“میرا ایمان اتنا کمزور نہیں کہ کسی کو ہیپی کرسمس یا ہیپی دیوالی کہنے سے اس پر کوئی اثر پڑے”۔
اپنے ایمان کے متعلق بعض اوور کنفیڈنس حضرات سے بسا اوقات ایسے جملے سننے کو مل جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ بعض معصیات کا علی الاعلان ارتکاب کرتے ہوئے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ایمان وکفر کا تعلق دل سے ہے، اور یہ ایک ذاتی چیز ہے، اس لیے ظاہری اعمال یا اقوال سے اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ایسے حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بغور پڑھنی چاہیے:
عن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ) رواه البخاري (6487)
(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ رضائے الہی کا کوئی ایسا کلمہ کہتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت بھی نہیں دیتا، مگر اسی کلمہ کے عوض اللہ تعالی اس کے درجے کو بلند کر دیتا ہے۔ اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے، اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ “لایلقی لہا بالا” کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“أي لا يتأملها بخاطره ولا يتفكر في عاقبتها ولا يظن أنها تؤثر شيئا وهو من نحو قوله تعالى وتحسبونه هينا وهو عند الله عظيم”۔ (فتح الباري لابن حجر 11/ 311)
(یعنی اس کی خطورت وعاقبت کے بارے میں غور وفکر نہیں کرتا، اس پر اس کا کیا اثر پڑنے والا ہے یہ نہیں سوچتا۔ یہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے مشابہ ہے کہ تم اسے بہت ہلکا سمجھتے ہو لیکن اللہ تعالی کے نزدیک وہ بہت بڑی چیز ہے)
کرسمس کی بدھائی سے کسی کے ایمان پر کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں یہ کسی کے مزاج پر موقوف نہیں ہے۔ کون سے اقوال یا اعمال ایمان کو ختم کرنے والے یا کم کرنے والے ہیں اس کا فیصلہ کتاب وسنت اور فہم سلف سے ہوگا نہ کہ کسی کے ذوق اور مزاج سے۔
کرسمس کی بدھائی کی حرمت پر نصوص شریعت اور سلف صالحین کا موقف صریح اور واضح ہے۔ “لا یضر مع الایمان ذنب” یہ ایک باطل فرقے کا نظریہ ہے۔ ہمارا نہیں۔
یہ کہنا کہ “میرا ایمان اتنا کمزور نہیں کہ کسی کو ہیپی کرسمس یا ہیپی دیوالی کہنے سے اس پر کوئی اثر پڑے” ایک بہت بڑی جرأت ہے۔ اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ “میری تو ہو جاتی ہے”۔ کہتے ہیں: آپ اپنے ایمان وعبادت کا سوچیں، میری عبادت اور میرے ایمان پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تاریخ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو انبیاء کرام کو اسی طرح چیلنج کرتے تھے اور کہتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنْ كانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنا حِجارَةً مِنَ السَّماءِ أَوِ ائْتِنا بِعَذابٍ أَلِيمٍ [الْأَنْفَالِ: 32]
ان کا انجام کیا ہوا یہ ہم پر مخفی نہیں ہے۔
ضروری نہیں کہ اللہ تعالی ہمیشہ دنیا میں ہی کسی عذاب سے ہمیں دوچار کردیں، بلکہ اسی طرح بعض ڈھٹائی کرنے والوں کو اللہ تعالی نے مہلت بھی دی ہے۔ اور بعض کو اللہ تعالی نے نشان عبرت بھی بنایا ہے۔
سیرت رسول سے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه أن رجلا أكل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بشماله، فقال: «كل بيمينك»، قال: لا أستطيع، قال: «لا استطعت»، ما منعه إلا الكبر، قال: فما رفعها إلى فيه۔
(سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا، تو آپ نے کہا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے تکبر سے کہا کہ میں نہیں کھا سکتا۔ آپ نے کہہ دیا کہ تم نہ کھا سکو۔ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ اپنے ہاتھ کو منہ تک نہ اٹھا سکا) صحيح مسلم (3/ 1599)
ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«أَمَا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ» ) مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ: بخاری (691) مسلم (427)
ایک محدث کے متعلق مروی ہے کہ ان کا چہرہ گدھے کی طرح ہو گیا تھا، انھوں نے اپنے شاگرد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
“احْذَرْ يَا بُنَيَّ أَنْ تَسْبِقَ الْإِمَامَ، فَإِنِّي لَمَّا مَرَّ بِي فِي الْحَدِيثِ اسْتَبْعَدْتُ وُقُوعَهُ فَسَبَقْتُ الْإِمَامَ فَصَارَ وَجْهِي كَمَا تَرَى”۔
(میرے بیٹے امام پر سبقت کرنے سے ڈرو، جب یہ حدیث مجھ پر گزری تو میں نے سمجھا کہ اس کا واقع ہونا مشکل ہے۔ پس امام پر میں نے سبقت کی۔ اب میرا چہرہ تم دیکھ ہی رہے ہو) (دیکھیں: شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره (ص: 68)، ومرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 879)، وتحفۃ الاحوذی (3/152)۔
کرسمس کی بدھائی دینے والے اللہ تعالی کے اس فرمان کو نہ بھولیں:
وَقالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمنُ وَلَداً (88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئاً إِدًّا (89) تَكادُ السَّماواتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا (90) أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمنِ وَلَداً (91) وَما يَنْبَغِي لِلرَّحْمنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَداً (92)
کرسمس منانے والے اللہ تعالی پر عظیم بہتان باندھتے ہیں کہ اس کا بیٹا ہے، اور مبارکبادی دینے والے اس کفریہ کلمہ وکفریہ عقیدہ پر انھیں مبارکبادی دیتے ہیں۔
نیت کے پاک صاف ہونے سے معصیت کا حکم نہیں بدل جاتا۔ ورنہ زنا کرنے والا بھی “تکثیر نسل” کی اچھی نیت کا حوالہ دے سکتا ہے۔
بہت سارے لوگ داڑھی کاٹتے ہیں اور تنبیہ کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے، اور ہمارے دل صاف ہیں۔ شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ کے سامنے ایک مرتبہ یہ بات رکھی گئی تو آپ نے ایک حدیث پڑھی اور ہاتھوں کے اشارے سے ہی اس کی پوری شرح کر دی، حدیث یہ تھی:
“إن في الجسد مضغة”،
(آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا)
“إذا صلحت”
(پھر سینے کی طرف اشارہ کیا)
“صلح الجسد كله”
(دونوں ہاتھوں سے داڑھیوں کی لمبائی کو دکھایا)
“وإذا فسدت”
(پھر سینے کی طرف اشارہ کیا)
“فسد الجسد كله”
(دونوں ہاتھوں سے داڑھیوں کی صفائی کی منظر کشی کی، پھر کہا)
“ألا وهي القلب۔ “
سبحان الله
سبحان الله
بارك الله فيكم وجزاكم خيرا ونفع بكم ورفع قدركم
عمده
جزاکم خیرا و احسن بالکم ولا تنسونی فی دعاٸکم ,
نام نہاد مسلم ادباء اس میں سب سے زیادہ پیش پیش نظر آتے ہیں، وہ روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کی حدود کی پامالی کی ناپاک جرأت کرتے ہیں، اور سینہ پھلا کر کہتے ہیں کہ یہ تو کشادہ ظرفی ہے، وہ دین کو مہنج سلف کے مطابق نہیں بلکہ اپنے افکار و نظریات کے مطابق ڈھالنے کی ناروا کوشش کرتے ہیں، اللہ ایسوں کو صحیح فہم عطا فرمائے
خیر موضوع نہایت ہی حساس اور اہم ہے بار ک اللہ فیکم