(یہ شعر آزادی سے قبل جناح صاحب کی موہان آمد پر کسی “صاحب بصیرت” نے وہاں کے استقبالیہ دروازے پر لکھ ڈالا تھا- چونکہ پڑوسیوں کی دل آزاری ہوگی سو شعر کی تکمیل سے معزور ہوں)
یہ موہان ہے ___اس علاقے کی یادیں بھی ایسے ہمہ گیر وہمہ جہت انسان سے وابستہ ہیں جن کے بارے میں شبلی نے کہا تھا تم انسان ہو یا جن جو شاعری اور سیاست اور پھر بنیا گری پر اتر آئے- جی ہاں!! حسرت موہانی کا موہان ہے جو ایک شاعر، ادیب، خطیب، صحافی، نقاد، قانون ساز اور منجھے ہوئے سیاست دان تھے۔ علی گڈھ کے علمی وادبی ماحول نے انھیں اس مقام تک پہنچایا جس کے لیے وہ بنائے گیے تھے۔ مکمل آزادی کے نعرے اور ہر طرح سے کبھی اپنی تحریروں تو کبھی تقریروں سے جدوجہد آزادئ ہند میں پیش پیش رہے۔ بارہا جیل گیے اور طویل عرصے تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
عام سیاست دانوں کی طرح عیاری و مکاری اور باتوں کے الٹ پھیر سے دور حق گوئی وبے باکی آپ کے خون اور خمیر میں شامل تھی۔ کانگریس، مسلم لیگ اور پھر کانگریس اِدھر اُدھر ہوتے رہے لیکن اپنے اصول سے کبھی بھی سمجھوتہ نہ کیا۔ حتی کہ مسلم لیگ میں رہتے ہوئے جناح کی مخالفت کی اور اسی طرح نہرو اور پٹیل کو بھی نہ بخشا۔ 1947 میں تقسیم اور ہجرت کے خلاف محاذ بنانے میں کلیدی رول ادا کیا جبکہ خود مسلم لیگی تھے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ تقسیم کے اثرات 46 ہی میں بھانپ گیے تبھی تو مسلم ماہرین قوانین کو دستورسازی کی طرف اشارہ کیا۔ اگر مسلم لیگی قائدین ادراک وشعور رکھتے اور حسرت کی بات مان لیتے تو شاید نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔
اسے یاد کرکے نہ دل دکھا جو گزر گیا سو گزر گیا
1947 میں ہندوستان نے آزادی حاصل کی اور حسرت موہانی ممبر آف پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ دستور ساز اسمبلی کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ اور ہمیشہ اپنی آزادانہ و بے باکانہ طبیعت سے نمایاں رہے۔ پارلیمنٹ میں بے جا ظلم کے خلاف آوازیں اٹھائیں اور کھل کر سقوط حیدرآباد اور دیگر ایشوز پر بولتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممبران ان سے نالاں اور بہت سے ڈرتے بھی تھے اور چونکہ گونا گوں خوبیوں کے مالک اور صف اول کے مجاہد تھے سو ہندوستان کے سینیئر وزراء ان کا خاصا ادب کرتے تھے… جب ہندوستانی دستور کو حتمی شکل دے دی گئی تو مسودے پر تمام دستور ساز اسمبلی کے ممبران کے دستخط طلب کیے گیے جو سب نے کیے لیکن انھوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ قانون ہندوستانی روح کے منافی ہے۔ ضمنا یہ بھی کہ مرحوم تحریک ترقی پسند اردو کے نمائندہ اور کمیونسٹ افکار و نظریات سے حددرجہ متاثر تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے دو ہی چیزیں پورے خلوص سے کیں ایک شاعری اور دوسری اپنے مرشد سے محبت باقی چیزوں میں کم از کم وہ خلوص تو بہرحال نہیں ملتا جو ان دونوں کوحاصل تھا۔ شاعری پر تبصرہ کریں تو عشق و عاشقی میں اس قدر ڈوبے ہوئے کہ چپکے چپکے رات آنسو بہائے اور عاشقی کے زمانے یاد کیے جارہے ہیں اور جب اسیر بنائے گیے تو چکی کی مشقت نے ان کی طبیعت پر بالکل بھی اثر نہ ڈالا، ادھر اہلیہ ان کی آمد کے یقیں پر “کس قدر ٹہرا ہوا ہے کاروبار انتظام” گائے جارہی ہیں ادھر حسرت مسکراکر ہونٹ کانٹے کی ادا کو یاد کررہے ہیں۔
راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو ازراہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فورا جدا ہوجایے
کلیات حسرت تب پڑھی جب شاعری سمجھتے نہ تھے … اور اب جب تھوڑا بہت سمجھ آرہی تو پڑھنے کی توفیق نہیں سو اس پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں البتہ کسی زمانے میں استاذ فاروقی صاحب سے جو سنا تھا وہی کچھ محفوظ ہے۔ اسی طرح اپنے مرشد کے معاملے میں بھی جب کہ وہ جانکنی کے عالم میں تھے لیکن خواہش تھی کہ مرشد کے بازو ہی میں سپرد خاک ہوں…ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور لکھنؤ میں مدفون ہوئے۔ مجموعی اعتبار سے حسرت کی شاعری کو حالی کی تحریک سے متاثر کہہ سکتے ہیں گوکہ وہ امام المتغزلین تھے کیونکہ حالی نے روایت سے ہٹ کر جس موضوع(شاعری) کی راہ نکالی، کچھ فرق کے ساتھ یہ بھی اسی راہ پر چلے۔
حسرت کی خاکساری بھی حد درجہ کمال کی تھی۔ جب دہلی پارلیمنٹ اجلاس میں آتے تو گاؤں سے اسٹیشن تک پیدل ہی نکل لیتے، اگر کوئی مل گیا اور پہنچا دیا تو الگ بات ہے۔ اسٹیشن پر پہنچ کر گارڈ سے بات چیت کرتے اور مفت میں دہلی پہنچ جاتے۔ دہلی اسٹیشن پر ایسے ہزاروں لوگ مل جاتے جو انھیں نہ صرف جانتے بلکہ عقیدت مندی کی حد تک پہچانتے تھے جس کے طفیل کسی کے تانگے پر بیٹھ کر پارلیمنٹ کی مسجد تک پہنچتے اور مسجد ہی میں نہاتے دھلتے اور قیام کرتے اور پھر وہیں سے پیدل پیدل پارلیمنٹ تک جاتے۔ عجیب تھے— بہت ہی عجیب کہ جب ممبران اچھے ہوٹلوں اور لذیذ ڈشوں اور نرم نرم بستروں پر رات گزار کر ایوان میں آتے تو یہ راتوں کو چٹائی پر اللہ کے سامنے سر بسجود ہوکر صبح کرتے اور پھر آتے۔ مولانا آزاد نے تذکرہ میں امام احمد اور عباسی خلفاء کے سلسلے میں جو لکھا ہے وہی حالت یہاں بھی محسوس ہوتی ہے… اور شاید ان کے جاہ وجلال کی وجہ سے دیگر ممبران جب اپنی گاڑیوں سے پہنچتے اور انھیں پیدل دیکھتے تو اتر کر “نمستے” اور آداب بجا لاتے پھر اصرار کرتے کہ ہمارے ساتھ پارلیمنٹ تک چلیں مگر مجال جو کبھی مان جائیں۔ مجبورا وہ اپنی کاروں میں بیٹھ کر مایوس ایوان کی طرف چلے جاتے۔ اسی طرح پیوند زدہ کپڑے شیروانی پہنے پیدل پارلیمنٹ جاتے اور پوری طاقت سے اپنی بات رکھتے… ایک بار دہلی میں ایک صاحب نے مشاعرہ کا اہتمام کیا اور حسرت کو بلایا۔ انھوں نے اپنا کلام پیش کیا اور رخصتی چاہی تھی کہ ایک صاحب لفافہ تھمانے آگے بڑھے۔ جھٹ سے بولے میاں!!! یہ کیا ہے؟؟؟ … اس شخص نے ڈرے سہمے ہوئے لہجہ میں کہا یہ جو آپ آیے… کہاں—؟؟؟ ارے میاں!!! کیسے لے لوں؟؟؟ میرے سفر میں تو کچھ خرچ ہی نہ ہوئے۔ موہان سے ایک صاحب نے اپنے تانگے سے پہنچا دیا اور یہاں گارڈ کے ساتھ اس کے ڈبے میں چلا آیا اور دہلی اسٹیشن سے ایک صاحب نے پارلیمنٹ تک پہنچا دیا پھر دہلی میں قیام پارلیمنٹ کی مسجد میں رہا… اب بتلائیں یہ لفافہ کیسے اور کیونکر لوں؟؟؟ آپ ہی بتلاییں؟؟؟ وہ شخص نہایت شرمندگی اور ندامت کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔
ہائے یہ کیسے عظیم لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گیے اور انھیں دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔
یہ لوگ صحیح معنوں میں ہماری جمہوریت کی بقا کے ضامن تھے جو ہندوستانیوں کو تمام طرح کی نیچ اونچ سے اٹھا کر جمہوریت کی لڑی میں پرونے کے خواہاں تھے اور عملی طور پر متحرک تھے… امبیڈکر پر جب ذاتیات کے تیر اچھالے گیے تب یہی سید زادہ حسرت ہی تھے جو ان کے اسی گلاس میں پانی پی کر جس میں انھوں نے پیا تھا، امتیاز کو مٹانے کی کوشش کی تھی۔
ساغر صدیقی یاد آرہے ہیں
کیا نہیں معلوم تجھ کو اے مرے مغموم دل
جن سےنظریں تھیں شگفتہ وہ نظارے سوگیے
جن کے دم سے بزم ساغر تھی حریف کہکشاں
اے شب ہجراں کہاں وہ ماہ پارے سوگیے
منزل جس قدر قریب ہوتی جارہی باتیں بھی اتنی ہی تیزی سے یاد آتی جارہی ہیں۔ بہرحال ہمیں الفاظ کے ساتھ سامان بھی سمیٹنے چاہئیں۔ الوداع!
بہت بہت شکریہ بھائ
بہت خوب