دعوت وتبلیغ انبیاء کا مشن ہے، دعوت؛ کفر وشرک کے خلاف خاموش جنگ ہے، غلبہ توحید کی پرامن جد وجہد ہے، شیوہ ایمان اور منبع خیر ہے، اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی بازیابی کا نسخۂ کیمیا ہے، نبی کا حاصل زندگی دعوت ہی ہے اور انبیاء کے بعد امت مسلمہ کا فرض منصبی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (۱۱۰)
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا، ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔
دعوت الی اللہ کا مشن مرد وعورت کے درمیان کسی تفریق کا قائل نہیں ہے، یہ بات غلط ہے کہ عورت کی ذمے داری صرف امور خانہ داری تک محدود ہے، شوہر اور بچوں کی خدمت تک محصور ہے، دعوت وتبلیغ سے وہ بری الذمہ ہے، یہ صرف تن آسان طبیعتوں کے واہمے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی تعلیمات میں مرد کے ساتھ عورت بھی شامل ہے، دعوت پر مبنی نصوص میں وہ کہیں بھی مستثنی نہیں کی گئی ہے، جولوگ یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں انھیں قرآن کی یہ آیت پڑھ لینی چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)
[Surat At-Tawbah 71]
ترجمہ: مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مددگار و معاون ) اور دوست ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکٰوۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالٰی بہت جلد رحم فرمائے گا بے شک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی اس آیت کے ضمن میں رقمطراز ہیں:
قلت و فی ذکره تعالٰی ’’والمومنات‘‘ هنا دليل علی ان الامر بالمعروف والنهی عن المنکر واجب علی النساء کوجوبه علی الرجال حيث وجدت الاستطاعه.‘
ترجمہ:
(میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا ایمان والی عورتیں فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بحالتِ استطاعت عورتوں پر مردوں کی مانند امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازدواج کی ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ نے اپنے دعوتی مشن کی کامیابی کے لیے کثرت سے شادیاں کی تھیں، کیونکہ خواتین کی الجھنیں، مسائل اور نفسیات کو ازواج مطہرات ہی بہتر سمجھ کر رہنمائی کرسکتی تھیں، اور انھوں نے بحسن وخوبی یہ دعوتی فریضہ انجام دیا، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے امت کو دو ہزار سے زائد احادیث فراہم کیں جو ان گنت معاشرتی مسائل اور الجھنوں کو سلجھاتی ہیں۔ آپ کی دیگر ازواج نے بھی آپ کی خانگی زندگی کے طور طریقوں سے امت کو آگاہ کیا۔ یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اسلام نے شرع کے دائرے میں رہتے ہوئے عورتوں کو خدمت دین وملت کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔
عورت میدان جنگ میں
یہی وجہ تھی کہ عورت میدان جنگ میں بھی اپنے شایان شان فرائض انجام دیتی تھی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا، پانی بھر بھر کرلانا اور مجاہدین کو پلانا، ان کے سامانوں کی حفاظت کرنا، ان کے لیے کھانا بنانا وغیرہ۔ جہادی کاوشوں کے حوالے سے حضرت ام عمارہ، حضرت عائشہ، حضرت ام عطیہ، حضرت ام رفیدہ، حضرت ربیع بنت معوذ، حضرت ام سلیط، حضرت صفیہ رضی اللہ عنھن وغیرھن سرفہرست ہیں۔ یہاں تک کہ صحابیات نے کفار سے لڑائیوں میں بھی حصہ لیا ہے، جنگ احد میں حضرت ام عمارہ نے نازک حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع بھی کیا ہے۔ جب جہاد جیسے جان جوکھم اور خطرات سے گھری ہوئی جگہ میں خواتین اپنے حصے کا رول نبھا سکتی ہیں تو میدان دعوت تو خواتین کے لیے بڑی زرخیز ثابت ہوگی۔
سلف خواتین کے دعوتی کارنامے
تاریخ شاہد ہے کہ خدمت دین کا یہ نکتہ سلف خواتین کی نظروں سے کبھی اوجھل نہ رہا، جذبہ دعوت سے وہ ایسا سرشار تھیں کہ انھوں نے اسلام کی تبلیغ کا کوئی موقع فروگزاشت نہ کیا۔ بہت سے جید صحابہ کرام بھی خواتین کی دعوت دین سے متاثر ہو کر اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے پر مجبور ہوئے۔
مثلا: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ خطاب رضی اللہ عنہ کے زیر اثر اسلام لائے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سعدی بنت کریز کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اُم حکیم کی تبلیغی مساعی کے ذریعے راہ حق کے مسافر بنے۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا کارنامہ یہاں قابل ذکر ہے۔
آپ کے بیٹے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام دیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا ’’میرے لیے ایک مشرک کے ساتھ شادی کرنا درست نہیں اے ابو طلحہ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو انھیں فلاں قبیلہ کے بڑھئی غلام نے چھیل کر بنایا ہے اور اگر آپ ان میں آگ لگاؤ تو جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ (الطبقات الکبری)
ایک روایت میں اور آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا کیا تمھیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک لکڑی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو جو زمین میں اگتی ہے۔ مزید کہا کہ اگر آپ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی دے دیں تو میرے لیے آپ کا یہ قبول اسلام ہی حق مہر ہے۔ (ثابت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حق مہر سے زیادہ باوقار حق مہر نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ سنا ہوگا)
دعوت کے میدان میں خواتین ستروحجاب کے ساتھ اپنے علم وصلاحیت کے مطابق خدمات انجام دیں گی۔ یہ ان کا فرض منصبی ہے، کار دعوت جو غیر معمولی اجر و ثواب کا ذریعہ ہے خواتین اس سے کیوں محروم رہیں؟ لیکن خواتین دعوتی فرائض کی ادائیگی کے لیے بعض اصولی باتوں کی طرف متوجہ ہوں۔
دعوت اور علم
دعوت الی الله کے لیے علم اساس کی حیثیت رکھتی ہے، بغیر علم کے دعوت فکر وعمل کے فساد کا ذریعہ ہے، ضلالت وگمراہی میں پڑنے اور مبتلا کرنے کا سبب ہے، دعوت الی الله کے لیے علم وبصیرت مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{قُلْ ھٰذِہِ سَبِیلِیْ اَدْعُوْ إِلَی اللَّہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللَّہِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ }
’’کہہ دو ! یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف پوری بصیرت کے ساتھ بلاتا ہوں میں بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ [یوسف:۱۰۸ ]
بصیرت عام معلومات سے ہٹ کر ایک خاص چیز ہے اس میں دلیل، گہرا اِدراک، فہم وفراست، بات کے واضح ہونے اور اس پر یقین ہونے کے اضافی معنی شامل ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علم، نرمی اور صبر یہ تین چیزیں داعی کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ دعوت سے پہلے علم، دعوت دیتے وقت نرمی اور اس کے بعد صبر۔
علم کے بغیر دعوت کس درجہ نقصان دہ ہے یہ آیت کریمہ اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ }
’’اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے اللہ کی توحید کے باب میں کٹ حجتی کرتے اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔[ الحج:۳ ]
عمل و تقوی کی شرط
دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے اخلاق وکردار کے اعلی اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے، ایک سچے اور متقی انسان کی ہرکوئی قدر کرتا ہے اور طبعی طور پر دل ایسے افراد کی باتوں پر مائل ہوتا ہے، داعی سے یہ چیز مطلوب ہے، عمل وتقوی کے بغیر دعوت نقصان دہ ہے بلکہ مدعو کو اسلام کے بارے میں بدگمان کرنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
{یٰٓا أَیُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَ الْمُنَافِقِیْنَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا }
’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی باتوں پرکان نہ دھرو، بے شک اللہ علم والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ [الاحزاب:۱]
اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت داعی اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کی ہے، لہذا آپ کے بعد ہر داعی کے لیے دعوت سے پہلے تقوی اور حسن عمل سے آراستہ ہونا ضروری ہے تاکہ اس کی دعوت مدعو کے دل کو فتح کرتی چلی جائے۔
دعوت کے پانچ محاذ
خواتین ان پانچ محاذوں پر اصلاح وتزکیے اور تربیت وتذکیر کا فریضہ انجام دیں-
پہلامحاذ
عورت کے اس کے بچے اور بچیاں ہیں، آج غیر اسلامی ماحول، ٹی وی، انٹرنیٹ کے ذریعے ہر گھر فتنوں اور اخلاقی برائیوں کی زد میں ہے، اس قدر زہریلا مواد ان ذرائع سے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلا جارہاہے کہ فی الفور اس کا تدارک نہ کیا گیا تو بچہ پوری طرح دین سے برگشتہ ہوسکتا ہے، فکر وعمل کی گمراہیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے، خاص طور پر ماں کی تربیت بچوں کو عمل وکردار کے مقام بلند پر فائز کرسکتی ہے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی درحقیقت ایک ماں کی تربیت کا کرشمہ تھی، کیونکہ حضرت ہاجرہ علیھا السلام نے اس ویرانے میں اسماعیل علیہ السلام کو اپنی نگہداشت میں رکھا تھا اور ان کے دل ودماغ میں جذبہ ایمان کی پرورش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی، پھر وہ عظیم الشان کردار وجود میں آیا کہ قیامت تک کے لیے عقل انسانی حیران و ششدر ہے۔
اس ضمن میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا کارنامہ قابل ذکر ہے، جنگ قادسیہ میں اپنے چار لاڈلوں کے ساتھ میدان جنگ میں شریک ہوئیں اور جن الفاظ میں اپنے لاڈلوں کو جہاد کے لیے تیار کیا وہ صفحہ تاریخ میں آج تک محفوظ ہے، فرماتی ہیں:
“پیارے بیٹو! تم اپنی خواہش سے مسلمان ہوۓ اور تم نے ہجرت کی، اللہ وحده لا شریک کی قسم تم جس طرح ایک ماں کی اولاد ہو ایک باپ کے بهی بیٹے ہو میں نے تمھارے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی اور نہ ہی تمھاری ماؤں کو ذلیل کیا هے جو ثواب الله نے کافروں سے لڑنے میں رکها ہے تم اسے خوب جانتے ہو۔”
جوش وجذبے سے لبریز خنساء کے بیٹوں نے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے باری باری جام شہادت نوش کرلیا اور اپنی مجاہدہ ماں کانام اسلامی تاریخ میں روشن کردیا۔
دوسرا محاذ
ایک عورت بحیثیت بیوی اپنے بچوں کے بعد اپنے شوہر کی فکری واخلاقی اصلاح کی ذمے دار ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“والمرأة راعية على أهل بيت زوجها وولده”
ترجمہ: عورت اپنے شوہرکے گھر والوں اور اس کی بچوں کی نگہبان ہے (بخاری)
اگر عورت اپنے شوہر کی اصلاح اور اسے دین سے وابستہ کرنے کا بیڑا اٹھا لے تو سماج ومعاشرہ پر بڑی حدتک دین کی چھاپ نظر آنے لگے، میاں بیوی ایک دوسرے کے اندر خیر وتقوی کی بازیابی اور برائیوں کے ازالے کی جدو جہد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزاریں تو شر کا منبع بند ہوگا اور اعلی قدروں کی ہوائیں چلیں گی۔ نبی کائنات نے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ اس عورت پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد) کی نماز پڑھے اور اپنے خاوند کو جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر شوہر (غلبہ نیند و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔” (ابوداؤد، سنن نسائی)
تیسرا محاذ
ایک عورت اپنے رشتےداروں میں دعوت کا کام بحسن وخوبی انجام دے سکتی ہےاور وہ دوسروں کی نسبت زیادہ اپنے رشتے داروں پر اثرانداز ہوگی، رشتہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہر کسی کے پاس رشتے کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے، بعض تو اپنے گھروں میں ہی دستیاب ہوتے ہیں، اور دیگر رشتہ دار مختلف مناسبتوں سے ان تک رسائی کے مواقع ہوتے ہیں۔ اگر ذہن دعوتی ہو تو خواتین کے لیے بھی مواقع کی کمی نہیں ہوگی، شادی بیاہ، خرید وفروخت اور بغرض تفریح وملاقات، ایک دوسرے کے یہاں آمدورفت کو دعوتی مواقع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، اس دعوتی عمل کے ذریعہ خواتین ایک بہت بڑے خلا کو پر کرسکتی ہیں، یہ مرحلہ ممکن تو ہے لیکن آسان نہیں ہے بلکہ اس ممکنہ دعوتی رول کے لیے ایک متحرک دعوتی ذہن درکار ہے۔
چوتھا محاذ
خواتین دروس وبیانات کے ذریعے بھی دعوت وتبلیغ کا عظیم الشان فریضہ انجام دے سکتی ہیں، سلف میں خواتین کے دینی و علمی حلقوں کے شواہد تاریخ میں ملتے ہیں، خواتین گھروں، مسجدوں، دکانوں اور رباطات میں، باغات میں اور دیگر مقامات میں مسند ِتدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہوتے تھے۔ مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ان تینوں مساجد میں خواتین کے دروس وبیانات ہوا کرتے تھے ۔
مسجد حرام میں درس دینے والوں میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدسیۃ، مسجد نبوی میں درس دینے والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بنت ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی، قاضی القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم الدین اسماعیل المقدسیۃ، ام محمد زینب بنت احمد بن عمر المقدسیۃ اور مسجد اقصیٰ میں درس دینے والی خواتین میں ام الدرداء التابعیۃ اور ام محمد ھدیۃ بنت علی بن عسکر البغدادی (۸ ؍ ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی ہیں۔
اسلامی تاریخ میں دمشق کی مسجد اموی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خواتین کی درس وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں ۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اس نے مسجدِ اموی کی زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین، مثلاً زینب بنت احمد بن ابراہیم اور عائشہ بنت محمد بن مسلم الحرّانیۃ سے حدیث کی سماعت کی۔(منقول)
ماخوذ از: http://mazameen.com/?p=38584
لہذاشرع کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ روایت آج باشعور خواتین جاری وساری رکھیں، اپنا علمی فیض دوسری خواتین تک پہنچائیں۔
پانچواں محاذ
جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں وہ ٹیچنگ اور تدریس کے ذریعے دعوت کے کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ گرلز اسکولوں اور پرائمری سطح کے اسکولوں اور نسواں میں طلبہ کی ذہنی واخلاقی تربیت میں نمایاں کردار نبھا سکتی ہیں۔ایک ٹیچر طلبہ پر جو چھاپ ڈال سکتی ہے وہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے، ذہن سازی اور کردار سازی کے اسکولوں میں بہترین مواقع ہوتے ہیں، اسی وجہ سے دعوتی تنظیمیں ذمے داروں سےاجازت لے کر اسکولوں میں پروگرام کرتی ہیں تاکہ بہ یک وقت وہ کثیر طلبہ کو خطاب کرسکیں اور اپنے فکر وفلسفہ کے مطابق ان کی ذہن سازی کرسکیں۔
ان تمام دائروں اور حلقوں میں عورت پوری مستعدی کے ساتھ اپنا دعوتی رول ادا کرے تو میدان عمل میں کوئی خلا نظر نہیں آتا ہے۔ دعوت سماج کے ہر طبقے تک رسائی حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پھر خارج میں جو دعوتی سرگرمیاں ہیں وہ اس سے زائد ہوں گی۔
صحافت کے ذریعہ دعوت
یہ بات ہر شبہے سے بالاتر ہے کہ صحافت دعوت کا بڑا مؤثر ہتھیار ہے، آج ذہنوں کو تبدیل کرنے، رائے عامہ کو ہموار کرنے اور دیگر مفادات کے حصول میں صحافت کا استعمال منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے، اس کی تاثیر و ہمہ گیری کا ایک زمانہ قائل ہوچکا ہے، ضروری ہے کہ خواتین اس میدان میں پیش رفت کریں اور اپنے علم وصلاحیت کے مطابق قلم کو حرکت میں لائیں تاکہ انتہائی محفوظ طریقے سے آپ اپنے پیغام کو ہر طبقے تک پہنچا سکیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں معیاری تحریریں سفر کرتے ہوئےدنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی ہیں۔ آپ کے مضامین، کالمز اور دیگر تحریریں ایک بہت بڑی تعداد تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں۔ صحافت ایک بہت بڑی جولانگاہ ہے دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کے لیے۔ لہذا خواتین اپنے اندر قلمی صلاحیت پیدا کرکے اس میدان میں پیش رفت ضرور کریں اور میدان دعوت میں اپنی فتوحات کا جھنڈا لہرا دیں۔
خواتین کے دعوتی کردار کے لیے یہ چند گزارشات تھیں، امید کہ خواتین سنجیدگی سے غور کرکے عملی جامہ پہائیں گی۔ اللہ توفیق ارزانی بخشے۔ آمین
معاشرے سے اوجھل ہوتے ایک اہم دعوتی پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے آپ ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں.
اللہ آپ کو جزائے خیر دے.
بہترین