حسن اخلاق اور حسن کلام

رشید سمیع سلفی گوشہ اطفال

(بچوں کے لیے لکھی گئی ایک انعام یافتہ تقریر)

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
اخلاق انسانی شخصیت کا وہ امتیاز ہے جو اسے دوسری مخلوقات سے الگ کرتا ہے، عمدہ اخلاق انسانیت کی معراج ہے، ایک مسلمان کا طرہ امتیاز ہے، ایک مؤمن کی شخصیت کا جوہر ہے، اخلاق سے عاری انسان مقام انسانیت سے فروتر ہے، شر و بدی کا خوگر ہے۔ وہ اخلاق ہی ہے جو دشمن کو بھی جھکادیتا ہے، وہ اخلاق ہی ہے جو نفرت کے خارزار کو محبت کے گلستان میں تبدیل کردیتا ہے، پتھر کو پگھلانے اور باغ ہستی کو مہکانے کی تاثیر اخلاق میں ہے، اخلاق کیاہے، اپنے حسن برتاؤ سے اپنے اکسیر صفت کردار سے لوگوں کو خوش کردینا، لوگوں کی تلخیوں پر صبر کرنا، پتھر پھینکنے والوں کو دعاوں کی سوغات سے نوازنا، تلخ وترش رویے کا جواب ملائمت اور محبت سے دینا، یہ چمنستان اخلاق کے گل وگلاب ہیں۔ جب فضائے اخلاق پرموسم خزاں طاری ہوتا ہے تو انسانی بستیاں جنگل کا روپ دھار لیتی ہیں، مروت روپوش ہوجاتی ہے، شرافت لقمہ اجل بن جاتی ہے، پھر کہیں دادری کا دلخراش سانحہ رونما ہوتا ہے، کہیں الور میں انسانیت سوز واردات انجام دی جاتی ہے، کہیں ننھی آصفہ کے وجود اور عصمت کو پھول کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔ اخلاقی زوال کے اس پرآشوب دور میں سماج اور معاشرے کا حال یہ ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، جیل خانوں میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ، جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے، شراب خانے، جوا، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری، زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ، خوشامد، دوغلے پن، حرص، طمع، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض اور بیماری ہے جو ہم میں نہیں۔ خود غرضی اور بد عنوانی کا ایسا کون سا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کون سی قسم ہے جو ہمارے یہاں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کون سے مظاہر ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟
ایک دو زخم نہیں پورا بدن ہے چھلنی
زخم بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
سامعین باتمکین: آج حسن اخلاق کا موضوع مرے ناقص ذہن کو پیکر اخلاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مبذول کررہا ہے، وہ بے مثال شخصیت جس نے اخلاقی قدروں کو نقطہ کمال تک پہنچایا تھا اور جن کے حسن اخلاق کے حیرت ناک کرشمے تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔ یاد کیجیے کہ جانی دشمن آپ کے تیر اخلاق سے گھائل ہوکر کہتا تھا یا رسول اللہ! آج سے پہلے آپ کا رخ انور میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت تھا لیکن آج آپ پر سب کچھ وار دینے کو دل کرتا ہے، آج سے پہلے آپ کا شہر مدینہ بہت زیادہ مبغوض تھا مگر آج یہ شہر میری آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے، آج سے پہلے اسلام بہت زیادہ ناپسندیدہ تھا لیکن آج میں اسے گلے لگانے کے لیے تیار ہوں:
ملتے ہی آنکھ رنج نہ تھا ظلم غیر کا
کیا جانے اس نگاہ نے سمجھا دیا مجھے
یہی نہیں بلکہ جو آپ کے دروازے پر کوڑا ڈالا کرتے تھے ان کی بیمار پرسی کے لیے بہ نفس نفیس ان کے گھر پہنچ گئے، یہ آپ کے اخلاق کریمانہ کا جادو تھا کہ زید بن حارثہ طویل جدائی کے بعد بھی نبی کو چھوڑ کر اپنی والدین کےساتھ جانے کے لیے تیار نہیں ہوئے، بےشک آج سماج کو اسی معلم اخلاق سے درس لینے کی ضرورت ہے۔
لیکن یاد رہے حسن کلام، حسن اخلاق کی روح ہے، یہ اخلاقی محاسن کا حسین عنصر ہے، گفتگو شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے، بول چال سے ہی عظمتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔شاعر کہتا ہے:
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں
یہ وہ خو ہے جس سے انسان کی مقبولیت کو چار چاند لگ جاتا ہے اور یہی انسان کو پستی کے تحت الثریٰ میں دھکیل دیتی ہے۔ اسی لیے تو معلم اخلاق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ گئے ہیں انسان اپنی زبان کے سبب سب سے زیادہ جہنم میں جائیں گے۔
زبان میں وہ طاقت ہے کہ ہاری ہوئی جنگ جیتی جاسکتی ہے، جذبات میں تلاطم برپا کیا جاسکتا ہے، سینوں میں بجلیاں بھری جاسکتی ہیں۔ انداز کلام غیر معمولی رنگ و آہنگ کا خوگر ہوتا ہے۔
لب ولہجہ شیریں ہو، الفاظ گل و لالہ کی طرح خوشبو بکھیرنے والے ہوں، جملوں سے سماعتوں پر شبنم کی پھوار پڑتی ہو، انداز واسلوب سے نکہت چمن پھوٹی پڑتی ہو، طرز گفتار میں نرگس و نسترن کھل رہی ہو۔ آواز میں محبت کے دیپ جل رہے ہوں، یہی وہ حسن کلام ہے جس سے رنجور اور غموں سے چور طبعیتوں پر موسم بہار کی تازگی اتر آتی ہے۔دل مچل پڑتا ہے، روح سرشار ہوجاتی ہے، دنیاکی رنگا رنگی اور باغ حیات کی بو قلمونی ایسے لوگوں ہی سے قائم ہے۔ شاعر کہتا ہے:
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دلنشین رکھتا تھا
افسوس نیرنگئ طبع زبان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے، لوگ بولنا تو بچپن میں سیکھ لیتے ہیں لیکن کب بولنا ہے کیا بولنا ہے اور کتنا بولنا ہے، یہ بڑھاپے تک نہیں سیکھ پاتے۔ بد کلامی کے مظاہرے دیکھ کر پیشانی شکن آلود ہوجاتی ہے، اگر یقین نہ آئے توعلمی مجلسوں میں مہذب لوگوں کی ایک دوسرے پر لفظی بمباریوں کو ملاحظہ کرلیجیے اور فن گالی میں ان کی زبانی نوادرات سے شادکام ہوئیے، ادھر ٹی وی شوز میں نیتاووں اور کھدردھاریوں کی ایک دوسرے کو ننگ دھڑنگ صلواتیں اور مغلظات سے بھی محظوظ ہولیجیے۔ مذہبی اسٹیجوں پر مسلکی لڑاکوں کی دشنام طرازیوں کا بھی مزہ لیجیے۔ رنگ برنگ مثالوں سے یہ معمورہ عالم بھرا پڑا ہے۔ زبان اور گفتگو میں اچھے اچھوں کے یہاں شائستگی مفقود نظر آتی ہے، لیکن اسلام نے لب ولہجہ کو جو وقار دیا، جو تہذیب دی، جو بذلہ سنجی دی، جوشگفتگی دی، جو طمانیت دی، جو متانت دی، جو سلیقگی دی، جو دلبستگی دی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تربیت اسلامی کی پروردہ زبان تلخیوں میں بھی شیرینی گھول دیتی تھی، منبر رسول پر کھڑے فاروق اعظم کو ایک ادنی شخص للکار کر کہتا ہے عمر اگر تم باطل کی طرف مائل ہوئے تو اس تلوار سے تمھاری گردن ماردوں گا، اس تلخ اور اشتعال انگیز جملے پر فاروق اعظم نے صرف اتنا کہا اللہ ہر اس شخص پر رحم کرے جو مجھے میرے عیب کا ہدیہ عنایت کرے۔ بڑا صبر آزما ہوتا ہے انا کو قربان کردینا، کڑوے گھونٹ پی جانا لیکن یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے صحبت نبوی سے فیض حاصل کیا تھا۔ اور انھوں نے صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے دنیا کو اخلاقیات کا پاٹھ پڑھایا۔ آج دنیا کو یہ بھولا ہوا سبق پڑھنے کے لیے اسلام پیغمبر اسلام اور سلف صالحین کی طرف پلٹنا ہوگا۔

آپ کے تبصرے

3000