خونیں سیاست کے برگ وبار اور امت کا حال زار

رشید سمیع سلفی

ادھر چند سالوں سے ملک عزیز میں نفرت وتعصب کے آتشیں بگولے چل رہے ہیں، بھگوا جنونیوں کا آتنک سر چڑھ کر بول رہا ہے، انسانیت فرقہ پرستی کی چکی میں پس رہی ہے، بے گناہوں کے خون سے کشت جمہوریت لالہ زار ہورہی ہے، انسان نما بھیڑیے انسانی لہو سے اپنی پیاس بجھارہے ہیں، کتنے بے چارے ان آدم خوروں کی درندگیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور نہ معلوم کتنے ہیں جو ان کے ہتھے چڑھنے باقی ہیں۔
جگہ جگہ خونیں واردات کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہاں انسان بستے ہیں، بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کوئی خوفناک جنگل ہے اور بھوکے درندے اور وحشی شکار کے منتظر ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو دادری، الور اور آصفہ کے ساتھ ہوئی بربریت پر نظر ثانی کرلیا جائے، پانچ سالہ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کے لیے آگ کا دریا اور بلاوں کی کالی رات ثابت ہوئی ہے، بھگوا دور حکمرانی کے اور بھی کئی برکات ہیں جس سے پورا ملک نہال ومالا مال ہورہا ہے لیکن ہم مسلمانوں پر اس زعفرانی حکومت کی کرم فرمائیوں کا تذکرہ کررہے ہیں۔
اول روز سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور آزار پہنچانے کے لیے ان گنت مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں، گھر واپسی، لو جہاد، گئو رکشا، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت، تین طلاق، ماب لنچنگ، یکساں سول کوڈ اور بار بار خطرناک دھمکیاں، اگر اس ملک میں رہنا ہے تو ہندو بن کے رہنا ہوگا 2019کے بعد اس ملک کو اسلام مکت بھارت بنا دیں گے یا یہ ملک ہندو پاکستان بن جائے گا۔ اور بھی گاہے بگاہے زہریلے بیان دے کر ملک کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ٹی وی شوز میں ان کے لیڈروں کے زہرخند بیانات کو سن کر لگتا ہے کہ اندر ہی اندر ایک دہکتا ہوا آتش فشاں پھٹ پڑنے کے لیے تیار ہے-
بڑی تیزی سے ہر اس نام کو تبدیل کیا جارہا ہے جس سے اسلام یا مسلم دور حکومت کی بو آرہی ہے، پچھلے چار سالوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار ہوگیا ہے، ہمایوں نگر اب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپادھیائے نگر ہوگیا اور مغل شہنشاہ اکبر کا بسایا ہوا الہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے۔
قوم‌ مسلم اس پورے دورانیے میں کمال صبر کا مظاہرہ کررہی ہے، وہ خوف کے سائے میں جی رہی ہے، ہراساں اور سراسیمہ ہے، عدم تحفظ کے احساس نے ان کے دماغ کو ماؤف کردیا ہے، ماب لنچنگ کی تصاویر دیکھ کر دل ودماغ لرز جاتے ہیں، سفر کرتے ہوئے یا اور کہیں جاتے ہوئے خدشات وخطرات کے احساس میں ایک ایک پل گذرتا ہے، گھر والوں کو اس وقت تک سکون میسر نہیں ہوتا جب تک کہ آدمی گھر نہ پہنچ جائے۔
اس پورے معاملے میں حکومت وقت کا رویہ مجرمانہ خاموشی کا ہے، چشم پوشی کا ہے، آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا، مسلمانوں کے ضبط کا کب تک امتحان لیا جائے گا، یہ یکطرفہ طور پر مسلمانوں کاصبر ہی تو ہے کہ اس قدر جانیں گنوانے کے بعد بھی ان کی طرف سے کوئی انتہاپسندانہ ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا، کیا بھیڑ کی شکل میں مسلمان کوئی واردات انجام نہیں دے سکتے؟ یاپھر کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنا سکتے لیکن مسلمان‌ قانون ہاتھ میں نہ لے کر صرف اور صرف قانون سے آس لگائے بیٹھا ہے، ہم تو پہلے ہی سے مصائب وآلام کی چکی میں پس رہے ہیں، غربت، بے روز گاری، ناخواندگی، پسماندگی کی مار جھیل رہے ہیں، برسراقتدار پارٹی کی ستم رانیوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ وہ پارٹیاں جو ایک زمانے سے تخت اقتدار پر ہمارے ووٹوں سے براجمان ہوتی رہی ہیں اور برموقع ضرورت لفظی تسلی کے ذریعے ہماری قربانیوں کا صلہ بھی دے دیا کرتی تھیں وہ بھی ہم سے نظریں چرا رہی ہیں کہ کہیں ان کا ہندو ووٹ بینک متاثر نہ ہوجائے، غیر مسلموں کا ووٹ بٹورنے کے چکر میں مسلمانوں سے فاصلہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے گویا اب مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بھی بنایا جارہاہے۔ انھیں حاشیے پر پہنچانے کی خاموش جد وجہد ہورہی ہے۔
ان تشویشناک حالات میں قوم مسلم ایک کٹی ہوئی پتنگ کے مانند فضا میں قلابازی کھارہی ہے، یہ اس طوفان زدہ کشتی کی طرح ہوگئی ہے جسے دور دور تک کوئی کنارہ نظر نہیں آرہا ہے۔ دراصل حالات کے جبر‌ اور مایوسیوں نے مسلمانوں کو تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہے، وہ ہر آزار کو اپنا مقدر اور انجام سمجھ کر خاموشی سے جھیل رہے ہیں، مسلم قائدین بھی کوئی امید افزا بات نہیں کرتے، بس اپنی پارٹی سے چند حقیر فائدوں کے لیے چپکے بیٹھے ہیں، ملی تنظیمیں جلسہ کرکے ملت کی نازک صورتحال کا رونا رو دیتی ہیں اور دکھ جتادیتی ہیں، چند لوگ جو پارلیمنٹ میں ممبر ہیں، وہ یا تو خاموش تماشائی بنے ہیں یا پھر ان کی ہر آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، ان کا ملی وجود لہولہان کیا جارہا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی رہے گی؟ کیا اس ملک میں بھی اسپین، برما اور بوسنیا کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ کیا یہ ملک سیکولر نہیں رہے گا؟ یہ سوالات آج ہر مسلمان کے دل ودماغ میں مچل رہے ہیں، کیونکہ ملک کے شب و روز یہی پیغام دے رہے ہیں، جوں جوں الیکشن قریب آرہا ہے جلتی پر تیل چھڑکنے کی کوشش ہورہی ہے، فرقہ پرستانہ ماحول کو بھڑکا کر ملک میں ایک اور قیامت برپا کرنے کی سازش ہورہی ہے، اقتدار کے بھوکے ایک قوم کی بربادی پر اپنا سیاسی محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ رام مندر کا ایشو گرمایا جارہا ہے۔ مسلم دشمنی کا ہوا کھڑا کرکے ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آراء کیا جارہا ہے۔

لا تہنوا ولا‌ تحزنوا
جب صورتحال یہ ہے تو ایسے میں امت مسلمہ کیا کرے، کیا یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے یا پھر اس نازک ترین حالات میں بھی ہمارے لیے کوئی لا ئحہ عمل ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو گھبرانے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں قوم مسلم مایوسی کو اپنا شعار نہیں بناتی، اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا ہے۔ شاید ہمارے اعمال خراب ہیں، کائنات کا رب ہم سے ناراض ہے، اس لیے ہم پر غیروں کو مسلط کرکے ہمیں خواب غفلت سے بیدار کررہا ہے، یہ سچ ہے کہ ایسے ہی حالات نے خوابیدہ قوموں کو بیدار کیا ہے۔ ہم کو نوشتہ دیوار پڑھ کر کچھ ہوشمندانہ اقدامات کرنے ہوں گے، غور وفکر کے ذریعے حالات کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا، واضح رہے اللہ کی مشیت شامل حال نہ ہو تو کوئی تدبیر بھی کار گر نہیں ہوسکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اصلاح حال کے ساتھ تعلق باللہ کو پائیدار بنائیں، کتاب وسنت کی طرف پلٹیں اور اپنے جملہ احوال کو کتاب وسنت کے تابع کرلیں اللہ کو ناخوش کرکے ہم کبھی سرخ رو نہیں ہوسکتے، آج ہم پر جو لوگ مسلط ہیں وہ ہم سے بہتر نہیں ہیں، وہ سراپا شر ہیں، شیطان کے ہرکارے ہیں لیکن اللہ کے قانون امہال کے تحت اللہ کی زمین میں فساد برپا کررہے ہیں اور شتر بے مہار کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں اور ہماری بد اعمالیوں نے انھیں موقع دیا ہے، ہم اگر اپنی اصلاح کرلیں تو منظرنامہ تبدیل ہوجائےگا اللہ فرماتا ہے:

وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏

ترجمہ:(اے مسلمانو) ! نہ تم سستی دکھانا اور نہ ہی غمزدہ ہونا اور اگر فی الواقع تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔(القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 139)
اگر رب کی منشا کے مطابق ہم اپنے کردار کو سنوار لیں تو اللہ دشمنوں کے مقابلے ہمارے غلبے کے اسباب پیدا فرمادے گا۔ یہ کائنات کے مسبب الاسباب کے لیے بڑی بات نہیں ہے۔

اختلاف سے نجات
امت کا انتشار ہر زمانے اور ہر دور میں مجموعی طور پر امت‌ مسلمہ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا ہے، عالم اسلام پر تاتاریوں کا حملہ اور اسپین پر عیسائیوں کی قہرمانیت مسلمانوں کے آپسی اختلاف کا نتیجہ تھی، آج امت مسلمہ اسلامی تاریخ کے غیرمعمولی سرپھٹول اور انتشار کے دور سے گذر رہی ہے، رنگ ونسل، ملک ووطن، مسلک ومذہب، ذات برادری کے نام پر ہم ٹکڑیوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک دوسرے سے عداوت ونفرت میں ہم نے دوسری قوموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، حد یہ ہے کہ اپنوں پر غیروں کو للکارا جارہا ہے، غیروں کے ہاتھوں ہمارے جان ومال کی تباہی کی آرزو کی جارہی ہے، کیا تال کٹورہ سٹیڈیم کا ڈرامہ آپ بھول گئے؟ مسلکی جن نے امت مسلمہ کو کیسا باؤلا بنادیا تھا اور کس طرح ایک مخصوص مکتب فکر کو دہشت گردی اور آتنک کا منبع کہا جارہاتھا، قوم کے اس مسلکی جنون کو آپ نے طلاق کے مسئلے میں نہیں دیکھا؟حالت تو یہ ہو گئی کہ مسلک کا بت نہ ٹوٹے بھلے ملت اسلامیہ ہند کی بقا داؤ پر لگ جائے، یہ ہمارا آپسی اختلاف ہی ہے کہ ہماری ہوا اکھڑی ہوئی ہے، ہماری قوت وطاقت ریزہ ریزہ ہورہی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ دور اختلاف میں دشمنوں کے ہاتھوں ہماری جان و مال عزت وآبرو سب تباہ ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں اس ملک میں عزت وآبرو کی زندگی چاہیے تو تمام گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر اور دنیاوی بتوں کو توڑ کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا، کلمہ توحید کی بنیاد پر باہم شیر و شکر ہونا ہوگا ورنہ
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو

غلط فہمیوں کا ازالہ
برادران وطن کے ذہنوں میں ہمارے تعلق سے غلط فہمیاں اور بد گمانیاں پیدا کی گئی ہیں، میڈیا نے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کی ہے، اسلام کو قتل وخونریزی تشددوانتہاپسندی کا خوگر ظاہر کیا گیا ہے، اس لیے آج بہت سے غیرمسلموں میں نفرت پائی جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ مسلمان موقع پاجائیں تو غیرمسلموں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے، یہ دہشت گرد ہیں، انتہا پسند ہیں، اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے، غیرمسلموں کے لیے ان کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس طرح کے کئی وساوس ہیں جنھوں نے ان کے ذہن ودماغ کو مسموم کر رکھا ‌‌ہے۔ ہمیں اس زہر کا تریاق تلاش کرنا ہے جو غیر مسلموں کے ذہن میں بویا گیا ہے، لھذا ضروری ہے کہ موثر ذرائع و وسائل سے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے، دین اسلام امن وسلامتی کا علمبردار ہے یہ دہشت اور آتنک کے خلاف ہے، یہ بات ان کے ذہن نشین کرائی جائے، جب ذہن سے گرد وغبار صاف ہوجائے گا تو ازخود ان کے دلوں میں اسلام کے لیے ہمدردی پیدا ہوجائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے جو بابری مسجد کے انہدام میں ملوث تھا وہ آج مساجد کی تعمیر کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے، وہ جو گجرات فسادات میں پیش پیش تھا وہ تائب ہو کر اپنے عمل پر شرمندہ ہے بلکہ مسلم سماج سے معافی مانگ رہاہے۔ جب شکوک وشبہات کے بادل چھٹتے ہیں تو ایسے ہی واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
وہ غیر مسلم جو سیکولر ہیں اور گاہے بگاہے مسلمانوں کے فیور میں بولتے ہیں انھیں اپنا اسٹیج دیا جائے اور ان کے ذریعہ ان تمام مسائل پر اظہار خیال کرایا جائے جن کے تئیں شکوک وشبہات پائے جارہے ہیں، میڈیا تک رسائی حاصل کرکے اپنی بات وہاں سے کہی جائے، جس طرح آڑے وقت ہم مسلمانوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں ایسے ہی غیرمسلموں کی بھی آڑے وقت مدد کی جائے، اگر برادران وطن کے ذہنوں کو صاف کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو فرقہ پرستوں کی سازشیں ناکام ہو جائیں گی۔ اور ملک میں پھر گنگا جمنی تہذیب اور بقائے باہم کی فضا استوار ہوگی۔

دعوت کا رول
آج ہم‌ دعوت کے میدان میں اپنے بزرگوں کی کوتاہیوں کی سزا بھگت رہے ہیں جنھوں نے کئی صدیاں اس ملک پر حکمرانی کی ہے لیکن غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، اس ملک میں ایک طویل زمانے تک دعوت کا کام سرد خانے میں پڑا رہا، بادشاہوں نے شاندار مقبرے، عالیشان عمارتیں اور دوسرے لا یعنی کام تو بہت کیے لیکن کوئی منظم اور منصوبہ بند دعوتی کام نہیں کیا۔ اللہ نے ہر طرح کے مواقع اور وسائل سے نوازا تھا لیکن عیش وعشرت اور شاہانہ کروفر میں ساری توانائیاں ضائع کردی گئیں، وہ موانع سے پاک ایسا سنہری دور تھا جب یہ سر زمین دعوت الی الله کے لیے بہت زرخیز تھی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
اب وہ وقت لد چکا ہے اور زمانہ تبدیل ہوکر ایک چیلنج کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑا ہے، دعوت کی راہ مشکلات و موانع کے خارزار سے گذر رہی ہے لیکن اللہ کی مدد ہمیشہ داعیوں کے ساتھ ہوتی ہے، آج بھی موثر دعوت کے ذریعے قلوب و اذہان فتح ہورہے ہیں، ضروری ہے کہ موجودہ صورتحال میں دعوت کے کام کو منظم اور موثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر مسلمان ان غیر مسلموں تک دعوت توحید پہنچائے جن تک ان کی رسائی ممکن ہو۔ بعید نہیں کہ دعوت کی برکت سے اسلام ایسے لوگوں پر کمندیں ڈال دے جو آج اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن ہیں، دعوت بڑی اعجوبہ روزگار شئی ہے، یہ ایک خاموش انقلاب کا نقطہ آغاز ہے۔ غور کیجیے کہ گہوارۂ کفر کے وہ عمر اسلام کے شیدائی بن جاتے ہیں جو پیغمبر اسلام کا سر لانے کے لیے نکلے تھے۔ ہمیں مایوسی سے دامن جھٹک کر مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جو آج اسلام کو اس ملک سے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی جد جہد کررہے ہیں ان کی ہدایت کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ نبی نے بھی اسلام کے کٹر دشمنوں کی ہدایت کے لیے اللہ سے دعا کی تھی۔آج وسائل وذرائع کی بہتات ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان حرکت میں آجائیں اور نبی کے اس فرمان کو عملی جامہ پہنائیں جس میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں بچے گا مگر اسلام اس میں داخل ہوجائے گا۔

اخلاق کی طاقت
نفرت کے ماحول میں مسلمانوں کو محبت کے پھول کھلانا ہوگا اور محبت کی کاشت کے لیےاسلامی اخلاق وکردار کی تخم ریزی کرنی ہوگی، حسن سلوک، درگذر، رحم، صبر، اعلی ظرفی، نرم خوئی کی خوشبو سے گرد وپیش کو مہکانا ہوگا۔ لہذا مسلمان اپنی شخصیت کو اسلامی اخلاقیات سے آراستہ وپیراستہ کرلیں، مسلمان جہاں بھی رہے ایک امتیازی شان کے ساتھ زندگی گذارے، گرد وپیش کے لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہیں، ملک میں دوسروں کے ساتھ اعلی اخلاق کا مظاہرہ بہت ضروری ہے، نرم خوئی سے پیش آنا ہمیشہ ایک مسلمان کا وطیرہ ہونا چاہیے، بالخصوص غیرمسلموں کے ساتھ تو ہمارا رویہ دلبرانہ اور من موہنا ہو۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

(وَلَا الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ)

ترجمہ: (اے نبی) نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ آپ (بدی کو) ایسی بات سے دفع کیجیے جو اچھی ہو۔ آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ سے عداوت تھی وہ آپ کا گہرا دوست بن گیا ہے۔ (القرآن – سورۃ 41 – فصلت – آیت 34)
اگر ہم نے اس حقیقت کو سمجھ کر عمل شروع کردیا تو یہ ایک سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
یہ بات بات پر غصہ اور اشتعال اور جارحانہ اسلوب غیروں میں ہماری تصویر کو منفی بنادیتا ہے، ہندو مسلم کی بات پر آپا کھو دینا اور جھگڑے اور لڑآئی پر آمادہ ہوجانا، بے برداشتی کا ثبوت دینا یہ ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں کا خونخوار انداز بھی مسائل وپیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ بزدلی وکم ہمتی نہیں بلکہ حکمت عملی اور اعلی اخلاق ہے، صلح حدیبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دب کر صلح کی تھی، سب نبی کے فیصلے پر غیر مطمئن تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا۔ اور بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ صلح دعوتی فتوحات کی طرف عظیم پیش رفت تھی۔ ہم دیکھتے ہیں جو مسلمان ٹی وی کے ڈبیٹ میں جاتے ہیں وہ تھوڑی ہی دیر میں متانت اور سنجیدگی کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی طرح بدزبانی پر آمادہ ہوجاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ وہ سب کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ یہ مناظر پورا ملک دیکھ رہا ہوتا ہے۔ غور کیجیے ملک کے طول وعرض میں کیا پیغام جاتاہوگا، پھر دوسروں اور ہم میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی کامیابی کا ایک بہت بڑا راز آپ کا حسن اخلاق تھا۔ کیا پتھروں کا جواب پھولوں سے اور گالیوں کا جواب دعاؤں سے دینے کی روایت اب بھولی بسری بات ہوگئی، ہم سے نبی کی سیرت کے یہ اوراق اوجھل ہی رہیں گے یا اسوہ رسول کو اپنا کر ملک میں ایک نئے دور کا آغاز کریں گے؟

سیاسی حکمت عملی
2019 کا پارلیمانی انتخاب طوفانی کیفیت سے قریب آرہا ہے، نفرت اور فرقہ پرستی کے بیوپاری اپنے سابقہ ہتھیاروں کے ساتھ میدان کارزار میں اتررہے ہیں۔ یہ عجیب ستم‌ظریفی ہے کہ سیکولر ملک میں مسلمان سیاسی بے وقعتی اور سیکولر پارٹیوں کی طرف سے بے نیازی و بے زاری کے تلخ تجربے سے گذررہا ہے، وہ پارٹیاں جو ماضی میں ہماری سیاسی پناہ گاہ تھیں وہ سرد مہری اور لا تعلقی کا خاموش مظاہرہ کر رہی ہیں، کیونکہ انھیں بی جے پی کے ہندو ووٹ بینک میں سیندھ لگانا ہے، ہندو ووٹ پر بی جے پی کے طریقے سے ہلہ بولنا ہے، یعنی ہمارے ووٹ کی کوئی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں مجبور محض سمجھ لیا گیا ہے، آج تک ہم صرف ان کی سیاسی ضرورت بن کر رہے تھے، جب ضرورت پوری ہوئی ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا، آج سے پہلے پارلیمنٹ اور ودھان سبھا میں ہماری نمائندگی کیا تھی لیکن اب کیا ہے۔ 1984سے پہلے پارلیمنٹ میں ہمارے نمائندوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہوتی تھی لیکن آج صورتحال کیا ہے آپ جانتے ہیں، جہاں سے ہمیشہ کانگریس جیت رہی تھی وہاں اگر حالت کو اور بہتر بنانے کے لیے کسی مسلمان کو کھڑا کیا گیا تو وہ ہار گیا کیونکہ غیر مسلموں نے مسلمان کو ووٹ نہیں دیا، نفرت اور مسلم دشمنی کا زہر ملک کے رگ وپے میں ایسا سرایت کرگیا ہے کہ لوگ اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں۔ اس لیے سیکولر پارٹیاں بھی بدرجہ مجبوری جمہوری روایات سے آنکھیں میچ کر ہندوؤں کو لبھانے میں لگی ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ ہمارے قائدین، علماء اور مسلم تنظیمیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل کے لیے کوئی سیاسی حکمت عملی اور لائحہ عمل تیار کریں۔ اب تک ہم نے ایک حکمت عملی پر عمل کیا اور اب اسے بدل کر زمانے کے تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی بنائیں جس سے ہمارا سیاسی وزن نمایاں ہوکر سامنے آئے، لیکن یاد رہے ہماری کوئی بھی حکمت عملی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم نہ کریں، پہلے اپنے بکھرے ہوئے شیرازے کو مجتمع کریں اور بہت خفیہ انداز میں کسی بھی سیاسی پارٹی سے معاہدہ کریں اور سب مل کر ایسے ہی کسی سیاسی پارٹی کے پلڑے میں اپنا سیاسی وزن ڈال دیں۔ لیکن چیخے چلائے بغیر صرف اپنے حقوق اور مظلومیت کی دہائی دیں، ساتھ ہی وہ قومیں جو غیر شعوری طور پر ہندو بنا دی گئی ہیں، جبکہ ہندوؤں کے عقائد واعمال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ایسے لوگوں کو بیدار کیا جائے اور فرقہ پرستوں کا اصلی چہرہ ان کے سامنے لایا جائے، ہریجن قوم جو ہماری طرح مظلوم ہے اس سے تعلقات کو استوار کیا جائے اور اس کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا جائے، مسلمان لیڈروں کو بھی اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکیں ہیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی پر سنجیدگی سے غور و خوض کیا جائے؟ ہمیں کچھ تو کرنا ہی ہوگا کیونکہ ہمارے لیے کوئی یوسف بن تاشفین یا محمد بن قاسم نجات دہندہ بن کر نہیں آئے گا اور یہ بھی یاد رہے، ہم الگ سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں بنا سکتے اگر ایسا کیا گیا تواس کا فائدہ فرقہ پرست پارٹیوں کو ہی پہنچےگا۔وہ اور زیادہ متحد ہوں گے اور پھر پوری قوت سے بھگوا پارٹی اقتدار میں آئے گی اور وہ سب کچھ کرے گی جو اس کے غنڈے اپنی تقریروں میں بولتے آئے ہیں۔ ہماری ادنی سیاسی غلطی ہمیں اس سے بھی بدتر اور خوفناک صورتحال سے دوچار کرسکتی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000