میں مرنا چاہتا ہوں لیکن…..

کاشف شکیل

اسلام پر کفر و شرک کی یلغار ہے، ہر سو ظلم‌ اور اتیاچار ہے، فتنوں کا طومار ہے، بیماریوں کا انبار ہے، سو فیصد بخار ہے، زکام کا آبشار ہے، بندہ لاچار ہے، بے برگ و بار ہے، اوپر سے قرضدار ہے اور بے یار و مددگار ہے، یہی اکثر کا حال زار ہے، ایسی صورت میں بعض لوگوں کا وچار ہے کہ دنیا میں کس کو قرار ہے؟ مرنا تو سبھی کو چار و نا چار ہے تو کیوں نہ آج ہی مر جائیں،قبر کے اصلی گھر جائیں، زندگی ختم مسائل ہضم۔
سو میرے بھائی! ہم کوئی شترمرغ نہیں کہ سر چھپا لیں اور خود کو محفوظ سمجھ بیٹھیں، موت مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ ایک بزدلی ہے مسئلے سے فرار ہے، دراصل زندگی مسائل سے نمٹنے کا نام ہے، زندگی کا مطلب ہے چلنا اور چلتے رہنا،
وہ جو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے
زندگی سے مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب ہم زندگی کے عظیم مقصد کو فراموش کر بیٹھتے ہیں، بندہ ہو کر بندگی بھول جاتے ہیں، جب ہمارا مقصد پہاڑ جیسا ہوگا تو ہم اس مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی تمام چیزوں کو سنگریزوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیں گے،
ہوشمند افراد مایوسی کے آسمان میں بھی امیدوں کے تارے دیکھتے ہیں۔ وہ تمناؤں کی نعش کا بوجھ لیے نہیں پھرتے بلکہ نفس مسیحائی کے حامل حوصلوں کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ اندر سے “قم باذن اللہ” کی صدا اٹھتی ہے۔ آرزؤں کی لاشیں پھر سے روح کا لباس پہن لیتی ہیں اور ٹوٹے ارادے بندھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر حامد الانصاری انجم نے کیا خوب کہا ہے
نہیں ہے تم میں تازگی تو پھولوں سے ادھار لو
نہیں ہے تم میں روشنی تو تاروں کو اتار لو
ہے راہ پرخطر تو اپنے عزم کو پکار لو
قدم بڑھاؤ ساتھیو! یہ وقت کی پکار ہے
انسان جس بھی حال میں ہو، وہ کبھی اللہ کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پر نعمتوں کا تناسب کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ مثلا اللہ نے کسی شخص کو ساری نعمتوں سے نوازا مگر صحت، مال، عقل، جوانی یا خوبصورتی کی نعمت سے محروم کر دیا تو اس کو ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس نعمت کے علاوہ اللہ کی دوسری عطا کردہ نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے۔
ہر وقت وادی یاس میں سرگردانی اور جوئے حزن میں غوطہ زنی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ قرآن نے جہاں بھی حزن و ملال کا تذکرہ کیا ہے منفی سیاق ہی میں کیا ہے۔
انسانی صحت کی تین قسمیں ہیں۔
1-روحانی
2- نفسیاتی
3-جسمانی
روحانی صحت اہم ترین ہے، توحید و اتباع سنت کے ذریعہ ہی انسان روحانی طور پر صحتمند ہو سکتا ہے۔
بعدہ نفسیاتی صحت ہے، انسان جب غم و یاس اور حزن و ملال کے بجائے خوش رہنا سیکھ لے، صبر و قناعت اپنا لے تبھی وہ نفسیاتی طور پر صحت مند کہا جائے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “تن درست” ہونے سے اہم یہ ہے کہ انسان “من درست” ہو، یعنی اس کا من مایوسی سے دور ہو، اس کی ہر سانس زندہ ہو، اس کا دل غیر شعوری طور پر نہیں بلکہ شعوری طور پر دھڑکتا ہو۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
فیض حمیدی

بھائی براہیم ذوق کی شاعری اور آپ کا نثر ازحد مطابقت رکھتے ہیں۔
عمدہ اور قابل سلام پیغام

خبیب حسن

بہترین👍

کے ایم جوہر-کمپینر فار کوالٹی ایجوکیشن

بہترین