قلمکاروں کو معاوضہ

شمس الرب خان

اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے بنیادی ذرائع میں سے دو ذرائع تقریر اور تحریر ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت اور خصوصیات ہیں۔ تمہید کے طور پر اتنا ہی بہت ہے، مزید کچھ لکھنا وقت کا ضیاع اور “شبدوں کا اسراف” ہے۔ اب اصل بات سنیے!
“اسلامی ہندوستانی دینی حلقے” اپنے تبلیغی فرائض کی انجام دہی کے لیے عموما تقریر اور تحریر دونوں کا استعمال کرتے ہیں۔ مساجد اور دینی جلسے تقریر کے خاص اسٹیج جب کہ دینی رسائل و مجلات تحریر کے خاص اسٹیج ہیں۔ بادی النظر میں تو یہی لگے گا کہ دینی حلقے دونوں ذرائع کا استعمال کرتے ہیں اور دونوں کو یکساں اہمیت دیتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تحریری میدان پر توجہ نہ کے برابر ہے۔ عام بول چال میں جسے ہم “دینی صحافت” کے نام سے جانتے ہیں، وہ دراصل انتہائی کھوکھلی، پھسپھسی اور بے جان ہے۔ اس کی وجہ سمجھنا دشوار نہیں ہے!
مدارس میں فن تقریر ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل ہے۔ کہیں ہفتہ میں ایک بار تو کہیں پندرہ دن میں ایک بار اردو/عربی میں تقریر کرنی ہوتی ہے۔ یہ تقریریں اساتذہ کی باقاعدہ نگرانی میں ہوتی ہیں۔ اساتذہ ان تقریروں پر نمبرات دیتے ہیں اور آخر میں اپنے ملاحظات کے ذریعہ طلبہ کی اصلاح کرتے اور اس فن میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، فن تحریر بطور لازمی مضمون شامل نہیں ہے۔ تھوڑے بہت جو انتظامات ہیں وہ اختیاری ہیں۔ نقش دیوار کی شکل میں شائع ہونے والے مجلات ہوں یا ہر سال کے آخر میں شائع ہونے والے طلبہ کے میگزین ہوں، سب کی نوعیت اختیاری ہوتی ہے اور ان سے وہی طلبہ استفادہ کرتے ہیں جو ذوق و شوق رکھتے ہیں۔ ایسے طلبہ کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔ نتیجتاً، طلبہ کی ایک بڑی تعداد فن تحریر سے نابلد ہوتی ہے یا کم از کم اس فن میں پختہ نہیں ہوتی۔ نصابی سطح پر فن تحریر کے ساتھ یہ امتیاز عام ہے۔
تعلیمی سطح سے آگے عملی میدان میں فن تحریر کے ساتھ امتیاز کی شکل شدید تر ہوجاتی ہے۔ یہاں بھی تقریر اور تحریر کے درمیان موازنہ کرکے دیکھا جائے تو حالت بہت مایوس کن نظر آتی ہے۔ شہر ممبئی میں جہاں خطبہ جمعہ کے لیے معاوضہ کی رقم کم از کم ایک ہزار روپیہ ہے اور جلسوں میں معاوضہ کی رقم خطیبوں کی کیٹیگری کے حساب سے ہزاروں میں ہے، وہیں دینی رسالوں اور مجلوں میں مضامین لکھنے والوں کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی جاتی۔ سب مفت میں حاصل کرکے شائع کیا جاتا ہے۔ کوئی معاوضہ دینا تو دور کی بات ہے، اوپر سے قلمکار کی تحریر شائع کرنا اس پر احسان کرنا سمجھا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان رسالوں کے ذمہ داران یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ اشاعت کے لیے تحریریں نہیں ملتی یا معیاری تحریریں نہیں ملتی۔ اس قسم کی شکایت کرنے والے یا تو انتہائی احمق ہیں یا انتہائی بے شرم! سب کچھ مفت میں چاہیے اور اوپر سے معیاری، فکر انگیز، چشم کشا، بصیرت افروز اور نہ جانے کیسی کیسی تحریریں بھی چاہیے۔ ارے بھئی، اچھا لکھنے کے لیے اچھے سے پڑھنا پڑتا ہے، تحقیق کرنی پڑتی ہے، وقت دینا پڑتا ہے، محنت کرنی پڑتی ہے، سر جوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے، تخلیق کے درد سے گزرنا پڑتا ہے، کچھ نہ کچھ خرچ بھی کرنا پڑتا ہے، تب جا کر ایک اچھا اور معیاری مضمون تیار ہوتا ہے۔ اتنی سی بات سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے!
میرے حلقہ احباب میں کئی مدیران ہیں جن سے اس سلسلے میں بات ہوتی رہتی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ قلمکاروں کے لیے کچھ نہ کچھ معاوضہ ہو لیکن ذمہ داران یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیتے ہیں کہ فنڈ کی کمی ہے۔ میرے خیال سے فنڈ کی کمی کا یہ رونا اگر کچھ ثابت کرتا ہے تو وہ یہ کہ فن تحریر سرے سے ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اگر فن تحریر ترجیحات میں شامل ہوتا تو اس کے لیے فنڈ کا انتظام کیا جاتا نہ کہ اس کو نپٹانے کے لیے فاضل فنڈ کو بروئے کار لایا جاتا یا لانے کے بارے میں سوچا جاتا۔ ترجیحات میں شامل چیزوں کے لیے فنڈ کی فراہمی کا اصول بنیادی ہے۔
بہرحال، بغیر لاگ لپیٹ کے یہ جان لیں کہ اگر تحریر کے مردہ میدان میں نئی روح پھونکنی ہے تو قلمکاروں کو مناسب معاوضہ دینا ہوگا۔ مناسب معاوضہ دینے کی شکل میں، ذمہ داران کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ قلمکاروں سے ضروری، اہم اور متعلقہ موضوعات پر معیاری مضامین کا مطالبہ کرسکیں۔ اس سے رسالوں کا معیار بلند ہوگا، قارئین کی تعداد بڑھے گی اور لکھنے پڑھنے کے تئیں لوگوں کا ذوق و شوق پروان چڑھے گا۔ فن تحریر کو زندہ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے تحریر کو بطور لازمی مضمون شامل نصاب کرنا اور قلمکاروں کو مناسب معاوضہ دینا ناگزیر ہو گیا ہے!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
نسيم سعيد

ایک اچھی چیز کی آپ نے نشاندہی فرمائی ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے واقعی مدارس میں فن تحریر پر نہ کے برابر دھیان دیا جاتا ہے