کیجریوال: سنگھی – سیکولر – سنگھی

ثناء اللہ صادق تیمی سیاسیات

اروند کیجریوال انا ہزارے کی تحریک کے ساتھ منظرنامے پر آیا اور دیکھتے دیکھتے اس پوری تحریک کو اس نے خود اپنے گرد جمع کرلیا۔ اسی زمانے میں ایک مرتبہ وہ جے این یو بھی آیا تھا، کافی بھیڑ اکٹھی ہوئی تھی، میں بھی شامل تھا۔ اس کے ایک کارکن نے جب ہم سے کرپشن مخالف اس تحریک میں حصہ لینے کی بات کہی تو ہم نے اس سے بتلایا کہ کرپشن آپ کا مسئلہ ہوسکتا ہے ہمارا مسئلہ تو تحفظ کا ہے۔
شروعاتی دور میں زیادہ تر سیاسی مبصرین نے انا ہزارے کی اس تحریک کو کانگریس کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک سنگھی تحریک ہی سمجھا تھا۔ انا ہزارے کو پیچھے چھوڑ کر سیاسی طور پر آگے بڑھنے کا کام کیجریوال نے کیا اور کیجریوال کو جن لوگوں کا ساتھ ملا وہ معتبر لوگ تھے۔ کرپشن مخالف تحریک میں بایاں محاذ بھی ساتھ تھا، بی جے پی تو خیر اسے ہوا دے ہی رہی تھی بقیہ دانشوران کا ایک طبقہ بھی اس سے جڑا ہوا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بعد میں کیجریوال کے ساتھ ہوگئے۔ یوگیندر یادو، آسوتوش، پرشانت بھوشن اور کئی معتبر سماجی کارکنان اس کے ساتھ تھے اور تب کئی لوگوں کو ایسا لگا تھا کہ واقعی کچھ نیا ہونے والا ہے۔
کیجریوال کو قبول کرنے میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے پس وپیش سے کام لیا تھا۔ اس الیکشن میں مسلم اکثریتی علاقوں سے کانگریس کے امیدوار ہی جیت کر آئے تھے لیکن اس کے بعد جب دوبارہ انتخاب ہوا تو کیجریوال کو مسلمانوں کی ہمدردی بھی حاصل ہوئی تھی۔ تب جن لوگوں کو یاد ہوگا وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ کیجریوال کے ساتھ وہ لوگ تھے جن کے سیکولر ہونے پر شبہ کی گنجائش کم کم ہی رہی ہے۔ اس وقت نعرہ بھی کم اہم نہیں تھا، کیجریوال لوگوں سے ایشور، بھگوان، ست گرو اور اللہ کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا اور سب کو بہتر حکومت کا یقین دلارہا تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسی وقت قومی سطح پر بی جے پی ابھر کر سامنے آئی تھی اور اس نے بھاری اکثریت سے مرکز میں اپنی حکومت بنائی تھی اور مسلمانوں کے بیچ ایک انجانی قسم کی بے چینی تھی۔ ایسے میں انھوں نے کھل کر کیجریوال کو اپنایا جو کہیں سے بھی کوئی ایسا کام نہیں کررہا تھا جو مسلمانوں کے خلاف ہو۔ کیجریوال دوسری مرتبہ رکارڈ ووٹ سے جیت کر سامنے آيا، اس نے کچھ اچھے کام کیے، بجلی اور پانی فری کی، اسکول کی تعلیم کو بہتر کیا، محلہ کلینک جیسا قابل تعریف کام کیا اور ساتھ ہی بی جے پی سے لگاتار لڑتا بھی رہا، دھرنے بھی دیتا رہا، بہت سے معاملات میں کھل کر بولتا بھی رہا بلکہ کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ بقیہ سارے احزاب اختلاف ختم ہیں اور لے دے کر کیجریوال ہی رہ گيا ہے۔سامنے سے مودی پر حملہ کرنا اور جم کر اپنی باتیں رکھنا کم بڑی بات نہیں تھی۔ مسلمانوں کو کیجریوال سے اور کیا چاہیے تھا، وہ ان کے ساتھ کوئی تفریق نہیں برت رہا تھا اور بی جے پی کی غلط پالیسیوں کی تنقید بھی کررہا تھا۔
دیکھتے دیکھتے پانچ سال کا عرصہ گزر گیا۔ اب جب انتخاب کا مرحلہ سامنے آيا تو ایک طرف سی اے اے، این آر سی سی کا معاملہ تھا اور دوسری طرف بی جے پی پہلے سے بھی بھاری اکثریت سے جیت کر دہلی پر دوبارہ قابض تھی۔ کیجریوال نے شروع میں اپنا روایتی انداز ہی اپنا کر رکھا۔ مسلمانوں کے بارے میں کھل کر مثبت رائے کا اظہار اور بی جے پی کی پالیسیوں پر کڑی تنقید پھر سمجھا گيا کہ اس نے حالات کو پرکھا اور مسلمانوں کے بارے میں جان بوجھ کر کچھ بھی کہنے سے گریزاں رہنے لگا۔ شاہین باغ کو اس نے چھوا ہی نہیں اور محفوظ گیم کھیلنے میں لگ گیا۔ بجلی، پانی، تعلیم اور روزگار یہی ساری چيزیں اس کی زبان پر تھی۔ بی جے پی اس بیچ کھل کر فرقہ واریت پر اتارو تھی، اس کے بعض وزرائے اعلا، ایم پی اور ایم ایل اے کے امیدوار آگ اگل رہے تھے اور مسلمانوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نظر نہيں آرہا تھا کہ وہ کیجریوال کو ہی ووٹ کریں۔ کمال کی بات یہ بھی ہے کہ اس پورے معاملے میں کانگریس کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ پہلے سے ہی شکست قبول کرچکی ہو اور مقابلہ صرف اور صرف بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے بیچ ہو اور یہ بات تو طے ہے کہ جب کیفیت ایسی ہوگی تو مسلمان بی جے پی کے خلاف ہی ووٹ کریں گے۔
الیکشن کے بیچ جو آگ لگائی گئی تھی اس نے جلانا شروع کیا۔ منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو مارا جلایا گيا اور کیجریوال نے اب اپنی اصل رنگت دکھانی شروع کی۔ کچھ مسلم اور کچھ غیر اہم اس کے لیڈران ضرور پولیس اور مرکز کو نشانہ بناتے رہے لیکن اس کو جیسے ایک دم سے لقوہ مار گیا ہو، اس نے نہ پولیس کو مورد الزام ٹھہرایا، نہ مرکز کو اور نہ وزیر داخلہ کو۔ کمال تو تب ہوا جب اس نے متاثرین سے ملنے یا ان جگہوں پر جانے کی بجائے گاندھی سمادھی پر جاکر شانتی کے لیے دعا کرنے کا ڈرامہ کرنا شروع کیا۔ اتنا ہی نہیں اس نے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے کسی لیڈر کے خلاف کسی قسم کی کسی کاروائی کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔اور ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے مرکز کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو جلانے مارنے کا منصوبہ بناکر رکھا ہوا ہو تبھی تو اس نے طاہر حسین کو جلدی سے خود سے الگ کیا اور بقیہ کسی کے خلاف منہ کھولنے میں اس کی نانی یاد آتی رہی۔
پھر دنیا کورونا کی زد میں آئی، دلی پر بھی اس کے سیاہ بادل منڈلائے، گودی میڈیا نے تبلیغی مرکز کو آسان نشانہ بناکر اس وائرس کے پھیلانے کا الزام بھی مسلمانوں کے سر ڈال دیا۔ امید تھی کہ یہاں یہ کچھ انسانیت دکھائے گا لیکن یہاں اس نے بی جے پی سے بھی آگے بڑھ کر گیم کھیلنا شروع کیا اور سارے الزامات تبلیغیوں کے سر ڈال کر مست ہوگیا۔ متاثرین کی تعداد میں تبلیغیوں کا الگ سے ذکر اور ان کے خلاف کاروائی یہ سب اس نے اسی سنگھی جذبے سے کیا جس جذبے سے پورا سنگھ کام کرتا ہے۔ اس بیچ کبھی کہیں اس نے مرکز پر کوئی تنقید نہيں کی کہ فیصلہ لینے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ اسی دلی میں مسلمانوں کو زدوکوب کیا جانے لگا اور یہ منہ میں رس گلا ڈالے بیٹھا رہا۔
پھر یہ منظر سامنے تھا کہ پوری دنیا نے بھارت کو تھو تھو کرنا شروع کیا۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے ڈانٹ پلائی۔ تب بی جے پی کے قومی صدر نے اپنے کارکنان کو متنبہ کیا کہ وائرس کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے البتہ نیوز چینلز کو آزادی دی گئی اور ٹرولز کا کام جعلی خبروں کے ذریعے سدھیر چودھری، رجت شرما، دیپک چورسیا، راہل کنول، روبیکا لیاقت جیسے ضمیر فروش صحافی کرنے لگے۔ جب پوری دنیا میں تھو تھو ہوگئی تو کیجریوال سامنے آیا اور پھر وہی پرانی باتیں کہ اسے ہندو مسلم کا رنگ نہ دیا جائے۔ مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ لوگ اسے دھرم کی بنیاد پر بانٹتے ہیں، اس نے پھر ایشور، بھگوان، ست گرو اور اللہ کو ایک ساتھ یاد کیا لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس کی گندی سیاست کا ہی حصہ ہے اور کچھ نہیں۔
مبصرین مانتے ہیں کہ چوں کہ دہلی کے باہر مودی پر حملہ کرکے اسے کچھ نہیں ملا اس لیے اب وہ مودی پر حملہ کرنے کی بجائے خود کو زیادہ ہندو اور ہندو پرست ثابت کرے گا اور اس طرح حکومت کے لڈو کھاتا رہے گا۔ایسا کرکے وہ اپنے زيادہ بڑے مقاصد پورا کرسکتا ہے۔ اس کی خاطر اگر اسے مودی بننا پڑا تو وہ اس سے آگے بھی جانے کو تیار رہے گا۔
کیجریوال کے معاملے میں مسلمانوں نے دھوکہ کھایا ہے لیکن مسلمانوں کو طعنہ دینا آسان ضرور ہے لیکن سچ اس کے سوا بھی ہے کہ خود بڑے بڑے سمجھدار لوگوں کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایسا گھٹیا انسان نکلے گا۔ یوگیندر یادو اور آسوتوش اس سے الگ ہوکر بھی بی جے پی کے مقابلے میں اسے ووٹ دینے کی وکالت کررہے تھے بعد میں انھیں بھی احساس ہوا کہ اس نے تو سارے تصورات ہی ڈھا دیے۔
کیجریوال کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور یہی در اصل کسی کے زوال کا بھی پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ سیاست کو بدلنے کے نام پر سیاست میں آنے والا آدمی بدترین قسم کی سنگھی سیاست کررہا ہے۔ ان شاءاللہ اس کے زوال کو وقت نہيں لگے گا۔ ایسے بھی اپنی ساری سنگھی درندگی میں وہ بے جے پی کو آسانی سے شکست نہیں دے پائے گا اور کوئی نہ کوئی متبادل ضرور ابھرے گا۔ وقت کے حساب سے اس نے اپنے رنگ بدلے ہیں اور وقت خود بدلنے میں کسی کا پابند نہیں ہوتا۔ و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Md Shamim Akhtar

اسلام علیکم، ماشااللہ سیخ آپ کے وقت مناسبت سے یہ مضمون بیحد اچّھا لکھا