مولانا اسرار الحق قاسمی ایم پی نہ تو مولانا ابوالکلام آزاد تھے اور نہ ہی مولانا حفظ الرحمن۔ لیکن ان دونوں شخصیات کی سیاسی وراثت کے کسی حد تک امین ضرور تھے اور اس دورِ قحط الرجال میں ان کا دم بہت غنیمت تھا۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں نے آزاد ہندوستان میں مولانا آزاد کے بعد کسی مسلمان کو اپنا قائد نہیں مانا۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے۔ لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ دوسرا کوئی مولانا آزاد پیدا بھی نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں لیڈروں کی کمی رہی ہے یا ہے۔ ہر گلی، ہر کوچے، ہر محلے، ہر گاؤں اور ہر شہر میں مسلم لیڈروں کی کھیپ کی کھیپ مل جائے گی۔ لیکن وائے افسوس یہ تمام لوگ بزعم خویش مسلم لیڈر تو ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی قائد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ کہنے کو تو ہم کسی کو بھی قائد ملت کہہ لیں یا قائد قوم کہہ لیں یا قائد انقلاب کہہ لیں لیکن کیا حقیقتاً ہمارے درمیان کوئی ایسا موجود ہے جو ان اصطلاحوں کے معیار پر کھرا اترتا ہو۔ ہاں مولانا آزاد کے بعد چند ایک ایسے مسلم رہنما ضرور گزرے ہیں جن کے دلوں میں واقعی ملت اسلامیہ کا درد تھا اور وہ اسے مسائل و مصائب کے دلدل سے نکالنا چاہتے تھے۔ لیکن حالات نے انھیں بھی کچھ خاص کرنے کا موقع نہیں دیا۔
ایسے ماحول میں جبکہ ملت نوازی محض ایک ڈھونگ بن گئی ہو یا ذاتی مفادات کے لیے ڈھال کا کام دے رہی ہو، مولانا اسرار الحق قاسمی ایم پی کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ حالیہ دنوں میں جب پہلے مولانا عبد الوہاب خلجی پھر مولانا محمد سالم قاسمی کے انتقال نے مسلمانان ہند کے بارِ غم میں اضافہ کیا ہو، مولانا اسرار الحق قاسمی کا جانا اس بارِ غم کو مزید وزنی بنا رہا ہے۔ اسی درمیان سابق مرکزی وزیر سی کے جعفر شریف بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ جعفر شریف اور مذکورہ علما اگر چہ الگ الگ صفوں سے یا الگ الگ مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا مقصد ایک تھا، ان کا ہدف مشترک تھا۔ ان شخصیات کی خدمات الگ الگ میدانوں میں نمایاں رہی ہیں۔ جعفر شریف نے جہاں ریلوے وزیر کی حیثیت سے بے شمار بے روزگار مسلم نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا وہیں مولانا اسرار الحق قاسمی نے ملی، سماجی اور تعلیمی شعبوں میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ اگر ان کو آگے بڑھایا جائے تو وہ ایک انقلاب کا نقیب بن سکتے ہیں۔ مولانا قاسمی روایتی علما اور روایتی سیاست دانوں کے بالکل برعکس تھے۔ وہ ملت کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے تھے اور خاموشی کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ وہ شور و شر کو پسند نہیں کرتے تھے۔ غوغا آرائی ان کے مذہب میں نہیں تھی اور خود نمائی ان کے کردار کا حصہ نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے کسی کام کا ڈنکا نہیں بجایا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر ذاتی مراعات و مناصب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ علامہ اقبال کے اس شعر کے پیکر تھے:
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز
اگر یہ کہا جائے تو شاید بیجا نہیں ہوگا کہ وہ ہمارے اسلاف کے ایک سچے نمائندہ تھے۔ ان کی سیاست بھی پاک صاف تھی اور ان کا دامن بھی صاف تھا۔ کوئلے کی کان میں رہ کر بھی ان کے ہاتھ سیاہ نہیں ہوئے۔ وہ پہلے ۲۰۰۹ء میں کشن گنج سے کانگریس کے ایم پی منتخب ہوئے اور پھر ۲۰۱۴ء میں بھی جبکہ نریندر مودی کا طوطی بول رہا تھا، کامیابی کا پرچم بلند کیا۔ حالانکہ اس سے قبل وہ پانچ مرتبہ شکست سے دوچار ہو چکے تھے۔ لیکن چونکہ دھن کے پکے تھے اس لیے انھوں نے ہار نہیں مانی اور بالآخر دودو بار کامیابی حاصل کی۔ ان کے نزدیک پورا ملک ان کا اپنا گھر تھا اور ہر جگہ پہنچنا وہ اپنے لیے فرض عین سمجھتے تھے۔ انتہائی جفا کش تھے۔ ملک کے کسی بھی کونے سے کوئی بھی ان کو ملت کے کسی معمولی سے کام کے لیے بھی مدعو کرتا تو وہ ضرور حاضری دیتے۔ وہ ذاتی آرام و آسائش پر جسمانی تکالیف کو اہمیت دیتے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ اگر ان کی ذات سے کسی کو کوئی چھوٹا سا بھی فائدہ پہنچ جائے تو وہ حاضر ہیں۔ انھوں نے آل انڈیا ملی تعلیمی فاونڈیشن کی بنیاد ڈال کر دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں علم کی شمعیں روشن کیں جن سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسکولوں اور مدارس کا قیام کرکے انھوں نے ان پسماندہ اور غریب بچوں کی تعلیم کا بند و بست کیا جو علم کی دولت سے محروم تھے۔ اس کے علاوہ کشن گنج میں مسلم یونیورسٹی سینٹر کے قیام میں ان کی گراں قدر مساعی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے پہلے جمعیۃ علما میں اور پھر آل انڈیا ملی کونسل میں رہ کر جو خدمات انجام دیں وہ بھی قابل ذکر ہیں۔
مولانا قاسمی اخلاص کا پیکر تھے۔ خاکساری و انکساری ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ ایم پی بننے سے قبل وہ جیسے تھے ایم پی بننے کے بعد بھی ویسے ہی رہے۔ نہ عہدہ و منصب کی کوئی تمکنت نہ ہی ’معزز رکن پارلیمنٹ‘ بننے کا کوئی غرور۔ ہونٹوں پر وہی روایتی مسکراہٹ اور گفتگو میں وہی پرانا اپنا پن اور وہی دلنوازی جو کہ ان کی شخصیت کی شناخت تھی او رجو ان کا طرۂ امتیاز بھی تھا۔ جب بھی ملتے اور جس سے بھی ملتے محبت آمیز انداز میں ملتے۔ وہ انتہائی وسیع المشرب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے مکاتب فکر میں بھی یکساں مقبول تھے۔ دوسرے لوگ بھی ان کو عزت و تکریم کے ساتھ مدعو کرتے اور ان کی خدمت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے۔ غیر مسلموں کا بھی بڑا حلقہ ان کا مداح ہے۔ وہاں بھی ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ روایتی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے۔ مسلکی اتحاد اور مذہبی یکجہتی کے حامی تھے۔ انھوں نے کبھی بھی کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچی ہو یا جو کسی تنازعے کا سبب بنا ہو۔ تنازعات سے ان کا دور دور تک کوئی رشتہ نہیں تھا۔ سیاست میں اصولوں اور قدروں کے پیروکار تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں کانگریس میں ان کے مداحوں کی تعداد زیادہ ہے وہیں مخالف جماعتوں میں بھی ان کے قدردانوں کی کمی نہیں۔ حالانکہ وہ اعلائے کلمۃ الحق میں کبھی پیچھے بھی نہیں رہے۔ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا کہ مولانا قاسمی پارلیمنٹ میں اپنا وہ رول ادا نہیں کر رہے ہیں جو ان کو کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو پائیں گے کہ ایوان میں وہ جب بھی بولے مصلحت کوشیوں سے دور رہ کر بولے۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی تقریر کی اس کا حق ادا کیا اور انھیں جو کہنا چاہیے تھا انھوں نے وہی کہا۔ انھوں نے اس کی پروا نہیں کی کہ ان کی حق گوئی سے انھیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص کسی سیاسی جماعت کا رکن ایوان ہے تو اسے بہر حال اپنی پارٹی کی پالیسیوں کا لحاظ بھی رکھنا ہوتا ہے۔
مولانا اسرار الحق قاسمی ایک بیباک اور بے لاگ مقرر تھے۔ لیکن وہ صرف مقرر ہی نہیں تھے اور نہ ہی ان کا شمار ان مقررین میں کیا جا سکتا ہے جو صرف اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اسی کی روٹی توڑتے ہیں، جو اپنی لسانیت سے کبھی اس پلڑے میں تو کبھی اس پلڑے میں جھک جاتے ہیں۔ مولانا قاسمی کا تعلق اس قبیل سے ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ سیاست میں وہ ایک اصول کے پابند تھے۔ اسی لیے انھوں نے کبھی بھی سیاسی سودے بازی نہیں کی اور نہ ہی ذاتی مفاد کے لیے پلیٹ فارم بدلا۔ قوم و ملت کی نبض پر ان کی انگلی تھی۔ اس کا ثبوت ان کے وہ کالم اور مضامین ہیں جو ملک و بیرون ملک کے اخبارات و رسائل میں برسوں سے تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ ایک نیک انسان تھے۔ اطلاعات کے مطابق کارزارِ حیات کی آخری شب میں بھی انھوں نے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اپنا فرض منصبی ادا کیا۔ ان کے بلندیٔ درجات کا یہ ثبوت ہے کہ خطاب کے بعد نماز تہجد ادا کی اور وضو کرکے نماز فجر کی تیاری کر رہے تھے کہ فرشتہ اجل نے ان کی روح قبض کر لی۔
کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوۃ و درود لب پہ صلوۃ و درود
بہترین اور بر وقت