“مسلم خواتین مارچ” شریعت کی نظر میں

سرفراز فیضی

احتجاجی جلوس ، مظاہرے اور مارچ کے نام پر مسلم خواتین کو سڑکوں پر اتارنا کوئی شریفانہ عمل نہیں، اسلام حیا اور عفت کی تعلیم دیتا ہے ، اس حیا اور عفت کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلم خواتین اپنے گھروں میں ٹھہری رہیں اور بغیر کسی عذر کے گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کریں، پچھلے کچھ دنوں سے ہمارے ملک میں ” مسلم خواتین مارچ” کے عنوان سے مسلم خواتین کو تحفظ شریعت کا نام دے کر سڑکوں پر لانے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ عورت کے متعلق شریعت کے بنیای اصولوں کے منافی اورخواتین کی عفت اور حیا اور مسلم مرد کی غیرت کے تقاضوں کے عین خلاف ہے ۔ کسی شریف عورت کے لیے ایسے مظاہروں میں شرکت کرنا اور کسی باغیرت مسلمان مرد کے لیے اپنے گھر کی خواتین کو ان مظاہروں میں بھیجنا بالکل بھی مناسب نہیں.
سیاست کا میدان مردوں کا میدان ہے، عورتوں کا میدان عمل ان کا گھر ہے، اللہ رب العزت نے عورتوں کو سیاسی الجھنوں سے دور رکھا ہے ، اسی لیے دعوت اور جہاد کے سلسلے میں ان ذمہ داریوں سے عورت کے کندھے خالی رکھے ہیں جو مردوں پر عائد کی گئی ہیں ، حتی کہ جنازے کے پیچھے چلنے جیسے عظیم کار ثواب سے بھی روک دیا گیا ہے، دین کے تحفظ اور عورتوں کے حقوق کی لڑائی بھی مَردوں کو لڑنی ہے، عورت کو دین کے تحفظ میں اپنا کردار سڑکوں اور جلوسوں میں شریک ہوکر نہیں اپنے گھر میں اسلام نافذ کرکے ادا کرنا ہے، دین کے تحفط کا نام پر ان کو سڑکوں پر لے آنا دین نہیں بے دینی اور فتنہ ہے ۔
“عورت” اور “مظاہرہ” دو متضاد چیزیں ہیں ، لفظ “عورت” ہی میں چھپانے اور پوشیدہ رکھنے کے معانی پائے جاتے ہیں جبکہ “مظاہرہ” اظہار کرنے، کھُلنے اور دکھلانے سے عبارت ہے ، یہ جلوس اور مظاہرے کافر، دین آزاد اور لبرل عورتوں کے چونچلے ہیں، کسی باحیا اور پاکدامن مسلم عورت کو دین آزاد اور لبرل عورتوں کی مشابہت اختیار کرکے ایسے مظاہروں اور مارچ میں شرکت کرنا قطعی زیب نہیں دیتا ،عورت کا میدان عمل اس کا گھر ہے ، سڑکوں کی سیاست میں ان کو گھسیٹ کر لانا اسلام کے اصولوں کے صریح خلاف ہے ، عجیب بات ہے کہ ہمارے قائدین اسلام کی حدیں توڑ کر اسلام کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ معاملہ یہ بھی ہے کہ یہ مظاہرے خود اسلام کی روح کے منافی ہیں اور شریعت نے راستے کے جو حقوق طے کیے ہیں ان کے خلاف ہیں ، اسلام نے راستوں کے حقوق کا خیال اس حد تک رکھا ہے کہ نماز جیسی عظیم عبادت بھی راستوں پر ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ، مسافروں کو پریشانی سے بچانے کے لیے راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی ایمان کا حصّہ قرار دیا گیا ہے. ہمارے ملک میں آئے دن ہونے والے جلوس اور مظاہروں کی وجہ سے سڑک پر چلنے والی عام عوام کو بہت ساری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اسلام کے نام پر ہونے والے ان جلوسوں سے اسلام کے بارے منفی تاثر اور غلط پیغام کافر عوام تک جاتا ہے.
پھر آخر ایسی کون سی مصلحت ہے کہ اسلام کی عائد کردہ ان پابندیوں کو توڑ دینے کی رخصت دے دی جائے ، ان احتجاجی مظاہروں کا حاصل کیا ہے ؟ یہ مظاہرے حکومت اور آئین ساز اداروں پر کتنا اثر انداز ہوتے ہیں؟دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ان مظاہروں سے حکومت کے کانوں پر تو جو تک نہیں رینگتی، ملکی کیا مقامی سطح پر بھی اس قسم کے جلوسوں کو کسی طرح کے میڈیا کوریج نہیں ملتا ، صرف چند ایک اردو اخبارات آپس میں ایک دوسرے کو کامیاب جلوس کی خبریں سن سنا کر خوش ہولیتے ہیں ۔ ہاں! اتنا ضرور ہوتا ہے کہ مسلک کے نام پر سیاست کرنے والوں کی لیڈری کو ایسے مظاہروں سے چمک مل جاتی ہے.
یہ بھی عجیب بات ہے کہ خواتین کے ان مظاہروں کا انعقاد اور حمایت وہ علماء اور مسالک کررہے ہیں جنہوں نے فتنے کا نام دے کر اپنی مسجدوں اور عیدگاہوں تک کے دروازے مسلمان عورتوں کےلیے بند کر رکھے ہیں ، حکومت سے مسلم عورتوں کے حقوق کا مطالبہ وہ لوگ کررہے ہیں جو خود اپنے مسلک کی خواتین کو وہ حقوق دینے کے لیے تیار نہیں جو اسلام نے ان کو دیے ہیں ، یعنی آپ کے سیاسی مفادات اتنے عظیم ہیں کہ ان کے لیے اسلام کے احکام سڑکوں پر روندے جاسکتے ہیں لیکن آپ کا مسلک اتنا عظیم ہے کہ نبی ﷺ کے حکم کے آگے بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوسکتا، یہ قائدین چاہتے ہیں کہ اسلام ان کے سیاسی مفادات کے سامنے جھک جائے، لیکن آپ اپنے مسلک کو اسلام کے سامنے جھکانے کے لیے بالکل تیار نہیں، قوم کی عورتوں کو حق دلانے کے لیے سڑک پر اتارنے سے پہلے اپنے گھر میں موجود عورتوں کو ان کے وہ حقوق دیجیے جو اسلام نے ان کو دیے ہیں، اسلام مخالف طاقتوں سے اسلام کو بچانے سے پہلے ان مسلکی دست درازیوں سے اسلام کی حفاظت کریں جو صدیوں سے اسلام کی شکل بگاڑ رہے ہیں، تین طلاق کی وجہ سے اجڑ رہے گھروں کی فکر کیجیے، آپ ہی مسلک میں حلالہ کے نام پر خواتین کے ساتھ ہورہے استحصال کو بند کرائیے، اسلام کو غیروں سے زیادہ اپنوں نے نقصان پہنچایا ہے، بدعتوں کو دین کا نام دے کر خالص دین کی شکل بگاڑی گئی ہے، دین کے دفاع کا پہلا تقاضہ ہے دین کو ان بدعتوں سے پاک کریں، صرف سڑکوں پر اترنے سے دین کا دفاع نہیں ہونے والا.

آپ کے تبصرے

3000