اسلام میں بھاوناؤں کی اہمیت

کاشف شکیل

انسان کے منہ سے جو بات نکلتی ہے اس کو لفظ کہتے ہیں۔ لفظ کی دو قسمیں ہیں:
1- مہمل: جس کا کوئی معنی نہ ہو
2- موضوع: جو معنی رکھتا ہو
انسان کے ذہن میں ایک معنی ہوتا ہے جس کو مخاطب تک پہنچانے کے لیے وہ کچھ الفاظ کا سہارا لیتا ہے، لیکن بسا اوقات الفاظ معانی کا مکمل ساتھ نہیں دے پاتے اس لیے کہ کچھ جذبات الفاظ سے بلند تر ہوتے ہیں، اس حیثیت سے کہ وہ اتنے لطیف ہوتے ہیں کہ وہ لفظوں کا پیراہن پہننے سے انکار کردیتے ہیں یا صورت حال اتنی نازک ہوتی ہے کہ لفظوں کے انتخاب کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں مخاطب اگر قرائن، کامن سینس (عام شعور)، صورتحال اور خود قائل کو مدنظر نہ رکھے تو سارا معاملہ ہی بگڑ جانے کا اندیشہ ہے:
“تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی”
ایسی صورت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ بات کا بتنگڑ نہ بنائیں، حرفیت پسندی یا ظاہر پرستی کے بجائے جذبات کی سچائی پیش نظر رکھیں۔
اسلام میں جذبات (Emotions) ، احساسات (Feelings) اور نیتوں (Intentions) ہی کی اہمیت ہے۔
بخاری کی پہلی حدیث:

“إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى”

(یعنی عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے) اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
علماء نے اس حدیث کو دین کی اساس قرار دیا ہے، نیز اللہ نے خود کو حرف شناس یا لفظ داں کہنے کے بجائے علیم بذات الصدور کہا ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے یہاں دل کے اندر بسنے والے معانی کی اہمیت ہے نہ کہ ان کو درشانے والے الفاظ کی۔
قربانی کے سلسلے میں اللہ نے کہا:

’’ لن ینال اللہ لحومھا ولادماءھا ولکن ینالہ التقوی منکم‘‘

یعنی اللہ کو تمھاری قربانیوں کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ تمھارے دل کی کیفیت (تقوی) پہنچتی ہے۔
مذکورہ بالا نصوص جہاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسلام میں معانی کو مبانی پر فوقیت حاصل ہے وہیں وہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ اسلام میں اصل مطلوب یہی دلی کیفیت ہے۔ ایمان سراسر اسی دلی کیفیت کا نام ہے، حرفیت پسندی اسلام میں بالکل نہیں ہے، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی چٹیل میدان میں اپنی سواری کے ساتھ ہوتا ہے پھر اچانک اس کی سواری غائب ہوجاتی ہے اور اس کی سواری پر ہی اس کے خورد و نوش کا سارا سامان رہتا ہے، تلاش بسیار کے بعد بھی اس کو وہ سواری نہیں ملتی اور وہ اس سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے اور موت کو اپنا مقدر سمجھ کر ایک درخت کے نیچے آکر سوجاتا ہے، اس دوران اس کی سواری سارے غذائی سامان سمیت اس کے پاس کھڑی ہوجاتی ہے تو وہ اس کی لگام پکڑ کر مارے خوشی سے کہتا ہے:

’’اللھم أنت عبدی وأنا ربک‘‘ (صحیح مسلم:2747)

یعنی اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پالنہار ہوں۔ خوشی کے عالم میں اس نے جملے کو الٹ دیا ہے یعنی اللہ کو بندہ اور خود کو رب کہا ہے مگر اللہ اس سے ناراض نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ محض میرے بندے کے الفاظ ہیں، جذبات اس کے برعکس ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دو لوگ آپس میں کسی بھی قسم کا رشتہ رکھتے ہوں الفاظ کے دام میں کبھی نہ پھنسیں اس لیے کہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے؟
جس کی نگاہ گوہر پر ہوتی ہے وہ کبھی صدف کی بناوٹ اور اس کے نقش وعکس کے پیچھے خود کو ہلکان نہیں کرتا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000