شخصی آزادی اور مساوات کے نام پر

شخصی آزادی اور مساوات کے نام پر

عبدالوحید عبدالقادر سلفی

شخصی آزادی اور مساواتِ مرد وزن کے نام پر آج کل جس طرح کا ماحول بنایا جارہا ہے وہ حقیقت میں فطرت سے بغاوت کا مظہر ہے۔ جن اہداف ومقاصد کے لیے حق آزادی اور حق مساوات کا پرچم لہرایا جارہا ہے وہ اصل میں دینِ اسلام کے مسلّمات اور ثوابت سے براہِ راست ٹکراؤ کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
شخصی آزادی، اظہار رائے اور مساوی حقوق کے لیے آگے بڑھنا اور ان کے لیے جدوجہد کرنا مستحسن ومحمود ہے بلکہ اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا اجتماعیت اور یکجہتی کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔ مگر جب شخصی آزادی مطلق العنانی اور من مانی پر آمادہ ہو، معاشرتی تانے بانے کو چیلنج کرے، دینی مسلمات اور ثوابت سے ٹکرانے کے درپے ہو، فطرت سے بغاوت اور الحادی نظریے کا حامل ہو تو ایسی صورت میں اس کا محاسبہ کرنا، اسے لگام لگانا اور اسے حدود کا پابند کرانا بھی ضروری ہے۔
آج شخصی آزادی کے نام پر قرآن وسنت اور اس کے احکام کا استہزا عام ہوتا جارہا ہے، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر آج کچھ بھی بولنا انسان اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے چاہے اس کی وجہ سے معاشرے کو کوئی بھی نقصان اٹھانا پڑے۔ مساوات کے نام پر مردوزن کے درمیان بغاوت، نفرت اور ٹکراؤ کا ماحول تیار کیا جاچکا ہے۔ آج کا انسان مغرب کی چکاچوند زندگی سے اتنا متأثر ہے کہ سرپٹ اس کی طرف بڑھا چلا جارہاہے۔ اس زرق برق لائف اسٹائل کے پردۂ خفا میں کیا ہے اس پر غور کرنے کی اسے فرصت ہی نہیں۔ جبکہ دین بیزاری اور مادیت نے مغربی معاشرے کو پوری طرح کھوکھلا کردیا ہے۔ خاندانی تانا بانا پوری طرح سے بکھر چکا ہے۔ معاشرت اور ازدواجی زندگی کے مقدس رشتے خیانت وفساد کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ باہمی الفت ومحبت، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری، شوہر اور بیوی کے رشتوں کی نزاکت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ نہ بیٹا باپ کی سنتا ہے نہ بیٹی ماں کی۔ جوانی کی عمر کو پہنچتے ہی ان پر سختی کرنا، تادیباً مارنا، اخلاقیات کا درس دینا بہرے کو درس دینے جیسا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زنا عام ہے، نفسیاتی امن وسکون کا فقدان ہے، معاشرتی توازن بری طرح سے متأثر ہے، دین بیزاری اور فطرت سے بغاوت کی ذہنیت پورے شباب پر ہے۔ شخصی آزادی اور محبت کے نام پر آج معاشرے میں ایسی بے حیائی کو رواج دیا جارہا ہے جس کے تصور سے صالح معاشرہ لرز جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی، لواطت، برہنگی اختلاط، مطلق العنانی کے لیے عالمی پیمانے پر خوب پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، اس کے لیے قوانین بنائے جارہے ہیں، انھیں مین اسٹریم کا حصہ بنانے کے لیے ہر طرح کی کوششیں جاری ہیں۔
آج ILGA (آئی،ایل،جی ،اے) International Lesbian, Gay, Bisexual, Trans and Intersex Association (یعنی ہم جنس پرستوں، لوطیوں اور مخنثین کا عالمی ادارہ) جس کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی جس کا مقصد ہے پوری دنیا میں ہم جنس پرستوں اور لوطیوں کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا اور ان کے حقوق کے لیے سیاستدانوں، پارلیمنٹوں، تنظیموں اور عدلیہ پر اثر انداز ہونا ہے وہ پورے آب وتاب کے ساتھ متحرک ہے، اور ان کی کامیابی اور اثر انگیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے 110 ممالک میں یہ تنظیم کام کررہی ہے اور ( LGBT ایل ،بی،جی،ٹی) Lesbian,Gay,Bisixual,Transgender کمیونٹی کے حقوق کے لیے میڈیا، فلم انڈسٹری، سیاست این. جی. او (N.G.O) اور تمام مؤثر تنظیموں میں بڑے مؤثر طریقے سے رو بہ عمل ہے۔ اسرائیل تو ایشیا میں ہم جنس پرستوں کا مرکز اور انڈسٹری ہے جہاں انھیں ہرطرح کی آزادی حاصل ہے۔
اب ذرا غور کریں اور بتائیں کہ مشرقی معاشرہ جہاں دینداری اور اخلاقیات کا بول بالا ہے، جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل عام ہے، جہاں اسلام نے شخصی اور اجتماعی حقوق کی پوری طرح وضاحت کردی ہے۔ مردوزن کے رشتوں کی حیثیت کو متعین کردیا ہے جہاں محارم وغیر محارم کی حیثیت کوکھول کھول کر بیان کردیا گیاہے وہاں ہم جنس پرستی کی باتیں کرنا، لوطیوں کے حقوق کے لیے لڑنا، سحاقیات کے پرچم بلند کرنا، جنس تبدیل کرنے والوں کو بڑھاوا دینا، Live in Relationship (باہمی رضا مندی سے لڑکے لڑکی کا ایک ساتھ بلانکاح زندگی گزارنا اور جنسی تعلقات قائم کرنا) شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی ایک زنا کرے تو اسے قابلِ جرم نہ ماننا اور اختلاط مردوزن، نیم برہنگی اور ننگا پن کو عام کرنا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ کسی انسان کی شخصی رائے سے کوئی اختلاف کرتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے تو جس عمل سے پورا معاشرہ متأثر ہو، دینی جذبات کو ٹھیس پہنچے، دین اسلام کے واضح احکام کی پامالی ہو بھلا اسے کیسے تسلیم کیا جاسکتاہے؟ حقیقت میں اسے وہی لوگ تسلیم کرسکتے ہیں جنھیں اللہ کا خوف نہیں، آخرت کا ڈر نہیں، ایمان سے محرومی، دین بیزاری اور مغربیت کے جال میں پوری طرح پھنس چکا ہو۔
یادر کھیں جب یہ برائیاں معاشرے میں عام ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب عام ہوجاتا ہے اور قوموں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو ہلاک کرکے پوری دنیا کے لیے انھیں عبرت ونصیحت کا عنوان بنا دیا۔ آج مساواتِ مردوزن کے نام پر اور یکساں حقوق کی آڑ میں پردۂ خفا میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے خلاف یہ نام نہاد لوگ خوب آوازیں اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو دندانِ شکن جواب دیتے ہیں۔ آج کل پوری دنیا میں ایک نیا فیشن “#Me Too” تحریک یعنی ’’میں بھی‘‘ کا بول بالا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پوری دنیا میں خواتین فلم اسٹار نے یہ تحریک چلا رکھی ہے کہ کام کے دوران، فلم سازی کے وقت ہمیں پریشان کیا گیا، جسمانی اذیت دی گئی، ہمارے ساتھ زبردستی ریپ کیا گیا، ہماری بے عزتی کی گئی اور ہمیں پیسے وفلم کے نام پر بلیک میل کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اچھا اس تحریک کی بے چارگی اور سادہ لوحی کا اندازہ اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ جو عورتیں خوب زور و شور سے آوازیں اٹھا رہی ہیں ان کو پہلے سے بخوبی معلوم تھا اور ہے کہ فلم انڈسٹری میں ننگاپن، کسنگ، نیم برہنگی اور زناکاری عام فیشن ہے اور ہاں پٹرول کے پاس چنگاری چمکے گی تو آگ لگے گی ہی، مگر مساوات، فیم، ترقی، مادیت، ماڈرن ازم، خود مختاری اور آزادی کے سپنوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بے دھڑک اس طوفان بلاخیز میں قدم رکھتی ہیں اور جب کسی کے چنگل میں پھنستی ہیں تو اپنی کم مائیگی اور بیچارگی کا احساس ہوتا ہے اور تب تک عزت وناموس بکھر چکا ہوتا ہے اور کہنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ مگر یہ ترقی یافتہ خواتین بروقت آواز نہیں اٹھاتیں اور نہ ہی FIR درج کراتی ہیں بلکہ دس سال، بیس سال اور سالہا سال گزر جانے کے بعد اپنے سائلنٹ زون سے باہر آتی ہیں اور انقلاب برپا کردیتی ہیں جیسا کہ آج کل برپا ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ یہ صدائیں ان ایوانوں میں سب سے زیادہ بازگشت کرتی ہیں اور خواتین سب سے زیادہ انہی جگہوں پر شکار ہوتی ہیں جو حقوق نسواں اور مساوات مرد وزن کے چمپئین کہلاتے ہیں یعنی فلم انڈسٹری، میڈیا وصحافت، سیاست اور بزنس اسٹیبلشمنٹ وغیرہ۔ ترقی کی ان دہلیزوں پر عزتیں لٹتی ہیں، عصمتیں تار تار ہوتی ہیں، نازک اندام بے آبرو ہوتی ہیں، عزت وناموس نیلام ہوتا ہے اور جبر واکراہ کے سارے کھیل کھیلے جاتے ہیں مگر ان بناتِ حوا کو ہوش نہیں آتا، بار بار ٹھوکریں کھانے کے بعد پھر انہی دروازوں پر دستک دیتی ہیں۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔

اور سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:

( وَإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوء اً فَلاَ مَرَدَّ لَہُ وَمَا لَہُم مِّن دُونِہِ مِن وَالٍ) (سورۃ الرعد:11)’’

اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ بدلا نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام اخلاقی برائیوں سے محفوظ رکھے اور آزادی ومساوات کے جائز طریقے پر گامزن رکھے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000