دعوت و تبلیغ ذمہ داری ہے، اصلاحی اور دعوتی کوششوں کا سلسلہ چلتا ہی رہنا چاہیے تاکہ معاشرے میں برائیاں جڑ نہ پکڑ سکیں اور بھلائیوں کا سوتہ خشک نہ ہو۔ امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلط پر نکیر کرے اور معروف کی تبلیغ کرے لیکن اس پورے معاملے میں استطاعت بھی ضروری ہے۔ اگر آپ کسی پیشے سے منسلک ہیں، حلال روزی کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور آپ کو بہت زیادہ وقت نہیں مل پاتا تو آپ کو اتنے ہی وقت میں دعوتی کوشش کرنی چاہیے جتنا وقت آپ کو مل پاتا ہے۔ خاص طور سے یہ بات اس وقت زيادہ اہم ہوجاتی ہے جب آپ کسی سرکاری نوکری سے وابستہ ہوتے ہیں، آپ کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، انہی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرکے آپ اپنی روزی حلال کرتے ہیں۔ یہ قطعا مناسب نہیں ہے کہ آپ دعوت و تبلیغ کی خاطر ناروا طریقے اپنائیں اور اپنے پیشے میں خیانت سے کام لیں۔
پٹنہ کی ایک دعوتی محفل میں تقریری سلسلہ ختم ہونے کے بعد ایک بزرگ نے یہی سوال اٹھایا کہ ایسے علما جو سرکاری نوکر ہیں، وہ اپنی نوکری کے ساتھ خیانت کرکے دعوتی دورے کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟ ہم نے ان سے کہا: یہ کوئی ایسی بات نہیں جس میں فتوی طلب کرنے کی ضرورت ہو، کسی کے غلط کرنے سے غلط صحیح نہیں ہو جاتا۔ آپ کسی ایسے عالم کو اگر جانتے ہیں تو تنہائی میں انھیں ضرور نصیحت کیجیے۔
ایک عالم اگر اس قسم کا رویہ اپناتا ہے تو یہ عمل کئی ایک اعتبار سے خطرناک ہے:
1 ۔ ہمارے یہاں سرکاری محکمے عام طور پر بد عنوانی کے شکار ہیں، علما طبقہ اس بدعنوانی کو ختم کرنے اور ایمانداری کی اچھی مثالیں پیش کرنے کی بجائے اگر بدعنوانی کا حصہ ہوجائے تو یہ بہت افسوسناک بات ہے۔
2 ۔ لوگ اگر آپ کو اپنے لیے مثال سمجھتے ہیں تو وہ غلط کرتے ہوئے مزید ڈھٹائی پر اتارو ہو جائیں گے اور لمحہ بھر توقف کیے بغیر آپ کی مثال پیش کردیں گے، یوں آپ اپنے ایک غلط عمل سے کئی لوگوں کی راہ ہموار کرنے والے ہو جائیں گے۔
3 ۔ آپ بدعنوانی کے شکار ہوکر دعوتی کام کے لیے نکلتے ہیں تو دو تین باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
ایک تو یہ کہ آپ کو دعوت کا مطلب نہيں معلوم ہے۔ دعوت کا اصل اور اولین مخاطب خود داعی ہوتا ہے، اس لیے پہلے آپ کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور اس بدعنوانی کو اصلاح کا پہلا زینہ بنانا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ آپ اگر کسی اچھے کام کے لیے کسی بری بنیاد کا سہارا لے رہے ہیں تو وہ اچھا کام بھی آپ کے لیے مفید نہیں ہوگا-
اور تیسری بات یہ کہ آپ سے شریعت اتنا ہی مطالبہ کرتی ہے جتنا آپ کے بس میں ہے، بس سے باہر کرنا نہ تو شرعی تقاضہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔
یہ باتیں تو تب جب آپ واقعی دعوتی اسپرٹ کے ساتھ ہی یہ سب اقدام کررہے ہیں لیکن اگر روح یہ نہیں ہے بلکہ پیسہ اور شہرت ہے تو آپ کو خود اپنا جائزہ لینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ آپ دین و دنیا میں عبرت کا سامان بنا دیے جائیں۔ یہ بات بتانے کی نہیں کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور آخر کار ہم سب کے سب مر جائیں گے۔
چند مہینوں قبل حرم مکی میں ایک عالم دین سے ملاقات ہوئی، انھوں نے بہار مدرسہ بورڈ کی نوکری چھوڑ دی تھی اور دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کو اپنا میدان عمل بنالیا تھا۔ ماشاءاللہ بہت خوش تھے، ان کے حساب سے وہ مدرسہ بورڈ سے منسلک رہ کر نہ ٹھیک سے دعوتی کام کرسکتے تھے اور نہ مدرسے کی ذمہ داری ادا ہوسکتی تھی سو عاقبت کی فکر میں نوکری سے استعفی دے دیا۔ میرے حساب سے یہ ایک ایماندارانہ اور تقوی سے قریب تر راستہ تھا۔ اللہ انھیں شاد وآباد رکھے۔
وہیں کچھ ایسے علما بھی ہیں جو اپنے مقر عمل سے غائب رہتے ہیں، وہ دعوتی دورے کرتے ہیں، اصلاح و تبلیغ کے کام میں لگے رہتے ہیں لیکن مقر عمل میں ان کی حاضری بنتی رہتی ہے، انھیں غیر حاضر نہیں کیا جاتا، کیوں کہ وہ پرنسپل، ہیڈ ماسٹر یا باس کو اچھی خاصی رشوت دےدیتے ہیں، اپنی آدھی تنخواہ دے دیتے ہیں یا انھیں ایک سے ایک قیمتی تحفوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ ایک خطیب سے اس مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، پہلے تو انھوں نے الٹی سیدھی تاویل کی کہ ہم رشوت نہیں دیتے بلکہ یہ کرتے ہیں وہ کرتے ہیں، پرنسل کے بجائے اس کو دیتے ہیں لیکن پھر انھوں نے مانا کہ یہ غلط ہے اور تنہائی میں بہت افسوس بھی ہوتا ہے۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ ابھی جب کہ ضمیر زندہ ہے، کوئی فیصلہ کرلیجیے ورنہ کل جب ضمیر مرجائے گا تو احساس بھی ختم ہو جائے گا اور پھر آپ کو کوئی نہیں بچا پائے گا۔
آپ اگر کسی پیشے سے منسلک ہیں تو اسلام کا مطالبہ بھی آپ سے یہی ہے کہ پہلے اس پیشے سے متعلق ذمہ داری ادا کیجیے، ا س کے بعد اگر وقت ملتا ہے تو دعوتی کوشش کیجیے، اگر آپ اپنا دائرہ جان جائیں تو اس قسم کی غلطی نہیں کریں گے۔ یاد رکھیے کہ حرام مال سے پرورش پایا ہوا جسم جنت میں نہیں جائے گا، آپ مختلف قسم کی تاویلوں سے خود کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن اللہ پاک کے سامنے کوئی تاویل کام نہیں کرے گی۔ وہاں تو رشوت کا بھی کوئی راستہ نہیں ہوگا !!
اللہ ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق ارزانی کرے۔
آپ کے تبصرے