تعریف، خوشامد اور مبالغہ آرائی

رشید سمیع سلفی تعلیم و تربیت

تعریف کا حقیقی سزاوار تو صرف اللہ جل وعلی کی ذات ہے، وہ اتنا عظیم ہے کہ خوبصورت الفاظ وجملے اپنی تمام تر وسعتوں اور بلند پیمائیوں کے باوجود رب کی رفعتوں کے سامنے ہیچ ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا [كهف،109]

ترجمہ: فرما دیجئے: اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لیے روشنائی ہوجائے تو وہ سمندر میرے رب کے کلمات کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا اگرچہ ہم اس کی مثل اور (سمندر یا روشنائی) مدد کے لیے لے آئیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ تعریف شجر ممنوعہ ہے، فعل حرام ہے، معصیت رب ہے، یہ رب کے علاوہ کسی کے لیےجائز نہیں ہے۔ نفسیات کا‌ مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی فطرت تعریف کی خواہشمند ہوتی ہے، اسے تعریف سے سرور اور ذہنی آسودگی ملتی ہے۔ ولیم جیمز نے کہا تھا: انسان کی سب سے بڑی فطری خواہش یہ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، اسے سراہا جائے، لیکن تعریف کرنے کے لیے اعلی ظرفی تواضع اور فروتنی چاہیے، جو متکبر اورانا پرست ہوتے ہیں وہ “ہم چنیں دیگرے نیست” کے خول میں بند ہوتے ہیں، ہمیشہ تعریف بٹورنے کے خواہاں ہوتے ہیں، تعریف کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔
ظاہر ہے جب تعریف انسانی فطرت کا تقاضا ہے تو اسلامی تعلیمات فطرت کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ تعریف سے روکتا نہیں ہے، البتہ غلو کی مذمت کرتا ہے کیونکہ یہ شر کا دروازہ ہے، اعتدال اور میانہ روی زندگی کے ہرکام میں مطلوب ہے، اس لیے چند اصول وضابطے کے پیش نظر تعریف کی جاسکتی ہے، اسلام نے ایک دائرہ بنا دیا ہے۔ تعریف کا حسن وقبح اسی کی پاسداری اور عدم پاسداری پر موقوف ہے، تعریف مفید بھی ہے اور کبھی مضر بھی ہوجاتی ہے۔ برموقع ضرورت یا حکمت و مصلحت کے پیش نظر تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضرورت اور بعض وجوہات کی بناء پر گاہے بگاہے تعریف کرتے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کبھی کسی کی خوبی اور کارکردگی پر تعریف حوصلہ اور جذبہ عمل کو مہمیز کرتی ہے، تعریف کی تاثیر اس کی خوبیوں، صلاحیتوں کو ابھرنے اور چمکنے میں مدد کرتی ہے، تعریف سے حوصلہ افزائی اور تحریک ملتی ہے لیکن کبھی یہی تعریف انسان کو مغرور اور خود سر بھی بنا دیتی ہے، تمرد اور سرکشی کی خو اس میں سر ابھارنے لگتی ہے، ایسی تعریف فتنہ ہے جس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ دوسری بات تعریف کی خلعت ممدوح کے قد پر چست آنا بھی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تعریف مبالغہ آرائی سے آلودہ ہوجائے، تعریف میں ایسے پرشکوہ اور شاہانہ تعبیر اورکوہ پیما جملے استعمال نہ کیے جائیں کہ حقیقت بہت پیچھے رہ جائے اورآدمی صرف خلاؤں میں ہاتھ پیر مارتا رہ جائے، جیسا کہ آج ہم اس کا گردوپیش میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں، رائی کو پربت، قطرے کو سمندر، ذرے کو پہاڑ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، زبان وقلم کے کھیل بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ کسی کی سخاوت پر طبعیت نے جوش مارا تو حاتم زمانہ کہہ دیا، کسی کی بہادری پر جذبہ تعریف بے لگام ہوا تو رستم زمانہ کہہ گیا، کسی کی علمیت پر رشک آیا تو علم کا بحر ناپیدا کنار کہے بغیر نہ رہا، عشق میں مار فراق کے ڈسے ہوئے کی داستان درد سنانی پڑگئی تو آنکھوں سے آنسو نہیں خون بہہ رہے تھے، حسن کو چاند اور زلف کو کالی گھٹا، کمر کو لچکتی شاخ، لبوں کو پنکھڑی گلاب کی سی اور سنگ مرمر سے تراشا ہوا بدن کہاگیا۔ لیکن ہم ان تعبیرات وتشبیہات پر کوئی محشر نہیں برپا کرنے والے، اتنی خشکی اور سختی بھی اچھی نہیں ہوتی جو ان تشبیہات پر گردن ناپنے لگیں، زبان وبیان کی ایک مخصوص جمالیاتی حس ہے جو اس نیرنگئی تعبیر پر بڑی روادار واقع ہوئی ہے اور یہاں تخیل کی پرواز ایک مخصوص حد فاصل پر پہنچ کر رک بھی جاتی ہے، زبان وادب سے حلاوت کشید کرنے والا ذائقہ تر ہوتا ہے اور رنگ بدلتے جملوں اور تعبیرات سے حظ اٹھانے والے شادکام ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ لیکن ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، آگے بڑھ کر ذرا اہل زبان کی گل افشانیاں بھی ملاحظہ کرتے چلیے، مبالغہ آرائی اس قدر اچھال مارتی ہے کہ جھوٹ کے ماتھے پر پسینہ آجائے، اگر یقین نہیں آتا تو شعر گنگنا لیں۔
گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

ایک دوسرا شعر تو اور بھی دوقدم آگے ہے، شاعر کہتا ہے:
یارو شب فراق میں رویا میں اس قدر
تھا چوتھے آسمان پر پانی کمر کمر

لیکن تلاطم خیز طبعیت کی سرکش لہریں کبھی کبھار سب باندھ توڑتی گزرجاتی ہیں جیسا کہ شاعر نے یہاں پر کیا ہے:
رات میں میں اس قدر رویا کہ ہجر یار میں
سو سمندر دو سو نالے لاکھ ندیاں بہہ گئی

لیکن صاحب یہ زبان وبیان کی اٹھکھیلیاں ہیں، اس دسترخوان پر ذرا ہاضمہ مضبوط بنائے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، ندرت فکر اور حسن خیال کے آنگن‌ میں ان نمونوں کی بڑی پذیرائی ہے، اس کوچے میں نصیحت وفتوی نہیں داد وتحسین کے ڈونگرے برستے ہیں، مگر وہ حلقہ یا وہ دائرہ فکروعمل جہاں حقیقت اور متانت کی روشنی میں لوگ رہتے ہیں، جہاں قدم خلاؤں میں نہیں بلکہ زمین پر رکھا جاتا ہے۔وہاں کا موسم بھی منچلے ادب کی آب وہوا سے بہت میل کھاتا رہتا ہے۔ طالع آزما طبیعتیں مفاد ومصلحت کے ہاتھوں مجبور تعریف سے خوشامد تک جست لگانے میں ذرا نہیں ہچکچاتے، کہیں کوئی اپنے سیٹھ و مالک کو تعریف کے براق پر سوار کرکے ہمالہ کی بلند وبالا چوٹی پر پہنچادیتا ہے، کہیں کوئی اپنے مہربان دوست کو اس کی نظر عنایت پر مسیحا، ناخدا، جہاں پناہ اور نہ جانے کیسے کیسے القاب وآداب سے نوازتا رہتا ہے ،خوشامد زدہ تعریف تو کچھ لوگوں کی مجبوری ہے جو اپنی ناقص کارکردگی اور نااہلی کی تلافی خوشامد اور تعریف سے کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اپنے عیبوں کو چھپانے کے لیے یہ کام نہ کیا تو کہیں کا نہیں رہوں گا۔

روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ تعریف کی رو میں ایک شخص کو الفاظ اور جملوں کے دوش پر بٹھا کر اتنی بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہنچ کر شاید وہ بھی یہ سوچ کر شرمندہ ہوجاتا ہوگا کہ میں اس کا اہل نہیں کیونکہ اللہ فرماتا ہے:

بل الانسان علی نفسہ بصیرہ

ترجمہ: انسان اپنے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔
سچ ہے لوگ الفاظ اور جملوں کے استعمال میں ذمے دار نہیں ہوتے اور لفظی امانت داری کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔سوچتے ہیں کہ الفاظ اور جملوں کی بے اعتدالی پر کہاں سرقلم ہونے والا ہے؟ بس یہ تو ہمارے غلام بے دام ہیں، لہذا انھیں اپنی متلون طبعیتوں کا مشق ستم بنایا جاتا ہے۔ ذرا آگے بڑھ کر دیکھیے تو عجیب مناظر سامنے آتے ہیں۔
ایک عصری اسکول میں اساتذہ کی الوداعی تقریب میں شرکت کا اتفاق ہوا تو لوگوں نے ایک صاحب کی اس درجہ تعریف کردی کہ میں تھوڑی دیر کے لیے اس شخص کے کمال تقوی، تبحر علمی، اخلاق کریمانہ، پابندی شرع کا سن کر ورطہ حیرت میں پڑ گیا۔ کیونکہ میں انھیں بہت پہلے سےجانتا اور پہچانتا تھا۔ ایک صاحب نے سنسنی پیدا کرنے کی لیے یہ بھی کہا کہ مجھے میری زندگی میں ان سے زیادہ کسی نے متاثر نہیں کیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی زبان سے یہی جملے دو اور لوگوں کے بارے میں پہلے سن چکا تھا۔ ذرا سوچیے اس طرح کے دکھاوے سے کیا حاصل ہوگا اور اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ بے شک تعریف کی جائے لیکن مبالغہ آرائی اتنی نہ ہو کہ ہماری تعریف پر فاش جھوٹ اور غلط بیانی کا اطلاق ہونے لگے۔ ہمارے لیے نبی کی زندگی میں بہترین اسوہ موجود ہے۔ ایک تقریب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہنچے تو بچیاں شعر پڑھ رہی تھیں۔ ایک بچی نے شعر پڑھتے ہوئے کہا: فینا نبی یعلم ما غد
ترجمہ: ہمارے درمیان ایک ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شعر کو پڑھنے سے منع فرمادیا، کیونکہ یہ بات حقیقت واقعہ کے خلاف تھی۔ مگر یہاں معاملہ برعکس ہے آدمی اپنی بے جا تعریف سن کر لطف اندوز ہوتا ہے اور لذت محسوس کرتا ہے۔ اورخوشامدی کی تکریم وضیافت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ اسوہ رسول تو یہ ہے کہ فورا ٹوک دو، منع کردو لیکن برا ہو ترسی ہوئی طبعیتوں کا جنھیں نشے میں کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا، یہ تو خیر عوام الناس کی بات تھی جہاں جہالت اور دین سے دوری عذر بن جاتی ہے۔ مذہبی اور علمی ٹولہ بھی ان دھاندلیوں اور لفظی آوارگیوں سے محفوظ نہیں ہے۔
ولیوں اور بزرگوں کی شان میں مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر اور کارساز کی گردان کرنے والے اپنے عام سے حضرت کے لیے بھی ڈیڑھ درجن القاب سے کم پر راضی نہیں ہوتے، صرف ایک نعت خواں کے لیے ماحی کفر وشرک حامی کتاب وسنت، قامع وہابیت ونجدیت، ہادم قلعہ بدعت و ضلالت، داعی مسلک اعلیحضرت اور حضرت العلام جیسے بھاری بھرکم القاب وآداب کا استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ذراسوچیے جب یہ اپنے کسی بڑے عالم کے لیے القاب وآداب کا پٹارہ کھولیں گے تو ایک پورا صفحہ بھی تنگ پڑ جائے گا اور اشتہارات میں یہ نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہمارے سلفی اسٹیجوں پر بھی نظماء خطباء کی تعریف میں بے جا مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور بعض مقررین کے لیے تو نظماء پہلے سے ہی خوبصورت جملوں اوراشعار کے تلاش وانتخاب میں کافی کچھ توانائی صرف کرچکے ہوتے ہیں تاکہ مقرر کی خطابت کے ساتھ ان کی نظامت کی بھی دھوم مچ جائے۔دیہات کے جلسوں نے تو اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، ہاں بعض نظماء کو دیکھا گیا ہے جو اپنے علم وادب سے سامعین کو متاثر کرتے ہیں نہ کہ لفاظی سے۔ اور بعض مقررین کو بھی دیکھا گیا ہے جنھوں نے دوران تعریف ناظم کو ٹوک بھی دیا ہے۔
بے شک تعریف افادیت سے خالی نہیں ہے لیکن تعریف کے وقت کذب بیانی سے اجتناب اور شرعی تعلیمات پیش نظر رہیں۔تعریف مبالغہ اور خوشامد کے شائبہ سے پاک ہو۔ ہماری تعریف کسی کی انا و خود پرستی کی غذا نہ بن جائے اور نخوت وتکبر کو تحریک نہ ملے۔

آپ کے تبصرے

3000