارے بعض ثقہ اداروں نے اپنے یہاں سے رخصت کردیا تھا۔ڈاکٹرصاحب کی نظر سے جب یہ تحریریں گزریں تو انھوں نے ان کا راست نوٹس لینے کی بجائے چند قدیم علمائے اہل حدیث کی بعض تحریروں کے اقتباسات پر مشتمل ایک مختصر مضمون ماہنامہ محدث میں تحریر فرمایا جن میں قحط الرجال کی شکایات موجود تھیں۔کسی کانام لینے یا کسی کاجواب دینے کی بجائے انھوں نے بالکل معروضی انداز اپنایا اور جماعت کے اصحاب فکر کو بتادیا کہ قحط الرجال کا شوشہ موجودہ قیادت نے زیب داستان کے لیے نہیں بڑھایا ہے بلکہ ہمارے اسلاف کو اس کا احساس بہت پہلے سے رہا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ دور حاضر میں سلفی فکر ومنہج کو جس علمی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے ،اس کے لیے افراد کہاں ہیں اور اگر ہیں تو نشان دہی کی جائے کہ وہ کون کون ہیں۔
دینی اداروں میں جس طرح کے مسائل ہوتے ہیں اور انتظامیہ،اساتذہ اور طلبہ کے درمیان جس طرح کے روابط ہوتے ہیں،ان سے ادارے کا انتظام سنبھالنے والے اچھی طرح واقف ہیں۔آزاد ہندوستان میں حکومت سے تعاون لیے بغیر ان اداروں کو چلانا اور ان سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا بہت زیادہ آسان نہیں ہے۔ساحل پر کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے والے ان کی داخلی اور بیرونی پیچیدگیوں کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ طالب علمی کے دور میں ناپختہ ذہن کے ساتھ ہم طلبہ بھی بہت اچھل کود مچایا کرتے تھے۔ اس اچھل کود کو توانائی بعض نوعمر اساتذہ بھی بسااوقات فراہم کردیا کرتے تھے اور اس طرح ہمیں اپنی شرارتوں پر کلی اعتماد ہوجاتا تھا۔اسی طرح کے حالات میں بعض دینی اداروں میں ہڑتال ہوتی ہے اور طلبہ ہنگامہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔جامعہ سلفیہ بنارس کے ساتھ بھی یہ حادثہ پیش آیا اور اس کے نتیجہ میں بہت سے طلبہ کا اخراج عمل میں آیا۔ڈاکٹر ازہری صاحب ان ایام میں بیرون ہند کے دورے پر تھے۔واپس آئے تو ظاہر ہے کہ ان کو اس کا بڑا صدمہ تھا لیکن جو فیصلہ لیا جاچکا تھا اس میں وہ بہت زیادہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ہم میں سے بعض طلبہ کو اس کا بڑا غصہ تھا اور اس کا اظہار کسی نہ کسی صورت میں ہوجایا کرتا تھا۔ڈاکٹر صاحب کو اس صورت حال کا مکمل علم رہتا تھا اور وہ طلبہ کے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔اسی سلسلے میں ایک بار دہلی میں ملاقات ہوئی تو شفقت سے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:آپ سے کچھ اکیلے میں بات کرنی ہے۔چنانچہ سہما سہما ان کے ساتھ مرکزی جمعیۃکے آفس کے ایک کمرے میں گیا۔انھوں نے سامنے کرسی پر بٹھایا اور فرمایا کہ آپ حضرات کی ساری تحریریں میری نظر سے گزرتی ہیں اور میں ان کو توجہ کے ساتھ پڑھتا ہوں۔یہ بات بالکل درست ہے کہ جامعہ سلفیہ کے فیصلہ سے بعض معصوم اور بے گناہ طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ہم سب کو اس بات کا احساس ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مادر علمی سے نفرت کی جائے اور جماعت کے سب سے بڑے ادارے کے ساتھ بدخواہی کا معاملہ کیا جائے۔اپنی صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میں صرف کرو۔مجھ سے کوئی مدد چاہتے ہو تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میں بھی جامعہ فیض عام کا نکالا ہوا ہوں۔لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کروں۔تم لوگ اپنے رویہ کو بدلو۔جامعہ سلفیہ نے جو فیض پہنچایا ہے اسے بروئے کار لاؤ اور مثبت انداز میں کام کرو۔ان کی یہ نصیحت دل میں بیٹھ گئی اور پھر اس پہلو پر سوچنا اور لکھنا بند ہوگیا۔آج جب ڈاکٹر صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کی یہ باتیں رہ رہ کر یاد آتی ہیں اور سوچتا ہوں کہ اگر ان کی یہ نصیحت نہ ملی ہوتی تو قلم کہاں کہاں بہکتا اوراس کی آوارگی کہاں لے جاتی،اس کا تصور بھی سوہان روح ہے۔یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے ورنہ وہ علم اور منصب کے اعتبار سے جتنے بڑے تھے ،اس کے سامنے ہم خوردوں کی کیا اوقات تھی۔آج کتنے لوگ ہیں جو برگشتہ طلبہ کو سدھارنے کا یہ ہنر اپناتے ہیں اور پوری فکر مندی سے ان کو راہ راست دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی ایک خصوصیت ان کی علم دوستی اور علم نوازی بھی تھی۔علمی کاموں کی توقیر کرنا اور اسے سراہنا ان کا نمایاں وصف تھا۔میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں کہ کسی کام کا تعارف کررہے ہیں تو کلیجہ بھنچ بھنچ جاتا ہے اور الفاظ بڑی مشکلوں سے نکلتے ہیں۔ایک بڑی شخصیت کے بعض علمی نوادرات کی ترتیب دینے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ایک صاحب نے اس کا تعارف کرایا لیکن پورے تعارف میں بڑی مشکل سے ایک جملہ آیا کہ فلاں صاحب نے یہ کام کرکے ایک علمی خدمت انجام دی ہے حالانکہ اسے پڑھنے،سمجھنے اور ترتیب دینے میں تقریباً چھ ماہ کا عرصہ صرف ہوا۔اس میں درج فقہی مسائل کوتفصیل سے مرتب کیا۔اس کے شائع ہونے پر ایک دوسرے بزرگ نے اپنے پاس موجود اسی شخصیت کے نوادرات کے منتشر اوراق ارسال کردیے اور فرمایا کہ کئی لوگوں کے حوالہ اسے کیا لیکن کوئی اسے نہ پڑھ سکا اور نہ اسے میری مرضی کے مطابق مرتب کرسکا۔شخصیت سے محبت اور عقیدت نے آمادہ کیا کہ اسے بھی مرتب کروں اور بحمد اللہ یہ مجموعہ بھی آب وتاب کے ساتھ منظر عام پر آیا۔اتنی محنتوں کے بعد جو علمی خدمت انجام پائی جس پر کسی مادی فائدہ کی امید نہیں تھی،ایک عزیز نے جب ان دونوں نوادرات کے فقہی حصہ کو اپنے ایک بڑے مجموعہ میں شامل کیا تو کتابیات کی فہرست میں جہاں ان دونوں مجموعوں کا ذکر کیا ،معلوم نہیں کن اسباب کی بنا پر مرتب کا نام نہیں درج کیاجب کہ یہ مصادرومراجع کی تعیین وتفصیل کے علمی اصولوں کے خلاف ہے حالانکہ وہ عزیز صرف مدرسے کا سند یافتہ نہیں بلکہ ایک بڑی یونیورسٹی کا اعلی تعلیم یافتہ ہے۔ایک بڑے عالم دین کی ایک عربی تحریر میں ’’علوم الحدیث:مطالعہ وتعارف‘‘کا حوالہ دیکھا تو اس میں مرتب کا نام دینے کی بجائے تحت اشراف فلاں لکھنے پر اکتفا کیا گیا تھا۔اس طرح کی سیکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں لیکن استاذ جلیل کی علم دوستی اور قدر دانی دیکھیے کہ جب علی گڑھ میں شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ کے تعاون سے ’’علوم حدیث:مطالعہ وتعارف ‘‘کے موضوع پر سیمینار کیا اور ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کے لیے بنارس حاضری ہوئی تو پہلے انھوں نے موضوع کی نزاکت کا احساس دلایا اور کہا کہ یہ بڑا کام ہے ،تم اتنے کم وسائل کے ساتھ اسے کیسے انجام دے سکوگے۔سیمینار کی تاریخوں کا اعلان ہوا اور اہل علم کی آمد کی منظوری مل گئی تو یہ ازہری صاحب کی ذات گرامی تھی کہ جامعہ کے تین اساتذہ کرام کو جامعہ کے خرچ پرسیمینارمیں بھیجا اور ہمارے اوپر اس کا بار نہیں آنے دیا۔سیمینار کی کامیابی کی جب رپورٹ انھیں ملی تو بہت خوش ہوئے اور فون کرکے مبارک باد دی اور دیر تک اس کی تفصیلات سنتے رہے۔کچھ ہی دنوں بعد اپنا مقالہ بھی مرتب کرکے بھیج دیا۔پھر جب برادر محترم مولانا عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کی کوششوں سے مجموعہ مقالات کی اشاعت کا انتظام ہوا اور میں نے پورے ایک سال تک محنت کرکے اسے شائع کیا تو بے پناہ خوشی کا اظہار فرمایا اور یہ بات کئی لوگوں کے سامنے کہی کہ مجھے حیرت ہے کہ اتنا بڑا ،بیش قیمت اور مہتم بالشان مجموعہ تم نے اکیلے ترتیب دے کر کیسے شائع کردیا۔ہم نے کئی سیمینار کیے لیکن ان کے مقالات کی ترتیب آج تک نہیں ہوپائی ہے۔میرے مطالبہ کے بغیر اس مجموعہ مقالات پر ماہنامہ صوت الامۃ کا اداریہ لکھا اور دل کھول کر اس کی تعریف کی۔حدیث نبوی پر مقالات کا یہ مجموعہ آج بحمد اللہ مرجع کی حیثیت سے استعمال ہورہا ہے۔پاکستان سے بھی اس کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔اللہ تعالیٰ ان تمام دوستوں کو دنیا اور آخرت میں سرخروئی عطا فرمائے جنھوں نے اس میں کسی طرح کی بھی مدد فرمائی ہے۔جماعت کے مستند مورخ اور عظیم مصنف مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے مجموعہ مقالات کی وصولیابی پر مفصل خط تحریر فرمایا تھا جس میں انھوں نے اسے غیر مسبوق ایک اہم علمی خدمت قرار دیا تھا،یہاں گنجائش نہیں ہے کہ ان کی تحریر درج کروں،ان شاء اللہ کسی اور موقع سے قارئین ذی اکرام کی خدمت میں اسے پیش کیا جائے گا۔ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کے دل میں اس کام کی بڑی وقعت تھی اور وہ برملا اس کا اظہار فرماتے تھے۔
اسی طرح جب برادر محترم مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ کی علم دوستی سے متاثر ہوکر میں نے صفا شریعت کالج کے آرگن’’ماہنامہ نداء الصفا‘‘کی ادارت سنبھالی اور پھر اسی تعلق سے صفا شریعت کالج میں کئی ایک سیمینار کا خاکہ مرتب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تو ان سے مزید قربت پیدا ہوئی۔مولانا عبدالواحد مدنی کا شمار ان کے قریبی تلامذہ میں ہوتا ہے اور وہ ہر طرح کے علمی کاموں میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی ذرہ نوازی اور علم دوستی کو اس کے ایک سیمینار کے حوالہ سے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مدارس دینیہ میں قرآن کی تعلیم وتدریس کے جو اثرات ظاہر ہونے چاہئیں،وہ نہیں ہورہے ہیں۔خاص طور پر سلفی مدارس نے جتنے اہتمام سے حدیث کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری کیا ہے،اس طرح کا اہتمام کسی وجہ سے قرآن پاک کے بارے میں نہیں ہوپایا ہے۔انھوں نے فون پر تفصیل سے اپنے خیالات ظاہر فرمائے اور حکم دیا کہ’’ مدارس کے نصاب تعلیم میں قرآن کا مقام اور اس کا منہج تدریس‘‘کے مرکزی عنوان پر ایک سیمینار کا خاکہ مرتب کرکے ارسال کرو۔علی گڑھ میں اپنے حلقہ احباب سے مشورہ کرکے ایک مفصل خاکہ مرتب کیا اور انھیں بھیجا۔انھوں نے اس خاکہ کو ڈاکٹر ازہری صاحب کی خدمت میں ارسال کیا۔انھیں بھی یہ پسند آیا اور پھر جماعت کی تاریخ میں اس نوعیت کا پہلا سیمینار صفا شریعت کالج، ڈومریاگنج نے منعقد کیا۔مختلف مکاتب فکر کے اہل علم کتاب الٰہی کے تعلق سے کشاں کشاں سیمینار میں تشریف لائے اور بہت کامیاب سیمینار منعقد ہوا۔ڈاکٹر ازہری صاحب اس سیمینار کے صدر نشیں تھے اور اس کی تمام نشستوں میں اسٹیج پر موجود رہے ،اپنا گراں قدر مقالہ بھی پڑھا اور قرار دادیں بھی مرتب کرائیں۔
مولانا عبدالواحدمدنی کے حکم کے مطابق جب اس سیمینار کے مقالات کا مجموعہ مرتب کیا اور قرآن اکیڈمی، ڈومریاگنج نے اسے شائع کیا تو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور جامعہ سلفیہ کے عربی ترجمان میں اس پر بھی مفصل اداریہ تحریر فرمایا جس میں خاکسار کے مقدمہ کے بعض اقتباسات کا ترجمہ بھی اپنے تبصرہ میں شامل کیا۔آج سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ازہری صاحب کو ہم سے کیا لالچ تھی،کیوں انھوں نے اس خدمت کو جماعت کی تاریخ کا ایک حصہ بنادیا۔سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی علم دوستی نے انھیں اس کام کے لیے آمادہ کیا۔ان کا یہ بھی جذبہ تھا کہ یہ ہمارے شاگرد مستقبل کے معمار ہیں،ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ یہ مزید محنت سے جماعت کی علمی ضروریات پوری کریں۔آج کتنے مدعیان زہد واتقا ہیں جو دوسروں کے علمی کاموں کو نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ اگر کہیں اس کا ذکر آجائے تو ان کے منہ کا ذائقہ بگڑ جاتا ہے۔ صحیح ہے کہ حسد سب سے بڑی برائی ہے اور انسان کی ساری نیکیوں کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے ۔قرآن کے مجموعہ مقالات کے تعلق سے یہ حقیقت بھی حیرت ناک ہے کہ ہماری جماعت کے کسی دوسرے رسالہ کو اس مجموعہ مقالات کا تعارف کرانے کی توفیق نہیں ملی،البتہ پاکستان میں ڈاکٹر سفیر اختر صاحب کو میرے مخلص دوست مولانا سراج الدین مکی نے اس کی دوکاپیاں ارسال کردی تھیں،انھوں نے ’’سہ ماہی فکر ونظر اسلام آباد ‘‘میں اس پر مفصل تبصرہ کیا اور دل کھول کر اس کی تعریف کی اور ادارہ سے درخواست کی کہ اسے یہاں بھی شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔
صفا شریعت کالج کے ایک سیمینار سے فارغ ہوکر ڈاکٹر ازہری صاحب کی معیت میں جامعہ اسلامیہ دریاباد حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔بہت دنوں سے خواہش تھی کہ اس عظیم اور اپنی نوعیت کے منفرد ادارہ کو دیکھا جائے۔اللہ نے یہ خواہش پوری فرمائی اور وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی معیت میں۔قافلہ میں شیخ اسعد اعظمی اور شیخ محمد مظہر سلفی بھی تھے ۔جامعہ کے ذمہ داران نے پرتپاک خیر مقدم کیا اور میرے محسن اور مخلص دوست مولانا ابوالہاشم عالیاوی حفظہ اللہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ڈاکٹر صاحب کا بھی یہ پہلا سفر تھا ،انھوں نے جامعہ کو دیکھ کر بڑی خوشی ظاہر فرمائی اور ذمہ داروں کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔وہاں ایک مشکل مرحلہ یہ بھی تھا کہ طلبہ اور اساتذہ کو خطاب کرنا ہے۔ہم سب مسجد میں حاضر ہوئے اور تما م لوگوں نے تحیۃ المسجد کی سنت ادا کی اور پھر پروگرام کا آغاز ہوا۔قافلہ کے تما م ہی شرکاء کو خطاب کرنا تھا۔برادر محترم شیخ اسعد اعظمی اور برادر فاضل شیخ محمد مظہر سلفی کے بعد مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں خطاب کرنا اور وہ بھی کوئی کام کی بات کہنا ایک بڑی آزمائش تھی۔زیادہ بولنے کی بیماری تو پہلے سے تھی،کھڑا ہوا تو وقت کا پتہ نہیں چلا اور بہت کچھ کہہ گیا۔طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے ایک بات یہ بھی عرض کی کہ دارالاقامہ میں رہتے ہوئے بسااوقات گھر جیسی پریشانی آسکتی ہے۔ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے جس طرح اس پریشانی کو انگیز کرتے ہیں،اسی طرح ہمیں یہاں بھی ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔اداروں میں اس طرح کی باتوں کو لے کر الجھن کھڑی کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور یہ آپ کی تعلیمی زندگی کے لیے بہت مضر ہے۔دوسری بات جامعہ کے امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے یہ عرض کی کہ ہماری جماعت میں بحمد اللہ احادیث نبوی کی تحقیق وتخریج میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے تو اس سلسلہ کو بلندیوں تک پہنچادیا ہے۔آج ضرورت ہے کہ فقہ الحدیث پر بھی کام کا آغاز کیا جائے اور محدثین کرام نے سنن وجوامع مرتب کرکے احادیث رسول کو جس طرح زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے سہل الوصول بنایا تھا،ہم اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اگر ایک حدیث کو دس ابواب میں ذکر کرکے دس مسائل مستنبط کیے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ان سے زمانہ کی ضروریات کے مطابق گیارہواں اور بارہواں مسئلہ مستنبط نہ کریں۔آخر میں ڈاکٹر صاحب نے جب خطاب فرمایا تو میری بعض باتوں کی تائید وتصویب فرمائی اور اس کی مزید وضاحت فرمائی۔یہ بھی فرمایا کہ فقہ الحدیث پر کام کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے حافظ محمد عمران لاہوری حفظہ اللہ کی تحریر فرمودہ کتاب ’’فقہ الحدیث‘‘کا حوالہ دیا۔یہاں ڈاکٹر صاحب کی ذرہ نوازی دیکھیے کہ انھوں نے تمام مثبت باتوں کی تائید فرمائی اور جہاں جہاں انھیں نظر آیا کہ اس پر حاشیہ لگانے کی ضرورت ہے،وہاں اپنے بیش قیمت خیالات سے ہمارے علم میں اضافہ فرمایا۔بعض حضرات کے پندار علم کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی بات کہنی ہے کسی کا ذکر کیوں کیا جائے لیکن ڈاکٹر صاحب کی ذات گرامی منفرد تھی۔انھوں نے اپنے خطاب میں میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی اور جہاں فکر ونظر میں کمی یا کوتاہی محسوس کی،اس پر خوبصورتی سے متنبہ بھی کیا۔دریاباد کا یہ سفر بڑا دلچسپ تھا،طرح طرح کی علمی باتیں ہوتی رہیں اور ڈاکٹر صاحب اس میں ایک دوست کی طرح شریک رہے۔یہاں ایک دلچسپ بات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا،اس کا تعلق بھی ڈاکٹر صاحب کے ایک خاص زاویہ نگاہ سے ہے۔دوران سفر علمی باتیں ہورہی تھیں کہ بعض بڑی شخصیات کے بعض تفردات کا ذکر آگیا۔ان دنوں میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ کی کتاب’’ابو ھریرۃ فی ضوء مرویاتہ‘‘سے کچھ احادیث کا ترجمہ ’’ماہنامہ نداء الصفا‘‘میں شائع کررہا تھا۔میری نظر اس میں ایک جگہ یہ دیکھ کر رک گئی کہ ڈاکٹر اعظمی صاحب نے طلاق بائن کے بعد حلالہ کے مسئلہ میں احناف کے نقطہ نظر سے ملتی جلتی بات لکھی ہے۔میں نے جب ڈاکٹر ازہری صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ان کی تعلیم جامعہ دارالسلام عمر آباد میں ہوئی ہے۔یہی کہہ کر انھوں نے اپنی بات مکمل کردی اور شرکائے سفر کی سمجھ میں بات آگئی۔
جامعہ میں ایک ایسا نازک وقت بھی ان پر آیا جب ان کا طرز عمل بعض محترم ذمہ داروں کو گراں گزرنے لگااوران کی ذات گرامی کے تعلق سے شکایات پیدا ہونے لگیں۔اس مسئلہ میں کس کا موقف درست تھا اور کس کا غلط تھا۔یہ فیصلہ کرنا نہ میرا کام ہے اور نہ مجھے حق ہے کہ اس پر اظہار خیال کروں۔انہی دنوں ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی کی دعوت پر علی گڑھ تشریف لائے۔یہ باتیں میں بھی سن چکا تھا۔یونیورسٹی کے مہمان خانہ میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو اس تعلق سے اپنی تشویس ظاہر کی۔انھوں نے فرمایا کہ تم نے جو کچھ سنا ہے وہ صحیح ہے لیکن جس جامعہ میں اپنی ساری صلاحیتیں لگادی ہیں اور جس جامعہ سے قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ ہے ،اسے کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں۔یہ بات انھوں نے اس پس منظر میں کہی تھی کہ ان کے بعض تلامذہ کا مشورہ تھا کہ جامعہ چھوڑ دیں۔ڈاکٹر صاحب کے لیے دنیا پڑی تھی،وہ اپنے لیے کہیں بھی جگہ بناسکتے تھے لیکن جامعہ کی خدمت کو انھوں نے ترجیح دی اور آخر کار بدلے ہوئے حالات میں اپنے لیے جگہ بنائی اور زندگی کی آخری سانس تک اس سے وابستہ رہے۔آج سوچتا ہوں تو دل بھر آتا ہے کہ میری طالب علمی کے زمانے میں جس استاذ جلیل کے رعب اور دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ان کے حکم اور مشورہ کے بغیر کوئی پتہ نہیں ہلتا تھا،اسی جامعہ میں انھوں نے اپنے شاگردوں اور خوردوں سے تال میل بناکر جامعہ کی خدمت کی۔اپنے مقام اور مرتبہ سے تنازل کیا،لیکن ایک روحانی تعلق تھا جامعہ سے ،اس کی خاطر انھوں نے سب کچھ گوارا کیا۔ان کے کتنے شاگردوں نے ذرا سی بات پراختلاف ہوتے ہی ان مدارس سے استعفا دے دیا جہاں ان کو مامور کیا گیا تھااور اپنا ذاتی ادارہ کھول کر بیٹھ گئے اور آج وہ شاداں وفرحاں ہیں،پھل پھول رہے ہیں اور طالبان علوم نبوت کی تعلیم وتربیت کا اپنا مستقل نظام چلارہے ہیں۔اگر ڈاکٹر صاحب چاہتے تو الگ سے ایک جامعہ کھول دیتے اور اس کے موسس بن کر آزادی سے دن گزار لیتے لیکن انھوں نے ایسا نہ کبھی سوچا اور اور نہ اس کی منصوبہ بندی کی۔آج خیال آتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد جامعہ نے ان کے لیے کیا کیا اور وہ ان کے لیے کربھی کیاسکتی ہے۔ منصب،فرائض اور ذمہ داریوں کے تعلق سے آج کچھ لوگ اس مرد درویش کو ہدف ملامت بنارہے ہیں جس نے اندھیروں میں بھی سلفیت کا چراغ روشن رکھا اور جہاں جہاں گیا،سلفیت کی عزت وآبروکو چار چاند لگا کر واپس آیا۔خون جگر جلاتا رہا اور کسی ستائش اور صلہ کی تمنا کیے بغیرسلفیان ہند کے مرکزی ادارہ کی شہ رگ بنارہااور زندگی کی آخری سانس تک صرف اس کی تعمیر وترقی کے بارے میں فکر مند رہا۔اللہ ان کی خدمات کا اجر عظیم انھیں عطافرمائے اور اپنے محبوب بندوں میں ان کو شامل فرمائے۔آمین
ایک مرتبہ بنارس حاضری کے موقع پر عرض کیا کہ اب کمپیوٹر آگیاہے،علمی کاموں کے لیے اس کا استعمال کریں تو فرمایا:میاں ٹائپ رائٹر سیکھ لیا تھا تو مصر سے آنے کے بعد جامعہ میں ساری مراسلت ٹائپ رائٹر سے مجھے ہی کرنی پڑتی تھی یہاں تک کہ ہاتھ سے لکھنے کی نوبت کم آتی تھی۔اب کمپیوٹر سیکھ کراس عمر میں اپنے لیے کوئی نئی پریشانی بڑھانے کا ارادہ نہیں ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جامعہ کی کس قدر خدمت کی ہے اور اپنی بھرپور زندگی میں اسے کہاں سے کہاں پہنچایا ہے۔
ایک قابل صد احترام استاذ نے جو شعر وادب اور تحریر وانشاسے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں،’’آنسو ‘‘کے نام سے اپنا مجموعہ کلام شائع کیا۔مجموعہ کلام کا یہ نام انھوں نے کافی غور وفکر کے بعد تجویز کیا ہے۔ان کا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ جہاں جہاں گئے اور جن جن لوگوں سے واسطہ پڑا،انھوں نے انھیں خون کے آنسو رلائے ہیں۔چاہے وہ مدینہ طیبہ کی پاک سرزمین ہو،بنارس میں جامعہ سلفیہ کا پروقار کیمپس ہو،فیجی کی دعوت وتربیت کی پیاسی زمین ہو یا علی گڑھ کا علم وہنر کا شہر ہو،ہر جگہ آنسو دینے والے لوگ ملے اورانھوں نے ظلم وستم کی انتہا کردی۔استاذ مکرم نے اسی مجموعہ میں وہ مرثیہ بھی شامل کیا ہے جو انھوں نے اپنی پہلی بیوی کی وفات پر لکھا ہے اور یہ حقیقت واقعہ ہے کہ یہ ایک بڑا سانحہ تھا جس سے پوری فیملی متاثر ہوئی ۔اللہ وفات پانے والی خاتون کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔یہی مرثیہ کتاب کے عنوان کی نمائندگی کرتا ہے ۔مقدمہ کتاب میں جو کچھ صیغہ غائب سے تحریر کیا گیا ہے ،اس کے بارے میں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کسی نے ظلم وزیادتی کی ہو اور بدخواہی کرکے اپنی عاقبت خراب کرنے کا سامان کیا ہولیکن شاید دنیا میں اس کا کوئی حتمی اور آخری فیصلہ نہ ہوسکے ۔اب یہ فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا کہ کس نے کس پر ظلم کیا اور کس نے کس کو آنسو دیے ہیں۔علیم وخبیر ہستی سے نہ کوئی راز مخفی ہے اور نہ اس کے دربار عالی میں لفظوں سے کھیلنے کا کسی کوکوئی موقع ملے گا اور نہ اس کی کوئی قیمت ہوگی۔راقم سطور اچھی طرح جانتا ہے کہ’’ منہج سلف‘‘ یہ ہے کہ استاذ کا احترام کیا جائے،ان کی توقیر کی جائے،ان کا نام عزت سے لیا جائے اور اللہ سے ہمیشہ یہ دعا کی جائے کہ وہ جہاں کہیں رہیں اپنے اہل وعیال کے ساتھ شاداں وفرحاں رہیں،ذہنی سکون کے ساتھ زندگی گزاریں اور ہر ابتلا اور آزمائش سے محفوظ رہیں۔کہنے کو آدمی بہت کچھ کہہ سکتا ہے لیکن اس کا نتیجہ اور حاصل کیا نکلے گا۔اللہ ہی سے فریاد کی جاسکتی ہے کہ صرف وہی ظالموں سے انتقام لینے والاہے۔
یہ مجموعہ کلام ابھی تازہ تازہ آیا تھا کہ میرا دہلی جانا ہوا۔دارالدعوۃ میں مجلہ’’الحکمۃ‘‘کی فائلیں دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ڈاکٹر ازہری صاحب بغل میں فائل دبائے تشریف لائے،ان دنوں وہ اپنے صاحب زادے ڈاکٹر فوزان ،استاذ شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس مقیم تھے۔ملاقات ہوئی دعا سلام کے بعد علی گڑھ کے حالات معلوم کیے اور دیر تک کئی علمی مسائل پر گفتگو فرماتے رہے۔دوران گفتگو جب میں نے شعری مجموعہ’’آنسو ‘‘کے مقدمہ کا ذکر کیا تو فرمایا:تمھاری طرح کئی دوسرے شاگردوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے لیکن اس کا مقدمہ نہ اب تک پڑھا ہے اور نہ پڑھنے کا ارادہ ہے۔بعض حضرات نے اس کے مندرجات سے واقف کرادیا ہے۔اس کے بعد فرمایا کہ اب جب کہ تم نے ذکر چھیڑہی دیا ہے تو ان کے جامعہ سلفیہ میں تشریف لانے اور پھر جامعہ سے فیجی جانے کی پوری تفصیل بھی سن لو تاکہ تم لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ میں نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے اور انھوں نے میرے بارے میں کیا رائے قائم کی ہے۔یہ مفصل داستان آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے ۔اگر کبھی ضرورت محسوس ہوئی تو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔پوری تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر ازہری نے نہ کوئی ناشائستہ لفظ استعمال کیا اور نہ ان کی شان میں کوئی نازیبا کلمہ کہا۔اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ استاذ ذی اکرام کس قدر وسیع الظرف تھے اور اپنے عزیزوں اور شاگردوں کے بارے میں کتنی احتیاط سے لفظوں کا استعمال کرتے تھے۔ہر فرد کا اپنا زاویہ نظر ہوتا ہے،اس کو بھی سنجیدگی اور توجہ سے سننا چاہیے۔اپنے عزیز ترین شاگرد کی اس تحریر کو انھوں نے برداشت کیا اور اس پر تاحیات صبر بھی کرتے رہے،مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے اپنی کسی تحریر میں اس کی ادنی شکایت بھی کی ہو۔
بنارس کے ایک سفر میں ان کے آفس میں حاضری دی۔کئی ایک مسائل پر گفتگو ہوئی۔میں نے عرض کیا کہ جماعت میں اس وقت بعض ایسے موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے ،جن سے مسائل بھی واضح ہوجائیں اور کتاب وسنت اور منہج سلف کی نمائندگی بھی ہوجائے۔فرمانے لگے:کون اس کے لیے اپنے کو فارغ کررہا ہے،کس کو فرصت ہے کہ ان موضوعات پر علمی تصانیف تیار کرے۔تم آج یہ بات کہہ رہے ہو میں نے تقریباً دوسو موضوعات کی فہرست تیار کر رکھی ہے جن پر علمی اور تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد ملازم سے اپنی الماری سے ایک رجسٹر نکلوایا اور میرے سامنے رکھ دیا۔میں نے اسے مکمل دیکھا تو اندازہ ہوا کہ استاذ ذی اکرام کو ان تمام علمی تقاضوں کا احساس ہے لیکن ان کو عملی جامہ پہنانے والے رجال کار کہاں ہیں۔اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ رجسٹر کس کے پاس ہے۔اگر جامعہ سلفیہ میں ہے تو وہاں کے محترم اساتذہ کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے اور اگر اہل خانہ کے پاس ہے تو ڈاکٹر فوزان صاحب سے درخواست کروں گا کہ اسے کسی مقالہ کی صورت میں مرتب کرکے جماعت کے کسی رسالہ میں شائع کردیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک علمی امانت ہے جو ڈاکٹر ازہری کی طویل علمی زندگی کا حصہ ہے۔کیا معلوم اللہ کسی بندے کو ان موضوعات میں سے کسی پر کام کرنے کی توفیق دے دے اور اس طرح ڈاکٹر صاحب کی حسنات میں ایک اور اضافہ ہوجائے۔
اسی سفر میں اپنے اس کرب کا بھی اظہار کیا کہ جماعت کے بعض افراد میں دوسرے اہل بدعت کی طرح سختی آتی جارہی ہے اور وہ بھی نماز کی اقتدا کے معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار ہورہے ہیں۔ہمارے قدیم علمائے اہل حدیث مثلاًمولانا شمس الحق عظیم آبادی،مولانا عبد الرحمن مبارک پوری،مولانا محمد اسماعیل گجرانوالہ،مولا نامحمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولا ناعبید اللہ رحمانی رحمہم اللہ کا یہ نقطہ نظر کبھی نہیں تھا۔ انھوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور کئی مقامات کے بعض واقعات سنائے جہاں یہ ناگفتہ بہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔یہ بھی فرمایا کہ اس موضوع پر جماعت کے سرکردہ علماء کو مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کی سرپرستی میں بیٹھنا چاہیے اور اس کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔
گزشہ کئی سالوں سے افراد جماعت ملک کے مختلف حصوں میں بعض جوشیلے مقررین کا پروگرام منعقد کرتے ہیں۔یہ ہمارے شعلہ بیان مقررین چونکہ بہت مصروف رہتے ہیں،ان کی مانگ بھی بہت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ حضرات اپنا حق خدمت بھرپور انداز میں وصول کرتے ہیں۔اس طرح کے مقررین نے ہمارے عوام کے مزاج کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔اب انھیں بھی اپنی اصلاح سے زیادہ دوسروں پر میزائل برسانے میں لطف آتا ہے۔یہ مقررین عوام کی اس نفسیات کو بھلی بھانت جانتے ہیں اور اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔جاہل اور بے شعور عوام اپنی ان حرکتوں سے اپنے مقامی علما کو اذیت پہنچاتی ہے اور انھیں قابل اعتنا نہیں سمجھتی۔میں نے کٹیہار کا وہ علاقہ بھی دیکھا ہے جہاں کے عوام سیلاب سے پریشان ہیں،غربت ہے، جہالت ہے لیکن مسلک کا درد اور اس کی حمیت بہت ہے۔اس طرح کے بعض مقررین وہاں منصوبہ بندی کرکے تشریف لے جاتے ہیں اور ماہ دوماہ قیام کرکے ہزاروں روپے غریب عوام سے سمیٹ لاتے ہیں۔ دین سیکھنے کے لیے کیا اس کی ضرورت ہے اور کیا اس طریقہ سے دین سکھایا جاسکتا ہے۔بنارس کے ایک سفر میں جامعہ کے مہمان خانہ میں یہی مسئلہ زیر گفتگو تھا۔انہی دنوں ڈاکٹر صاحب کے اپنے وطن مئو میں اس طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا ،جس سے شہر میں فساد کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے اس کی تفصیل بتائی اور بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ میرے اپنے محلہ میں یہ جلسہ تھا۔میں اسٹیج پر تقریر کررہا تھا کہ شعلہ بیان مقرر تشریف لے آئے۔اتنے میں مجمع سے آوازیں آنے لگیں کہ ازہری صاحب اپنی تقریر بند کیجیے۔میں کیا کرتا ۔تقریر ختم کی اور اسٹیج کے نیچے اتر گیا۔یہ ہیں اہل حدیث عوام۔ہم نے ان کی کیا تربیت کی ہے اور ہم انھیں کس دین کی تبلیغ کررہے ہیں۔ابھی تک انھیں یہی نہیں معلوم کہ علم کسے کہتے ہیں اور عالم دین کون ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک بار علی گڑھ تشریف لائے۔میں پورے دن ان کے ساتھ رہا۔اس موقع پر کئی ایک کام انھیں انجام دینے تھے۔پہلا کام یہ تھا کہ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ حفظہ اللہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات اور شعبہ عربی اور ادارہ علوم الحدیث ،جامعہ اردو روڈ علی گڑھ کے لیے علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی منتخب کتابیں ارسال فرمائیں تھیں۔ڈاکٹر صاحب سے غالباً انھوں نے کہا تھا کہ آپ یہ کتابیں ان دونوں شعبوں کے ذمہ داروں کے حوالہ کردیں۔ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتابیں کہاں ہیں۔میں نے عرض کیا کہ اس کا علم تو ہمیں ہے لیکن ابھی تک کتابیں یہاں نہیں پہنچی ہیں۔یہ سن کر وہ سخت پریشان ہوئے۔شاید وہ اپنے علی گڑھ کے دوستوں سے اس کا ذکر کرچکے تھے۔مجھ سے کہا کہ دہلی میں مولانا عبدالستار سلفی سے رابطہ کرو اور معلوم کرو کہ کتابیں کہاں ہیں۔میں نے فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے کتابیں نہیں بھیج سکے ہیں۔میں نے جب اس کی اطلاع دی تو بار بار افسوس کرتے رہے۔اپنی ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے انھیں پریشانی لاحق ہوئی اور یہ افسوس رہا کہ وعدہ کے مطابق میں یہ کتابیں ان شعبوں کے حوالہ نہ کرسکا۔ان کے جانے کے بعد یہ کتابیں علی گڑھ آئیں اور دونوں شعبوں کی لائبریری میں داخل ہوئیں۔تھوڑے دنوں بعد ادارہ علوم الحدیث ،جامعہ اردو روڈ علی گڑھ میں بھی یہ گراں قدر ہدیہ آگیا۔آج بحمد اللہ اہل علم ان سے استفادہ کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری حفظہ اللہ کے حق میں ان کتابوں کو صدقہ جاریہ بنائے۔
ڈاکٹر ازہری صاحب اپنے اس سفر میں اپنے محترم استاذ پروفیسر مختارالدین آرزو صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے ۔میں بھی ساتھ گیا۔علی گڑھ میں پروفیسر آرزو صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ڈاکٹر صاحب ایک شاگرد کی حیثیت سے ملے اور ان کے سامنے ایک سعادت مند شاگرد کی طرح بیٹھ گئے۔دیر تک مختلف علمی مسائل پر گفتگو جاری رہی۔اسی درمیان علی گڑھ کی روایت کے مطابق پرتکلف چائے پی گئی۔ڈاکٹر صاحب اپنے دور طالب علمی میں پروفیسر آرزو صاحب کے بہت قریب تھے۔وہ ان کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف تھے اور اپنے بعض مسودات نظر ثانی کے لیے ڈاکٹر ازہری صاحب کے پاس بھیج دیا کرتے تھے۔اس موقع پر بھی کوئی مسودہ انھوں نے اس تاکید کے ساتھ حوالہ کیا کہ اسے جلد واپس کردیجیے گا۔یہاں ڈاکٹر صاحب کا وہ انداز میرے سامنے آیا کہ ایک شاگرد اپنے استاذ کی کتنی عزت کرتا ہے۔نگاہیں نیچی کیے استاذ کی ہر بات پر ہاں کہتے رہے اور جب بھی مخاطب کیا،’’سر‘‘ کہہ کرمخاطب کیا۔ ڈاکٹر صاحب اندرون خانہ بھی تشریف لے گئے اور ان کی اہلیہ سے دعا سلام کرکے واپس آئے۔جب ہم وہاں سے لوٹے تو پروفیسر آرزو صاحب گھر کے باہر تک رخصت کرنے آئے اور اپنی دعاؤں کے ساتھ ہمیں روانہ کیا۔
یہ ہیں میری چند یادیں جن کا تعلق استاذ مکرم ڈاکٹر ازہری صاحب سے تھا۔ان میں عبرت اور نصیحت کا سامان بھی ہے اور ان کی شخصیت کا اظہار بھی۔اللہ تعالیٰ ان کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ان کے اہل خانہ کو شاد وآباد رکھے۔ہم کو توفیق دے کہ انھیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے رہیں۔ وہ اپنے پیچھے جو مشن چھوڑ گئے ہیں،اسے آگے بڑھانا ہی ان کے لیے صحیح خراج عقیدت ہے۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ہر کسی کو احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے۔جانے والوں کے لیےدعائے مغفرت اور ان کی حسنات کا تذکرہ کرتے رہنا ہی سلفی منہج ہے۔وفات پاجانے والی شخصیات کے سہوو نسیان، خطاؤں،کمیوں اور کوتاہیوں کا ذکروہی کرتے ہیں جو اس منہج سے ناآشنا ہیں۔منہج سلف کی مخلصانہ پیروی اور وہ بھی زندگی کے تمام شعبوں میں کئی طرح کی قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔اس کی توفیق اللہ کے وہی بندے پاتے ہیں جن پر اس کا خصوصی فضل وکرم ہوتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000