حکمران، عوام، انسانیت سوز کرپشن اور رشتۂ انعکاس

شمس الرب خان سماجیات

ہندوستان میں یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ حکمران انسانیت سے زیادہ عاری ہیں یا عوام. حکمرانوں کی غیر انسانی حرکتوں پر تو بات ہوتی رہتی ہے، لیکن کیا کبھی عوام نے اپنا محاسبہ کیا ہے کہ ان کے اندر کس قدر انسانیت ہے؟
بہت دنوں پہلے کی بات ہے. میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ ہم سب اسی وقت تک ایماندار ہیں جب تک ہمیں کرپشن کرنے کا موقع نہیں ملتا. میں اس وقت اس کی بات پر ٹھٹھکا تھا اور ہمارے درمیان اس کو لے کر بحث ومباحثہ بھی ہوا تھا. لیکن بعد میں جیسے جیسے مشاہدہ اور تجربہ بڑھتا گیا ویسے ویسے یہ ادراک ہونے لگا کہ اس بات میں سچائی ہے. چونکہ اصولی طور پر مطلق تعمیم غلطی کا امکان بڑھا دیتا ہے اور یہ بنیادی طور پر ایک غیر علمی وطیرہ ہے، اس لیے اس اصول نما بیان کو ہمارے ملکی پس منظر میں پانچ دس فیصد کی استثنائی رعایت دے دی جائے تو یہ سچ سے بیحد قریب ہو جاتا ہے.
حکمرانوں کی اخلاقیات عوام پر منعکس ہوتی ہیں یا عوام کی اخلاقیات حکمرانوں پر، یہ بحث پرانی ہے اور طویل بھی. مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا ہے البتہ ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے. کس طبقہ کی اخلاقیات کس طبقہ پر منعکس ہوتی ہیں، اس بحث میں یک سمتی پر اصرار کرنا غلطی کا موجب ہے. درست اور راجح بات یہ ہے کہ یہ ایک دو سمتی عمل ہے. یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے متاثر بھی ہوتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو متاثر بھی کرتے رہتے ہیں. اثر پذیری اور اثر اندازی کا یہ عمل برابر جاری رہتا ہے لیکن مختلف احوال و کوائف میں ان کے درمیان ان عناصر کی تقسیم کا تناسب گھٹتا بڑھتا رہتا ہے. عموما اس تناسب کا رجحان حکمراں طبقہ کی طرف زیادہ رہتا ہے. لیکن یہ بھی اپنے آپ میں تغیر پذیر مظہر ہے. یہی وجہ ہے کہ جہاں ملوکیت اور اس جیسے نظام میں حکمراں طبقہ کی اثراندازی کا تناسب زیادہ ہونے کا امکان غالب رہتا ہے، وہیں جمہوریت اور اس جیسے نظام میں عوام کی اثراندازی کا تناسب زیادہ یا کم از کم برابر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے. یہاں ایک بات کا اضافہ کرنا مناسب ہوگا. ملوکیت اور جمہوریت اور ان جیسے نظاموں میں اثراندازی کا جو تناسب بیان کیا گیا ہے، وہ زیادہ قرین قیاس ہے. البتہ کبھی کبھی اس تناسب میں برعکس رجحان بھی پایا جاتا ہے. ایسی صورت میں، ہمیں اصول کو کٹھگھرے میں کھڑا کرنے سے پہلے رائج نظام کے تئیں زیر نظر ملک کی وفاداری اور حقیقی معنوں میں اس کی تنفیذ پر غور کرنا چاہیے. ممکن ہے کہ کمزوری اصول میں نہ ہوکر نظام کی فروعی تنفیذ میں ہو.
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اصولی طور پر اثراندازی کا رجحان حکمراں طبقہ کی طرف غالب نہیں ہے. جمہوریت کی بطور نظام تنفیذ میں کمیوں کو نکال دیں، تب بھی عوام کے ہاتھ میں خاطر خواہ مقدار میں اثراندازی کے عوامل ہیں. اس پس منظر میں، ملک میں پائی جانے والی ساری خامیوں کا ٹھیکرا محض حکمرانوں کے سر پھوڑ دینا احساس جرم کو تھپکیاں دینے کے کام تو آسکتا ہے، لیکن درحقیقت ان خامیوں میں عوام کی بھی حصہ داری ہے. یہ حصہ داری کبھی کم ہے تو کبھی زیادہ، لیکن حصہ داری بہرحال ہے.
ہندوستانی عوام کی اکثریت کرپٹ ذہنیت کی حامل ہو گئی ہے، یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے. عوامی نقل وحمل کی جگہوں، اسپتالوں، دفتروں، کمپنیوں، دوکانوں اور دیگر گھریلو اور کام کاج کی جگہوں پر عوام کی کرپٹ ذہنیت کی کرتب بازیاں ہر روز دیکھنے کو ملتی ہیں. اطباء، مدرسین، وکلاء، تجارت پیشہ افراد، کارکنان وغیرہ کی اکثریت کرپشن کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے اور اسی وقت تک ایماندار رہتی ہے جب تک کہ اسے کرپشن کا موقع نہ فراہم ہو. موقع ملتے ہی ان کی اکثریت ایمانداری کا چولا یوں اتار پھینکتی ہے جیسے جسم فروش کمرہ بند ہوتے ہی اپنا لباس ہواؤں میں اچھال دیتی ہے.
عوام کا یہ کرپشن اکثر وبیشتر اوقات میں انسانیت کی حدود پھلانگ جاتا ہے، کیونکہ انسانیت سوزی ہی میں انہیں اپنا موقع نظر آتا ہے. مختلف بہانوں سے ایک غریب بیمار کا خون چوستا ہوا ڈاکٹر عوامی اخلاقیات کا ہی نمونہ پیش کر رہا ہوتا ہے. اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نہ نبھانے والا مدرس آنے والی نسلوں کو خراب کرکے عوامی اخلاقیات کا ہی درس دے رہا ہوتا ہے. قانون کو رکھیل بنا کر اس سے کھیلنے والے اور مؤکل سے مختلف حیلوں سے رقم اینٹھنے والے وکیل کا تعلق عوامی اخلاقیات ہی سے ہے. کالا بازاری کرنے والے اور انتہائی نازک اوقات میں بھی چھوٹے چھوٹے بہانوں سے اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرنے والے تجارت پیشہ افراد عوامی اخلاقیات کے ہی نمائندہ ہوتے ہیں. یہ محض موٹی موٹی مثالیں ہیں، وگرنہ سماج کی ہر سطح پر اسی قسم کی غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکتو‍ں کی ہوڑ سی مچی ہوئی ہے.
اس صورتحال میں، حکمرانوں کی اخلاقیات پر واویلا مچانا، ان کے کروڑوں، اربوں، کھربوں کے گھوٹالوں پر آسمان سر پر اٹھانا اور ان کی غیر انسانی حرکتوں پر چیخنا چلانا فیشن کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن دراصل حکمرانوں کی اخلاقیات، ان کے گھوٹالوں اور ان کی غیر انسانی حرکتوں میں عوام ہی کی اخلاقیات، کرپشن اور غیر انسانی حرکتوں کی عکس بندی ہے جس کے مناظر بڑے سینمائی پردے پر ہماری آنکھوں کے سامنے قدرے واضح انداز میں چل رہے ہیں.

آپ کے تبصرے

3000