جی ہاں! آج ہی کے دن “مرید پور کے پیر” بلکہ میرے پیر اور پسندیدہ ترین مصنف احمد شاہ بخاری (پطرس بخاری) پیدا ہوئے تھے- وہ نہ صرف بہترین شاعر وادیب اور مزاح نگار تھے بلکہ اردو و انگریزی زبان پر مکمل دسترس رکھنے کے ساتھ پایہ کے مؤلف ومترجم بھی تھے-
1/اکتوبر 1898 کو پیشاور کے متوسط گھرانے سے زندگی کا آغاز کرنے والے پطرس 5/دسمبر 1958 کے روز نیویارک میں ہمیشہ کے لیے آسودۂ خاک ہوگئے لیکن ان کے کارنامے ہمیشہ دلوں میں زندہ اور زبانوں پر آتے رہیں گے… یہ سچ ہے کہ انہوں نے بہت کم اور مختصر لکھا لیکن جو بھی لکھا وہ لاجواب اور بے مثال ہے- اسی لیے علی سردار جعفری نے کہا تھا کہ پطرس کے مضامین پڑھے بغیر اردو ادب کا مطالعہ ناقص شمار کیا جائے گا-
پطرس بخاری نے گورنمنٹ کالج لاھور کے بعد کیمبرج سے اعلی تعلیمی ڈگری حاصل کی اور تدریسی خدمات پر مامور ہوگیے اور آگے چل کر جب اس میدان میں دوبارہ واپسی کی تو گورنمنٹ کالج (لاھور) کے پرسنل بھی منتخب ہوئے- اسی طرح 8/جون 1936 میں قائم ہونے والے آل انڈیا ریڈیو سے نہ صرف منسلک رہے بلکہ ڈائریکٹر جنرل بھی بنے اور پھر ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے اقوام متحدہ تک پہونچے… ابتداء میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے لیکن بتدریج سلامتی کونسل کی ممبری سے شعبہ اطلاعات ونشریات کے ڈپٹی سکریٹری جنرل مقرر ہوئے…
غم ہائے روزگار کے ساتھ ادبی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے اپنے فطری میلان سے کبھی بھی سمجھوتہ نہ کیا حتی کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران کسی مندوب نے frankly کی جگہ lovely استعمال کیا تو آہستہ سے آئے اور وہیں بیٹھے اپنے بے تکلف دوست سے کہہ بیٹھے کہ دیکھیں!!! موصوف نے کتنے کم وقت میں اپنی حماقت ظاہر کردی-
اس میں کوئ شک نہیں کہ پطرس بلا کے ذہین، حاضر جواب اور لطیفہ باز تھے جس کے ثبوت کے لیے ان کی برجستہ گوئی کے بےشمار نمونے اور لطیفے موجود ہیں جو ان کے مضامین کے ساتھ ادبی دنیا میں کافی مقبول ہوئے خصوصا ظفر علی خان اور گھڑی ساز والے لطیفہ پر تو پیٹ ہی درد کرنے لگتے ہیں-
ان کی ہمہ جہت خدمات کی وجہ سے تیونس اور اسلام آباد میں ان کے نام سے شاہراہیں منسوب کی گئیں اور ان کی وفات کے 44 سال بعد یعنی 14/اگست 2003 میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا-
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے
“آج اتنے سالوں بعد بھی اس موسم میں جتنے بھی پھول کھلیں گے ان میں تیری یاد کی خوشبو ہر سو پھیلی مہکے گی، پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کی تصویر بناتا گزرے گا، اک بات بتاتا گزرے گا، اک یاد جگاتا گزرے گا، اس موسم میں جتنے تارے آسمان پر ظاہر ہوں گے ان میں تیری یادوں کا پیکر منظر منظر عریاں ہوگا، تیرے جھلمل یاد کا چہرہ روپ دکھاتا گزرے گا، اس موسم میں دل دنیا میں جتنی آہٹ ہوگی ان میں تیری یاد کا سایہ گیت کی صورت ڈھل جایے گا پھر بھی تیری یاد آتی رہے گی…”
یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ
شکریہ بھائ