معاصر دنیا کے افکار واعمال کی فتوحات بے شمار ہیں۔ مظلوم انسانیت کے درد کو اس نے صحیح طور پر سمجھنے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اس نے یتیم بچوں، بے سہارا اور ضعیف العمر مردوں اورعورتوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے قسم قسم کے آشیانے بنائے ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک اس ’’کار خیر‘‘ کو انجام دینے میں پیش پیش ہیں۔ ان آشیانوں کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ عالمی رفاہی ادارے پورا کرتے ہیں، بہت سے ممالک اپنے طور پر اپنے ملکوں کے ان آشیانوں کو تعاون دیتے ہیں اور مخیر حضرات بھی ذاتی حیثیت سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ انفرادی طور پر تعاون دینے والوں کو کئی ممالک یہ سہولت بھی فراہم کرتے ہیں کہ ایسی رقومات سرکاری ٹیکس سے آزاد سمجھی جاتی ہیں۔
ان آشیانوں میں کھانے پینے، رہنے سہنے، تعلیم وتربیت اور دوا علاج وغیرہ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ملکوں کی خاص وزارتیں ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، ان کے لیے باتنخواہ عملے کی تقرری کی جاتی ہے اور صوبائی اور ضلعی سطح پرکئی سرکاری آفیسرز ان کے نگراں اور جواب دہ بنائے جاتے ہیں۔
ہمارے سماج کا یہ وہ طبقہ ہے جس کی محرومیوں کو دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔ خاص طور پر یتیم اور بے سہارا بچیاں اپنے والدین کی شفقت سے محروم ہوکر کس طرح کی اذیت محسوس کرتی ہیں۔ وہ ماں جو ان کے آنسو پونچھتی، انھیں لوریاں سناتی، ان کے نخرے اٹھاتی اور ان کے بال سنوارتی تھی، اب دنیا میں نہیں ہے یا کہیں بچھڑ گئی ہے۔ ان کا وہ باپ جو ان کا ایک مضبوط سہارا تھا، ان کے سروں پر جس کا سایہ تھا، جس کا وہ فخر وغرور تھیں، اب وہ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ ایسی بچیوں کے لیے حکومتوں نے انتظامات کیے اور عالمی خیراتی اداروں نے ان کی مدد کی۔ حکومتوں کے پاس ان آشیانوں کا نظام بہتر سے بہتر چلانے کے لیے اتنے وسائل ہیں کہ اگر ان کو ایمان داری اور امانت داری سے چلایا جائے تو ان آشیانوں کا ہر محروم فرد ایک باوقار زندگی جی سکتا ہے۔ہر ایک کو بہتر سے بہتر تعلیم دی جاسکتی ہے، ہر بچی ادب اور سلیقہ میں ممتاز ہوسکتی ہے اور بہتر سے بہتر رشتہ اسے مل سکتا ہے، جیون ساتھی کا ساتھ پاکر وہ اپنی زندگی کی تمام محرومیاں بھلا سکتی ہے اور ایک بہتر سماجی زندگی جی سکتی ہے۔
لیکن یہ ہم آج کیا دیکھ رہے ہیں، ہمارے اپنے ملک کے کئی آشیانوں سے یہ کیا خبریں آرہی ہیں۔ ان آشیانوں میں مقیم بچیوں کی حالت زار پر میڈیا کی اب تک نگاہ کیوں نہیں گئی۔ان اداروں کی جعلی رپورٹ تیار کرکے سب کچھ خیریت ہے، کا سرٹیفکیٹ کون دیتا رہا اور کس کے اشارے پر دیتا رہا۔ کیا اعلی مناصب پر فائز حضرات اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس قدر بے حس ہوگئے ہیں کہ وہ مظلوموں اور محروموں کے منہ کا نوالہ چھین لیتے ہیں یا چھیننے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اخبارات میں جو خبریں پڑھنے کو ملیں، ان سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جن خواتین کو ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھا گیا، انھوں نے ان مظلوم بچیوں کو اذیتیں دیں۔ ایک عورت کے سینے میں ماں کا دل دھڑکتا ہے، یہ کیسی عورتیں تھیں جن کے سینے پتھر کے تھے اور جو ڈائن سے بھی زیادہ خطرناک تھیں۔ بات بات پر کھانا روک لینا، سزائیں دینا، گالیاں بکنا اور بیمار ہوجائیں تو مناسب علاج نہ کرانا کیسی قساوت قلبی تھی۔
ان نگراں اور وارڈن عورتوں کے بارے میں یہ خبریں بھی آئیں کہ وہ بلوغت سے پہلے ذہنی طور پر ان بے سہارا بچیوں کو سیکس کے لیے تیار کرتی تھیں۔ ان کے درمیان ننگی ہوکر لیٹنا اور چھیڑ خانی کرنا ان کا معمول تھا۔شام ہوتے ہی چمچماتی گاڑیاں آشیانوں کے دروازوں پر آجاتیں اور ان میں کئی ایک کو بٹھا کر مختلف مقامات پر پہنچادیا جاتا۔ صبح ہوتے ہی گاڑیاں انھیں آشیانوں کے دروازوں پر چھوڑ جاتیں۔ یہ کیسا کاروبار تھا، یہ کاروباری لوگ کون تھے، معصوم بچیوں کے جسموں کو لہو لہان کرنے والے کون تھے۔ علاقے کی پولس کیا کررہی تھی۔کسی گاڑی کا کسی دروازے پر روزانہ آنا کیا خفیہ اداروں کو نہیں کھٹکتا تھا۔ اب کوئی سوال کس سے پوچھا جائے اور ذمہ داری کس کے اوپر ڈالی جائے۔ واہ رے بے چارگی اور مجبوری کہ سب کچھ ہوتا رہا، بعض لوگوں کو اس کی خبر بھی تھی لیکن جان کا خوف اس قدر غالب رہا کہ زبانوں پر تالے پڑے رہے۔ رات بھر جنسی درندے معصوم جسموں کی بوٹیاں نوچتے رہے، ننھی کلیوں کو پیروں تلے روندتے رہے اور مہذب سماج کھڑا دیکھتا رہا۔ آج جب کہ ساری سچائی سامنے آچکی ہے ،کسی کی جواب دہی طے نہیں ہوپارہی ہے۔ تالاب کے مگر مچھوں کو بچانے کے لیے چھوٹی مچھلیوں پر نشانہ سادھا جارہا ہے۔
کبھی کبھی ایک حساس ذہن خود کویہ سوچنے پر مجبور پاتا ہے کہ الٰہی ہم کس سماج میں جی رہے ہیں۔ یہ سماج انسانوں کی آبادی پر مشتمل ہے یا جانوروں کی بستی ہم نے بسارکھی ہے۔ جیسا کہ خبریں آئی ہیں کہ اس میں کئی ایک سیاسی نیتا ملوث تھے، کئی ذمہ داران آفیسرز کی ملی بھگت تھی اور یہ بے سہارا بچیاں پیسہ کمائی کی مشین بنادی گئی تھیں۔
اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کا عالمی منشور ترتیب دے کر یہ سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا پہلے کے مقابلے میں مہذب اور زیادہ ذمہ دار بن جائے گی لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ انسانیت کے جس استحصال کو روکنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں خواتین کے تحفظ کے لیے ایسے آشیانے بنائے گئے تھے، ان میں استحصال شروع ہوگیا، جنسی بھیڑیے بہت آسانی سے اپنا شکار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ معصوم بچیاں اپنا سب کچھ لٹانے پر مجبور کردی گئیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو خواتین کی آزادی اور خود مختاری کی بات کرتے ہیں، کہاں ہیں حقوق انسانی کے وہ ادارے جو انسانیت کی مسیحائی کا دعوی کرتے ہیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کے ادارے بھی بری طرح کرپشن کے شکار ہیں۔ بڑی طاقتیں جہاں چاہتی ہیں، حقوق انسانی کی پامالی کے نام پر جنگ کے حالات برپا کردیتی ہیں اور جہاں ان کے مفادات نہیں ہوتے، وہاں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ دین بے زار اور آخرت سے بے نیاز ادارے اور افراد انسانیت کے ہم درد کبھی نہیں ہوسکتے۔ جو شخص اسی مادی دنیا کو سب کچھ سمجھتا ہو، یہاں کے عیش وآرام کو اپنی کل کائنات سمجھتا ہو، اس سے یہ امید فضول ہے کہ وہ انسانیت کا ہمدرد وبہی خواہ ہوگا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے مسلم ممالک بھی اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ انفرادی طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی مادیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ جن محترم علماء کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسلامی تعلیمات عام کرکے پہلے مسلمانوں کی تربیت فرمائیں گے اور دنیا کے دوسرے انسانوں تک اللہ کا سچا دین پہنچائیں گے، انھوں نے اپنی ایک الگ دنیا بنالی ہے۔ یہ دنیا بڑی خوش رنگ ہے۔ کہیں قوالی کو ذریعہ نجات سمجھ لیا گیا ہے، کہیں بارہ ربیع الاول کا جلوس سارے دکھوں کا علاج بن گیا ہے، کہیں مزارات پر سجدے اور پھول مالا عروج وترقی کی ضمانت بن گئے ہیں، کہیں ائمہ وفقہاء کی اندھی تقلید کے بغیر اسلام کو ناقص قرار دے دیا گیا ہے اور کہیں اپنے اپنے مسلکی امتیازات دخول جنت کا سبب بنادیے گئے ہیں۔ دینی مدارس کو بھی اسی مسلکی تعصب اور فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
عزتوں اور حرمتوں کی یہ پامالی ہمیں نظر نہیں آتی، اس نوعیت کے مظالم ہمارے ایجنڈے سے باہر ہیں۔ دنیا کو ظلم سے نجات دلانے اور دنیا میں عدل وانصاف قائم کرنے کی تنہا ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ آخری دین اور مکمل دین کے حامل ہونے کا اس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں ہے۔ یوں تو ہم بڑے بڑے جلسے منعقد کرتے ہیں، انسانیت کی اس بے حرمتی کے خلاف جلسے کیوں نہیں کرتے۔ ملک میں فساد پھیل رہا ہے، ملکی معیشت تباہ کی جارہی ہے اور ملک کی سیاست میں دیمک لگی ہوئی ہے، کیا اس حوالے سے ہماری کوئی ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ کے اس آفاقی اور عالم گیر دین کو ہم نے عیسائیت کی طرح ذاتی زندگی کا ایک انتخاب بنادیا اور اسے اجتماعیت سے دور کردیا۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس قسم کی فکر کیوں کر عام ہوئی؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف زبان نہ کھولو، وہ جیسے بھی ہیں، زمین پر اللہ کا سایہ اور انسانیت کے محافظ ہیں۔ سیاست اور حکومت کی بات کروگے تو تم صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ گے۔ مسجد میں اذان ہوتی ہے، نماز باجماعت ادا کرتے ہو، اپنے مرضی سے زکوۃ دیتے ہو، روزہ رکھتے ہو اور حج کے لیے راستے کھلے ہیں، سرمایہ موجود ہو تو حج کرنے میں کوئی پریشانی نہیں۔ اسلام کے ستون کھڑے ہیں، اب مزید کیا چاہیے۔ مٹھی بھر لوگ پورے ملک کا سودا کرلیں ،اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ساری معیشت اپنے گھر کی جائیداد بنالیں، اس سے تمھیں کیا پریشانی ہے؟ اصول اور ضابطے کا خیال رکھے بغیر جسے چاہیں قتل کردیں، جسے چاہیں جیل میں ڈال دیں، اس پر اپنا دماغ لگاتے کیوں ہو۔ یہ سب سوچنا تمھارا کام نہیں ہے۔
جس اسلام کی تصویر یہ بنادی گئی ہو، اس اسلام کی دنیا کو ضرورت کیا ہے؟ جب وہ اجتماعی زندگی سے بے دخل کردیا گیا ہے تو زمین پر اس کا رول کیا ہے۔ کتنے سادح لوح اور معصوم ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں حکومت واقتدار اللہ کا انعام ہے، تھالی میں سجاکر فرشتے آپ کی خدمت میں اسے ایک دن پیش کردیں گے۔ اگر یہی بات تھی تو پھر ہمارے نبی ﷺ نے مدنی زندگی میں چھوٹی بڑی ۶۵؍جنگیں کیوں لڑیں، کل دس سال کی مدت میں رحمت عالم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ کی کتاب کو زمین پر نافذ کیا، وہ کتاب جسے آج ہم ثواب کمانے، مردوں کو بخشنے اور جن وآسیب سے چھٹکارا پانے کے لیے استعمال کررہے ہیں اور ہمیں ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ اسلامی فکر، اس کے عقیدہ اوراس کی اساسی تعلیمات کو مسخ کردیا گیا اور کمال یہ ہے کہ اسی کو صحیح منہج اور صراط مستقیم بتایا جارہا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘میں لکھا ہے کہ اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسلام کے ہاتھوں میں اقتدار نہ ہو لہذا اقتدار کا قیام واجب ہے کیوں کہ اس کے بغیر اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ہماری عظمت پر زوال قوت فکر وعمل کے فنا ہونے کے بعد ہی آیا ہے۔


موضوع بہت اہم ہے اور شیخ نے خوب لکھا ہے ماشاء اللہ۔۔۔
بس مسلک پر طنز کرتے کرتے آخر میں جاکر شیخ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنے مسلک (یا یوں کہہ لیں اپنے پسندیدہ مسلک) کی خوبصورت ترجمانی کر ہی دی۔۔۔